Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 2
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا١ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّى عِنْدَهٗ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے طِيْنٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَضٰٓى : مقرر کیا اَجَلًا : ایک وقت وَاَجَلٌ : اور ایک وقت مُّسَمًّى : مقرر عِنْدَهٗ : اس کے ہاں ثُمَّ : پھر اَنْتُمْ : تم تَمْتَرُوْنَ : شک کرتے ہو
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت ٹھہرائی اور مدت مقررہ اسی کے علم میں ہے، پھر تعجب ہے کہ تم کج بحثیاں کرتے ہو !
خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ سے مقصود انسان کی ابتدائی خلقت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ فرمایا“ وبدا خلق الانسان من طین : اور انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا ”(سجدہ :7) تمام ارضی مخلوقات کی زندگی کا آغاز مٹی ہی سے ہوا ہے۔ اس مضمون کو قرآن نے بار بار مختلف شکلوں سے بیان کیا ہے اور اس سے عام طور پر دو حقیقتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، ایک تو انسان کے بےحقیقتی کی طرف کہ مٹی سے پیدا ہونے والی مخلوق کو اپنی ہستی پر زیادہ مغرور نہیں ہونا چاہیے، دوسرے مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کیے جانے پر کہ جب انسان کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور اس پیدا کرنے میں اس کو کوئی دشواری پیش نہیں آئی تو اب دوبارہ اس کے پیدا کرنے سے وہ کیوں عاجز رہے گا۔ یہاں اسی دوسری حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اس کا ذکر ہوا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَئِذَا كُنَّا تُرَابًا أَئِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ الأغْلالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ : اور اگر تم تعجب کرنا چاہو تو نہایت ہی عجیب ہے ان کی یہ بات کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ نئی خلقت میں آئیں گے (الرعد :5)۔ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ : جس طرح ہم نے پہلی بار مٹی سے بنایا ہے اسی طرح مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ اس کو پیدا کردیں گے، یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے، یہ ہم کر کے رہیں گے (انبیا :104)۔ وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ : روم اور وہی ہے جو خلق کا آغاز کرتا ہے پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اعادہ اس کے لیے سہل ہے (روم :27)۔ ثُمَّ قَضٰٓى اَجَلًا۔ اجل کے مختلف مفہوم : اجل کے معنی مدت مقررہ کے ہیں۔ اجل یا اجل مسمعی کا لفظ فرد یا اقوام کے تعلق سے مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک تو اس مدت حیات کے لیے جو ہر فرد کو تقدیر کی طرف سے ملی ہے، دوسرے اس روز بعث کے لیے استعمال ہوا ہے جو خلق کے اٹھائے جانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔ تیسرے اس مقررہ پیمانہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کے لیے مقرر ہے۔ پہلے معنی کے لیے نظیر آیت زیر بحث میں بھی ہے اور اسی سورة کی آیت 60 میں بھی۔ فرمایا ہے“ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ : اور وہی خدا ہے جو تمہیں وفات دیتا ہے شب میں اور وہ جانتا ہوتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کیا ہوتا ہے، پھر وہ تم کو دوسرے دن میں اٹھاتا ہے تاکہ تمہاری مقررہ مدت پوری کی جائے، پھر اسی کی طرف تمہارا لوٹنا ہوگا، پھر وہ تم کو آگاہ کرے گا ان سارے کاموں سے جو تم کرتے رہے ہو ”۔ دوسرے معنی کے لیے نظیر آیت زیر بحث میں ہے۔ اس میں ‘ اجل ’ کا ذکر دو مرتبہ ہے۔ ایک اجل تو ظاہر ہے کہ وہی ہے جو ہر فرد کی مدت حیات کے طور پر مقرر ہے، دوسری ‘ اجل ’ جس کے ساتھ ‘ مسمی ’ کی صفت لگی ہوئی ہے۔ قرینہ دلیل ہے کہ اس سے وہ مدت مقررہ مراد ہے جو خلق کے اٹھائے جانے کے لیے مقرر ہے۔ تیسرے معنی کے لیے نظیر آیت وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ (اعراف :34) ، اور اس مضمون کی دوسری آیات میں ہے، اس ‘ اجل ’ سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، وہ مقررہ پیمانہ مراد ہے جو کسی قوم کے اخلاقی زوال کی اس آخری حد کی خبر دیتا ہے جب قانونِ الٰہی اس کو تباہ کردیتا ہے۔ یہ پیمانہ افراد کی مدت حیات کی طرح نہیں ہے کہ کوئی نیک ہو یا بد، جو مدت حیات اس کے لیے مقرر ہے اس کے ختم ہوجانے پر وہ لازماً مر جاتا ہے بلکہ یہ اخلاقی قوانین کے تابع ہے، جب تک کوئی قوم اپنے ایمان و کردار کو محفوظ رکھے گی خدا اس کو قائم رکھے گا، یہاں تک کہ وہ اجل مسمی آجائے جو اس پوری کائنات کے لیے خدا کی طرف سے مقرر ہے۔ اس پیمانہ کے اخلاقی ہونے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک قوم کا پیمانہ لبریز ہونے کی آخری حد پر پہنچ رہا ہو اور اس کی اجل مسمی آئی کھڑی ہو لیکن سوئی کے آخری نقطہ پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ قوم توبہ اور اصلاح کے ذریعہ سے اپنے زندہ رہنے کا حق پھر بحال کرلے۔ یہاں ہم اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔ انشاء اللہ سورة نوح کی تفسیر میں اس نکتہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے۔ ‘ امتراء ’‘ مری ’ سے ہے جس کے معنی متھنے، مسلنے، نچوڑنے کے ہیں ‘ امتری اللبن ’ کے معنی ہوں گے اس نے تھن سے دودھ نچوڑا۔ یہیں سے یہ لفظ اس بحث وجدال کے لیے استعمال ہوا جس میں کوئی کٹ حجتی کرنے والا مناظر اس اس بات میں سے بھی شک و اعتراض کا کوئی پہلو نکال ہی لے جس میں اعتراض و بحث کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہی خدا ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تمہیں بھی انکار نہیں۔ پھر ہر ایک کے لیے اس نے زندگی کی ایک مدت ٹھہرا دی۔ یہ نہیں ہے کہ جو پیدا ہوتا ہے وہ غیر فانی ہو کر پیدا ہوتا ہو، پھر اس میں کیا شک کی گنجائش ہے کہ جس خدا نے تمہیں مٹی سے بنایا وہ تمہیں دوبارہ اسی مٹی سے اٹھا کھڑا کرے گا۔ اس کے لیے اس نے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے جس میں کسی بحث وجدال کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن تم ہر بات میں کٹ حجتی کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہو۔
Top