بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
تحمید برخالقیت و اثبات وحدانیت وابطال مجوسیت۔ قال اللہ تعالی، الحمدللہ الذی خلق السماوات۔۔۔ الی۔۔۔ یعدلون۔ ربط) ۔ یہ سورت چونکہ اصول دین کے بیان پر مشتمل ہے اس لیے اللہ نے تحمید اور توحید سے اس سورت کا آغاز فرمایا اور آسمان اور زمین اور نور ور ظلمت کے لیے اپنا خالق ہونا بیان کیا تاکہ توحید ثابت ہو اور مشرکین اور محبوس کا رد فرمایا جو یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے دو خالق ہیں ایک یزدان جو خیر کا خالق ہے یعنی نور اور روشنی کا پیدا کرنے والا ہے اور دوسرا ھرمن جو شر کا خالق ہے یعنی ظلمت اور تاریکی کا پیدا کرنے والا ہے اللہ نے اس آیت میں یہ بتلا دیا کہ ہر ظلمت اور ہر نور اور ہر اندھیرے اور اجالے کا پیدا کرنے والا ہی ہے مطلب یہ ہے کہ علویات ہوں یاسفلیات نور ہو یا ظلمت لیل ہو یا نہار موت ہو یا حیات سب کا خالق وہی ہے غرض یہ کہ عالم کی تمام کائنات اور تمام اضداد اور متقابلات سب اس کے قبضہ میں تصرف میں ہیں کوئی اس کا شریک اور سہیہم نہیں اس کی قدرت کاملہ ضدین کو محیط ہے کوئی ضد اس کے احاطہ قدرت سے خارج نہیں آسمان و زمین کی پیدائش سے وجود باری کو ثابت کیا اور منکرین خدا کا رد کیا کہ یہ کون ومکان اور زمین و آسمان کی یہ سیع عمارت خود بخود بن کر نہیں کھڑی ہوئی بغیر بانی کے بناء کا وجود اور بغیر صانع کے صنعت کا ظہور عقلا محال ہے اور نور اور ظلمت کی پیدائش سے مجوس کا رد کیا کہ جو نور اور ظلمت کو مدبر عالم سمجھتے ہیں اور ثم الذین کفرو بربھم یعدلون۔ سے مشرکین عرب کا رد کیا جو غیر اللہ کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں۔ بعد ازاں اللہ نے ان آیات میں اپنی حکومت زمین و آسمان میں بیان کی اور پھر اپنا عالم الغیب ہونابیان کیا پھر ان عجائب قدرت کو بیان کرکے کافروں کے اعراض اور انکار اور تکذیب کا نتیجہ بیان کیا تاکہ مشرکین عرب کو اس سے عبرت ہو جو شخص آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرے گا تو ضرور سمجھ جائے گا کہ کوئی ان کا صانع ضرور ہے اتنا بڑا مکان ہے اور اتنی وسیع عمارت بغیر کسی بنانے والے کے خود بخود نہیں بن گئی اور جو شخص اپنی پیدائش میں غور کرے گا تو اس پر خدا تعالیٰ کا حشرونشر پر قادر ہوناواضح ہوجائے گا کہ جس خدا نے ہم کو پہلی بار مٹی سے پیدا کیا تو کیا پھر وہ دوبارہ ہم کو زندہ نہیں کرسکتا چناچہ فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں کو اور زمین کو جو اعیان اور جواہر میں سے ہیں اور جس نے ٹھہرائیں اندھیر یاں اور اجالا جو اعراض میں سے ہیں یعنی قابل تعریف وہ ہے کہ جو جواہر آسمان و زمین اور اعراض تاریکی اور روشنی کا پیدا کرنے والا ہے خواہ تم اس کی تعریف کرو یا نہ کرو پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ خدا کی اس عظیم قدرت اور عجیب و غریب صنعت کے مشاہدہ کے بعد بھی یہ منکر اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو برابر قرار دیتے ہیں یعنی اس کی ساتھ اپنے بتوں کو شریک گردانتے ہیں جو محض عاجز اور درماندہ ہیں نضر بن شمیل کہتے ہیں کہ بربہم کی بابمعنی عن ہے اور یعدلوں بمعنی ینحرفون ہے اور مطلب یہ ہے کہ خدا وہ ہے کہ جس نے بلندی اور پستی اور تاریکی اور روشنی کو پیدا کیا اور وہی مستحق تعریف ہے مگر یہ کافر اس سے انحراف کرتے ہیں یعنی اس سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کی عظمت ووحدانیت کے قائل نہیں ہوتے آیت میں نور سے راہ حق کی طرف اشارہ ہے اور ظلمت سے غلط راہ کی طرف اشارہ ہے۔ فائدہ) ۔ امام رازی فرماتے ہیں کلمہ الحمدللہ، پانچ سورتوں کے شروع میں مذکور ہے اول سورة فاتحہ دوم اس سورت کے شروع میں الحمدللہ الذی خلق السماوات والارض۔ سوم سورة کہف کے شروع میں الحمدللہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب۔ چہارم سورة سباء۔ کے شروع میں الحمدللہ الذی لہ مافی السماوات ومافی الارض پنجم سورة فاطر الحمدللہ فاطر السماوات والارض۔ آیت۔ نکتہ) ۔ اس میں یہ ہے کہ سورة فاتحہ کے شروع میں تحمید عام کا ذکر تھا اور اس کے بعد چارسورتوں میں تحمید خاص کا ذکر ہے جو اسی تحمید عام کا ایک فرد یا جزئی ہے اس لیے کہ الحمدللہ رب العالمین میں تمام عالمین کی ربوبیت کا ذکر ہے اور عالم سے مراد جمیع ماسوی اللہ ہے جس میں ہر موجود داخل ہے اور آسمان و زمین کا پیدا کرنا اور بندوں کے تربیت کے لیے آسمان سے کتاب نازل کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب اسی تحمید عام کے تحت میں مندرج ہیں۔ (تفسیر کبیرص 4 ج 3) ۔
Top