بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین اور بنایا اندھیرا اور اجالا پھر بھی یہ کافر اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کئے دیتے ہیں
خلاصہ تفسیر
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا، اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (عبادت میں دوسروں کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (بواسطہ آدم ؑ کے) مٹی سے بنایا پھر (تمہارے مرنے کا) ایک وقت معین کیا، اور دوسرا وقت معین (دو بارہ زندہ ہو کر اٹھنے کا) خاص اللہ ہی کے نزدیک (معلوم) ہے، پھر بھی تم (میں سے بعض) شک رکھتے ہو (کہ قیامت کو محال سمجھتے ہو حالانکہ جس نے اوّل حیات بخشی دوبارہ دینا اس کو کیا مشکل ہے) اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی (یعنی اور سب معبود باطل ہیں) وہ تمہارے پوشیدہ حالات کو بھی اور تمہارے ظاہر حالات کو بھی (یکساں) جانتے ہیں اور (بالخصوص تم جو کچھ ظاہرا یا باطناً) عمل کرتے ہو (جس پر جزاء و سزاء کا مدار ہے) اس کو جانتے ہیں، اور ان (کفار) کے پاس کوئی نشانی بھی ان کے رب کی نشانیوں میں سے نہیں آئی، مگر وہ اس سے اعراض ہی کیا کرتے ہیں، سو (چونکہ یہ ان کی عادت بنی ہوئی ہے) انہوں نے اس سچی کتاب (قرآن) کو جھوٹا بتلایا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچی سو (ان کی یہ تکذیب خالی نہ جائے گی بلکہ) جلد ہی ان کو خبر مل جاوے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزاء کیا کرتے تھے (مراد اس سے عذاب ہے جس کی خبر قرآن میں سن کر ہنستے تھے، اور اس کی خبر ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جب عذاب نازل ہوگا تو اس خبر کی تصدیق آنکھوں سے دیکھ لیں گے)

معارف و مسائل
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ سورة انعام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ پوری سورت بجز چند آیات کے بیک وقت مکہ میں اس طرح نازل ہوئی ہے کہ ستر ہزار فرشتے اس کے جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے تھے، ائمہ تفسیر میں سے مجاہد رحمة اللہ علیہ، کلبی رحمة اللہ علیہ، قتادہ رحمة اللہ علیہ وغیرہ کا بھی تقریباً یہی قول ہے۔
ابو اسحاق اسفرائنی نے فرمایا کہ یہ سورت توحید کے تمام اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ اس سورة کو کلمہ الحمدللہ سے شروع کیا گیا، جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور مراد اس خبر سے لوگوں کو حمد کی تعلیم دینا ہے، اور تعلیم کے اس طرز خاص میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کسی کی حمدوتعریف کا محتاج نہیں، کوئی حمد کرے یا نہ کرے وہ اپنے ذاتی کمال کے اعتبار سے خود بخودمحمود ہے، اس جملہ کے بعد آسمان و زمین اور اندھیرے، اجالے کے پیدا کرنے کا ذکر فرما کر اس کے محمود ہونے کی دلیل بھی بتلادی کہ جو ذات اس عظیم قدرت و حکمت کی حامل ہے وہی حمدو تعریف کی مستحق ہو سکتی ہے۔
اس آیت میں سموات کو جمع اور ارض کو مفرد ذکر فرمایا ہے، اگرچہ دوسری آیت میں آسمان کی طرح زمین کے بھی سات ہونے کا ذکر موجود ہے، شاید اس میں اس طرف اشارہ ہو کہ سات آسمان اپنی ہیئت و صورت اور دوسری صفات کے اعتبار سے باہم بہت امتیاز رکھتے ہیں، اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کی ہم شکل اور مثل ہیں، اس لئے ان کو مثل ایک عدد کے قرار دیا گیا (مظہری)۔
اسی طرح ظلمت کو جمع اور نور کو مفرد ذکر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ نور تعبیر ہے صحیح راہ اور صراط مستقیم سے اور وہ ایک ہی ہے، اور ظلمٰت تعبیر ہے غلط راستہ کی، اور وہ ہزاروں ہیں (مظہری و بحر محیط)
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آسمانوں اور زمین کے بنانے کو لفظ خلق سے تعبیر کیا گیا ہے اور اندھیرے اجالے کے بنانے کو لفظ جعل سے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اندھیرا اور اجالا، آسمان و زمین کی طرح مستقل قائم بالذات چیزیں نہیں، بلکہ عوارض اور صفات میں سے ہیں، اور ظلمٰت کو نور پر مقدم شاید اس لئے ذکر فرمایا گیا کہ اس جہان میں اصل ظلمٰت ہے، اور نور خاص خاص چیزوں سے وابستہ ہے، جب وہ سامنے ہوتی ہیں روشنی پیدا ہوتی ہے، جب نہیں ہوتیں تو اندھیرا رہتا ہے۔
مقصود اس آیت کا توحید کی حقیقت اور اس کی واضح دلیل کو بیان فرما کر دنیا کی ان تمام قوموں کو تنبیہ کرنا ہے یا تو سرے سے توحید کی قائل نہیں، یا قائل ہونے کے باوجود توحید کی حقیقت کو چھوڑ بیٹھی ہیں۔
مجوس دنیا کے دو خالق مانتے ہیں یزدان اور اہرمن، یزدان کو خالق خیر اور اہرمن کو خلق شرقرار دیتے ہیں، اور انہی دونوں کو نور و ظلمت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔
ہندوستان کے مشرک تینتیس کروڑ دیوتاؤں کو خدا کا شریک بتاتے ہیں، آریہ سماج توحید کے قائل ہونے کے باوجود روح و مادّہ کو قدیم اور خدا تعالیٰ کو قدرت و خلقت سے آزاد قرار دے کر توحید کی حقیقت سے ہٹ گئے، اسی طرح نصاریٰ توحید کے قائل ہونے کے ساتھ حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ کو خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم بنانے لگے، اور پھر عقیدہ توحید کو تھامنے کے لئے ان کو ایک تین اور تین ایک کا غیر معقول نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور عرب کے مشرکین نے تو خدائی کی تقسیم میں یہاں تک سخاوت دکھلائی کہ ہر پہاڑ کا ہر پتھر ان کے نزدیک نوع انسانی کا معبود بن سکتا تھا۔ غرض انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے مخدومِ کائنات اور اشرف المخلوقات بنایا تھا یہ جب راہ سے بھٹکا تو اس نے نہ صرف چاند، سورج، اور ستاروں کو بلکہ آگ، پانی اور درخت، پتھر یہاں تک کہ کیڑوں مکوڑوں کو اپنا مسجود و معبود اور حاجت روا، مشکل کشا بنا لیا۔
قرآن کریم نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو آسمان و زمین کا خالق اور اندھیرے اجالے کا بنانے والا بتلا کر ان سب غلط خیالات کی تردید کردی، کہ نور و ظلمت اور آسمان و زمین اور ان میں پیدا ہونے والی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور بنائی ہوئی ہیں، تو پھر ان کو کیسے خدا تعالیٰ کا شریک وسہیم کیا جاسکتا ہے۔
Top