بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اندھیرا اور اجالا بنایا۔ پھر بھی یہ کفار (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر ٹھہرا رہے ہیں۔
لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 3 : جعل (اس نے بنایا) ‘ الظلمت (ظلمۃ) ۔ اندھیرے ‘ النور (روشنی) ‘ یعدلون (عدل) برابر کرتے ہیں۔ (شرک کرتے ہیں) ‘ طین (مٹی) ‘ قضی (مقرر کردیا۔ فیصلہ کردیا) ‘ اجل (ایک مدت) ‘ مسمی (مقرر۔ متعین) تمترون (تم شک کرتے ہو) سر (بھید ‘ چھپی ہوئی چیز) ‘ جھر (کھلاہوا۔ ظاہر) تکسبون (تم کماتے ہو) تشریح : آیت نمبر 1 تا 3 : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کو دیکھنے اس پر غور کرنے اور پھر دل سے تعریف کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ایسا کون ہے جو آسمان و زمین کی ٹھہری ہوئی اور حرکت کرتی ہوئی چیزوں کو دیکھے ‘ اس آنے والی اور جانے والی تاریکیوں اور روشنیوں کو دیکھے ‘ اس سکونی اور گردشی نظام کائنات کو دیکھے کہ سب کچھ انسان کو زندگی اور اس کی نعمتیں بخشنے کے لئے بنے ہیں۔ اور پھر بھی اس کا دل حیرت اور احسان مندی سے عش عش نہ کر اٹھے۔ الحمد کے معنی تعریف کے بھی ہیں اور شکر کے بھی۔ یعین حسن آفرینش کی قدرو قیمت پہچاننا بھی اور قولی و عملی احسان مندی بھی۔ یعنی معرفت بھی اور بندگی بھی۔ اس آیت نے ان دو سوالوں کا جواب دے دیا ہے جن کی طرف سائنس نے اپنی مصلحت سے اب تک رخ نہیں کیا۔ ہر چیزچاند ‘ سورج ‘ پہاڑ ‘ انسان کے ساتھ چند سوالات لازمی اٹھتے ہیں۔ یہ کیا ہے ؟ اسے کس نے بنایا ؟ اور کیوں بنایا ؟ سائنس اپنے آپ کو کیا اور کیسے میں الجھائے رکھتی ہے۔ ‘ کون ‘ اور ‘ کیوں ‘ سے دور بھاگتی ہے۔ تمام سائنس داں جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ‘ کون ‘ اور ’ کیوں ‘ میں تحقیق کی تو ہمیں دین اسلام میں دخل ہونا پڑے گا اور یہ ان کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے۔ اسے کس نے بنایا۔ اس کا جواب لفظ اللہ میں ہے۔ اسے کیوں بنایا اس کا جواب لفظ الحمد میں ہے۔ الحمد للہ ہی سے قرآن شروع ہوتا ہے۔ الحمد للہ ہی تمام حقائق کی بنیاد ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ انسان یہ سارے انسان کائنات کو اپنے لئے کام کرتے ہوئے دیکھتا تو اس کا سر خالق ومالک کے سامنے تحسین و تشکر میں جھک جاتا لیکن حیرت کا مقام ہے کہ کفار اور مشرکین غیر اللہ کو معبود ٹھہرا رہے ہیں۔ ذرا انسان یہ تو سمجھے کہ اسے کس نے پیدا کیا ‘ کس چیز (مٹی) سے پیدا کیا ‘ کس نے اس کی زندگی کی مدت مقرر کردی۔ کس نے اس کی موت کی تاریخ مقرر کردی اور پھر موت کے بعد قیامت تک کی مدت مقرر کردی۔ ذرا یہ سمجھئے کہ جو اسے موت دے سکتا ہے وہ مارنے کے بعد جلا بھی سکتا ہے اور جلانے کے بعد جزا و سزادے سکتا ہے۔ ذرا انسان یہ تو سمجھے کہ وہ جو آسمانوں ‘ زمین اور ہر چیز کو بنا سکتا ہے ‘ ایک نظام میں لگا کر سب کو مختلف حرکتوں اور منزلوں سے گزار سکتا ہے ‘ وہ انسان کی ایک ایک رکت کو کیوں نہیں دیکھ سکتا خواہ وہ پوشیدہ ہو یا ظاہر۔ اور پھر وہ ہر ایک کا اعمال نامہ کیوں نہیں مرتب کرسکتا۔ مگر جو بد نصیب ہے وہ ابھی تک شک میں پڑا ہے۔ اور مدت عمل گزرتی چلی جارہی ہے۔
Top