بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا، اس پر بھی جو کافر ہیں وہ اپنے پروردگار کے برابر (دوسروں کو) ٹھہرا رہے ہیں،1 ۔
1 ۔ جیسے عیسائی قومیں مسیح (علیہ السلام) کو، روح القدس کو، مریم (علیہا السلام) صدقہ کو، اور مشرک قومیں اپنے دیوی دیوتاؤں کو، خلق۔ یہاں ایجاد وابداع، یعنی نیست سے ہست کرنے کے معنی میں ہے۔ ای اخترع واوجدوا انشاء وابتدع (قرطبی) (آیت) ” السموت والارض “۔ یہ دونام ان چیزوں کے لیے دیئے گئے جنہیں اصطلاح فلسفہ میں جوہر کہتے ہیں۔ (آیت) ” الظلمت والنور “۔ یہ دونام ان چیزوں کے لیے دیئے گئے، جنہیں اصطلاح فلسفہ میں عرض کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات میں جوہر ہو یا عرض ہر چیز کا بلااستثناء خالق وفاطر وہی ایک ہے، کوئی شے اس کے لئے غیر مخلوق نہیں۔ (آیت) ” خلق السموت والارض “۔ بیسیوں مشرک قوموں نے آسمان اور زمین کو دیوی دیوتا تسلیم کیا ہے۔ (آیت) ” جعل الظلمت والنور “۔ ثنویہ خصوصا مجوس نے نوروظلمت کو مظہر الوہیت مانا ہے۔ اور ان کے خالق الگ الگ مانے ہیں۔ (آیت) ”’ جعل “۔ یہاں آیت) ” خلق “۔ کا مرادف ہے اور اسی لئے صرف ایک مفعول کے ساتھ آیا ہے۔ قال النحاس جعل بمعنی خلق واذا کانت بمعنی خلق لم تتعد الا الی مفعول واحد (قرطبی) (آیت) ” الظلمت “۔ کے صیغہ جمع اور النور کے صیغہ واحد میں اشارہ اس طرف ہے کہ گمراہیاں ایک نہیں بہت سی ہوسکتی ہیں۔ اور راہ حق صرف ایک ہی ہے۔ دونوں نقطوں کے درمیان خطوط مخنی بیشمار ہوسکتے ہیں۔ خط مستقیم ایک ہی ممکن ہے۔ (آیت) ” ثم “ یہاں ‘” اس کے باوجود “ یا ” اس پر بھی “ کے معنی میں ہے۔ قال ابن عطیۃ ثم دالۃ علی قبح فعل الکافرین (قرطبی) الفائدۃ فیہ استبعاد ان یعدلوا بہ بعد وضوح ایات قدرتہ (کبیر) (آیت) ” الحمد “۔ حمد پر مفصل حاشیہ شروع سورة فاتحہ میں گزر چکا، امام رازی (رح) نے اس ذیل میں یہ نکتہ خوب لکھا ہے کہ خود ستائی بندوں کے حق میں عیب ہے، لیکن جس نے حمد الہی کے حکم کو اللہ کے حق میں عیب سمجھا، اس نے اللہ کو بندوں پر قیاس کیا، اور معتزلہ کے اکثر خیالات کی بنیادی و اساسی غلطی یہی ہے۔ دل ھذا علی انہ لایمکن قیاس الحق علی الخلق فکما ان ھذا قبیح من الخلق مع انہ لایقبح من الحق فکذلک لیس کل ما یقبح من الخلق وجب ان یقبح من الحق وبھذا الطریق وجب ان یبطل کلمات المعتزلۃ فی ان ما قبح منا وجب ان یقبح من اللہ (کبیر) اسی ضمن میں امام موصوف نے یہ اصل بھی درج کیا ہے کہ جس طرح افعال خلق پر افعال حق کو نہیں قیاس کیا جاسکتا، اسی طرح صفات خلق پر صفات حق کو اور ذوات خلق پر ذات کو نہیں قیاس کیا جاسکتا (کبیر) اللہ اسم ذات ہے، اور خالق، جاعل، رب اسماء صفات۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ حمد کو پہلے اسم ذات کے ساتھ متعلق کرنے اور پھر صفات خاصہ کے ساتھ موصوف کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ حمد کا استحقاق حق تعالیٰ کو بحیثیت ذات بھی ہے اور بحیثیت صفات بھی (من حیث الذات کے معنی نفی صفات کے نہیں بلکہ صرف یہ کہ اس وقت صفات کی طرف التفات نہیں)
Top