بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
آیت نمبر : 1۔ اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الحمد اللہ “ اس سورت کا آغاز اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف سے کیا اور اپنی الوہیت کے اثبات سے کیا یعنی سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس کے علاوہ سورتوں کا آغاز بھی (آیت) ” الحمد للہ “۔ کے ساتھ ہے، ایک پر اکتفا باقی تمام سے مستغنی کردیتا ہے، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان میں سے ہر ایک کا اپنی جگہ ایک معنی ہے دوسرا مقام اس کو ادا نہیں کرتا، کیونکہ مختلف نعمتوں کے ساتھ اس کو گرہ لگائی ہے نیز اس میں ان لوگوں کے خلاف حجت ہے جو اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہراتے ہیں۔ (آیت) ” الحمد “۔ کا معنی سورة فاتحہ میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذی خلق السموت والا رض اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت علم اور ارادہ کی خبر دی ہے، فرمایا : جس نے پیدا کیا، کبھی خلق بمعنی اختراع ہوتا ہے اور کبھی بمعنی تقدیر ہوتا ہے، یہ مفہوم پہلے گزر چکا ہے یہاں یہ دونوں معنی مراد ہیں یہ آسمانوں اور زمین کے حدوث پر دلیل ہے، اس نے آسمان کو بغیر ستونوں کے بلند کیا اور بغیر کجی کے برابر پیدا فرمایا ان میں چاند اور سورج کو دو نشانیاں بنایا اور انہیں ستاروں کے ساتھ مزین کیا اور ان بادلوں کو ودیعت کیا، زمین کو پھیلایا اور اس میں رزق اور نبات کو ودیعت رکھا اور ان میں ہر جانور کو بطور آیات پھیلایا اس میں پہاڑوں کو کیل کے طور پر اور راستے بنائے اور ان میں نہریں اور دریا جاری فرمائے اور پتھروں سے چشمے جاری فرمائے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلیل ہیں اور اس کی عظیم قدرت کی نشانیاں ہیں اور وہ اللہ واحد اور قہار ہے، آسمانوں اور زمین کی تخلیق کو بیان کر کے یہ ظاہر فرمایا کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) مسلم نے فرمایا : مجھے شریح بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں حجاج بن محمد نے بتایا انہوں نے کہا ابن جریج نے کہا مجھے اسماعیل بن امیہ نے بتایا انہوں نے ایوب بن خالد سے روایت کیا انہوں نے عبداللہ بن رافع مولی ام سلمۃ سے روایت کیا انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھ سے پکڑا اور فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور اس میں پہاڑ اتوار کے روز پیدا کیے اور درختوں کو سوموار کے دن پیدا کیا اور مکروہ کو منگل کے روز پیدا کیا نور کو بدھ کے روز پیدا کیا اور جمعرات کو زمین میں جانور پھیلائے اور جمعہ کے روز ساری مخلوق سے آخر میں جمعہ کی آخری گھڑی میں عصر کے بعد رات تک کے درمیان حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا “ (1) (صحیح مسلم، صفۃ المنافقین واحکامھم جلد 2، صفحہ 371) میں کہتا ہوں : علماء نے اس حدیث کو اس سورت کے آغاز کے لیے تفسیر کے طور پر ذکر کیا ہے بیہقی نے کہا : محدثین نے کہا ہے کہ یہ غیر محفوظ ہے، کیونکہ اہل تفسیر اور اہل تاریخ کے نظریہ کے مخالف ہے، بعض علماء نے کہا : اسماعیل بن امیہ نے ابراہیم بن یحییٰ سے انہوں نے ایوب بن خالد سے روایت کی ہے اور ابراہیم سے حجت نہیں پکڑی جاتی، محمد بن یحی نے ذکر کیا ہے فرمایا : میں نے علی بن مدینی سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث (اللہ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا کیا الخ) کے متعلق پوچھا تو علی نے کہا : یہ حدیث مدنی ہے اس کو ہشام بن یوسف نے ابن جریج نے انہوں نے اسماعیل بن امیہ سے انہوں نے ایوب بن خالد سے انہوں نے ابو رافع مولی سلمہ سے انہوں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔۔۔ علی نے فرمایا : ابراہیم بن ابی یحی نے میری انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور انہوں نے مجھے کہا : ایوب بن خالد نے میری انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور انہوں نے مجھے کہا : عبداللہ بن رافع نے میری انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور انہوں نے مجھے کہا حضرت ابوہریرہ ؓ نے میری انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور انہوں نے مجھے کہا : ابوالقاسم ﷺ نے میرے ہاتھ کی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے روز پیدا فرمایا “۔ پھر اسی طرح حدیث ذکر کی۔ علی بن مدینی نے کہا : میرا خیال ہے اساعیل بن امیہ نے یہ امر ابراہیم بن ابی یحی سے حاصل کیا ہے، بیہقی (رح) نے کہا : اس میں موسیٰ بن عبیدہ ربذی نے ابوب بن خالد سے روایت کرنے میں اس کی متابعت کی ہے مگر موسیٰ بن عبیدۃ ضعیف ہے بکر بن شرود سے مروی ہے انہوں نے ابراہیم بن ابی یحییٰ سے انہوں نے صفوان بن سلیم سے انہوں نے ایوب بن خالد سے اس کی سند ضعیف ہے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” جمعہ کے دن میں ایک گھڑی کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے میں اس کی موافقت نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اسے وہ سوال عطا فرما دیتا ہے “۔ فرمایا حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا : اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق کا آغاز کیا، اتوار اور سوموار کے روز زمین کو پیدا کیا، منگل کے دن اور بدھ کے دن آسمانوں کو پیدا کیا اور خوراک اور جو کچھ زمین میں ہے اسے جمعرات اور جمعہ کے دن کی عصر تک کے وقت میں پیدا کیا اور عصر کی نماز اور سورج کے غروب ہونے کے وقت کے درمیان حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اس حدیث کو بیہقی (رح) نے روایت کیا ہے۔ (1) (مسند امام احمد حدیث نمبر 17151) میں کہتا ہوں : اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن نہیں اتوار کے روز مخلوق کو پیدا کیا، اسی طرح سورة بقرہ میں حضرت ابن مسعود ؓ اور دوسرے نبی مکرم ﷺ کے صحابہ سے مروی ہے، یہ اختلاف تفصیلا گزر چکا ہے کہ زمین کو پہلے پیدا فرمایا یا آسمان کو پہلے پیدا فرمایا الحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وجعل الظلمت والنور “ جواہر کی تخلیق کے ذکر کے بعد اعراض کی تخلیق کا ذکر کیا، کیونکہ جوہر عرض سے مستغنی نہیں ہوتا اور جو حوادث سے مستغنی نہیں ہوتا وہ حادث ہوتا ہے، جوہر متکلمین کی اصلاح میں اس جز کو کہتے ہیں جس کا آگے جز نہیں بنتا جو عرض کا جامع ہوتا ہے، ہم نے یہ بحث اپنی کتاب ” الاسنی فی شرح الاسماء الحسنی “ میں الواحد اسم کے تحت ذکر کی ہے، اور عرض کو عرض اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ جوہر اور جسم کو لاحق ہوتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتا ہے جسم مجتمع ہوتا ہے اور کم از کم جس پر جسم کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے جو مجتمع جوہر ہیں یہ اصطلاحات ہیں اگرچہ صدر اول میں موجود نہیں تھیں، ان پر کتاب وسنت کا معنی دلالت کرتا ہے ان کے انکار کی کوئی وجہ نہیں، ان کو علماء نے استعمال کیا ہے ان پر اصطلاح قائم کی ہے اور ان پر اپنے کلام کی بنیاد رکھی ہے اور ان کے ساتھ مخالفین کو نیست ونابود کیا ہے جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ علماء کا (آیت) ” الظلمت اور النور “ کے معنی میں اختلاف ہے سدی، قتادہ اور جمہور مفسرین نے کہا : اس سے مراد رات کی تاریکی اور دن کی روشنی ہے، حسن نے کہا : اس سے مراد کفر اور ایمان ہیں، ابن عطیہ نے کہا : یہ ظاہر سے خروج ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : لفظ اس معنی کو بھی شامل ہے قرآن حکیم میں ہے : (آیت) ” اومن کان میتا فاحیینہ وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمت “۔ (انعام : 122) کیا وہ جو (پہلے) مردہ تھا پھر زندہ کیا ہم نے اسے اور بنا دیا اس کے لیے نور چلتا ہے جس کیا جالے میں لوگوں کے درمیان وہ اس جیسا ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو۔ اس آیت میں ” الارض “ جنس کے لیے ہے لفظ مفرد ہے لیکن مراد جمع ہے اسی طرح ” النور “ ہے اس کی مثال یہ ارشاد : (آیت) ” ثم یخرجکم طفلا “۔ (غافر : 67) شاعر نے کہا : کلوا فی بعض بطنکم تعفوا “۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ یہاں جعل بمعنی خلق ہے، اس کے علاوہ کوئی معنی نہیں، یہ ابن عطیہ (رح) کا قول ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں اس پر لفظ اور معنی نسق میں متفق ہیں جمع، جمع پر معطوف ہے اور مفرد مفرد پر معطوف ہوتا ہے، پس لفظ ایک جیسے ہوتے ہیں اور فصاحت ظاہر ہوتی ہے، واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” الظلمت “ کو جمع اور (آیت) ” النور “ کو مفرد ذکر کیا، کیونکہ ظلمات متعدی نہیں ہوتی ہیں اور نور متعدی ہوتا ہے، ثعلبی نے حکایت کیا ہے کہ بعض اہل معانی نے کہا : یہاں جعل زائدہ ہے اور عرب جعل کو کلام میں زائدہ کرتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا : قد جعلت اری الاثنین اربۃ والواحد اثنین لماھدنی الکبر : نحاس نے کہا : جعل بمعنی خلق ہے جب یہ خلق کے معنی میں ہوتا ہے تو صرف ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے، یہ معنی پہلے گزر چکا ہے اور جعل کے محل پر سورة بقرہ میں تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ثم الذین کفروا بربھم یعدلون “۔ یہ مبتدا خبر ہیں، معنی یہ ہے پھر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے شریک اور برابر ٹھہراتے ہیں، حالانکہ اس نے تنہا ان چیزوں کو پیدا کیا ہے، ابن عطیہ (رح) نے کہا : ثم کفار کے فعل کی قباحت پر دلالت کر رہا ہے، کیونکہ مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا ثابت ہے اور اس کی آیات پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا انعام ظاہر ہے پھر اس کے بعد بھی وہ اپنے رب کا برابر ٹھہراتے ہیں، یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : اے فلاں ! میں نے تجھے عطا کیا، میں نے تجھے عزت دی، میں نے تجھ پر احسان کیا، پھر تو مجھے گالی دیتا ہے، اگر اس میں واؤ وغیرہ کے ساتھ عطف ہوتا تو توبیخ اس طرح لازم نہ آتی جس طرح ثم کے ساتھ توبیخ لازم ہوتی ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 266 دارالکتب العلمیہ)
Top