Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
وَجَعَلَ
: اور بنایا
الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں
وَالنُّوْرَ
: اور روشنی
ثُمَّ
: پھر
الَّذِيْنَ
: جنہوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا (کافر)
بِرَبِّهِمْ
: اپنے رب کے ساتھ
يَعْدِلُوْنَ
: برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کئے ہیں آسمان اور زمین اور جس نے بنائے ہیں اندھیرے اور اجالا ‘ پھر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ‘ دوسروں کو برابر کرتے ہیں۔
اس سورة کا نام سورة الانعام ہے۔ انعام ‘ نعم کی جمع ہے اور اس کا جمع الجمع اناعیم آتا ہے۔ انعام کا اطلاق عام طور پر اونٹ پر کیا جاتا ہے اور گائے اور بھیڑ بکری پر کیا جاتا ہے اور عام فہم میں اس کا معنی وہ مویشی ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر لوگ پالتے ہیں اور وہ انسان سے مانوس ہوتے ہیں۔ سورة بخل میں موجود ہے والانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافع و منھاتا کلون۔ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو پیدا کیا ‘ ان میں تمہارے لئے بہت سے فائدے رکھے ہیں اللہ نے انہیں تمہاری خدمت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور تمہارے تابع بھی کردیا ہے ‘ یہ بڑی عاجزی کے ساتھ تمہاری خدمت انجام دیتے ہیں۔ ان میں تمہارے لئے موسم سرما میں گرمی کا سامان بھی پیدا کیا ہے۔ بہرحال اس سورة کا نام انعام اس لئے ہے کہ اس میں مویشیوں کا تذکرہ ہے اور ان کی حلت و حرمت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ اس سورة میں اس شرک کی بھی تردید کی گئی ہے جو عرب لوگ مویشیوں کے ذریعے کرتے تھے۔ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی ‘ اس کی ایک سو پینسٹھ آیتیں اور اور بیس رکوع ہیں۔ اس سورة میں کل 0503 کلمات اور 22421 حروف ہیں۔ سورة انعام سورة حجر کے بعد نازل ہوئی ہے۔ یہ لمبی سورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ساری سورتیں مدنی ہیں۔ دراصل اس سورة میں توحید کے تمام دلائل ذکر کئے گئے ہیں اور شرک کی جملہ اقسام کی تردید کی گئی ہے۔ ترتیب تلاوت کے لحاظ سے یہ پہلی مکی سورت ہے۔ تاہم ترتیب نزول کے حساب سے اس کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔ اس سورة کی فضیلت کے متعلق امام رازی (رح) اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کی چند آیتوں کو چھوڑ کر باقی ساری سورة بیک وقت نازل ہوئی۔ اس سورة کے ساتھ ستر ہزار فرشتوں کی جماعت زمین پر نازل ہوئی جس سے پوری وادی پر ہوگئی۔ قرآن پاک میں سب سے پہلے سورة فاتحہ کو رکھا گیا ہے۔ اس میں ملت ابراہیمیہ کے تمام اصولوں کا خلاصہ اور لب لباب دیدیا گیا ہے ‘ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا ‘ چاروں آسمانی کتابوں یعنی تورات ‘ انجیل ‘ زبور اور قرآن پاک میں سورة فاتحہ جیسی کوئی دوسری سورة نہیں۔ تمام کتابوں میں سورة فاتحہ کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے ‘ یہ وہی سورة ہے جسے ہم نماز میں پڑھتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ سورة الصلوٰۃ بھی کہلاتی ہے۔ سورۃ فاتحہ کے بعد دو سورتوں بقرہ اور آل عمران میں ملت ابراہیمی کی ظاہری تفصیل ہے۔ ان سورتوں میں ادنی مسائل سے لے کر خلافت کبریٰ تک کے نظام کے مسائل بیان کئے گئے ہیں اور انفرادی احکام سے لے کر اجتماعی احکام تک سب چیزیں آگئی ہیں اسی طرح عبادات کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ تاہم اس ملت کی شکل و صورت کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ان کے ساتھ سورة نساء اور سورة مائدۃ کے مضامین کو بھی ملا لیا جائے۔ چناچہ ان چار سورتوں کو باہم ملانے سے ملت ابراہیمیہ کی ظاہری اور باطنی دونوں صورتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ سورة نساء (Women) اور سورة مائدہ (Foop Table) میں انسانی زندگی سے متعلق اہم باتیں بیان کی گئی ہیں۔ انسانی زندگی کے ساتھ عورت اور کھانے کا گہرا تعلق ہے۔ جب تک ان دونوں چیزوں کا توازن موجود نہ ہو انسان کو سکون حاصل نہیں ہوتا۔ ایک لحاظ سے سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ملت ابراہیمیہ کو بگاڑ دیا تھا۔ سورة بقرہ میں زیادہ تر یہودیوں کے باطل عقائد کا ذکر ہے اور سورة آل عمران میں نصاریٰ کو موضو سخن بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں قومیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور پیروکار ہونے کی دعویدار ہیں مگر ملت ابراہیمیہ کو بگاڑنے کی ذمہ داری بھی انہی پر آتی ہے۔ لہٰذا ان دوسورتوں میں ان دونوں گروہوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ ملت ابراہیمیہ میں بگاڑ پیدا کرنے والا تیسرا گروہ مشرکین عرب کا تھا ‘ جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کے بیشمار خاندانوں پر مشتمل تھا۔ چناچہ اگلی دو سورتوں نساء اور مائدہ میں روئے سخن مشرکین عرب کی طرف ہے۔ جب قرآن پاک نازل ہوا تو اس نے یہ تعلیم دی کہ اگر یہ سب لوگ اپنے اپنے پیدا کردہ بگاڑ کو ترک کردیں تو یہ لوگ بھی ملت ابراہیمیہ کا حصہ بن جائیں گے اور اسی راستے پر گامزن ہوجائیں گے جس راستے پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد آنے والے تمام انبیاء (علیہم السلام) چلتے رہے۔ یہ تمام انبیاء ملت ابراہیمیہ کے ہی امام تھے۔ غرض یہ کہ سورة مائدہ تک ملت ابراہیمیہ کو بگاڑنے والے تینوں فرقوں یہود ‘ نصاریٰ اور مشرکین عرب کو خطاب ہوگیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں یبنی اسرائیل سے شروع کر کے یہودیوں کی چالیس خربایوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور سورة آل عمران میں معاملہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور 38 آیتوں تک روئے سخن نصاریٰ کی طرف ہوتا ہے جن میں ان کے غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان آیات میں عیسائیوں پر واضح کیا گیا ہے۔ مامن الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مگر تم مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل ہوچکے ہو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آئو آپس میں فیصلہ کرلیں۔ بحث و تمحیص کے ذریعے معاملے کو صاف کرلیں یا پھر مباہلے کے ذریعے کذب و صداقت کی پہچان ہوجائے ‘ مگر یہ لوگ آج تک اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں غرض یہ کہ ان چاروں طویل سورتوں میں ملت ابراہیمیہ کا ظاہر و باطن بیان کردیا گیا ہے۔ اب تک قرآن حکیم کی پانچ سورتوں کا بیان ہوچکا ہے اس کے بعد چھٹی سورة انعام اور ساتویں سورة اعراف ہے یہ ساتویں سورتیں مل کر قرآن پاک کا ایک باب بنتا ہے۔ اس باب کا پہلا حصہ سورة مائدہ پر ختم ہوا جس کے ساتھ ہی ملت ابراہیمیہ کا بیان ختم ہوا ہے اور اب سورة انعام سے روئے سخن صابی ملت کی طرف ہوتا ہے۔ صابی ملتوں سے خطاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے تک صابی ملت کا دور تھا۔ بلکہ اس سے پہلے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ بھی اسی دور میں شمار ہوتا ہے ۔ ملت ابراہیمی کے ماننے والوں کی طرح ملت صابی کے پیروکاروں نے بھی اس کے اصول بگاڑ دیئے تھے۔ اصل دین کو کفر و شرک میں تبدیل کردیا تھا۔ اس ملت میں بھی توحید ‘ طہارت ‘ صلوٰۃ اور صوم کے چاروں اصول موجود تھے ‘ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں لکھا ہے ‘ اس ملت کے پیروکاروں نے خود ان اصولوں کو بگاڑ دیا۔ اور دین میں خرابیاں پیدا کردیں قرآن پاک کا فرمان ہے کہ اگر تم ان خرابیوں کو چھوڑ دو تو تمہاری ملت بھی ٹھیک ہے قرآن پاک آج بھی دعوت دے رہا ہے کہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر آ جائو تو تم آج بھی نجات پانے والے بن سکتے ہو۔ صابی ملتوں میں مشرق میں چینی قوم ہے۔ ہندوستان میں آریہ اور ا س سے پہلے اور بعد والی قدیم قومیں ہیں۔ وسط ایران کے مجوسی اور مغرب میں رومی اور یونانی ہیں۔ یہ پانچویں قومی صابی ملت کی پیروکار ہیں مگر یہ ملت کے اصل اصولوں کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہوگئے ‘ جس طرح یہود نصاریٰ اور بنی اسماعیل نے کفر و شرک کو اپنا کر انہی کو ملت ابراہیمی کا نام دے دیا ‘ اسی طرح ان اقوام نے بھی باطل عقائد پر صابی ملت کا لیبل چسپاں کردیا ۔ صابی قوموں میں سے وسطی علاقوں کے مجوسی چونکہ ارض القرآن سے زیادہ قریب تھے لہٰذا سب سے پہلے روئے سخن ان کی طرف ہے اس کے بعد تمام صابی اقوام کا اختیار کردہ شرک کی جملہ اقسام کا رد کیا گیا ہے ملت ابراہیمی کے ماننے والوں سے خطاب کی ابتداء بھی الحمد للہ سے ہوتی تھی اور اب صابی ملت سے خطاب الحمد للہ سے ہی ہو رہا ہے۔ الغرض اس سورة میں صابی امتوں سے خطاب کر کے ان میں رائج شرک کی تمام اقسام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کا رد بھی کیا گیا ہے اس کے بعد سورة اعراف میں مجموعی طور پر تمام اقوام عالم سے خطاب ہوگا اور ان کے سامنے قرآن پاک کی دعوت پیش کی جائے گی۔ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکمم جمعیاً ۔ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ اور میری دعوت یہ ہے ۔ ” لا الہ الا ھو ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ” یحی و یمیت “ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ جب کوئی چیز عقلی اور نفلی دلائل کے ساتھ پیش کی جاتی ہے تو اس کی مخالفت باطل پرست ہی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی ساتھ بات چیت ‘ بحث مباحثہ ہو سکتا ہے ‘ کوئی اعتراض ہو تو اس کا جواب دیکر بات کو سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اور اگر انکار بلاوجہ اور بےدلیل ہو تو پھر ایسے مفسد عنصر کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا حکم بھی ہے۔ غرض ! سورة اعراف کے بعد سورة انفال اور توبہ جہاد بالسیف والسنان کے متعلق ہیں۔ ان سورتوں میں جنگی احکام مذکور ہیں سورة توبہ میں آتا ہے۔ ” وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ۔ اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ واعد والھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل (انفال) اور جہاں تک ہو سکے طاقت سے اور گھوڑوں کی تیاری کے ساتھ مستعد رہو۔ غرض یہ کہ جہاد کے تمام بنیادی اصول ان دو سورتوں میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگلی سورتوں یونس اور ہود میں قرآن حکیم کی حقانیت اور تمام انبیاء کے دین کا بیان ہوگا پھر سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے مماثلت میں حضور ﷺ کی کامیابی کا تذکرہ ہوگا۔ پھر وحدت ملت انبیاء اور ملت ابراہیمی کا دوربارہ تذکرہ سورة ابراہیم میں ہوگا۔ گویا اس طریقے سے یہ سورتیں آپس میں مربوط ہیں۔ نشانات معرفت الٰہی قرآن پاک کے باب اول کا یہ دوسرا حصہ صابی اقوام کے خطاب سے شروع ہو رہا ہے۔ سورة فاتحہ کی طرح سورة الانعام بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ الحمد للہ الذی خلق السموات والارض سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ وجعل الظلمت والنور اور جس نے اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں یعنی وہ ارض و سماء کا خالق اور اندھیروں اور اجالے کا بنانے والا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی حکمت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی ان صفات کے ذریعے اس کی پہچان تک پہنچتا ہے۔ اس نے اپنی صفت فطور اور ابداع کے ذریعے اس جہاں کو پیدا کیا۔ ” فاطر السموات والارض “ وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے وہ ” بدیع السموات والارض “ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے جب انسان ان چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ واقعی وہی موجد ‘ خالق اور مالک ہے ‘ لہٰذا وہی معبود برحق ہے۔ جواہر ان اشیاء کو کہتے ہیں جو مستقل وجود رکھتی ہیں اور ان کے لئے مکان کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ارض و سما اور اس میں موجود ہر چیز ہے یہ تمام چیزیں وجود رکھتی ہیں۔ اور دوسری چیزیں اعراض ہیں جو دوسری چیزوں کے ذریعے قائم ہوتی ہیں ‘ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا ‘ جیسے اندھیرا اور اجالا یا سیاسی اور سفیدی ‘ ان چیزوں کا تعلق سورج کے ساتھ ہے اور اسی کی وجہ سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور ختم ہوتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقل وجود رکھنے والے جواہر ہوں یا دوسروں کے ذریعے سے ظاہر ہونے والے اعراض ہوں سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور پھر اس کی صفت ربوہیت ہے۔ کہ ہر چیز کو آہستہ آہستہ حد کمال تک پہنچانے والا بھی وہی ہے۔ عقل سلیم رکھنے والے شخص کے لئے یہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ فرما ای سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ و جعل الظلمت والنور اور بنائے ہیں اندھیرے اور اجالا۔ یہاں پر اندھیرے کو جمع کے ساتھ تعبیر کیا ہے جب کہ روشنی کو مفرد کے ساتھ ‘ کیونکہ روشنی سے مراد حق ہے اور وہ ایک ہی ہے جبکہ اندھیرے باطل پر محمول ہیں اور ان کی کئی شاخیں ہیں ۔ ظلمات میں کفر ‘ شرک ‘ نفاق ‘ بدعات اور ہر قسم کی معصیت شامل ہے ‘ جبکہ توحید ‘ ایمان ‘ یقین اور نبوت سے انسان کو روشنی میسر آتی ہے جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے گا ‘ اس کا فہم درست ہوگا اور اس کو بصیرت حاصل ہوگی۔ غرضیکہ ایمان روشنی اور نور ہے جبکہ اس کے خلاف ہر چیز اندھیرا ہے۔ ملل صابیہ میں مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نور و ظلمت کے خالق مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک نور کو پیدا کرنے والا یزدان ہے جب کہ ظلمت کا خالق اہرمن ہے۔ اس طرح یہ لوگ ثنوی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر اسی باطل عقیدہ کی تردید فرمائی ہے کہ خالق دو نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی ہے ج نے ظلمت اور نور دونوں کو پیدا کیا۔ نور اور ظلمت سے خیر اور شر بھی مراد لیا جاتا ہے۔ بہرحال خیر و شر کے پیدا کرنے والے دو خدا ہوں یا نور و ظلمت کے دو خالق ہوں ‘ یہ بالکل شرکیہ عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ و لا شریک ہے۔ مجوسیوں نے تو صرف دو خالقوں پر اکتفا کیا ہے ہندوئوں کے نزدیک بتیس کروڑ دیوتا ہیں ‘ العیاذ باللہ۔ ہندوئوں میں آریہ سماج فرقہ تو تین خدائوں پر آ کر رک گئے۔ عیسائیوں کی طرح وہ تثلیث کے عقیدہ میں پھنس گئے۔ انہوں نے روح ‘ مادہ اور ایشور تینوں کو قدیم مان لیا ‘ حالانکہ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ باقی سب کچھ اس کی مخلوق ہے غرض یہ کہ تین خدائوں کا عقیدہ رکھنے والے بھی مشرک ٹھہرے وہ بھی توحید کا مقام نہیں پا سکے۔ فرمایا کہ جب علویات سے لے کر سفیات تک ‘ عالم بالا سے عالم زیریں تک ‘ ارض و سما اور جواہر و اعراض کا پیدا کرنے والا صرف خدا تعالیٰ ہے ‘ تو پھر بڑے افسوس کا مقام ہے ثم الذین کفر بربھم یعدلون کہ کافر لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہرا رہے ہیں۔ کوئی مادے کو شریک مانتا ہے ‘ کوئی نور اور ظلمت کو برابر ٹھہراتا ہے ‘ کوئی شجر و حجر کو معبود مانتا ہے ‘ کوئی قبر پر سجدہ ریز ہوتا ہے ‘۔ کوئی زندہ کو پوج رہا ہے اور کوئی مردے کی پرستش میں محو ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کر رہے ہیں۔ بہرحال یہاں سے صابی اقوام کے باطل عقائد کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔
Top