بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Baghwi - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
سورة الانعام آیت نمبر 1 تفسیر :(الحمد للہ الذی خلق السموت والارض) کعب احبار (رح) فرماتے ہیں کہ یہ توریت کی پہلی آیت ہے اور توریت کی آخری آیت (وقل الحمدللہ الذی لم یتخذو لدا اور آپ کہہ دیجئے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اولاد نہیں بنائی) ہے اور ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ابتداء حمد سے کی اور فرمایا ” الحمدللہ الذی خلق السموت والارض “ اور اس کو ختم بھی حمد کے ساتھ کیا اور کہا ” وقضی بعھم بالحق مخلوقات کے درمیان وقیل الحمد للہ رب العلمین “ (بعض نے کہا اس کا مطلب ہے سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود کی بندوں کو سکھانے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرو جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ صرف آسمان و زمین کو ذکر کیا اس لیے کہ یہ مخلوقات میں سب سے بڑے ہیں بندوں کی نگاہ میں اور ان دونوں میں کئی عبرتیں اور منافع ہیں بندوں کے لیے (وجعل الظلمت والنور) یہاں جعل خلق کے معنی میں ہے۔ واقدی (رح) کہتے ہیں کہ قرآن مجید جہاں بھی ظلمات اور نور مذکور ہیں وہ کفر اور ایمان ہیں۔ سوائے اس آیت کے کیونکہ اس میں رات اور دن مراد ہیں اور حسن (رح) فرماتے ہیں کہ بنایا اندھیرا اور اجالا یعنی کفر اور ایمان اور کہا گیا ہے کہ ظلمات سے جہالت اور نور سے علم مراد ہے اور قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ یعنی جنت اور جہنم کو بنایا۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو زمین سے پہلے اور تاریکی کو اجالے سے پہلے اور جنت کو جہنم سے پہلے پیدا کیا۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنے نور میں سے کچھ ڈال دیا تو جس کو وہ نور پہنچا وہ ہدایت پا گیا اور جس سے چوک گیا وہ گمراہ ہوگیا۔ ( ثم الذین کفروا بربھم یعدلون) یعنی اس کے بیان کے بعد بھی یہ کافر لوگ اپنے رب کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ عدل کا اصل معنی شے کے برابر کسی دوسری شے کو بنانا۔ یعنی اللہ کے برابر غیر اللہ کو بناتے ہیں اور بعض نے کہا نصر بن شمیل نے کہا کہ باء عن کے معنی میں ہے یعنی اپنے رب سے اعراض کرتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کے تحت بڑا لطیف معنی ہے جیسے کوئی کسی کو کہے کہ میں نے تم پر اتنے احسانات کیے پھر تم نے میرے احسانات کی ناشکری کی۔
Top