بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
شکر کا سزاوار اللہ ہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور بنایا تاریکیوں اور روشنی کو، پھر تعجب ہے کہ جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے رب کے ہم سر ٹھہراتے ہیں۔
توحید کی دلیل عرب کے مسلمات سے : لفظ ‘ حمد ’ کی تحقیق تفسیر سورة فاتحہ میں گزر چکی ہے اور یہ بات بھی اس کتاب میں بار بار بیان ہوچکی ہے کہ مشرکین عرب آسمان و زمین اور نور و ظلمت سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ یہاں قرآن نے ان کے اسی مسلمہ پر توحید کی دلیل قائم کی ہے کہ جب یہ تسلیم ہے کہ آسمانوں اور زمین اور نور و ظلمت سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ یہاں قرآن نے ان کے اسی مسلمہ پر توحید کی دلیل قائم کی ہے کہ جب یہ تسلیم ہے کہ آسمانوں اور زمین اور نور و ظلمت کا خالق اللہ ہی ہے تو پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہ کفار دوسروں کو خدا کا ہم سر اور شریک ٹھہراتے ہیں۔ ‘ ثُمَّ ’ کا اظہارِ تعجب کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں اور آگے والی آیت میں بھی اظہار تعجب ہی کے مفہوم میں ہے۔ شرک پر اظہار تعجب کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب ساری چیزوں کا خالق خدا ہی ہے تو پھر شرک کی گنجائش کہاں سے نکلی ؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کائنت کی چیزوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے مثلا زمین اور آسمان، روشنی اور تاریکی، سردی اور گرمی، تو اس تضاد کے اندر اس کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے ایسی حیرت انگیز ساز گاری بھی ہے کہ کوئی عاقل تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ان میں سے ہر ایک کے خالق ومالک الگ الگ ہیں۔ بلکہ ہر صاحب نظریہ ماننے پر مجبور ہے کہ پوری کائنات ایک ہی کار فرما کے ارادے اور مشیت کے تحت حرکت کر رہی ہے۔
Top