بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کئے ہیں آسمان اور زمین اور جس نے بنائے ہیں اندھیرے اور اجالا ‘ پھر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ ‘ دوسروں کو برابر کرتے ہیں۔
اس سورة کا نام سورة الانعام ہے۔ انعام ‘ نعم کی جمع ہے اور اس کا جمع الجمع اناعیم آتا ہے۔ انعام کا اطلاق عام طور پر اونٹ پر کیا جاتا ہے اور گائے اور بھیڑ بکری پر کیا جاتا ہے اور عام فہم میں اس کا معنی وہ مویشی ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر لوگ پالتے ہیں اور وہ انسان سے مانوس ہوتے ہیں۔ سورة بخل میں موجود ہے والانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافع و منھاتا کلون۔ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کو پیدا کیا ‘ ان میں تمہارے لئے بہت سے فائدے رکھے ہیں اللہ نے انہیں تمہاری خدمت کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور تمہارے تابع بھی کردیا ہے ‘ یہ بڑی عاجزی کے ساتھ تمہاری خدمت انجام دیتے ہیں۔ ان میں تمہارے لئے موسم سرما میں گرمی کا سامان بھی پیدا کیا ہے۔ بہرحال اس سورة کا نام انعام اس لئے ہے کہ اس میں مویشیوں کا تذکرہ ہے اور ان کی حلت و حرمت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ اس سورة میں اس شرک کی بھی تردید کی گئی ہے جو عرب لوگ مویشیوں کے ذریعے کرتے تھے۔ یہ سورة مکی زندگی میں نازل ہوئی ‘ اس کی ایک سو پینسٹھ آیتیں اور اور بیس رکوع ہیں۔ اس سورة میں کل 0503 کلمات اور 22421 حروف ہیں۔ سورة انعام سورة حجر کے بعد نازل ہوئی ہے۔ یہ لمبی سورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ساری سورتیں مدنی ہیں۔ دراصل اس سورة میں توحید کے تمام دلائل ذکر کئے گئے ہیں اور شرک کی جملہ اقسام کی تردید کی گئی ہے۔ ترتیب تلاوت کے لحاظ سے یہ پہلی مکی سورت ہے۔ تاہم ترتیب نزول کے حساب سے اس کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔ اس سورة کی فضیلت کے متعلق امام رازی (رح) اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کی چند آیتوں کو چھوڑ کر باقی ساری سورة بیک وقت نازل ہوئی۔ اس سورة کے ساتھ ستر ہزار فرشتوں کی جماعت زمین پر نازل ہوئی جس سے پوری وادی پر ہوگئی۔ قرآن پاک میں سب سے پہلے سورة فاتحہ کو رکھا گیا ہے۔ اس میں ملت ابراہیمیہ کے تمام اصولوں کا خلاصہ اور لب لباب دیدیا گیا ہے ‘ اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا ‘ چاروں آسمانی کتابوں یعنی تورات ‘ انجیل ‘ زبور اور قرآن پاک میں سورة فاتحہ جیسی کوئی دوسری سورة نہیں۔ تمام کتابوں میں سورة فاتحہ کو سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے ‘ یہ وہی سورة ہے جسے ہم نماز میں پڑھتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ سورة الصلوٰۃ بھی کہلاتی ہے۔ سورۃ فاتحہ کے بعد دو سورتوں بقرہ اور آل عمران میں ملت ابراہیمی کی ظاہری تفصیل ہے۔ ان سورتوں میں ادنی مسائل سے لے کر خلافت کبریٰ تک کے نظام کے مسائل بیان کئے گئے ہیں اور انفرادی احکام سے لے کر اجتماعی احکام تک سب چیزیں آگئی ہیں اسی طرح عبادات کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ تاہم اس ملت کی شکل و صورت کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ان کے ساتھ سورة نساء اور سورة مائدۃ کے مضامین کو بھی ملا لیا جائے۔ چناچہ ان چار سورتوں کو باہم ملانے سے ملت ابراہیمیہ کی ظاہری اور باطنی دونوں صورتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ سورة نساء (Women) اور سورة مائدہ (Foop Table) میں انسانی زندگی سے متعلق اہم باتیں بیان کی گئی ہیں۔ انسانی زندگی کے ساتھ عورت اور کھانے کا گہرا تعلق ہے۔ جب تک ان دونوں چیزوں کا توازن موجود نہ ہو انسان کو سکون حاصل نہیں ہوتا۔ ایک لحاظ سے سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ملت ابراہیمیہ کو بگاڑ دیا تھا۔ سورة بقرہ میں زیادہ تر یہودیوں کے باطل عقائد کا ذکر ہے اور سورة آل عمران میں نصاریٰ کو موضو سخن بنایا گیا ہے۔ یہ دونوں قومیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور پیروکار ہونے کی دعویدار ہیں مگر ملت ابراہیمیہ کو بگاڑنے کی ذمہ داری بھی انہی پر آتی ہے۔ لہٰذا ان دوسورتوں میں ان دونوں گروہوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ ملت ابراہیمیہ میں بگاڑ پیدا کرنے والا تیسرا گروہ مشرکین عرب کا تھا ‘ جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کے بیشمار خاندانوں پر مشتمل تھا۔ چناچہ اگلی دو سورتوں نساء اور مائدہ میں روئے سخن مشرکین عرب کی طرف ہے۔ جب قرآن پاک نازل ہوا تو اس نے یہ تعلیم دی کہ اگر یہ سب لوگ اپنے اپنے پیدا کردہ بگاڑ کو ترک کردیں تو یہ لوگ بھی ملت ابراہیمیہ کا حصہ بن جائیں گے اور اسی راستے پر گامزن ہوجائیں گے جس راستے پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد آنے والے تمام انبیاء (علیہم السلام) چلتے رہے۔ یہ تمام انبیاء ملت ابراہیمیہ کے ہی امام تھے۔ غرض یہ کہ سورة مائدہ تک ملت ابراہیمیہ کو بگاڑنے والے تینوں فرقوں یہود ‘ نصاریٰ اور مشرکین عرب کو خطاب ہوگیا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں یبنی اسرائیل سے شروع کر کے یہودیوں کی چالیس خربایوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور سورة آل عمران میں معاملہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے شروع ہوتا ہے اور 38 آیتوں تک روئے سخن نصاریٰ کی طرف ہوتا ہے جن میں ان کے غلط عقائد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان آیات میں عیسائیوں پر واضح کیا گیا ہے۔ مامن الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مگر تم مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کے قائل ہوچکے ہو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آئو آپس میں فیصلہ کرلیں۔ بحث و تمحیص کے ذریعے معاملے کو صاف کرلیں یا پھر مباہلے کے ذریعے کذب و صداقت کی پہچان ہوجائے ‘ مگر یہ لوگ آج تک اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں غرض یہ کہ ان چاروں طویل سورتوں میں ملت ابراہیمیہ کا ظاہر و باطن بیان کردیا گیا ہے۔ اب تک قرآن حکیم کی پانچ سورتوں کا بیان ہوچکا ہے اس کے بعد چھٹی سورة انعام اور ساتویں سورة اعراف ہے یہ ساتویں سورتیں مل کر قرآن پاک کا ایک باب بنتا ہے۔ اس باب کا پہلا حصہ سورة مائدہ پر ختم ہوا جس کے ساتھ ہی ملت ابراہیمیہ کا بیان ختم ہوا ہے اور اب سورة انعام سے روئے سخن صابی ملت کی طرف ہوتا ہے۔ صابی ملتوں سے خطاب حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے تک صابی ملت کا دور تھا۔ بلکہ اس سے پہلے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا زمانہ بھی اسی دور میں شمار ہوتا ہے ۔ ملت ابراہیمی کے ماننے والوں کی طرح ملت صابی کے پیروکاروں نے بھی اس کے اصول بگاڑ دیئے تھے۔ اصل دین کو کفر و شرک میں تبدیل کردیا تھا۔ اس ملت میں بھی توحید ‘ طہارت ‘ صلوٰۃ اور صوم کے چاروں اصول موجود تھے ‘ جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی کتاب ” حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ “ میں لکھا ہے ‘ اس ملت کے پیروکاروں نے خود ان اصولوں کو بگاڑ دیا۔ اور دین میں خرابیاں پیدا کردیں قرآن پاک کا فرمان ہے کہ اگر تم ان خرابیوں کو چھوڑ دو تو تمہاری ملت بھی ٹھیک ہے قرآن پاک آج بھی دعوت دے رہا ہے کہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر آ جائو تو تم آج بھی نجات پانے والے بن سکتے ہو۔ صابی ملتوں میں مشرق میں چینی قوم ہے۔ ہندوستان میں آریہ اور ا س سے پہلے اور بعد والی قدیم قومیں ہیں۔ وسط ایران کے مجوسی اور مغرب میں رومی اور یونانی ہیں۔ یہ پانچویں قومی صابی ملت کی پیروکار ہیں مگر یہ ملت کے اصل اصولوں کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہوگئے ‘ جس طرح یہود نصاریٰ اور بنی اسماعیل نے کفر و شرک کو اپنا کر انہی کو ملت ابراہیمی کا نام دے دیا ‘ اسی طرح ان اقوام نے بھی باطل عقائد پر صابی ملت کا لیبل چسپاں کردیا ۔ صابی قوموں میں سے وسطی علاقوں کے مجوسی چونکہ ارض القرآن سے زیادہ قریب تھے لہٰذا سب سے پہلے روئے سخن ان کی طرف ہے اس کے بعد تمام صابی اقوام کا اختیار کردہ شرک کی جملہ اقسام کا رد کیا گیا ہے ملت ابراہیمی کے ماننے والوں سے خطاب کی ابتداء بھی الحمد للہ سے ہوتی تھی اور اب صابی ملت سے خطاب الحمد للہ سے ہی ہو رہا ہے۔ الغرض اس سورة میں صابی امتوں سے خطاب کر کے ان میں رائج شرک کی تمام اقسام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کا رد بھی کیا گیا ہے اس کے بعد سورة اعراف میں مجموعی طور پر تمام اقوام عالم سے خطاب ہوگا اور ان کے سامنے قرآن پاک کی دعوت پیش کی جائے گی۔ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکمم جمعیاً ۔ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ اور میری دعوت یہ ہے ۔ ” لا الہ الا ھو ‘ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ” یحی و یمیت “ وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ جب کوئی چیز عقلی اور نفلی دلائل کے ساتھ پیش کی جاتی ہے تو اس کی مخالفت باطل پرست ہی کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی ساتھ بات چیت ‘ بحث مباحثہ ہو سکتا ہے ‘ کوئی اعتراض ہو تو اس کا جواب دیکر بات کو سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اور اگر انکار بلاوجہ اور بےدلیل ہو تو پھر ایسے مفسد عنصر کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا حکم بھی ہے۔ غرض ! سورة اعراف کے بعد سورة انفال اور توبہ جہاد بالسیف والسنان کے متعلق ہیں۔ ان سورتوں میں جنگی احکام مذکور ہیں سورة توبہ میں آتا ہے۔ ” وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ۔ اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ واعد والھم ما استطعتم من قوۃ و من رباط الخیل (انفال) اور جہاں تک ہو سکے طاقت سے اور گھوڑوں کی تیاری کے ساتھ مستعد رہو۔ غرض یہ کہ جہاد کے تمام بنیادی اصول ان دو سورتوں میں بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگلی سورتوں یونس اور ہود میں قرآن حکیم کی حقانیت اور تمام انبیاء کے دین کا بیان ہوگا پھر سورة یوسف میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے مماثلت میں حضور ﷺ کی کامیابی کا تذکرہ ہوگا۔ پھر وحدت ملت انبیاء اور ملت ابراہیمی کا دوربارہ تذکرہ سورة ابراہیم میں ہوگا۔ گویا اس طریقے سے یہ سورتیں آپس میں مربوط ہیں۔ نشانات معرفت الٰہی قرآن پاک کے باب اول کا یہ دوسرا حصہ صابی اقوام کے خطاب سے شروع ہو رہا ہے۔ سورة فاتحہ کی طرح سورة الانعام بھی اللہ تعالیٰ کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ الحمد للہ الذی خلق السموات والارض سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ وجعل الظلمت والنور اور جس نے اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں یعنی وہ ارض و سماء کا خالق اور اندھیروں اور اجالے کا بنانے والا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کی حکمت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی ان صفات کے ذریعے اس کی پہچان تک پہنچتا ہے۔ اس نے اپنی صفت فطور اور ابداع کے ذریعے اس جہاں کو پیدا کیا۔ ” فاطر السموات والارض “ وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے وہ ” بدیع السموات والارض “ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے جب انسان ان چیزوں پر غور و فکر کرتا ہے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ واقعی وہی موجد ‘ خالق اور مالک ہے ‘ لہٰذا وہی معبود برحق ہے۔ جواہر ان اشیاء کو کہتے ہیں جو مستقل وجود رکھتی ہیں اور ان کے لئے مکان کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ارض و سما اور اس میں موجود ہر چیز ہے یہ تمام چیزیں وجود رکھتی ہیں۔ اور دوسری چیزیں اعراض ہیں جو دوسری چیزوں کے ذریعے قائم ہوتی ہیں ‘ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا ‘ جیسے اندھیرا اور اجالا یا سیاسی اور سفیدی ‘ ان چیزوں کا تعلق سورج کے ساتھ ہے اور اسی کی وجہ سے یہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور ختم ہوتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقل وجود رکھنے والے جواہر ہوں یا دوسروں کے ذریعے سے ظاہر ہونے والے اعراض ہوں سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور پھر اس کی صفت ربوہیت ہے۔ کہ ہر چیز کو آہستہ آہستہ حد کمال تک پہنچانے والا بھی وہی ہے۔ عقل سلیم رکھنے والے شخص کے لئے یہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ فرما ای سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ و جعل الظلمت والنور اور بنائے ہیں اندھیرے اور اجالا۔ یہاں پر اندھیرے کو جمع کے ساتھ تعبیر کیا ہے جب کہ روشنی کو مفرد کے ساتھ ‘ کیونکہ روشنی سے مراد حق ہے اور وہ ایک ہی ہے جبکہ اندھیرے باطل پر محمول ہیں اور ان کی کئی شاخیں ہیں ۔ ظلمات میں کفر ‘ شرک ‘ نفاق ‘ بدعات اور ہر قسم کی معصیت شامل ہے ‘ جبکہ توحید ‘ ایمان ‘ یقین اور نبوت سے انسان کو روشنی میسر آتی ہے جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے گا ‘ اس کا فہم درست ہوگا اور اس کو بصیرت حاصل ہوگی۔ غرضیکہ ایمان روشنی اور نور ہے جبکہ اس کے خلاف ہر چیز اندھیرا ہے۔ ملل صابیہ میں مجوسیوں کا عقیدہ ہے کہ نور و ظلمت کے خالق مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک نور کو پیدا کرنے والا یزدان ہے جب کہ ظلمت کا خالق اہرمن ہے۔ اس طرح یہ لوگ ثنوی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر اسی باطل عقیدہ کی تردید فرمائی ہے کہ خالق دو نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی ہے ج نے ظلمت اور نور دونوں کو پیدا کیا۔ نور اور ظلمت سے خیر اور شر بھی مراد لیا جاتا ہے۔ بہرحال خیر و شر کے پیدا کرنے والے دو خدا ہوں یا نور و ظلمت کے دو خالق ہوں ‘ یہ بالکل شرکیہ عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ و لا شریک ہے۔ مجوسیوں نے تو صرف دو خالقوں پر اکتفا کیا ہے ہندوئوں کے نزدیک بتیس کروڑ دیوتا ہیں ‘ العیاذ باللہ۔ ہندوئوں میں آریہ سماج فرقہ تو تین خدائوں پر آ کر رک گئے۔ عیسائیوں کی طرح وہ تثلیث کے عقیدہ میں پھنس گئے۔ انہوں نے روح ‘ مادہ اور ایشور تینوں کو قدیم مان لیا ‘ حالانکہ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ باقی سب کچھ اس کی مخلوق ہے غرض یہ کہ تین خدائوں کا عقیدہ رکھنے والے بھی مشرک ٹھہرے وہ بھی توحید کا مقام نہیں پا سکے۔ فرمایا کہ جب علویات سے لے کر سفیات تک ‘ عالم بالا سے عالم زیریں تک ‘ ارض و سما اور جواہر و اعراض کا پیدا کرنے والا صرف خدا تعالیٰ ہے ‘ تو پھر بڑے افسوس کا مقام ہے ثم الذین کفر بربھم یعدلون کہ کافر لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہرا رہے ہیں۔ کوئی مادے کو شریک مانتا ہے ‘ کوئی نور اور ظلمت کو برابر ٹھہراتا ہے ‘ کوئی شجر و حجر کو معبود مانتا ہے ‘ کوئی قبر پر سجدہ ریز ہوتا ہے ‘۔ کوئی زندہ کو پوج رہا ہے اور کوئی مردے کی پرستش میں محو ہے۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کر رہے ہیں۔ بہرحال یہاں سے صابی اقوام کے باطل عقائد کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے۔
Top