Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا )
وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ قف ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُْظْلَمُوْنَ ۔ ع (اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا) (281) قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق سود کی بحث کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دن کی جوابدہی سے ڈرنے اور اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کی طرف پورا انسانی قافلہ اپنے اپنے وقت کے مطابق بڑھ رہا ہے۔ برزخی زندگی کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا جب اس دن کا اعلان ہوگا جسے قیامت کہتے ہیں۔ پھر نفخہ ثانیہ کے بعد ہر مرنے والا زندہ ہو کر اس محشر کی طرف بڑھے گا جہاں اللہ کے انصاف کی عدالت قائم ہوگی ‘ جہاں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ اس دن نہ نسب کا تفاخر کام آئے گا نہ حسب کے دعوے کام آسکیں گے ‘ نہ مال و دولت سے کام لیا جاسکے گا ‘ نہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش بروئے کار آسکے گی۔ وہاں ایک ہی سکہ چلے گا جس کا نام ایمان و عمل ہے۔ وہاں ہر زبان گنگ ہو کر رہ جائے گی صرف کردار کی زبان کام دے گی۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کسی قانون کے پابند نہیں کیونکہ ہر قانون اللہ کا پابند ہے۔ لیکن انھوں نے محض اپنے فضل و کرم سے اس دن کی عدالت کا اصول یہ ٹھہرایا کہ جو شخص ایمان و عمل کی پونجی لے کر آیا اس کے اعمال کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ اور کسی شخص کے اجر وثواب اور صلے میں کمی نہیں کی جائے گی۔ جس طرح ایک سود خور اپنے سرمائے پر بےجا اضافہ کا خواہش مند رہتا ہے اور جس طرح خائن تاجر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ ان سب کو اس عدالت میں جس انصاف سے واسطہ پڑے گا اس کی بنیاد ہی یہ ہوگی کہ تمہیں یہاں اسی انجام سے دوچار ہونا ہے جس کا تم نے استحقاق پیدا کیا۔ تمہیں جو ملے گا تمہارے عمل کے صلے کے طور پر ملے گا۔ لیکن یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ تمہارے کسی عمل کے بدلے میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ترازو کے دونوں پلڑے ہمیشہ برابر رہیں گے۔ جن لوگوں نے زندگی میں ایمان کے چراغ روشن کیے اور عمل کی عمارت تعمیر کی انھیں یقینا ایک ایک چیز کا صلہ ملے گا اور ان کے اجر وثواب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح جن لوگوں نے کفر ‘ شرک اور فساد فی الارض سے اپنا نامہ عمل تیار کیا ‘ انھیں یہ جھوٹی آرزو نہیں پالنی چاہیے کہ ہم شاید اپنے برے انجام سے کسی طرح بچ نکلیں۔ عدل گستری اور انصاف پروری کا اولین تقاضا یہ ہے کہ نہ کوئی نیک اپنی نیکی کے صلے سے محروم رہے اور نہ کوئی ظالم ظلم کی سزا سے بچ سکے۔ جس عدالت کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا یہ عالم ہے اور جس کا آنا بھی یقینی ہے اور جس سے ہم سب کو دوچار ہونا ہے ‘ اگر ہمیں اپنے ہولناک انجام کی کچھ بھی فکر ہے اور ہم اپنی بداعمالیوں سے کسی حد تک بھی واقف ہیں تو پھر ہمیں اس دن کی تیاری کو سب سے پہلی ترجیح بنانا چاہیے تاکہ ہم اپنی سرخروئی کا سامان کرسکیں۔
Top