Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے ایمان والوجب تم کسی معین مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ اور چاہیے کہ لکھے تمہارے درمیان لکھنے والا عدل و انصاف سے۔ اور جسے لکھنا آتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جس طرح اللہ نے اسے سکھایا ہے پس وہ بھی لکھ دے اور یہ دستاویز لکھوائے وہ شخص جس کے ذمہ حق ہے۔ اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔ اور اس میں کوئی کمی نہ کرے ‘ پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بےعقل ہے یا ضعیف ہے یا لکھوا نہ سکتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اس پر اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو۔ پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں۔ یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں۔ (دو عورتیں اس لیے کہ) اگر ان میں سے ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسری یاد دلا دے گی۔ اور جب گواہ بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں۔ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا اس کی مدت تک کے لیے اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتیں۔ تو یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین عدل ‘ گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور اس عمل کے زیادہ قرین قیاس ہے کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ مگر یہ کہ سودا دست بدستی ہو جس کا تم لین دین آپس میں کرو۔ (اس صورت میں) تم پر کوئی حرج نہیں اس بات میں کہ تم اسے نہ لکھو۔ اور تم کوئی معاملہ خریدو فروخت کا کرو تو اس صورت میں بھی گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ نقصان پہنچایا جائے کاتب کو اور نہ گواہ کو۔ اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہاری نافرمانی ہوگی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْـتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ط وَلْیَکْتُبْ بَّـیْـنَـکُمْ کَاتِبٌ م بِالْعَدْلِ ص وَلَا یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ ج وَلْـیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّـہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا ط فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْضَعِیْفًا اَوْلَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَفَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بِالْعَدْلِ ط وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآئِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰ ہُمَا الْاُخْرٰی ط وَلَا یَاْبَ الشُّہَدَآئُ اِذَا مَا دُعُوْاط وَلَا تَسْئَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰٓی اَجَلِہٖ ط ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَاللّٰہِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَرْتَابُوْٓا اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَہَا بَیْنَکُمْ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْہَا ط وَاَشْھِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ص وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَھِیْدٌ 5 ط وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّـہٗ فُسُوْقٌ م بِکُمْ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ (اے ایمان والوجب تم کسی معین مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ اور چاہیے کہ لکھے تمہارے درمیان لکھنے والا عدل و انصاف سے۔ اور جسے لکھنا آتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جس طرح اللہ نے اسے سکھایا ہے پس وہ بھی لکھ دے اور یہ دستاویز لکھوائے وہ شخص جس کے ذمہ حق ہے۔ اور وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔ اور اس میں کوئی کمی نہ کرے ‘ پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بےعقل ہے یا ضعیف ہے یا لکھوا نہ سکتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔ اور اس پر اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو۔ پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں۔ یہ گواہ تمہارے پسندیدہ لوگوں میں سے ہوں۔ (دو عورتیں اس لیے کہ) اگر ان میں سے ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسری یاد دلا دے گی۔ اور جب گواہ بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں۔ اور قرض چھوٹا ہو یا بڑا اس کی مدت تک کے لیے اس کو لکھنے میں تساہل نہ برتیں۔ تو یہ ہدایات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین عدل ‘ گواہی کو زیادہ ٹھیک رکھنے والی اور اس عمل کے زیادہ قرین قیاس ہے کہ تم شبہات میں نہ پڑو۔ مگر یہ کہ سودا دست بدستی ہو جس کا تم لین دین آپس میں کرو۔ (اس صورت میں) تم پر کوئی حرج نہیں اس بات میں کہ تم اسے نہ لکھو۔ اور تم کوئی معاملہ خریدو فروخت کا کرو تو اس صورت میں بھی گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ نقصان پہنچایا جائے کاتب کو اور نہ گواہ کو۔ اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہاری نافرمانی ہوگی۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ‘ اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے) (282) سابقہ آیات کریمہ میں سودی قرضوں کا تذکرہ تھا۔ جنھیں یک قلم ختم کیا گیا۔ لیکن زندگی میں بیشتر افراد کو قرض کے معاملے سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ قرض سے متعلق معاملات میں جہاں جہاں الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں ‘ ان کی طرف توجہ دلائی جاتی اور قرض کے لین دین کے صحیح طریقے سے آگاہ کیا جاتا۔ چناچہ پروردگار نے کرم فرمایا کہ اس آیت کریمہ میں قرض کے معاملات کے سلسلے میں ضروری ہدایات عطا فرمائیں اور پھر اسی سلسلہ کے بعض ضمنی مسائل کے بارے میں بھی رہنمائی بخشی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نوشت و خواند کی سطح نہایت پست تھی۔ بڑی بڑی آبادیوں میں بھی کوئی لکھا پڑھا آدمی ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا اور سفر میں تو اور بھی زیادہ اس کی کمیابی تھی۔ ایسی صورت میں لین دین کے معاملات میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے جو ضروری ہدایات ہوسکتی تھیں وہ بھی عطا فرمائی گئیں۔ انسان معاملات میں بےاحتیاطی کرتا ہے غیروں کے ساتھ لین دین کے معاملات میں انسانوں نے ہمیشہ احتیاط برتی ہے۔ لیکن جہاں تعلقات ہوں وہاں آج تک یہ کمزوری چلی آرہی ہے کہ اعتماد کے جو مروج ذرائع ہیں ان سے کام نہیں لیا جاتا ‘ بلکہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ دوستی کی موجودگی میں کسی تحریر یا کسی گواہی کی کیا ضرورت ہے ؟ بلکہ اسے اجنبیت پر محمول کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ ناخوشگوار ہوتا ہے۔ تعلقات بگڑتے بھی دیر نہیں لگتی اور اگر اچانک جانبین میں سے کوئی چل بسے تو ضروری نہیں کہ پسماندگان محض زبان پر اعتماد کر کے معاملے کا تصفیہ کرسکیں۔ اس وقت آدمی سوچتا ہے کہ کاش میں نے اس معاملے کو تحریری شکل دی ہوتی تو آج جو مشکل پیدا ہوگئی ہے وہ پیدا نہ ہوتی۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ ایسی ہی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔ اور دوستی پر اعتماد کرتے ہوئے جو غلط رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس کی طرف توجہ دلانے کے لیے آنحضرت ﷺ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت شدید انداز اختیار فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں ‘ مگر ان کی فریاد سنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے مال اس کے حوالے کردے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔ معاملات و معاہدات میں نزاع سے تحفظ کے لیے ہدایات اس آیت کریمہ میں معاملات یا معاہدات کے بارے میں جو ہدایات دی گئی ہیں انھیں ہم ایک ترتیب سے عرض کرتے ہیں۔ 1 اِذَا تَدَایَنْـتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ( جب آپس میں کسی معین مدت کے لیے ادھار کا معاملہ کیا جائے تو اسے لکھ لینا چاہیے) یعنی اس کی ایک دستاویز تیار کی جائے اور اس کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو ہر دور میں مروج ہو۔ 2 جب قرض کا معاملہ کیا جائے ‘ چاہے اس کا تعلق درہم و دینار سے ہو یا اشیاء کی خریدو فروخت سے ‘ قرض کے لین دین کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی کہ اس کی میعاد مقرر کرو اور میعاد بھی ایسی مقرر ہونی چاہیے جس میں کوئی ابہام نہ ہو۔ یعنی سال ‘ مہینہ اور دن تک کا واضح طور پر تعین ہو۔ اس طرح نہ کیا جائے جیسے دیہاتی زندگی میں ہوتا ہے کہ فلاں کھیتی کے کٹنے کے وقت ‘ فلاں پھل کے اترنے کے وقت یا فلاں فصل کی کاشت کے وقت ادائیگی ہوگی۔ میعاد مقرر نہ کرنے یا میعاد کو مبہم رکھنے سے اختلاف پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لیے میعاد کو واضح طور پر مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔ 3 وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَـکُمْ کَاتِبٌ م بِالْعَدْلِ ص نزول قرآن کے وقت چونکہ پڑھے لکھے لوگوں کی انتہائی کمی تھی اس لیے اس بات کا ہر وقت امکان تھا کہ کوئی لکھنے والا اپنی مرضی سے کمی بیشی کر دے۔ کیونکہ جانبین کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے یہ معلوم کرنا بہت مشکل تھا کہ اس نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح لکھا ہے یا اپنی طرف سے پیوند کاری کی ہے۔ اس لیے یہ فرمایا کہ لکھنے والے کو چاہیے کہ وہ جو کچھ لکھے انصاف کے ساتھ لکھے۔ اور مزید یہ فرمایا کہ جب اسے لکھنے کے لیے کہا جائے تو اسے لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس دور میں یہ ممکن نہیں تھا کہ اگر ایک شخص لکھنے سے انکار کر دے تو کسی دوسرے کی خدمات حاصل کرلی جائیں۔ تعلیم کی انتہائی کمی کی وجہ سے اس دور میں لکھنے کی صلاحیت اللہ کی بہت بڑی نعمت تھی۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ لکھنے والے پر اللہ کا خاص انعام ہے کہ اس کو یہ صلاحیت بخشی گئی ہے۔ 4 وَلْـیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْـیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّـہٗ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا ط دستاویز لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ہے۔ کیونکہ قرض لینے والا اپنی طرف سے جو کچھ لکھوائے گا وہ ایک طرح سے ایک اقرار اور اعتراف ہوگا۔ اس طرح سے اس کی لکھوائی ہوئی تحریر اقرارنامہ بن جائے گی اور کل کو اگر کوئی اختلاف ہوتا ہے تو یہ اقرار نامہ اس کے حق میں یا اس کے خلاف استعمال ہو سکے گا۔ تعلیم کی کمی کے باعث ہوسکتا ہے دوسرا فریق یہ نہ جان سکے کہ اس نے کیا لکھوایا ہے ‘ اس لیے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ لکھوانے والے کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اسے یقین ہونا چاہیے کہ اگر میں غلط بات لکھوائوں گا یا اپنے حق میں کمی بیشی کروں گا تو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اس کے سامنے اس کی جوابدہی کیسے کرسکوں گا ؟ یہ وہ تصور ہے جو اسے راہ راست پر قائم رکھ سکتا ہے۔ اس لیے اسے اللہ سے ڈر کر صاحب حق کے حق میں کسی طرح کی کمی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ 5 فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ ۔ الخ (اگر قرض لینے والا کم عقل ‘ ضعیف یا دستاویز لکھوانے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا کاتب اس کی زبان نہیں سمجھتا اس لیے یہ اسے لکھوا نہیں سکتا ایسی صورت میں اس کے ولی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستاویز لکھوائے۔ اور اگر ولی نہ ہو تو پھر کسی کو پنا وکیل بنا لیا جائے جو اس کی بات کو سمجھتا ہو اور اس کی طرف سے وہ دستاویز لکھوائے۔ مجنون اور نابالغ کی طرف سے تو ولی کا ہونا ایک معمول کی بات ہے کیونکہ ان کے سارے معاملات ولی ہی کی معرفت انجام پاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اگر مجبوری کے باعث خود دستاویز نہ لکھوا سکیں تو وہ اپنے ولی کے ذریعے یہ کام کریں یا کسی کو اپنا وکیل بنالیں۔ اور وہ انصاف اور سچائی کے ساتھ دستاویز لکھوائے۔ 6 دستاویز کی تحریر کو فیصلہ کن قرار نہیں دیا گیا ‘ بلکہ اس پر گواہ بنانے کا بھی حکم دیا گیا۔ اسی وجہ سے فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے یہ اصول طے کیا ہے کہ محض تحریر حجت شرعی نہیں ‘ جب تک اس پر شہادتِ شرعی موجود نہ ہو۔ پھر اس آیت کریمہ میں گواہوں کی صفات بیان کی گئیں اور گواہوں کا نصاب متعین کیا گیا ہے۔ جہاں تک نصاب کا تعلق ہے اس کے بارے میں فرمایا کہ گواہ دو مرد ہونے چاہییں اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ دو عورتوں کی شرط اس لیے رکھی ہے کہ ایک خاتون بھول جائے یا گواہی میں لغزش کا شکار ہو تو دوسری خاتون اسے یاد دلا دے یا اسے تنبیہ کر دے۔ دو عورتوں کو جو ایک مرد کے برابر ٹھہرایا گیا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ اسلام کی نگاہ میں عورت حقیر ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ عورتوں پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں اور ان کی زندگی جن حالات و مشاغل سے گزرتی ہے اس میں اس بات کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ کبھی انھیں عدالت میں جا کر گواہی دینا پڑے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ عورت کی مزاجی خصوصیات کی کچھ نزاکتیں بھی ہیں جنھیں دیکھتے ہوئے ان پر یہ بار ڈالا نہیں جاسکتا۔ لیکن اگر کبھی خاص حالات میں ایسی کوئی ذمہ داری ان پر آہی جائے تو اللہ نے انھیں غلطی سے بچانے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے دو کو ایک مرد کے قائم مقام ٹھہرایا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی مدد سے یہ فرض باحسن طریق انجام دے سکیں۔ امام شافعی ( رح) کی والدہ کے بارے میں روایت کیا جاتا ہے کہ انھیں ایک دوسری خاتون کے ساتھ ایک دفعہ گواہی کے لیے عدالت میں جانا پڑا۔ قاضی صاحب نے دونوں خواتین کی گواہی الگ الگ لینا چاہی تو امام شافعی ( رح) کی والدہ نے الگ گواہی دینے سے انکار کردیا اور دلیل یہ دی کہ قرآن کریم نے ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کی گواہی کا حکم دیتے ہوئے وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ان دو میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ تو یاد دلانا اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ایک ساتھ گواہی دیں۔ اگر وہ الگ الگ گواہی دیتے ہوئے بھول جائیں تو پھر کس طرح ایک دوسرے کو یاد دلا سکتی ہیں۔ جہاں تک ان کی صفات کا تعلق ہے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک تو ہدایت یہ دی من رجالکم کہ وہ گواہ تمہارے اپنے مردوں میں سے ہوں۔ جس سے بیک وقت دو باتیں نکلتی ہیں ‘ ایک یہ کہ وہ مسلمان ہوں دوسرا یہ کہ وہ اپنے میل جول اور تعلق کے لوگوں میں سے ہوں کہ فریقین انھیں جانتے پہچانتے ہوں۔ اور دوسرا فرمایا ممن ترضون (کہ وہ گواہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کے سیرت و کردار کو تم پسند کرتے ہو) یعنی وہ اخلاق و عمل کے اعتبار سے پسندیدہ ‘ ثقہ ‘ معتبر اور ایماندار ہوں۔ 7 جن دو مردوں کو گواہی میں شامل کرلیا جائے اور وہ گواہ بننے پر رضامندگی کا اظہار کردیں تو جب گواہی کے لیے انھیں بلایا جائے تو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ آنے سے انکار نہ کریں۔ کیونکہ صحیح بات کی گواہی ایک عظیم معاشرتی خدمت ہے۔ اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق بھی ہے۔ اور اس امت کے ایک ایک فرد کا یہ فریضہ منصبی بھی ہے کہ جو حق اس کے پاس ہے اس کی وہ گواہی دے۔ کیونکہ اگر کسی معاملے یا معاہدے میں فریقین میں اختلاف ہوجاتا ہے مثلا بائع کہے مجھے قیمت وصول نہیں ہوئی ہے ‘ یا مشتری کہے کہ مبیع مجھ تک نہیں پہنچی تو ایسے جھگڑوں کا فیصلہ صرف گواہوں کے ذریعے ہوسکتا ہے ‘ جھوٹے لوگ تو جھوٹے گواہ بھی بنا سکتے ہیں ‘ سچے لوگوں کے سچے گواہ اگر گواہی دینے سے انکار کردیں تو ظاہر ہے کہ حقدار کو اس کا حق نہیں ملے گا۔ اور جس شخص نے گواہ بننا قبول کیا تھا وہ انکار کر کے چونکہ حق دار کے حق کے تلف ہونے کا سبب بنا ہے تو قیامت کے دن اس سے سخت باز پرس ہوگی۔ 8 قرض لینے دینے کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے قید تحریر میں لانے سے گرانی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ جو لوگ اس کو زحمت سمجھ کر ٹال جاتے ہیں وہ سہل انگاری کی وجہ سے بسا اوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن کے نتائج بڑے دور رس نکلتے ہیں۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ معاملات میں الجھنوں اور اڑچنوں سے بچنے کا اگر کوئی کامیاب ذریعہ ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہی ہدایات ہیں اور ان پر عمل ہے۔ اس لیے جو معاشرہ اپنے اندر مفاسد پیدا نہیں کرنا چاہتا اس معاشرے کے افراد کو ان ہدایات کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ 9 اگر معاملہ دست بدست لین دین کا ہو جیسے ہم دکانوں سے روزہ مرہ کی چیزیں خریدتے ہیں ‘ اگرچہ آج کی دنیا میں کیش میمو کی شکل میں تحریر کی ایک صورت پیدا کرلی ہے ‘ لیکن اسے عموماً ضروری نہیں سمجھا جاتا کیونکہ دست بدست لین دین میں اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے پروردگار نے ایسے معاملات میں تحریر و کتابت کی پابندی نہیں لگائی۔ لیکن کیش میمو کی صورت میں جو سہولت پیدا ہوگئی ہے اس سے فائدہ اٹھانا یقینا بہتر ہے۔ 0 اگر کوئی اہمیت رکھنے والا سودا یا لین دین ہو بیشک اس کا انعقاد دست بدست ہو اہو تو اس پر گواہ بنا لینا چاہیے۔ تاکہ نزاع کی صورت میں اس کا تصفیہ ہو سکے۔ ! معاملات کے تصفیہ میں چونکہ گواہ اور کاتب کی بہت اہمیت ہے اس لیے حکم دیا کہ کاتب یا گواہ کو کسی صورت کوئی نقصان یا کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ تکلیف کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کوئی فریق کسی کاتب یا گواہ کو اپنے حق میں لکھنے یا گواہی دینے پر مجبور کرے۔ ایسا کرنے والا بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کاتب سے معاملہ لکھوایا جائے لیکن اس کی اجرت ادا کرنے سے انکار کردیا جائے۔ اسی طرح گواہ کو گواہی پر آنے پر تو مجبور کیا جائے لیکن اس کے آنے جانے کے اخراجات ادا کرنے سے انکار کردیا جائے۔ ایک غریب آدمی جو مزدوری کرتا ہے یا کہیں ملازمت کرتا ہے اولاً تو اسے مزدوری یا ملازمت سے نکل کر آنا ہی آسان نہیں اور اگر وہ آہی جائے تو اس کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ وہ آنے جانے کا کرایہ بھی خود ادا کرے اور اس کے علاوہ کوئی مصارف ہوں تو اس کا بوجھ بھی خود اٹھائے۔ ایسی کوئی تکلیف بھی کاتب یا گواہ کو پہنچانا سخت گناہ کا باعث ہے۔ بعض دفعہ کسی اہم معاملے میں کوئی ایک فریق گواہی بدلنے کے لیے طاقت استعمال کرنے پر اتر آتا ہے ‘ وہ گواہ کو دھمکاتا ہے ‘ بعض دفعہ جسمانی نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اسی طرح ہمارا فوجداری سسٹم کچھ ایسا بن گیا ہے کہ کوئی شریف آدمی اگر کبھی کسی اہم معاملے میں گواہ بننا قبول کرلیتا ہے تو مقامی تھانیدار صاحب اسے جاوبیجا تھا نے میں طلب کر کے پریشان کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ عدالتوں میں اس طرح گواہوں سے سلوک کیا جاتا ہے کہ اصل مجرم یہی ہے۔ ایسے تمام رویے جس سے کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچے یا ان پر دبائو پڑے اس آیت کریمہ میں اسے سخت قسم کا فسق قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے انہی رویوں نے شرفاء کو حقوق کی ادائیگی سے دور رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ بڑے بڑے واقعات اور حادثات ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھنے والا شخص بھی اس کے لیے گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں نے اگر حق کی گواہی دی تو میرے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ یا کم از کم معمول کی زندگی گزارنا میرے لیے ممکن نہیں رہے گا۔ اس لیے آخر میں پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اللہ کی ان ہدایات کو حرز جان بنالو۔ ان ہدایات کی صورت میں اللہ تمہیں بہتر زندگی گزارنے کا طریقہ سکھا رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ان ہدایات پر عمل کیے بغیر معاملات کی بداطواریاں اور معاشرتی الجھنیں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں۔
Top