بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو ماننے سے انکار کر دیا ہے دوسروں کو اپنے رب کا ہمسر ٹھیرا رہے ہیں
اَلْحَمْدُ [ تمام تعریف اور شکر ] لِلّٰهِ الَّذِيْ [ اس اللہ کے لئے ہے جس نے ] خَلَقَ [ پیدا کئے ] السَّمٰوٰتِ [ آسمان ] وَالْاَرْضَ [ اور زمین ] وَجَعَلَ [ اور بنائے ] الظُّلُمٰتِ [ اندھیرے ] وَالنُّوْرَ [ اور نور ] ثُمَّ [ پھر (بھی ) ] الَّذِيْنَ [ وہ لوگ جنھوں نے ] كَفَرُوْا [ کفر کیا ] بِرَبِّهِمْ [ اپنے رب کے ] یيَعْدِلُوْنَ [ برابر کرتے ہیں ] م ک ن : (ک) مکانۃ (1) رتبہ والا ہونا ، معزز ہونا ۔ (2) جما ہونا ، بااختیار ہونا۔ مکین ۔ فعیل کے وزن پر صفت ہے ۔ (1) رتبہ والا ، معزز ۔ (2) جما ہوا ، اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ ۔ [ بیشک تو آج سے ہمارے پاس امانتدار معزز ہے ] 12:54 ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ [ پھر ہم نے بنایا اس کو ایک نطفہ ایک مضبوط ٹھکانے میں ] 23:13 ۔ (افعال) امکانا ۔ کسی کو کسی کے اختیار میں دینا ، قابو میں دینا ۔ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْ [ تو وہ لوگ خیانت کرچکے ہیں اللہ سے اس سے پہلے نتیجتا اس نے تمہارے قابو میں دیا ان میں سے کچھ کو ] 8:71 ۔ (تفعیل ) تمکینا ۔ کسی کو اختیار دینا ، جما دینا ، وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ ۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۗءُ [ اور اس طرح ہم نے اختیار دیا یوسف کو زمین میں ، وہ ٹھکانہ بناتا ہے اس میں جہاں بھی چاہے ] 12:56 ۔ درر (ض) درا۔ اہل دنیا پر دنیا کی فراوانی ہونا ۔ مدرار ۔ مبالغہ ہے ۔ بہت فراواں ہونے والا ، لگا تار برسنے ، والاآیت زیر مطالعہ ۔ مدرار ۔ مبالغہ ہے ۔ بہت فراواں ہونے والا ۔ لگا تار برسنے والا آیت زیر مطالعہ ۔ (س) ، درا ۔ بیماری کے بعد چہرے پر رونق آجانا ، چمکدار ہونا ۔ دری ۔ اسم نسبت ہے ۔ چمکنے والا ، چمکدار ۔ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ گویا کہ وہ ایک چمکدار ستارہ ہے ] 24:35 ۔ ن ش ء ۔ (ف) ، نشأء ۔ کسی چیز کا نمایاں ہوکرسانے آنا ، اگنا ، اٹھنا ۔ نشاۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ نمو، اٹھان ۔ ثُمَّ اللّٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ [ پھر اللہ اٹھائے گا آخری اٹھان ] 29:20 ۔ ناشئۃ ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اٹھنے والی ۔ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْـاً [ بیشک رات کی اٹھنے والی یعنی تہجد کی نماز ، یہ زیادہ سخت ہے بلحاظ روندنے کے ] 73:6 ۔ (افعال ) انشاء (1) اٹھانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ (2) اگانا (3) بنانا ۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ [ اور وہ ہے جس نے اگائے چھپر ڈالے ہوئے باغات ] 6:141 ۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ [ اور وہ ہے جس نے بنایا تمہارے لئے سماعت اور بصارت اور دل ] 23:78 ۔ منشو ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اگانے والا ۔ ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِــُٔوْنَ [ کیا تم لوگوں نے اگایا اس کے درخت کو یہ ہم اگانے والے ہیں ] 56:72 ۔ (تفعیل ) تنشیئا ۔ پرورش کرنا ، پالنا ۔ اَوَمَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ تو کیا وہ ، جو پرورش کیا گیا زبور میں ] 43:18 ۔ ترکیب : الحمد پر لام جنس ہے۔ بربہم کو کفروا کا مفعول بھی مانا جاسکتا ہے ۔ اس صورت میں یعدلون کا مفعول محذوف مانا جائے گا ۔ ہماری ترجیح یہ ہے کہ کفروا کا مفعول محذوف مانا جائے اور بربہم کو یعدلون کا مفعول مانا جائے ۔ وما تاتیہم میں تاتی واحد مونث کا صیغہ ہے ، اس کا فاعل ایۃ تھا جس پر من تبعیضیہ لگنے کی وجہ سے ایۃ ہوا ہے ۔ یاتیہم کا فاعل انبوا ہے اور یہ مضاف ہے، اس کا مضاف الیہ ما ہے ۔ قرن نکرہ مخصوصہ ہے ۔ قرنا اسم الجمع ہے ۔ اس لئے اس کی صفت اخرین جمع آئی ہے ۔ ] نوٹ : ۔ یہ پوری سورة مکہ میں بیک وقت نازل ہوئی تھی اور جس رات یہ نازل ہوئی اسی رات رسول کریم ﷺ نے اسے قلمبند کرا دیا ۔ اس کے مخاطب اول مشرکین عرب تھے جو یہ تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور اسی نے آفتاب وماہتاب کو وجود بخشا ہے ۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات ، ہابیل ، یا عزی یا کسی اور دیوی یا دیوتا کا ہے ۔ اس لئے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ جب تم خود اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہو تو پھر دوسرے کے سامنے کیوں سجدے کرتے ہو، دعائیں مانگتے ہو اور نذر ونیاز پیش کرتے ہو۔ (تفہیم القرآن ) نوٹ : 2 ۔ زیرمطالعہ آیت نمبر 5 میں عنقریب خبریں پہنچنے کی جو بات کی گئی ہے اس میں ہجرت اور ان کامیابیوں کی طرف اشارہ ہے جو ہجرت کے بعد پے درپے اسلام کو حاصل ہونے والی تھیں ۔ جس وقت یہ اشارہ فرمایا گیا تھا اس وقت نہ کفار یہ گمان کرسکتے تھے کہ کس قسم کی خبریں انھیں پہنچنے والی ہیں اور نہ مسلمانوں کے ہی ذہن میں اس کا کوئی تصور تھا ۔ (تفہیم القرآن )
Top