بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
تمام خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور (روشنی) کو بنایا پھر بھی کافر (دوسروں کو) اپنے پروردگار کے برابر قرار دیتے ہیں
رکوع نمبر 1 ۔ آیات 1 تا 10 ۔ اسرار و معارف : توحید کے عقلی دلائل : انسانی علوم کی حدود زمینوں اور فضا کی مختلف تبدیلیوں تک محدود ہیں وہ بادلوں کی سیر کرے یا ستاروں پہ کمندیں ڈالے بہرحال آسمان ایک ایسی بلندی ہے جس کو عبور نہیں کرسکتا تختہ زمین ایسی کتاب ہے جس کے عجائبات کو پڑھ کر تمام نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا ہر آنے والا دور اپنے جلو میں کوئی نئی تحقیق لاتا ہے نیا قانون یا اصول دریافت ہوتا ہے پھر اس کے مطابق دنیا کی اشیا سے انسان استفادہ کرتے ہیں مگر یہ ساری تگ وتاز سینہ خاک آلود پر ہے فضا میں ہے پھر روشنی اور اندھیرے اپنے اثرات پیدا کرتے رہتے ہیں بعض اشیاء اندھیرے کی کاوش اور بعض روشنی کی محنت کا پھل ہوتی ہیں قطرہ سیپ کی تاریکی میں چھپ جائے تو موتی بن جاتا ہے اور زمین کی تہہ میں دبے ہوئے دانے کو سورج کی شعاع نمو عطا کرتی ہے نیز دھوپ پھلوں کو پکاتی ہے تو ٹھنڈی چاندنی مٹھاس بھر دیتی ہے غرض یہ جہانِ رنگ و بو مٹی ، اندھیروں اور اجالوں کا کرشمہ ہے جس کی حدود آسمان کے اندر ہیں اب سوچئے کہ وہ ذات کسی قدر عظیم اور لائق حمد و ستائش ہے ہے جو نہ صرف زمین کی خالق ہے اس کی تمام خصوصیات کے ساتھ بلکہ اندھیرے اجالے بھی اسی کے پیدا کردہ ہیں پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مخلوق میں کوئی کمال یا عجیب بات دیکھ کر یہ کفار وہاں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور وہ عظمت جو صف اس ذات کا حق ہے جو ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والی ہے اسے دوسروں پر ناحق تقسیم کرنا چاہتے ہیں حلان کہ ایسا ہونا ممکن بھی نہیں کہاں خالق کل کی عظمتیں اور کہاں مخلوق بیچاری ہر آن ہر گھڑی محتاج کتنی خوبصورت دعوت ہے کہ اگر ذرا فکر کرنا نصیب ہو تو آدمی کبھی مخلوق کو خالق کے برابر نہ جانے۔ یہ تو ایک بہت بڑا جہان تھا اسے عالم کبیر کہیے اور عالم صغیر کی بات کرتے ہیں خود تمہارے جسم کے اندر ایک جہان آباد ہے ہاں یہ جسم جسے اللہ نے مٹی سے بنایا مٹی کو نطفے کا نطفے کو بدن کا روپ دیا اور مسلسل مٹی کی تہیں مختلف غذاؤں کی شکل میں اس پر چڑھاتا چلا گیا کہ ایک خوبصورت تنومند جوان بن گیا اب اس میں کس قدر عجائبات ہیں عالم کبیر کی طرح اس کے اپنے عجائبات ہیں ہاتھوں کے کمالات دیکھیں پاؤں کے رگوں اور نسوں کا کام دیکھیں پٹھھوں کا مطالعہ کریں قلب و جگر کا فعل دیکھیں معدے کی ہر آن پکتی ہوئی بھٹی کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی پہ غور کریں زبان کی قوت گویائی کا اندازہ کرلیں کیا سب کچھ حیرت انگیز نہیں ہے تو کیا تم ان میں سے ہر عجیب بات اور عضو کی حرکت پہ اسے معبود ماننے لگو گے اگر ایسا کرو گے تو موت تمہارا یہ وہم نکال دے گی جب آنکھیں بےنور ہاتھ پاؤں بےحس زبان خاموش دل بےآواز اور معدہ کام چھوڑ چکا ہوگا اور یہ تماشہ ہر آن تمہارے گرد ہوتا ہے جس طرح اس عالم صغیر پر موت منڈلاتی رہتی ہے اور ہر انسان ایک نہ ایک دن اس کا شکار ہوجاتا ہے ایسے ہی ایک دن عالم کبیر پر بھی مقرر ہے جس کا وقت اللہ ہی کے علم میں ہے جو اس کا خالق ہے لہذا نہ انسان پرستش کے لائق ہے اور نہ اللہ کے سوا کوئی بھی دوسری ہستی اس کی اکیلی ذات تمام خوبیوں کی سزاوار ہے جو ازلی ہے ابدی ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گی جسے کبھی زوال نہیں پھر یہ سب کچھ جب نگاہوں کے روبرو ہے تو اے کفار تمہیں کسی بھی شبہ میں پڑنا زیب نہیں دیتا کہ اللہ نے تمہیں انسانی عقل و خرد سے اور انسانی کمالات سے نوازا ہے اور تم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہو کہ آسمانوں اور زمینوں میں اسی کا حکم جاری ہے اگر کسی بھی دوسری ہستی میں مجال دم زدن ہوتی تو کبھی تو اس نظام میں خلل آتا کہیں کوئی گڑبڑ ہوتی ہر حکومت میں اور ہر سلطنت میں انسانوں کے باغی انسان ہوتے ہیں ا سلیے کاروبار حکومت کو متاثر کرتے رہتے ہیں مگر اس سے بغاوت بھی کرنے والے اس کی برابر نہیں کرسکتے کہ اس کی مخلوق ہیں وہ خالق ہے اس لیے اس کا نظام حکومت کسی کے ماننے یا انکار کرنے سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کا علم اتنا کامل ہے کہ خود انسان کو اگلے لمحے کی خبر نہیں انسان ایک دوسرے سے چھپا کر بات کرتے ہیں مگر وہ سب کچھ ذاتی طور پر جانتا ہے کوئی چھپ کر کرے یا کھلے بندوں ہر عمل سے اس کی ذات واقف ہے۔ استعداد قلبی : کفر ایک ایسا زنگ ہے جو دلوں کو بیکار کردیتا ہے اور اس کا ایک درجہ ایسا بھی ہے کہ پھر دلوں میں قبول حق کی استعداد ہی نہیں رہتی اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ نہ صرف قرآن کے ساتھ ان کا رویہ بےرخی کا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جب اللہ کی طرف سے کوئی بات پہنچی تو انہوں نے مان کر نہیں دی اور اب قرآن حکیم یا محمد رسول اللہ ﷺ کا بھی انکار ہی کر رہے ہے ہیں حالانکہ آپ کی حیات مبارکہ خاندان بچپن ، لڑکپن جوانی سبھی کچھ تو ان کے سامنے ہے کہ مثالی ہے اور اس کافرانہ اور سنگدل اور فاسق و فاجر معاشرے میں بھی آپ ﷺ قبل بعثت بھی پاکباز تھے کہ مشرکین مکہ آپ ﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے ایسا آدمی بھلا جس نے عمر بھر کسی انسان پر جھوٹ نہ بولا ہو وہ یکایک اپنے رب پر جھوٹ بولنے لگا یہ تو محال عقلی ہے اور علمی دلیل یہ ہے کہ چالیس برس تک آپ نے نہ کوئی مدرسہ دیکھا نہ خانقاہ نہ کسی پادری کے شاگرد بنے نہ راہب و جادوگر کے حتی کہ نام مبارک لکھنا نہیں جانتے تھے چالیس برس کے بعد اعلان فرمایا کہ لوگو میرے پاس اللہ کی طرف سے پیغام آیا ہے اور چونکہ اللہ کا کلام ہے لہذا جہاں ہدایت و راہنمائی میں افضل و برتر ہے وہاں علمی و ادبی لحاظ سے بھی بےمثل ہونا ضروری ہے اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی انسان ہو بڑے بڑے ادیب شعراء اور صاحبان فن تم میں موجود ہیں ، ہے کوئی اکیلا یا سب مل کر یا ان معبودان باطلہ کو بھی ملا کر صرف ایک جملہ لکھ دو جو علمی وادبی اعتبار سے بھی اس کے پایہ کا ہو اور باوجود کہ انکار پر جان لڑائے بیٹھے تھے نہ کرسکے اور نہ آج تک کرسکے ہیں اور نہ آئندہ کرسکیں گے اس کے باوجود قبول نہیں کیا بلکہ جب نہ بن پڑا تو مذاق اڑانے لگے فمایا کفار کو ان کے ان کرتوتوں کی پاداش میں بہت جلد عذاب الہی گھیر لے گا اور قرآن کی پیشگوئی پوری ہوئی دنیا میں بھی مشرکین کو ذلت آمیز شکستیں ہوئیں پھر مکہ بھی اور پورا عرب ہاتھ سے نکل گیا اور اسلامی ریاست بن گیا یہود بےبہبود بھی ذلیل و رسوا ہوئے کچھ قتل ہوئے کچھ وطن بدر کیے گئے اور بہت جلدی دنیا کا ھساب چکا دیا گیا آخرت بھی کچھ دور نہیں وہاں بھی کفر کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ ہر گناہ اپنے منطقی انجام کو پاتا ہے : یہ تاجر لوگ ہیں اور سفر کرنا ان کا پیشہ ہے زندگی کا حصہ ہے کیا انہوں نے اقوام عالم کی تباہی کے آثار نہیں دیکھے جو اس کے راستوں میں عبرت کا سامان بن کر دعوت نظارہ دیتے ہیں کیا یہ نہیں سوچتے کہ ان سے پہلے کس قدر اقوام اپنے انجام بد سے دوچار ہوچکی ہیں کبھی وہ بھی زمین پر آباد تھے اور تم سے زیادہ شان و شوکت رکھتے تھے طاقت اور قد و قامت میں تم سے بڑھ کر تھے مال و دولت کی فراوانی تھی آسمان سے بارشیں برستی تھیں تو زمین نہروں سے بھی سیراب ہوتی تھی اور ان کی کھیتیاں سونا اگلتی تھیں تمہارے پاس تو ان کے مقابلے میں نہ قوت ہے نہ شوکت اور نہ مال و زر میں ان کے ہم پلہ ہو مگر گناہ کا اپنا منطقی انجام ہوتا ہے جب انہوں نے برائی کا راستہ اپنا لیا اور کسی صورت باز نہ آئے تو ہم نے انہیں تباہ وبرباد کردیا کھیت ویران نہریں خشک اور مکان کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے بسنے والوں کا نام و نشانمٹ گیا نہ مال و دولت کام آیا اور نہ شان و شوکت عذاب الہی سے بچا سکی۔ عاد وثمود اور مدائن وغیرہکا حال دیکھو در اصل قرآن حکیم کا موضوع تاریخ نہیں اصلاح احوال ہے لہذا اس غرض سے جس قصے کا جتنا حسہ جس جگہ ضروری ہوتا ہے بیان کردیا جاتا ہے اسی لیے ایک ہی بات کے متفرق ٹکڑے مختلف جگہوں پہ ملتے ہیں اس میں بڑا لطیف اشارہ ہے کہ طالب حق کو دنیا کی بات اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے ورنہ خاموشی سے اللہ اللہ کیا کرے اور ایسی باتوں میں وقت صرف نہ کیا جائے جن کا تعلق اخروی فائدے سے نہ ہو ہاں رزق حلال حاصل کرنا یا اصلاح احوال اگرچہ دنیا کے کام ہیں مگر ان سے آخرت بنتی ہے لہذا ان امور پہ گفتگو کرے مگر وہ بھی اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو اور لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی قوموں کی تباہی سے کارگاہ حیات متاثر نہیں ہوئے اللہ کریم فرماتے ہیں ہمارے نظام کو کوئی فرق نہیں پڑا ان کی جگہ دوسرے لوگ پیدا کردئیے ہم روز مرہ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ روزانہ دفن ہو کر ذہنوں سے بھی محو ہوجاتے ہیں اور زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے آگے اور آگے کی طرف اپنی منزل کی طرف جہاں پہنچ کر سب کچھ ختم ہونے کو ہے۔ اہل مکہ کا یہ مطالبہ بھی کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب بھیجی جائے قبول نہ کرنے کا ایک بہانہ ہے ورنہ آپ ﷺ کی ذات گرامی سے بڑی حقیقت اور کیا ہوگی اور اگر ان میں ان کی بات میں خلوص ہوتا تو ایسا ہوجانا ناممکن نہ تھا مگر یہ ایسے لوگ ہیں کہ آسمان سے کتاب آجائے یہ اسے چھو کر ٹٹول کر تسلی کرلیں کہ ہاں واقعی کتاب ہے مھض وہم نہیں تو کہہ دیں گے یہ جادو کا کرشمہ ہے چونکہ ان کا مطالبہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے نہیں یہ صرف آپ کو عاجز اور لاجواب کرنا چاہتے ہیں یہی حال ان کے دوسرے مطالبے کا ہے کہ ہمارے سامنے آ کر فرشتہ بات کرے ان کی یہ بات پہلی بات سے بھی عجیب تر ہے کہ کافر کو اگر فرشتہ یا برزخ یا آخرت نظر آنے لگے تو اس کے بعد اسے مہلت نہیں دی جاتی نہ اس کی توبہ قبول ہوتی ہے کیونکہ موت کے وقت ہر انسان کو کشف ہوجاتا ہے یہ سب مفسرین کرام نقل فرماتے ہیں اور قرآن حکیم میں کفار کے ساتھ موت کے وقت فرشتوں کا باتیں کرنا یا انہیں مارنا وغیرہ مذکورہ ہے مگر اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی جیسے فرعون نے توبہ کی تھی مگر ارشاد ہوا ۔ الان و قد کنت من الکفرین۔ اب توبہ کرتے ہو اور جب توبہ کا وقت تھا اللہ کا رسول (موسی علیہ السلام) توبہ کی دعوت دیتا رہا کفر پر جمے رہے اب قبولیت کا وقت گذر چکا اور اگر یہ ایمان لے آئیں تو مطالبہ فضول ٹھہرا یعنی بحالت کفر فرشتے نظر آنے لگیں تو قصہ ختم پھر انہیں مہلت نہ ملے گی اور مومن ہوں تو پھر مطالبے کی ضرورت نہیں ایک صورت دوسری ہے کہ فرشتہ انہیں بصورت انسان نظر آئے اور فرشتے کو انسانی لباس میں بھیج دیا جائے ایسی صورت میں ان کی ہلاکت کا اندیشہ تو نہیں مگر وہ فرشتہ بھی آپ کے پایہ کا انسان تو نہ بن سکے گا اس کا اپنا مقام ہوگا یہ آپ کی بات تسلیم نہیں کر رہے تو اس کی بات کیا خاک مانیں گے۔ آپ ان کے مذاق سے دل برداشتہ نہ ہوں کہ آپ سے پہلے مبعوث ہونے والے رسولوں کو بھی ایسے ہی حالات سے گزرنا پڑا اور کفار سے جب کوئی بات بن نہ پڑی تو ان سے بھی مذاق کرتے تھے اور انہیں اپنی باتوں سے ایذا پہنچاتے تھے مگر ان کا یہ فعل اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت گراں ثابت ہوا اور جن عذاب کے وعدوں پر وہ ہنسا کرتے تھے انہیں ان عذابوں نے آپکڑا اور ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ و برباد ہوگئے۔ ان کے پاس بھی دو ہی راستے ہیں آپ ﷺ کی اطاعت جس میں امن کی ضمانت بھی ہے اور آبرو کی بھی ہر دو عالم کی کامیابی کا وعدہ ہے یا پھر زلت کی موت شکست اور رسوائی۔
Top