بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ١ؕ۬ ثُمَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَجَعَلَ : اور بنایا الظُّلُمٰتِ : اندھیروں وَالنُّوْرَ : اور روشنی ثُمَّ : پھر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے ساتھ يَعْدِلُوْنَ : برابر کرتے ہیں
سب تعریفیں2 اللہ کے لئے ہیں جس نے پیدا کئے آسمان اور زمین اور بنایا اندھیرا3 اور اجالا پھر بھی یہ کافر اپنے رب کے ساتھ اوروں کو برابر کئے دیتے ہیں
2:۔ حصہ اول۔ نفی شرک فی التصرف یا نفی شرک اعتقادی سورة انعام سے قرآن مجید کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو سورة بنی اسرائیل کے آخر تک ہے۔ اس حصے کا مرکزی مضمون ربوبیت ہے یعنی اس حصے میں زیادہ تر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کو حد کمال تک پہنچانے والا اور ہر چیز کی دیکھ بھال کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ خلاصہ کے بیان میں مذکور ہوچکا ہے کہ سورة انعام کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ سورت کی ابتداء سے لے کر رکوع 14 میں وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ تک ہے اس حصے میں نفی شرک فی التصرف کا ذکر کیا گیا ہے اور مسئلہ توحید پر عقلی ونقلی اور وحی سے گیارہ دلائل بیان کیے گئے ہیں۔ نو دلائل عقلیہ، دو نقلی دلیلیں اور تین دلائل وحی۔ حَمْد سے صفات الوہیت مراد ہیں جیسا کہ سورة فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ملاحظہ ہو ص 4 حاشیہ 2 ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ایک دعویٰ ہے۔ یعنی وہ تمام صفات کارسازی جنہیں تم اپنے معبودوں کے لیے ثابت کرتے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور تمہارے معبودوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اَلَّذِیْ اسم موصول تعلیل کے لیے ہے اور اس کا صلہ مذکورہ دعویٰ پر پہلی عقلی دلیل ہے یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا۔ اندھیرے اور اجالے کو بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا کارساز اور متصرف بھی وہی ہے اس لیے اسی کو پکارو چونکہ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسا کہ ارشاد ہے وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ (لقمان ع 3) اس لیے اس مسلمہ حقیقت کو بطور حجت ذکر فرمایا۔ 3 ظلمت سے گمراہی اور نور سے ہدایت مراد ہے۔ چونکہ گمراہی کے راستے بہت ہیں اور نجات و ہدایت کا راستہ ایک ہی ہے یعنی اسلام۔ اس لیے ظلمات کو جمع اور نور واحد استعمال کیا گیا۔ لان المراد بالظلمۃ الضلال۔ ھو متعدد و باالنور الھدی وھو واحد (روح ج 7 ص 82) ۔ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الخ میں ثُمَّ استبعاد کے لیے ہے۔ یعنی جب تم کو معلوم ہوگیا کہ ہر شئے کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو یہ بات عقل سے بعید ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کے برابر کرو اور اس کو اللہ کی طرح متصرف سمجھو و لم للاستبعاد (جامع البیان ص 12) و ثم لاستبعاد ما وقع من الذین کفروا (روح ج 7 ص 85) ۔
Top