بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
آیت نمبر 1 تا 10 ترجمہ : ہر تعریف اللہ کے لئے ثابت ہے (اور) یا تو اس جملہ خبر یہ سے مراد ثبوت حمد پر ایمان کی خبر دینا ہے یا مراد انشاء حمد (تعریف کرنا) ہے یا دونوں مراد ہیں (یہ تین) احتمالات ہیں تیسری صورت زیادہ مفید ہے، اس کو شیخ جلال الدین محلی نے سورة کہف میں بیان کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان دونوں کو خاص طور پر اس لئے بیان کیا ہے کہ یہ دونوں ناظرین کی نظر میں اعظم مخلوقات ہیں اور جس نے ظلمتوں اور روشنی کو پیدا فرمایا یعنی ہر ظلمت اور نور کو، ظلمات کو جمع لائے ہیں نہ کہ نور کو، ظلمات کے اسباب کثیر ہونے کی وجہ سے، اور یہ اللہ کی وحدانیت کے دلائل میں سے ہے پھر بھی کافر اس دلیل کے قائم ہونے کے باوجود غیر اللہ کو اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں یعنی غیر اللہ کو عبادت میں اللہ کے برابر قرار دیتے ہیں، وہ ایسی ذات ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا تمہارے دادا آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کرکے، پھر اس نے تمہارے لئے مدت مقرر کی کہ جس کے پورے ہونے پر تم مرجاؤ گے، اور دوسرا وقت خاص اللہ کے نزدیک معین ہے جو کہ تمہارے بعث کا ہے، پھر بھی تم اے کافر و شک کرتے ہو (یعنی) بعث بعد الموت میں شک کرتے ہو، باوجودیکہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ اس نے تم کو ابتداء پیدا کیا، اور جو ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بطریق اولی قادر ہے، وہی اللہ مستحق عبادت ہے آسمانوں اور زمین میں تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے یعنی جس کو تم آپس میں پوشیدہ رکھتے ہو اور ظاہر کرتے ہو، اور جو تم کرتے ہو اس کو جانتا ہے (یعنی) جو خیر و شر تم کرتے ہو اس سے واقف ہے اور اہل مکہ کے پاس قرآن کی جو آیت بھی آئی ہے اس سے اعراض ہی کرتے ہیں، مِن آیۃٍ ، میں مِن زائدہ ہے انہوں نے حق یعنی قرآن کو جھٹلا دیا جب ان کے پاس آیا سو جلد ہی ان کو اس کے انجام کی خبر مل جائے گی جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے کیا یہ لوگ اپنے شام وغیرہ کے سفر کے دوران نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان سے پہلے سابقہ امتوں میں سے کتنی ہی امتوں کو ہلاک کردیا، کم خبر یہ بمعنی کثیر ہے، جن کو ہم نے دنیا میں اسی قوت اور وسعت دی تھی کہ جو تم کو نہیں دی اس میں غیبت سے (خطاب) کی جانب التفات ہے، اور ہم نے ان پر خوب مسلسل بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ہم نے ان کو انبیاء کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک کردیا اور ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ ان کی تجویز کے مطابق نازل کرتے پھر اس کو یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے، (لَمَسُوہ بایدیھم) عاینوہ سے ابلغ ہے اسلئے کہ چھو کر دیکھ لینا شک کی زیادہ نفی کرنے والا ہے، جب بھی یہ کافر لوگ تعصب اور عناد کی وجہ سے یہی کہتے کہ یہ کچھ نہیں محض کھلا ہوا جادو ہے، اور ان لوگوں کا کہنا ہے کہ محمد ﷺ پر کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ان کی تصدیق کرتا اور اگر ہم ان کی تجویز کے مطابق کوئی فرشتہ نازل کردیتے (پھر۔۔ ) یہ ایمان نہ لاتے تو ان کو ہلاک کرکے ان کا قصہ ہی ختم ہوجاتا پھر ان کو توبہ یا معذرت کیلئے مہلت نہ دی جاتی جیسا کہ اس سے پہلی امتوں میں فرمائشی معجزہ ظاہر کرنے کے بعد جبکہ وہ ایمان نہ لائے ان کو ہلاک کرنے کا اللہ کا دستور رہا ہے اگر ہم ان کی طرف فرشتہ نازل کرتے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ فرشتہ انسانی شکل میں ہوتا تاکہ یہ اس کو دیکھ سکیں، اسلئے کہ ان میں فرشتہ کو دیکھنے کی قوت نہیں، اور اگر ہم فرشتہ نازل کردیتے اور اس کو انسانی شکل میں رکھتے تو ہم ان پر اشتباہ ڈال دیتے جیسا کہ اب ان کو تباہ ہو رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے درحقیقت آپ سے پہلے جو انبیاء ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزاء کیا گیا اس میں نبی ﷺ کو تسلی ہے تو ان کو اسی عذاب نے آگھیرا جس کا انہوں نے مذاق اڑایا، اور وہ عذاب تھا، اسی طرح جو آپ کے ساتھ استہزاء کرے گا اس کو بھی عذاب آگھیرے گا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : ھَلِ المُرَادُ اَلْاِعْلامُ بذلک، اس سوالیہ جملہ سے شارح علام کا مقصد یہ بتانا ہے کہ الحمد (ثابت) للہ، جملہ یہ کے ذریعہ جو ثبوت حمد کی خبر دی گئی ہے اس سے تین چیزیں مراد ہوسکتی ہیں، (1) یا تو اس بات کی خبر دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف کمالیہ ازلی اور ابدی ہیں اور ہمارا اس پر ایمان ہے، استمرار پر دلالت جملہ کے اسمیہ ہونے کی وجہ سے ہوگی اس صورت میں یہ لفظاً و معنی خبر یہ ہوگا، (2) یا مقصد انشاء حمد ہے، اسی کو مفسر علام نے اوالثناء بہ، سے تعبیر فرمایا ہے، اس صورت میں جملہ ما خبریہ اور معنی انشائیہ ہوگا۔ (3) دونوں مقصود ہوں اس کی طرف اپنے قول اَوْھُمَا سے اشارہ فرمایا ہے، اس صورت میں دونوں معنی میں استعمال حقیقۃً ہوگا، اور پہلی صورت میں خبر میں حقیقت اور انشاء حمد میں مجاز ہوگا اور دوسری صورت میں انشاء حمد میں حقیقت اور خبر میں مجاز ہوگا، مطلب یہ کہ پہلی دونوں صورتوں میں ایک میں جملہ کا استعمال بالاصل اور دوسری میں بالتبع ہوگا، اور دوسری صورت میں دونوں میں جملہ کا استعمال بالاصل ہوگا اسی وجہ سے تیسری صورت پہلی دو صورتوں سے مفید تر ہے اس لئے کہ دونوں میں استعمال مقصود بالذات ہے، (مزید تفصیل کیلئے سورة کہف جلد چہارم ملاحظہ فرمائیں) ۔ قولہ : خَلَقَ ، جَعَلَ کی تفسیر خَلَقَ سے کرکے اشارہ کردیا ہے کہ جَعَلَ بمعنی خلق وأنشأ ہے نہ کہ بمعنی صَیَّرَ یہی وجہ ہے کہ ایک مفعول کی جانب متعدی ہے۔ قولہ : لِکَثْرَۃِ اَسْبَابِھَا، ظلمت کے اسباب چونکہ کثیر ہیں اسلئے ظلمات کو جمع لائے ہیں، اور نور کی قسم چونکہ ایک ہی ہے اسلئے اس کو واحد لائے ہیں۔ قولہ : عَوَاقبُ ۔ سوال : عواقِبُ مضاف محذوف ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : اسلئے کہ نفس انباء تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائیں گی، ابتہ ان اک انجام اور نتیجہ آخرت میں معلوم ہوگا، اسی فائدہ کیلئے لفظ عواقب، محذوف مانا گیا ہے۔ قولہ : لِأَنَّہٗ اَنْفٰی للشَّکِّ ، یعنی معانیہ کے بجائے لمس کا استعمال نفی شک میں زیادہ ہے اسلئے کہ دیکھنے میں تو کبھی سحر یا نظر بندی کا دھوکا بھی ہوسکتا ہے مگر لمس اور ٹٹول کر معلوم کرنے میں دھوکہ اور مغالطہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ قولہ : لَلَبَسْنَاہ، یہ شرط محذوف کا جواب ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، ” ای لَوْ جَعَلْنَاہُ رَجُلاً لَلَبَسْنا “۔ تفسیر و تشریح فضائل سورة انعام : مستدرک حاکم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سبحان اللہ العظیم فرمایا اور یہ فرمایا کہ آسمان سے زمین تک ستر ہزار فرشتے اس سورت کے نازل ہونے کے وقت ساتھ تھے، حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ سورت کا نام : اس سورت کے رکوع 16، 17 میں بعض انعام (مویشیوں) کی حرمت اور بعض کی حلت کا ذکر ہے اسی مناسبت سے اس سورت کا نام ” انعام “ رکھا گیا ہے، بجز چھ آیات کے یہ پوری مکی ہے۔ سورة انعام کے مضامین کا خلاصہ : خدا کی توحید، پیغمبروں کی رسالت، توحید کے سلسلہ میں چند انبیاء کرام کے واقعات، قرآن کی صداقت، آخرت کی زندگی ثبوت، منکرین حق و صداقت کے کردار کی وضاحت اور ان کا انجام، یہ ہے اس سورت کے مضامین کا خلاصہ۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالارْضِ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ والنورِ ۔ یہاں خلق، ایجاد و ابداع یعنی نیست سے ہست کرنے کے معنی ہئ (قرطبی) پوری کائنات دو قسموں میں منحصر ہے، جو ہر اور عرض، السَمٰوٰتِ والْاَرض، سے جوہر کی طرف اور الظلمٰت والنور سے عرض کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جوہر ہو یا عرض ہر چیز کا خالق بلا اسثناء وہی ایک خدا ہے الظلمٰت، کو جمع کے صیغہ کے ساتھ اور النور کو صیغہ واحد کے ساتھ ذکر کرنے میں اسطرف اشارہ ہے کہ گمراہیاں ایک نہیں بہت سی ہوسکتی ہیں اور راہ حق صرف ایک ہی ہوتی ہے، دو نقطوں کے درمیان خطوط منحنی بیشمار ہوسکتے ہیں مگر خط مستقیم ایک ہی ممکن ہے، اور یہ نقطہ قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں نور، جہاں بھی آیا ہے مفرد ہی آیا ہے، یہاں ثُمَّ ، باوجود یا اس پر بھی کے معنی میں ہے (ماجدی) مذکورہ آیات کا مقصود توحید کی حقیقت اور اسکے واضح دلائل کو بیان فرما کر دنیا کی ان تمام قوموں کو تنبیہ کرنا ہے جو یا تو سے سے توحید کی قائل ہونے کے باوجود توحید کی حقیقت سے نا آشنا ہیں۔ مجوس دنیا کے دو خالق مانتے ہیں یزدان اور اہر من، یزدان کو خیر کا خالق اور اہرمن کو شر کا خالق قرار دیتے ہیں اور انہی دونوں کو نور و ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں، قرآن مجید نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین ظلمت و نور کا خالق بتا کر ان سے خیالات کی تردید کردی کہ نور و ظلمت اور آسمان و زمین اور ان میں موجودتمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں پھر کسی کو کیسے خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم ٹھہریا جا سکتا ہے۔
Top