بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Usmani - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین اور بنایا اندھیرا اور اجالا پھر بھی یہ کافر اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کئے دیتے ہیں7
7 " مجوس " دنیا کے لئے دو خالق مانتے ہیں " یزدان " جو خالق خیر ہے اور " اہرمن " جو خالق شر ہے۔ اور دونوں کو نور و ظلمت سے ملقب کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مشرک تینتیس کروڑ دیوتاؤں کے قائل ہیں۔ آریہ سماج باوجود ادعائے توحید " مادہ " اور " روح " کو خدا کی طرح غیر مخلوق اور انادی کہتے اور خدا کو اپنی صفت تکوین و تخلیق وغیرہ میں ان دونوں کا محتاج بتلاتے ہیں۔ عیسائیوں کو باپ بیٹے کا توازن و تناسب قائم رکھنے کے لئے آخر تین ایک اور ایک تین کا مشہور عقیدہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ یہودیوں نے خدا تعالیٰ کے لئے وہ صفات تجویز کیں کہ ایک معمولی انسان بھی نہ صرف اس کا ہمسر بلکہ اس سے برتر ہوسکتا ہے۔ عرب کے مشرکین نے تو خدائی کی تقسیم میں یہاں تک سخاوت دکھلائی کہ شاید ان کے نزدیک پہاڑ کا ہر پتھر نوع انسانی کا معبود بننے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ غرض آگ ' پانی ' سورج ' ستارے ' درخت ' پتھر ' حیوان کوئی چیز لوگوں نے نہ چھوڑی جسے خدائی کا کچھ حصہ نہ دیا اور عبادت و استعانت وغیرہ کے وقت اسے خدا کی برابر نہ بٹھایا ہو۔ حالانکہ وہ ذات پاک جو تمام صفات و کمال کی جامع اور ہر قسم کی خوبیوں کا منبع ہونے کی وجہ سے سب تعریفوں اور ہر طرح کی حمد وثناء کی بلا شرکت غیر مستحق ہے۔ جس نے آسمان و زمین یعنی کل علویات و سفلیات کو پیدا کیا اور رات دن اندھیرا اجالا علم و جہل ہدایت و ضلالت موت وحیات غرض متقابل کیفیات اور متضاد احوال ظاہر فرمائے۔ اسے اپنے افعال میں نہ کسی حصہ دار یا مددگار کی ضرورت ہوسکتی ہے نہ بیوی اور اولاد کی نہ اس کی معبودیت اور الوہیت میں کوئی شریک ہوسکتا ہے اور نہ ربوبیت میں نہ اس کے ارادہ پر کوئی غالب آسکتا ہے اور نہ اس پر کسی کا دباؤ اور زور چل سکتا ہے پھر تعجب ہے ان حقائق کو سمجھنے کے بعد بھی کس طرح لوگ کسی چیز کو خدائی کا مرتبہ دے دیتے ہیں۔
Top