بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق یہ سورة مکی ہے 2 ؎۔ مستدرک حاکم میں جابر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہ سورة اتری تو آنحضرت ﷺ نے سبحان اللہ کہا اور یہ فرمایا کہ آسمان سے زمین تک ستر ہزار فرشتے اس سورة کے نازل ہونے کے وقت اس کے ساتھ تھے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 3 ؎۔ اس سورة میں توحید نبوت اور حشر کے ضروری احکام کی عظمت اور شیطان کی مداخلت ان احکام میں نہ ہونے کے لئے یہ ستر ہزار فرشتوں کی جماعت اس سورة کے ساتھ آئی۔ جو سورتیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے لفظوں سے شروع کی ہیں جیسے یہ سورة جیسے { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } ان سے یہ مطلب ہے کہ لوگ ان لفظوں سے اللہ کی تعریف کیا کریں۔ اگرچہ اللہ کی مخلوقات بےگنتی ہے لیکن اس سورة میں انسان کی ہدایت کے بہت سے احکام ہیں اور آسمان و زمین کے عجائبات پر غور کرنے سے انسان کے دل میں اللہ کی قدرت کی بڑی عظمت پیدا ہوسکتی ہے جس کے سبب سے پھر اللہ کے احکام کے موافق ہدایت پانے کا موقع بھی اس کو مل سکتا ہے اس واسطے یہاں اور مخلوقات میں سے فقط آسمان و زمین کا ذکر فرمایا سورة بنی اسرائیل میں معراج کی حدیثیں آویں گی جن میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانسو برس کی راہ کے فاصلہ کا اور اسی قدر ہر ایک آسمان کی موٹائی کا ذکر ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ آسمانوں کی طرح زمین بھی سات ہیں اور ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ کا فاصلہ ہے۔ خیر یہ باتیں تو علم دین کے جاننے پر منحصر ہیں لیکن آسمان و زمین کی اتنی حالت تو سب کے آنکھوں کے سامنے ہے کہ وقت مقررہ پر ایک سال بھی آسمان سے مینہ نہ برسے یا مینہ تو برسے مگر اللہ کے حکم سے زمین کی پیدوار پر کچھ آفت آجاوے تو انسان کی ساری آسائش خاک میں مل جاوے۔ یہ بھی آسمان کی حالت کا ایک نتیجہ ہے کہ آسمان کی گردش سے رات کا اندھیرا دن کا اجالا پیدا ہوتا ہے جس سے انسان کی راحت صحت طرح طرح کے کاروبار سب کچھ قائم ہے اہل مکہ نے سو رات کے اندہیرے کے کفر و شرک و جہالت کا اندہیرا بھی پھیلا رکھا تھا اس واسطے اندھیرے کے لفظ کو جمع کر کے فرمایا مطلب یہ ہے کہ رات کے اندہیرے کے ساتھ جس طرح اللہ تعالیٰ نے دن کا اجالا پیدا کیا ہے اسی طرح کفر و شرک کے مٹانے کے لئے نور ایمانی پیدا کیا ہے جس کی قسمت میں ہے وہ اس کفر و شرک کے اندہیرے سے نکل کر ایمان کی روشنی پاسکتا ہے آخر کو فرمایا کہ جب یہ سارا کارخانہ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر یہ منکر شریعت لوگ دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹھہرا کر اللہ کی تعظیم و عبادت میں جو ان دوسروں کو شریک کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی بڑی نادانی ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ اپنی نادانی سے اللہ کی تعظیم اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے ان لوگوں کی زیست اور صحت کے کارخانے حسب دستور قائم رکھے ہیں 1 ؎ ان لوگوں کی نادانی کی سزا کے طور پر ان کارخانوں میں کچھ ردوبدل نہیں فرمایا یہ حدیث آیت کی گویا تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ انسان کو اور اس کی راحت کے ہر طرح کے سامان کو تو بغیر کسی کی شراکت کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا لیکن بعض نادان لوگ بلا استحقاق دوسروں کو اس کی تعظیم اور عبادت میں شریک کرتے ہیں اور اس پر بھی وہ اپنی بردباری سے ان لوگوں کے راحت کے سامان میں کچھ خلل نہیں ڈالتا۔
Top