Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ
: تمام تعریفیں
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
وَجَعَلَ
: اور بنایا
الظُّلُمٰتِ
: اندھیروں
وَالنُّوْرَ
: اور روشنی
ثُمَّ
: پھر
الَّذِيْنَ
: جنہوں نے
كَفَرُوْا
: کفر کیا (کافر)
بِرَبِّهِمْ
: اپنے رب کے ساتھ
يَعْدِلُوْنَ
: برابر کرتے ہیں
تعریف یا شکر کا سزاوار اللہ ہی ہے ‘ جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور بنایا تاریکی اور روشنی کو ‘ پھر تعجب ہے (ان پر) کہ جن لوگوں نے کفر کیا ‘ وہ اپنے رب کے ہمسر ٹھہراتے ہیں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ 5 ط ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ ۔ (الانعام : 1) (تعریف یا شکر کا سزاوار اللہ ہی ہے ‘ جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور بنایا تاریکی اور روشنی کو ‘ پھر تعجب ہے (ان پر) کہ جن لوگوں نے کفر کیا ‘ وہ اپنے رب کے ہمسر ٹھہراتے ہیں) جب یہ سورة نازل ہوئی ہے ‘ اس وقت دنیا میں غالب قوت بے خدا تہذیب تھی ‘ یعنی ایک ایسی تہذیب ‘ جو ان تصورات سے وجود میں آئی تھی ‘ جس میں اللہ کے وجود کا کوئی تصور نہیں تھا یا اللہ کے وجود کو تسلیم کیا بھی جاتا تھا تو اس کے تصور حاکمیت کا تو دور دور تک کوئی تصور موجود نہ تھا۔ وہ اللہ کو آسمانوں کا رب سمجھتے تھے۔ زمین کے رب انھوں نے نجانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے بنا رکھے تھے۔ مذہبی طور پر وہ کسی بھی رب کو تسلیم کرتے ‘ لیکن عام معاشرتی ‘ سیاسی اور اجتماعی زندگی میں ایک ہی معبود تھا ‘ جس کی ساری دنیا میں پوجا ہو رہی تھی ‘ وہ ‘ وہ تھا جسے ہم مادہ ‘ دنیا ‘ دولت دنیا ‘ طاقت ‘ عزت ‘ پر سٹیج ‘ معیار زندگی ‘ شہرت اور حکومت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی کا سکہ چلتا تھا اور اسی کی طاقت اور حکومت کے سامنے سب سرنگوں ہوتے تھے۔ فکر یہ نہیں تھی کہ انسانیت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ ہم جس کا کھاتے ہیں اور جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے ‘ ہم اپنے اس خالق ومالک کے بارے میں بھی کبھی سوچیں کہ وہ کون ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے ؟ آخر اس زندگی کا انجام کیا ہے ؟ کونسی منزل ہے ‘ جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں ؟ لیکن اہل دنیا کو ان باتوں کے سننے کا ہوش نہ تھا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہی وہ حقائق ہیں جن سے اس دنیا میں بھی انسانیت زندہ ہے اور انسان کا مستقبل محفوظ ہے اور قیامت میں انہی تصورات کے صحیح حل پر ہماری کامیابی کا دارومدار ہے۔ قرآن کریم نے انہی تصورات کو انسانوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی اور جیسا کہ اس سورة کے تعارف میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ان تصورات میں سب سے بنیادی تصور یا عقیدہ ‘ عقیدہ توحید ہے ‘ جس سے باقی عقائدیا تصورات خود بخود پھوٹتے ہیں ‘ اس لیے اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے اسی عقیدے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ سورة کا آغاز ” الحمد “ سے کیا جا رہا ہے۔ ” حمد “ کا معنی ہے ” ثنائے جمیل “۔ یعنی اچھی صفتیں بیان کرنا۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ حمد نہ ہوگی ‘ حمد پر الف لام ہے ‘ یہ استغراق کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور جنس کے لیے بھی۔ اس صورت میں الحمد اللہ کے معنی یہ ہوں گے کہ حمد وثناء میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جاسکتا ہے ‘ وہ سب اللہ ہی کے لیے ہے کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ مشرکین مکہ کے اللہ کے متعلق تصورات ” حمد “ کے لفظ سے پروردگار کے بارے میں ایک بڑی غلط فہمی کا ازالہ بھی مقصود ہے۔ نزول قرآن کے وقت لوگوں میں جو گمراہیاں پائی جاتی تھیں ‘ ان میں ایک گمراہی یہ تھی کہ وہ اللہ کی الوہیت اور بادشاہوں کی بادشاہت کو آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ سمجھتے تھے۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام دینے لگتا ہے ‘ کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے ‘ اس لیے خیال کرتے تھے کہ اللہ کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے ‘ کبھی غیض و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاوئوں کی رسم ‘ اسی اعتقاد سے وجود میں آئی۔ لوگ دیوتائوں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ انسانوں کو چونکہ بالعموم مصیبتوں سے واسطہ رہتا ہے ‘ لہٰذا وہ اسے اللہ کی ناخوشی کا اظہار جان کر اللہ سے ہمیشہ ڈرتے اور اسے ایک ہولناک ذات تصور کرتے۔ وہ سمجھتے کہ جس ذات کی ناخوشی کی وجہ سے بجلیاں کڑکتی اور کوندتی ہیں ‘ بادل گرجتے اور درندے دھاڑتے ہیں ‘ وبائیں پھوٹتی ہیں ‘ آب و آتش کبھی بےقابو ہو کر موت کی تباہیاں لاتے ہیں ‘ خود وہ ذات کس قدر غضبناک اور ہولناک ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں ” الحمد “ کا لفظ لا کر یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ ” حمد “ اگر ثنائے جمیل کو کہتے ہیں تو ثنائے جمیل تو کسی جمیل کی ہوسکتی ہے ‘ کسی ہولناک کی تو نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کی تعریف خوبصورت ہے تو وہ خود کتنا خوبصورت ہوگا۔ خوبصورت ذات سے پیار کیا جاتا ہے ‘ ڈرا تو نہیں جاتا۔ چناچہ اس عقیدہ کی اصلاح کے لیے قرآن نے جابجا واضح کیا کہ اللہ اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے اور سچی عبودیت اسی کی عبودیت ہے جس کے لیے معبود صرف معبود ہی نہ ہو بلکہ محبوب بھی ہو اور کافر اور مومن میں فرق یہ بتایا کہ کافر ہمیشہ اپنے معبودوں کو اس طرح پیار کرتے ہیں جیسے اللہ سے پیار کرنا چاہیے اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے۔ فرمایا : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ط (البقرہ : 165) (جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ‘ ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے) مزید یہاں تک فرمایا کہ اگر تم اللہ سے محبت کا حق ادا کرو اور حق ادا کرنے کی صورت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خود پروردگار تم سے محبت کرے گا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایک فانی انسان کے لیے اس سے بڑھ کر بھی کوئی اعزاز کی بات ہوسکتی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ َ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ ُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوبَکُمْ ط وَ اللہ ُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔ (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہہ دو ‘ اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو (میں تمہیں محبت الٰہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہوجاؤ گے بلکہ خود) اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے “ (اٰل عمران : 31) اللہ کی ذات کے بارے میں ‘ اس کے ہولناک اور ہیبت ناک ہونے کا تصور ‘ ایک اور غلط فہمی سے بھی پیدا ہوا۔ پہلی آسمانی کتابوں میں اور خود قرآن کریم میں بھی بار بار فرمایا گیا اتقوا اللہ ” اللہ سے ڈرو “۔ لوگوں نے اس سے یہ سمجھا کہ اس سے مراد شاید اللہ کی ذات سے ڈرنا ہے کیونکہ وہ ایک ہیبتناک اور ہولناک ذات ہے ‘ جو جابر و قاہر بادشاہوں کی طرح ‘ بات بات پر بگڑتی اور لوگوں کو سزائیں دیتی ہے حالانکہ اس کا مفہوم ہرگز یہ نہیں تھا۔ اس کا نہایت واضح مفہوم یہ ہے کہ اللہ تمہاری محبوب ذات ہے ‘ تم اس سے عشق و محبت کا دعویٰ رکھتے ہو ‘ جس سے محبت کی جاتی ہے ‘ اس کی ایک ایک ادا اور ایک ایک اشارے پر جان نچھاور کی جاتی ہے ‘ اس کے بارے میں یہ تصور بھی ممکن نہیں ہوتا کہ اپنی کسی بات پر اسے ناراض ہونے کا موقع دیا جائے۔ اس لیے تمہیں بھی چاہیے کہ اپنے اللہ کے احکام کی اطاعت اور اس کے قرب کے حصول کی خواہش میں کبھی کوئی ایسا کام نہ کرنا ‘ جس سے پروردگار تم سے ناراض ہوجائے۔ ظاہر ہے ‘ یہ ناراضگی اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ تمہاری اپنی پیدا کردہ ہوگی۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ تمہیں جو اللہ سے ڈرنے کو کہا جاتا ہے ‘ وہ اس لیے نہیں کہ اللہ بادشاہوں کی طرح بلاوجہ ناراض ہوتا ہے بلکہ اس سے ڈرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک عادل ذات ہے۔ اس کی صفت عدل کا تقاضہ ہے کہ وہ نیک اعمال پر جزاء کی صورت میں رحمت کا معاملہ فرمائے اور بد اعمالیوں پر سزا دے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو نظام عالم تہہ وبالا ہو کر رہ جائے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے جو ایک نظام بخشا ہے ‘ جسے ہم اسلامی شریعت کہتے ہیں ‘ اس کی پابندی خواب و خیال ہو کر رہ جائے۔ جس قانون کی اطاعت پر خوشنودی نہیں ملتی اور اس کی معصیت پر سزا کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا ‘ دنیا میں احمق سے احمق آدمی بھی اس کی پابندی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اب اگر اللہ تعالیٰ اپنے دیئے ہوئے نظام کے بارے میں ‘ اس صفت عدل کے تقاضے کو بروئے کار نہ لاتا تو نظام عالم کے ساتھ ساتھ خود انسانی زندگی درہم برہم ہوجاتی۔ کسی کا کوئی حق محفوظ نہ رہتا ‘ کسی کی جان مال ‘ عزت آبرو کا کوئی تحفظ نہ ہوتا۔ اللہ کی رضا جوئی اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے کی کسی کو فکر نہ ہوتی۔ قاتل کو قتل سے کوئی نہ روک سکتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا کہ قتل کرنے کے نتیجے میں اسے کوئی سزا نہیں ملے گی اور اللہ کے راستے میں کوئی قربانی نہ دیتا۔ کوئی کبھی سر کٹوانے کو تیار نہ ہوتا کیونکہ اسے خوب معلوم ہوتا کہ یہاں اجر وثواب اور بدلے کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے پروردگار ‘ جب یہ کہتا ہے کہ ” لوگو ! اللہ سے ڈرو “ تو مطلب یہ ہے کہ بداعمالیوں کے انجام سے ڈرو۔ مزید یہ بات بھی کہ اللہ نے دنیا میں ایک قانون مکافات کو مستقل حیثیت سے جاری وساری فرمایا ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسری تمام مخلوقات حتیٰ کہ عناصر کائنات میں بھی اس مکافات عمل کے قانون کو ہم جابجا جاری وساری دیکھتے ہیں یعنی اس نے ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ مقرر کیا ہے اور جو چیز بھی اپنا وجود رکھتی ہے ‘ وہ اپنے اثرات و نتائج بھی رکھتی ہے تو جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھے ہیں ‘ اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں ‘ اسی طرح روح انسانی کے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں ‘ معنوی مؤثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرتی خواص و نتائج ہیں ‘ جن سے بچنے کے لیے اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ اللہ ہی کا مقرر کردہ قانون ہے تو اس قانون کی گرفت سے ڈرنا ‘ گویا اللہ سے ڈرنا ہے۔ ہمیں چونکہ اس مکافات عمل کے قانون کا صحیح احساس نہیں اس لیے ہم بار بار اعمال کی جزا و سزا میں الجھ کر رہ جاتے ہیں حالانکہ قرآن کریم اسی کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے اور پھر یہ بات ایسی ہے کہ جس کی مثالیں ہماری گردوپیش میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ مثلاً آگ جلاتی ہے ‘ پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے ‘ سنکھیا کھانے سے موت ‘ دودھ سے طاقت آتی ہے ‘ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیاء کی ان تمام مکافات پر ہمیں تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ ہماری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کی مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے ؟ افسوس ہم اپنے فیصلوں میں کتنے ناہموار ہیں۔ ہم گیہوں بوتے ہیں اور ہمارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی ہم سے کہے کہ ممکن ہے ‘ گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے تو ہم اسے پاگل سمجھیں گے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ فطرت کے قانونِ مکافات کا یقین ہماری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر ‘ اس کے بدلے جوار دے دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ پھر بتائو ! جو فطرت ‘ گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی ہے کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو۔ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآئً مَّحْیَاھُمْ وَ مَمَاتَھُمْ ط سَآئَ مَا یَحکُمُوْنَ ۔ وَخَلَقَ اللہ ُ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضَ بِالْحَقِّ وَ لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ۔ (الجاثیہ : 22-21) (جو لوگ برائیاں کرتے ہیں ‘ کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انھیں ایسے لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے اعمال اچھے ہیں ؟ دونوں برابر ہوجائیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی ؟ اگر ان لوگوں کی فہم و دانش کا یہی فیصلہ ہے تو افسوس ان کے اس فیصلے پر !۔ اور اللہ نے زمین اور آسمان کو بےکار اور عبث نہیں بنایا ہے بلکہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ ملے اور یہ بدلہ ٹھیک ٹھیک ملے گا کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا) ” حمد “ کے لفظ سے ان حقائق کو منکشف فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا : خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّوْر ( اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور ظلمتوں اور نور کو وجود بخشا) آیت کریمہ کے اس ٹکڑے میں دو باتوں کا ذکر فرمایا گیا۔ ایک اللہ کے وجود کا اثبات اور دوسرا ‘ اللہ کے ساتھ ہر طرح کے شرک کی تردید۔ قرآن کریم کا مکی سورتوں میں طرز استدلال یہ ہے کہ وہ عقل ‘ فطرت اور شواہد قدرت سے دلائل بہم پہنچاتا ہے اور کبھی مشرکین مکہ کے مسلمات کو بنائے دلیل بنا کر دلیل کی عمارت اٹھاتا ہے۔ ان آیات میں ان دونوں طریقوں سے دلائل مہیا فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اس آیت کی روشنی میں ‘ اللہ کے وجود پر گفتگو کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ اگرچہ اللہ کے وجود کے قائل تھے۔ کیونکہ اللہ کے وجود کا انکار گزشتہ صدی کے کیمونسٹوں کے سوا تاریخ انسانی میں شاید کبھی بھی کسی قابل ذکر گروہ نے نہیں کیا۔ البتہ اس کے ساتھ شرک عموماً کیا گیا۔ لیکن پروردگار کا کرم یہ ہے کہ وہ جن آیات میں شرک کی تردید کرتا ہے ‘ عموماً انہی آیات میں اپنے وجود پر استدلال بھی کرتا ہے۔ اس آیت میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بظاہر تو اس آیت میں شرک کی تردید کی گئی ہے اور اس کے لیے عقلی استدلال سے بھی کام لیا گیا ہے اور مشرکین کے مسلمات سے بھی۔ لیکن اشارۃً اپنے وجود پر بھی دلیل ارشاد فرمائی ہے۔ وہ اس طرح کہ انسانوں کے پاس کسی چیز کے جاننے کے دو ذریعے ہیں۔ -1 حواس ‘ -2 عقل۔ ” حواس “ سے مراد ہے دیکھنے ‘ سننے ‘ چکھنے ‘ سونگھنے اور چھونے کی قوت۔ ہم محسوسات کی دنیا میں انہی پانچوں ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ جن چیزوں کا تعلق مشاہدات سے ہے ‘ انھیں ہم دیکھ کر جانتے ہیں۔ جن کا تعلق مسموعات سے ہے ‘ انھیں ہم سن کے سمجھتے ہیں۔ جن چیزوں کا تعلق ملموسات سے ہے اسے ہم چھو کر جانتے ہیں۔ جن چیزوں کا تعلق خوشبویات سے ہے ‘ انھیں ہم سونگھ کر معلوم کرتے ہیں اور جن چیزوں کا تعلق ماکولات سے ہے ‘ ان کا ہم چکھ کر یقین کرتے ہیں۔ غور فرما لیجئے ! ہمارے پاس تمام معلومات کے لیے یہی پانچ طریقے ہیں ‘ لیکن کتنی ایسی باتیں ہیں ‘ جو ان پانچ ذرائع سے ہمیں معلوم نہیں ہوتیں۔ ان کے جاننے کا ہمارے پاس ذریعہ عقل ہے۔ لیکن عقل کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ حواس خمسہ سے بےنیاز ہو کر کوئی نئی چیز دریافت کرے بلکہ وہ انہی کی مہیا کردہ معلومات سے استنباط اور استخراج کے ذریعے نئی ایجادات یا نئی معلومات فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کا دائرہ کار حواس خمسہ کی طرح عالم محسوس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ حواس خمسہ کا کام مزدوروں جیسا ہے اور عقل کا کام معمار جیسا۔ جس طرح مزدور کسی بھی عمارت کے لیے مٹیریل فراہم کرتے ہیں اور معمار اس میٹیریل سے ایک عمارت بنا کر کھڑی کردیتا ہے ‘ جس سے مزدوربالکل بیخبر ہوتے ہیں۔ اسی طرح عقل بھی حواس خمسہ کے مہیا کردہ مٹیریل یعنی معلومات سے استنباط اور استخراج کے ذریعے ‘ نئی چیزیں وجود میں لاتی ہے ‘ جس سے حواس خمسہ بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں میں ایسا گہرا رشتہ ہے کہ عقل کی دریافت کردہ کوئی چیز ‘ حواس خمسہ کی مہیا کردہ معلومات سے غیر متعلق نہیں ہوسکتی۔ یہ ممکن نہیں کہ حواس خمسہ کسی اور طرح کی معلومات مہیا کریں اور عقل بالکل ایک نئی دنیا سامنے لا رکھے بلکہ اسی طرح ‘ جس طرح مزدور جیسا میٹریل فراہم کرتے ہیں ‘ معمار ویسی ہی عمارت بناتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ مزدور تو کچی اینٹیں ‘ روڑے اور گارا فراہم کریں اور معمار تاج محل بنا کر کھڑا کر دے۔ یہی حال عقل اور حواس خمسہ کا ہے چونکہ انسان کے پاس یہی دونوں علم کے ذرائع ہیں۔ اس لیے جب کبھی اسے ایسی چیز سے واسطہ پڑتا ہے ‘ جس کا تعلق عالم محسوس سے نہ ہو تو اس کا علم بےبس ہو کر اپنی بےبسی کے اعتراف کی تصویر بنا کھڑا رہ جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر اللہ کے وجود کا مسئلہ ہے کہ کیا واقعی پروردگار کا وجود ہے یا نہیں۔ چناچہ جب ہم ان دونوں ذرائع سے اس سلسلے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہماری کوئی مدد نہیں کرتے کیونکہ ان دونوں کا تعلق عالم محسوس سے ہے اور اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ذات ہے ‘ ایک لامحدود ذات ہے جبکہ حواس اور عقل محدود ہیں۔ اس لیے ہم لاکھ کوشش کریں ‘ لامحدود ذات کو اپنے محدود دائرے میں لانے سے عاجز ہیں۔ جس طرح ایک حوض کا پانی گلاس میں نہیں ڈالا جاسکتا اور ایک دریا کو حوض میں بند نہیں کیا جاسکتا حالانکہ یہ دونوں محدود ہیں۔ پھر اللہ کی ذات جو کہ غیر محدود ہے ‘ اسے عقل کے تنگ دامن میں کس طرح سمیٹا جاسکتا ہے۔ اکبر مرحوم نے ٹھیک کہا ؎ جو ذہن میں گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا مشکل یہ ہے کہ پروردگار کے وجود پر یقین لانا عقیدہ توحید کی پہلی کڑی ہے اور عقیدہ توحید پورے دین کی بنیاد ہے اور ہمارے دونوں علمی ذرائع ‘ اس گتھی کو سلجھانے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر رہے تو آخر اس مشکل کو حل کیسے کیا جائے ؟ چناچہ اسی گتھی کو سلجھانے کے لیے اللہ کے پیغمبر آئے ‘ ان پر اللہ کی کتابیں اتریں اور اس آیت کریمہ نے بھی اسی گتھی کو سلجھانے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے علم و معرفت کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے ‘ وہ یہ کہ اللہ کو جاننے کا طریقہ یہ ہرگز نہیں کہ اسے حواس اور عقل کی مدد سے جانا جائے بلکہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی صفات کی مدد سے ‘ اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ پروردگار کی معرفت تو ایک مشکل بات سہی ‘ لیکن جن لوگوں کو ہم علم و معرفت کے حوالے سے ‘ اخلاق کی بلندی کے حوالے سے ‘ کارہائے نمایاں کے حوالے سے ‘ انکشاف اور اکتشاف کے حوالے سے اور ایجاد و اختراع کے حوالے سے عظمت کا مینار سمجھتے ہیں ‘ غور کرو ! ان کو جاننے کا طریقہ کیا ہے ؟ کیا کسی بڑے آدمی کو دیکھنے سے ‘ اس کی حقیقی عظمت نظر آجاتی ہے ؟ کیا کسی موجد کو دیکھنے سے ‘ اس کی قوت ایجاد دکھائی دے دیتی ہے ؟ کیا کسی معمار کو دیکھنے سے ‘ اس کا وہ جوہر جو پتھر کو آئینے کی شکل دیتا ہے ‘ نظر آجاتا ہے ؟ کیا اگر تمہارے سامنے بقراط اور سقراط اور افلاطون کو لاکرکھڑا کردیا جائے یا ارسطو ‘ مجسم شکل میں تمہارے سامنے آجائے یا لقمان کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو کیا وہ جوہر جس کی وجہ سے دنیا میں ان کا نام ہے ‘ وہ تمہاری آنکھوں کے راستے سے تمہارے علم کا حصہ بن جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ یہ سارے عام انسانوں جیسے ‘ انسان تھے۔ ان کو دیکھوگے تو صرف ایک انسان کے سراپاکو دیکھوگے۔ ان کی حقیقت عظمت اور حقیقی معرفت کو کبھی نہ پا سکو گے کیونکہ ان کو جاننے کا صحیح راستہ انھیں دیکھنا نہیں بلکہ ان کی صفات کو جاننا ہے۔ معمار اپنی تعمیر میں ‘ شاعر اپنے شعر میں ‘ ناظم اپنے نظم میں ‘ ادیب اپنے ادب میں ‘ خطیب اپنی خطابت میں ‘ فلسفی اپنے فلسفہ میں اور مفکر اپنی فکر میں نظر آتا ہے۔ یہ معرفت کا وہ صحیح طریقہ ہے جو حقیقی معرفت کا سراغ دیتا ہے۔ بالکل اسی طریقہ سے تم اپنے خالق ومالک کو جان سکتے ہو۔ وہ خالق ہے تو اس کی صفت تخلیق میں اسے دیکھو ‘ وہ مالک ہے تو اس کی ملک میں اسے جانو ‘ وہ رازق ہے تو اس کی رزق رسانی میں اسے تلاش کرو ‘ وہ رحیم ہے تو اس کے رحم و کرم کے آئینے میں اسے ڈھونڈو۔ اس طرح تمہیں ہوا کا ایک جھونکا ‘ پانی کی ایک بوند ‘ روشنی کی ایک کرن ‘ درخت کے ایک ایک پتے کی ساخت اور پھول کی ایک ایک پنکھڑی ‘ حتیٰ کہ خود انسان کی اپنی ذات ‘ اس کی خبر دیتی ہوئی معلوم ہوگی۔ یہی وہ طریقہ ہے ‘ جس سے فی الجملہ اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور اس کی ذات کا یقین پیدا ہوتا ہے اور اسی سے حواس و خرد کی پیدا کردہ کوتاہیوں اور گمراہیوں کا بہت حد تک ازالہ ہوجاتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے اسی طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے جا بجا اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی قدرتوں کو ذکر کیا۔ ایک دانہ گندم کو اگانے کے لیے ‘ جس طرح پروردگار کی صفات کا ظہور ہوتا ہے اور اس کی قدرت کی نمود ہوتی ہے ‘ قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اس کا ذکر کیا گیا۔ اقبال نے انہی آیتوں کا ایک معنی خیز ترجمہ کیا ‘ جس سے ہم بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ صفات کے ذریعے موصوف کو سمجھنا یہی اصلاً صحیح طریقہ ہے اور باقی تمام وضعی طریقے ‘ وہ صفات سے خالی اور فانی مخلوقات کو سمجھنے میں تو معاون ہوسکتے ہیں ‘ لیکن اس میں نہیں۔ اقبال کہتا ہے ؎ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب ان تمام سوالوں کا جواب اس کے سوا اور کیا ہے کہ وہ اللہ کریم کی ذات ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے پروردگار کو کیسے پہچانا ؟ فرمایا : شہتوت کے پتے سے۔ پوچھنے والے نے حیران ہو کر کہا کیا مطلب ؟ آپ نے فرمایا : شہتوت کا پتہ بکری کھاتی ہے تو مینگنی کردیتی ہے ‘ ریشم کا کیڑا کھاتا ہے تو ریشم پیدا کرتا ہے اور ختن کا ہرن کھاتا ہے تو اس کی ناف سے کستوری نکلتی ہے۔ اگر شہتوت کے پتے میں بجائے خود کوئی صلاحیت ہوتی تو وہ ہر جگہ یا مینگنی بنتا یا ریشم بنتا اور یا کستوری۔ لیکن کسی جگہ ریشم ‘ کسی جگہ کستوری اور کسی جگہ گوبر ‘ معلوم ہوتا ہے ‘ یہ پتے کی خصوصیت نہیں بلکہ کوئی اور ہاتھ ہے ‘ جو یہ کام کر رہا ہے ‘ وہ ہاتھ میرے اللہ کا ہاتھ ہے۔ ” اللہ “ وحدہ لا شریک ہے دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں کہی گئی ہے ‘ وہ اس کائنات کے خالق کے ساتھ مخلوق کو شریک ٹھہرانا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں شاید ہی کوئی قوم ایسی گزری ہو ‘ جس نے اللہ کی ذات وصفات میں مخلوق کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔ ہمارے قریبی ہمسائے میں ہندو رہتے ہیں ‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے شرک کی کیفیت یہ ہے کہ انھوں نے ہر اس قوت کے سامنے سر جھکایا ‘ جس سے انھیں خوف محسوس ہوا یا نفع کی امید ہوئی۔ چناچہ ہر وہ چٹان ‘ جو ان کے راستے میں حائل ہوئی۔ ہر وہ دریا ‘ جس کی طغیانی نے ان کے دل کو دھلایا اور ہر زہریلا جانور ‘ جس سے انھیں خوف محسوس ہوا۔ انھوں نے اس کے سامنے سر جھکا دیا۔ اسی طرح دودھ دینے والی گائے ‘ چمکتا سورج ‘ درخشاں ستارے ‘ سایہ دینے والے درخت ‘ غرض جہاں انھیں نفع کی امید ہوئی ‘ ان کے سامنے وہ عبودیت اور بندگی کے مراسم بجا لائے اور پھر اس پر بس نہیں بلکہ مختلف قوموں نے مظاہرِ فطرت اور مظاہرِ قدرت کی پوجا کی اور بادشاہوں کو صرف اس لیے پوجا کہ وہ خدا کے اوتار ہیں اور بعض قوتوں کو دیوتا مان کر ان کی طرف عجیب و غریب صفات کا انتساب کیا اور عموماً بادشاہوں نے انہی دیوتائوں کی طرف اپنا نسب منسوب کیا اور مذہبی گروہ ‘ ان کی تائید کرتے رہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ فرعون و نمرود جیسے لوگ ‘ ربوبیت کا دعویٰ کرتے رہے اور اسی سے شہہ پا کر لوگوں نے تقدس کا لبادہ اوڑھا اور قسیس و راہب بن کر اپنی پوجا کرانے لگے۔ غرضیکہ ! جب ہم مختلف قوموں کو دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ عیسائی باوجود آسمانی مذہب رکھنے کے ‘ تین خدائوں کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہود نے بھی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا بنا ڈالا اور خود اپنے بارے میں عجیب و غریب تصورات اپنا لیے۔ مجوسیوں نے یزدان اور اہرمن کے نام سے دو خدائوں کی پوجا کی ‘ ہندوئوں نے تینتیس کروڑ خدا بنا ڈالے اور مشرکین عرب نے تو ہر پتھر کو الوہیت کے منصب پر فائز کردیا۔ بعض دفعہ تو اس شرک کے نتیجے میں ایسے ایسے لطیفے دیکھنے میں آتے ہیں کہ آدمی انسانی عقل کے بارے میں بدگمان ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ہندو پانی کو جل دیوتا مانتے ہیں اور آگ کو بھی دیوتا قرار دے کر اس کی پوجا کرتے ہیں۔ لیکن لطیفے کی بات یہ ہے کہ ایک دیوتا کو چولہے کے اوپر رکھا جاتا ہے اور دوسرے دیوتا کو نیچے جلایا جاتا ہے۔ اوپر والا ابل کر نیچے والے دیوتا پر گرتا ہے تو دونوں بھسم ہوجاتے ہیں۔ ہر گھر میں روزیہ تماشہ ہوتا ہے ‘ لیکن یہ شرک ختم ہونے میں نہیں آتا اور ان دیوتائوں کے بارے میں کوئی بدگمان نہیں ہوتا۔ آخر ایسی انسانی عقل کے بارے میں بدگمانی نہ ہو تو اور کیا ہو۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان جب اکڑنے پہ آتا ہے تو اللہ کے سامنے اکڑ جاتا ہے اور جب جھکنے پہ آتا ہے تو پتھروں کے سامنے جھک جاتا ہے اور اپنے جیسے انسانوں کی پوجا کرنے لگتا ہے ؟ قرآن کریم نے اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور تمام فکری قوتیں ‘ جو انسانی زندگی میں روشنی کی طرح ہیں اور تمام جہالتیں ‘ کج رویاں اور گمراہیاں اندھیروں کی مانند ہیں۔ انسانی ضرورت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو روشنی اگرچہ اس کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن تاریکی بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ان تمام کا خالق صرف پروردگار عالم ہے اور اس کے مقابلے میں ہر چیز مخلوق ہے ‘ چاہے وہ مظاہرِ قدرت و فطرت ہوں ‘ چاہے وہ تخت پر فائز بادشاہ ہوں ‘ چاہے تقدس کے دعویدار مذہبی پیشوائوں ‘ چاہے اس کائنات کی کوئی بھی قوت ہو ‘ وہ بہرحال مخلوق ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک مخلوق خالق کی ہمسر ہوسکتی ہے ؟ اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو انسانو ! تم نے اللہ کے ساتھ مخلوقات کو شریک کیوں کر رکھا ہے ؟ اس پر اظہار تعجب کرتے ہوئے پروردگار فرماتا ہے : ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ ۔ (پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے ‘ اپنے رب کے ہمسر بناتے ہیں) ثُمَّ اظہار تعجب کے لیے بھی آتا ہے۔ اس پر پروردگار تعجب کا اظہار فرما رہے ہیں کہ ایسی بےعقلی کی بات شاید ہی کبھی کسی نے سوچی ہو کہ مخلوق کو خالق کے برابر لا کر بٹھا دیا جائے۔ اسی آیت میں اگر مزید غور کیا جائے تو اللہ کی وحدانیت پر بھی اس میں دلیل دکھائی دیتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ نے جو بیشمار مخلوقات پیدا فرمائی ہیں۔ ان میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں ان میں تضاد اور تخالف نظر آتا ہے یعنی اپنی صفات میں وہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ اسی آیت میں دیکھ لیجئے آسمان اور زمین بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ظلمت اور نور بالکل ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ لیکن اس کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے ‘ ان میں ایک حیرت انگیز سازگاری پائی جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا وجود دوسرے کے لیے ناگزیر ہے اور اگر ان میں سے ایک کا وجود ختم کردیا جائے تو دوسرے کی شخصیت نہ صرف کہ نامکمل رہ جائے بلکہ وہ اپنی اصل حیثیت ہی کھو بیٹھے۔ اس لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس تضاد کے باوجود ‘ ان میں جو باہمی توافق اور سازگاری پائی جاتی ہے کہ کائنات کے مجموعی مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے سب ایک دوسرے کے ممدومعاون ہیں ‘ مثلاً ایک دانہ گندم ہی کو دیکھ لیجئے۔ ایک کسان اس کو زمین میں دفن کردیتا ہے۔ زمین کی قوت روئیدگی اس کو زمین سے باہر لاتی ہے اور اسے پروان چڑھاتی ہے۔ آسمان سے پانی برستا ہے تو اس زمین کی آبیاری کا سامان ہوتا ہے۔ سورج کی کرنیں سمندر سے پانی کے ڈول بھر بھر کے کھینچتی ہیں اور ابر کی چادریں بچھاتی ہیں اور ہوا ان چادروں کو کھینچتے ہوئے کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ موسم کے تغیرات ‘ پودوں کو پکانے اور لہکانے میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ سورج اور چاند ‘ اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ سارے مل کر ایک دانہ گندم کی تیاری میں باوجود متضاد ہونے کے ‘ جس طرح ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر اس کائنات کا مالک ایک اللہ کے سوا کوئی اور بھی ہوتا تو یہ توافق تخالف کے اندر اور یہ سازگاری تضاد کے اندر کہاں سے وجود میں آتی بلکہ ان متضاد قوتوں کو مختلف خدا ‘ اپنی طرف کھینچتے تو اس کے نتیجے میں زمین و آسمان تباہ و برباد ہوجاتے۔ مختصر یہ کہ اس آیت کریمہ میں انتہائی خوبصورتی سے عقیدہ توحید کو بیان کیا گیا ہے ‘ جس میں اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کیساتھ ساتھ کس طرح عقلی انداز میں شرک کی تردید فرمائی گئی اور پھر کس قدر حکیمانہ طریقے سے اللہ کی وحدانیت پر استدلال فرمایا گیا ہے۔ دوسرا عقیدہ جس پر قرآن زیادہ زور دیتا ہے اور اللہ کے نبی ہمیشہ اس کی تاکید فرماتے رہے ‘ وہ ہے ” عقیدہ آخرت اور انسان کی اصل حیثیت “۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی موضوع کو چھیڑا گیا ہے۔
Top