بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا فرمایا آسمانوں کو اور زمین کو اور بنایا تاریکیوں کو، اور روشنیوں کو، پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے برابرقرار دیتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ظلمات اور نور کو پیدا فرمایا اور ہر ایک کی اجل مقرر فرمائی یہاں سے سورة انعام شروع ہے یہ سورت مکی ہے البتہ بعض مفسرین نے تین چار آیات کو مستثنیٰ لکھا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ مدنی ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ جب سورة انعام نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ کہا پھر فرمایا کہ اس سورت کو اتنے فرشتوں نے رخصت کیا جنہوں نے افق یعنی آسمان کے کناروں کو بھر دیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ستر ہزار فرشتوں نے اس کو رخصت کیا۔ (من روح المعانی ج 7 ص 76) اس سورت میں انعام یعنی چو پاؤں کے بعض احکام بیان فرمائے ہیں اس لئے سورة الانعام کے نام سے موسوم ہے۔ اس سورت میں احکام کم ہیں۔ زیادہ تر توحید کے اصول اور توحید کے دلائل بیان فرمائے ہیں۔ سورة فاتحہ کی طرح اس کی ابتداء بھی اَلْحَمْدُ للّٰہِسے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ ہر تعریف کا مستحق ہے اس کو کسی حمد اور تعریف کی حاجت نہیں۔ کوئی حمد کرے یا نہ کرے وہ اپنی ذات وصفات کاملہ کے اعتبار سے محمود ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت بیان فرمائی۔ اور فرمایا (الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ) کہ اس کی وہ عظیم ذات ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا فرمایا۔ آسمان و زمین سب کی نظروں کے سامنے ہیں جس ذات پاک نے ان کی تخلیق فرمائی ظاہر ہے کہ وہ مستحق حمد و ثنا ہے۔ پھر فرمایا (وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ) کہ اس نے تاریکیوں کو بنایا اور نور کو بنایا۔ روشنی اور اندھیریاں بھی آسمان و زمین کی طرح نظروں کے سامنے ہیں ان میں بھی انقلاب ہوتا رہتا ہے۔ کبھی روشنی ہے اور کبھی اندھیرا۔ یہ انقلاب اور الٹ پھیر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آئیں۔ ان کو وجود دینے والی کوئی ذات ہے اس بات کے ماننے کے لئے کسی خاص غور و فکر کی ضرورت نہیں سب پر عیاں ہے۔ (السموت والارض) کے ساتھ خلق اور ظلمات اور نور کے ساتھ لفظ جعل لانے کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ نکتہ بتایا ہے کہ آسمان و زمین اجسام و اجرام ہیں اپنے وجود میں کسی دوسری مخلوق کے محتاج نہیں اور اندھیرا اور اجالا عوارض ہیں قائم بالذات نہیں ان کو محل ومکان یعنی جگہ کی ضرورت ہے، جو لوگ آسمانوں کے وجود کو نہیں مانتے ان کے وجود میں متردد ہیں۔ اس آیت شریفہ میں ان کی بھی تردید ہوگئی۔ اور جو لوگ دو خدا مانتے ہیں یعنی یزداں اور اھر من (اور یزداں کو خالق خیر اور اھرمن کو خالق شر بتاتے ہیں پھر ان دونوں کو نور اور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں) آیت شریفہ سے ان کی بھی تردید ہوگئی اس کے بعد ارشاد فرمایا ( ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ ) (پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں) یعنی خالق جل مجدہ جس نے اتنی بڑی کائنات کو پیدا فرمایا اس کے شرکاء تجویز کرتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں جو بہت بڑی حماقت اور سفاہت ہے۔ پھر فرمایا (ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ) (اللہ ہی ہے جس نے تم کو کیچڑ سے پیدا فرمایا) انسان کی ابتدائی تخلیق چونکہ مٹی سے ہے اس لئے سبھی کی اصل مٹی ہے۔ آدم (علیہ السلام) بلاواسطہ مٹی سے پیدا ہوئے اور ان کی نسل اپنے باپ کی توسط سے مٹی سے پیداہوئی قرآن مجید میں (خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ) بھی فرمایا (سورۃ مومن) یعنی تم کو مٹی سے پیدا فرمایا اور (خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ) بھی فرمایا (سورۂ انعام) یعنی تم کو کیچڑ سے پیدا کیا اور (اِنَّا خَلَقْنَا ھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لاَّزِبٍ ) بھی فرمایا (سورۂ صافات) یعنی ہم نے ان کو چپکتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ) بھی فرمایا (سورۂ رحمن) اس نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا جو ٹھیکری جیسی تھی اور یہ بھی فرمایا (وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) ( اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو بجتی ہوئی سڑی ہوئی مٹی سے ) ۔ (سورء حجر)
Top