Dure-Mansoor - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو ! جب تم مقررہ مدت تک ادھار لینے دینے کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہیے کہ جو شخص تمہارے درمیان لکھنے والا ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھے، اور کوئی لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اسے سکھایا ہے، سو چاہیے کہ لکھ دیا کرے، اور جس کے اوپر حق ہے اسے چاہئے کہ لکھو ادے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے، سو اگر وہ شخص کم سمجھ ہو جس پر حق ہے یا ضعیف ہو یا املا کرانے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنا لیا کرو، پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھٹک جائے تو ایک دوسری کو یاد دلادے اور نہ انکار کریں گواہ جب ان کو بلایا جائے، اور قرضے کے معاملہ میں لکھنے سے مت اکتاؤ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اس کی مدت مقررہ تک، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی ہے اور اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو، مگر یہ کہ کوئی تجارت ہو جس میں لینا دینا دست بدست ہو جس کا تم آپس میں معاملہ کر رہے ہو سو تم پر اس بات کا کوئی گناہ نہیں کہ لکھا پڑھی نہ کرو، اور گواہ بنا لیا کرو جب کہ تم آپس میں خریدوفروخت کا معاملہ کرو، اور نہ ضرر دیا جائے کاتب کو، اور نہ گواہ کو، اور اگر تم ایسا کرو تو بلاشبہ اس میں گنہگاری ہے تمہارے لئے، اور اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
آیت مدانیہ (1) ابن جریر نے (صحیح سند کے ساتھ) سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن مجید میں جس آیت کا تعلق عرش سے قریب ترین ہے وہ دین والی آیت ہے۔ (2) ابو عبید نے اپنے فضائل میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ قرآن مجید کی آخری آیت جس کا عرش سے قریب ترین تعلق ہے۔ وہ آیت ربا اور آیت دین ہے۔ (3) الطیالسی ابو یعلی، ابن سعید، احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب قرضہ کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے سب سے پہلے انکار کیا وہ آدم (علیہ السلام) تھے (وہ یہ تھا کہ) جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور ان سے وہ تمام انسان نکالے جو قیامت تک پیدا ہونے والے تھے اور آدم (علیہ السلام) کے سامنے ان کی اولاد کو پیش کیا آدم (علیہ السلام) نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا جس کا چہرہ انتہائی روشن تھا پوچھا اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرا بیٹا داؤد ہے۔ پوچھا اے میرے رب اس کی کتنی عمر ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال۔ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب اس کی عمر زیادہ کردو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کی عمر زیادہ نہیں کروں گا مگر یہ کہ تیری عمر میں سے اس کی عمرزیادہ کردوں گا اور آدم کی عمر ایک ہزار سال تھی تو اللہ تعالیٰ نے داؤد کی عمر چالیس سال اور بڑھا دی اور آدم (علیہ السلام) کی عمر کم کر کے لکھ دی گئی اور فرشتوں کو بھی گواہ بنا لیا گیا جب آدم (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آیا فرشتے آئے تاکہ ان کی روح کو قبض کریں تو آدمی (علیہ السلام) نے فرمایا میری عمر ابھی چالیس سال باقی ہے ان سے کہا گیا کہ وہ تو آپ نے اپنے بیٹے داؤد کو دے دی تھی انہوں نے انکار کردیا کہ میں تو ایسا نہیں کیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف وہ تحریر ظاہر فرمائی اور اس پر فرشتوں نے بھی ان کے خلاف گواہی دی (مگر وہ نہ مانے) تو اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے ہزار سال پورے کر دئیے اور داؤد (علیہ السلام) کے سو سال بھی پورے کر دئیے۔ (4) شاعی، عبد الرزاق، عبد بن حمید، بخاری، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ادھار جس کی ضمانت دی گئی ہو ایک مقرر مدت تک ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی مدت کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی اجازت بھی دی ہے پھر دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی “۔ (5) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی عنہما نے فرمایا کہ (یہ آیت) لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین “ گیہوں میں بیع سلم کے بارے میں نازل ہوئی جس کا پیمانہ معلوم ہو مدت معلوم تک۔ (6) بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا (جب) نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ پھلوں میں بیع سلم کرتے تھے دو سال یا تین سال کے لیے تو آپ نے فرمایا جو شخص بیع سلم کرے تو اس کو چاہئے کہ معلوم پیمانہ کے ساتھ معلوم وزن کے ساتھ اور معلوم مدت کے ساتھ بیع سلم کرے۔ (7) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا بیع سلم نہیں ہے عطا تک، کھیتی کے کاٹنے تک، کھلیان تک، اس نچوڑنے تک بلکہ اس کے لیے ایک مدت مقرر کرلو۔ قرض کے لین دین کے وقت گواہ بنانا (8) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرضہ کا لین دین کرتے وقت گواہ بنانے کا حکم فرمایا تاکہ اس میں نہ انکار داخل ہوجائے اور نہ بھول جس نے اس پر گواہ نہیں بنایا اس نے فرمانی کی مسلمانوں کو جن کسی گواہ کی ضرورت ہو تو گواہ بننے سے انکار نہ کرو جس کے پاس کوئی شہادت ہو تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ جب اس کو بلایا جائے تو وہ انکار کر دے پھر اس کے بعد فرمایا لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ ضرر یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کہے اور وہ اس سے بےپرواہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ تو انکار نہ کرے جب تجھ کو بلایا جائے لیکن اس طرح گواہ کو تکلیف ہوگی جبکہ وہ کسی دوسرے گواہ سے گواہی حاصل کرسکتا ہو پس اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا تو اور فرمایا لفظ آیت ” وان تفعلوا فانہ فسوق بکم “ یعنی ایسا کرنا گناہ ہے اور فرمایا بڑے گناہوں میں گواہی کو چھپانا ہے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ومن یکتمھا فانہ اثم قلبہ “ (یعنی جس نے گواہی کو چھپایا تو اس کا دل گناہ کرنے والا ہے) ۔ (9) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” کاتب بالعدل “ سے مراد ہے کہ کاتب لکھنے میں دونوں کے ساتھ انصاف کرے نہ مطلوب پر (کسی قسم کی) زیادتی کرے اور نہ طالب کے حق میں کوئی کمی کرے۔ (10) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب کاتب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ کاتب پر لکھنا واجب ہے۔ (11) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب کاتب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ کاتب جب فارغ ہے تو انکار نہ کرے۔ (12) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا یاب کاتب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب کہ اس زمانہ میں کاتب کم تھے۔ (13) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب کاتب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ان دنوں میں کاتب کم تھے (اس لیے یہ حکم فرمایا) ۔ (14) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب کاتب “ میں کاتب کے لیے لکھنا واجب تھا مگر (اس حکم کو) اس آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ نے منسوخ کردیا۔ (15) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” کما علمہ اللہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا فرمایا۔ (16) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” کما علمہ اللہ “ جیسا کہ اللہ نے تم کو لکھنا سکھایا دوسرے کو محروم رکھا ہے لفظ آیت ” ولیملل الذی علیہ الحق “ اس سے مراد مقروض ہے یعنی مقروض کو چاہئے کہ وہ حق بات کاتب کو لکھوائے لفظ آیت ” ولا یبخس منہ شیئا “ یعنی قرض خواہ کے حق میں سے کچھ بھی کمی نہ کرے۔ لفظ آیت ” فان کان الذی علیہ الحق “ یعنی وہ مطلوب جس پر حق ہے ” سفیھا او ضعیفا “ یعنی وہ عاجز ہے یا گونگا ہے یا بیوقوف ہے لفظ آیت ” اولا یستطیع “ یعنی اچھی طرح نہیں لکھوا سکتا۔ لفظ آیت ” ان یمل ھو “ یعنی جس پر حق ہے ” فلیملل ولیہ “ پھر قرض خواہ کو لکھوانا چاہئے ” بالعدل “ (حق کے ساتھ لکھوا دے) کسی چیز کی زیادتی نہ کرے ” واستشھدوا “ یعنی گواہ بنالو اپنے حق پر ” شھیدین من رجالکم “ یعنی گواہ بنا لو دو مسلمان آزاد مردوں سے لفظ آیت ” فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتن ممن ترضون من الشھداء ان تضل احدہما “ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنا لو ان میں سے جن کو تم بطور گواہ پسند کرتے ہو تاکہ اگر دو عورتوں میں سے اگر ایک گواہی کو بھول جائے تو لفظ آیت ” فتذکر احدہما الاخری “ تو دوسری عورت یاد لائے جس کو گواہی یاد ہے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “ یعنی وہ شخص جس کے پاس گواہی ہے وہ انکار نہ کرے لفظ آیت ” ولا تسئموا “ یعنی لکھنے کو نہ بھول جاؤ لفظ آیت ” ان تکتبوہ صغیرا او کبیرا “ یعنی حق چھوٹا ہو یا بڑا ہو قلیل ہو یا کثیر ہو (لکھنا نہ بھولو) ” الی اجلہ “ اس کی مدت تک کیونکہ تحریر مدت اور مال کو شمار کرتی ہے ” ذلکم “ یعنی یہ تحریر لفظ آیت ” اقسط عند اللہ “ یعنی زیادہ انصاف والی ہے ” واقوم “ اور زیادہ درست ہے لفظ آیت ” للشھادۃ وادنی “ یعنی زیادہ لائق ہے لفظ آیت ” الا ترتبوا “ یعنی تم شک نہیں کرو گے جب حق مدت اور گواہی لکھی ہوگی پھر اس میں سے استثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ “ یعنی جب تجارت ہاتھ در ہاتھ ہو تو اس کو لکھنے میں کوئی حرج نہیں لفظ آیت ” تدیرونھا بینکم “ یعنی جس میں مدت نہیں ہوتی لفظ آیت فلیس علیکم جناح “ یعنی کوئی حرج نہیں لفظا آیت ” الا تکتبوھا “ کہ اس حاضر تجارت کو نہ لکھو ” واشھدوا اذا تبایعتم “ یعنی اپنے حق پر گواہ بنا لو ” وان تفعلوا “ یعنی اگر تم نے کاتب کو یا گواہ کو تکلیف دی کہ جس سے منع کیا گیا ہے ” فانہ فسوق بکم “ یعنی وہ گناہ ہے پھر اس سے ڈراتے ہوئے فرمایا ” واتقوا اللہ “ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس میں سے اس کی نافرمانی نہ کرو ” واللہ بکل شیء علیم “ یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والے ہیں تمہارے اعمال سے۔ (17) ابن جریر ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان کان الذی علیہ الحق سفیھا “ یعنی جس پر حق ہے وہ لکھوانے سے جاہل ہے (نہیں لکھوا سکتا) لفظ آیت ” او ضعیفا “ یعنی احمق ہے۔ (18) ابن جریر نے سعدی اور ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ” سفیھا “ سے مراد چھوٹا بچہ ہے۔ (19) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فلیملل ولیہ “ سے مراد قرض خواہ ہے۔ (20) عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلیملل ولیہ “ سے مراد ہے یتیم کا ولی۔ (21) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” فلیملل ولیہ “ بیوقوف یا ضعیف کا ولی۔ (22) عبد بن حمید ابن المنذر نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت واستشھدوا شھیدین “ سے مراد ہے جب خریدوفروخت نقد پیسوں کے ساتھ ہو تو گواہ بنا لو اور نہ لکھو مجاہد (رح) نے فرمایا کہ جب ادھار بیچے تو لکھ بھی لے اور گواہ بھی بنا لے۔ (23) سفیان، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “ میں آزاد لوگوں کو گواہ بننے کا حکم ہے۔ (24) سعید بن منصور نے داؤد بن ابی ہند (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مجاہد (رح) سے باندی سے ظہار کرنے کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا اس میں کچھ واجب نہیں میں نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے لفظ آیت ” الذین تظھرون من نساۂم “ کیا (باندیاں) عورتوں میں سے نہیں ہیں جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “ کیا پھر غلام کی گواہی جائز ہوگی ؟ (کیونکہ غلام بھی تو مردوں میں سے ہے اور وہ جائز نہیں ہے اسی طرح لونڈی سے بھی ظہار نہیں ہے) ۔ (25) ابن المنذر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ ان سے عورتوں کی شہادت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا جائز ہے قرضہ کے بارے میں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اور اس کے علاوہ کسی معاملہ میں جائز نہیں۔ (26) ابن المنذر نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ عورتوں کی گواہی صرف قرضہ میں جائز ہے۔ (27) ابن ابی حاتم نے یزید بن عبد الرحمن بن ابی مالک (رح) سے روایت کیا کہ حقوق کے بارے میں چار عورتوں کی گواہی دو مردوں کے بدلہ میں جائز نہیں اور مرد کے بغیر ان کی گواہی جائز نہیں ہے اور ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی بھی جائز نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتن “۔ ایک عورت کی گواہی معتبر نہیں (28) ابن المنذر نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ اکیلی عورتوں کی گواہی جائز نہیں مگر ان معاملات میں کہ جن میں صرف عورتوں کو خبر ہوتی ہے اور اس کے مشابہ وہ صورتیں ہیں جیسے ان کے حمل اور ان کے حیض ہیں (کہ ان چیزوں کے بارے میں صرف عورتوں کو ہی خبر ہوتی ہے) ۔ (29) مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص کوئی ایسی نہیں دیکھیں ہیں جو عقل والے پر تم سے زیادہ غالب آنے والی ہوں ایک عورت نے عرض کیا یا رسول اللہ عقل اور دین کا نقصان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کی عقل کا نقصان یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے تو یہ عقل کا نقصان ہوا اور عورت کئی راتیں ٹھہری رہتی ہیں (حیض، نفاس کی وجہ سے) نماز نہیں پڑھ سکتی اور رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتی یہ دین کا نقصان ہوا۔ (30) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ممن ترضون من الشھداء “ سے مراد ایسے گواہ ہوں جو انصاف کرنے والے (یعنی سچ بولنے والے ہوں) ۔ بچوں کی گواہی (31) سعید بن منصور، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی نے سنن میں ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کی طرف لکھا اور ان سے بچوں کی گواہی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” ممن ترضون من الشھداء “ یعنی گواہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تم پسند کرتے ہو پس بچے نہیں ہیں ان لوگوں میں سے جن سے تم خوش ہو اس لئے (بچوں کی گواہی) جائز نہیں۔ (32) امام شافعی و بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ممن ترضون من الشھداء “ سے مراد دو عادل آزاد مسلمان ہیں۔ (33) عبد بن حمید نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس (آیت) کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” فتذکر احدہما الاخری “ یعنی کاف کو تشدید کے ساتھ پڑھتے تھے۔ (34) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس (آیت) کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” فتذکر احدہما الاخری “ یعنی فتذکر کے لفظ کو خفیف یعنی بغیر تشدید کے۔ (35) ابن ابی داؤد نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرات میں اس طرح تھا لفظ آیت ” ان تضل احدہما فتذکر احدہما الاخری “۔ گواہ شہادت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے (36) بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “ کے بارے میں روایت کیا اگر مسلمانوں کو اس کی گواہی کی ضرورت ہو تو گواہی پر گواہی دے یا اس کے پاس گواہی ہو تو اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ بلانے پر انکار کردے اس کے بعد پھر فرمایا لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ اور ضرردینا یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے اور وہ اس سے بےپرواہ ہو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ تو انکار نہ کرے جب تجھ کو بلایا جائے لیکن وہ اس کو تکلیف دے اس بات سے (کہ انکار کر دے) اور حال یہ ہے کہ وہ اس گواہی کے ساتھ وہ بندھا ہوا ہے ( کہ اس کی گواہی کے بغیر اپنا حق نہیں لے سکتا) تو اس بات سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” وان تفعلوا فانہ فسوق بکم “ یعنی (اگر تم انکار کرو گے) تو تم کو گناہ ہوگا۔ (37) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اگر ان کے پاس شہادت ہو پھر ان کو بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں۔ (38) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ایک قوم کے پاس بار بار چکر لگاتا تھا اور ان کو گواہی کے لیے بلاتا تھا تو ان میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہ چلتا تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “۔ (39) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ ایک آدمی ایک بڑے قبیلے میں ایک قوم کے پاس بار بار چکر لگاتا تھا ان کو گواہی کی طرف بلاتا تھا تو ان میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہ چلتا تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (40) سفیان عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء اذا ما دعو “ کے بارے میں روایت کیا اگر تمہارے پاس شہادت ہو تو اس کو قائم کرو لیکن جب تجھ کو گواہی کے لیے بلایا جائے تو اگر چاہے تو چلا جا اور اگر چاہے تو نہ جا۔ (41) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے لفظ آیت ” ولا یاب الشھداء “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے وہ آدمی مراد ہے جس کے پاس شہادت ہو۔ (42) ابن جریر نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس میں دو حکم جمع کر دئیے ہیں پہلا حکم یہ ہے کہ جب تیرے پاس شہادت ہو تو شہادت دینے سے انکار نہ کر اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب شہادت کی طرف بلایا جائے تو جانے سے انکار نہ کر۔ (43) ابن المنذر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ذلکم اقسط عند اللہ “ سے مراد ہے ” اعدل “ یعنی یہ تحریر اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدل قائم کرنے کے لیے بہت مفید ہے۔ (44) ابن ابی حاتم اور ابو نعیم نے حلیہ میں حسن (رح) سے لفظ آیت ” واشھدوا اذا تبایعتم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس حکم کو اس آیت ” فان امن بعضکم بعضا “ (البقرۃ) نے منسوخ کردیا۔ (45) ابن المنذر نے جابر بن زید ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے ایک کوڑا خریدا تو اس پر میں نے گواہ بنا لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واشھدوا اذا تبایعتم “۔ (26) نحاس نے اپنی ناسخ میں ابراہیم (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے جب تو کسی چیز کو بیچے تو گواہ بنا لے اور جب تو کسی چیز کو خریدے تو گواہ بنا لے اگرچہ ایک گٹھڑ ترکاری کا کیوں نہ ہو۔ (47) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واشھدوا اذا تبایعتم “ سے مراد ہے کہ تم گواہ بنالو اگرچہ ایک ساگ کا گٹھڑا کیوں نہ ہو۔ گواہ کو اور تحریر لکھنے والے کو نقصان نہ پہنچائے (48) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ سے مراد ہے کہ ایک آدمی دو آدمیوں کے پاس آتا اور ان کو تحریر لکھنے اور گواہی دینے کی طرف بلاتا ہے تو وہ کہتے تھے کہ ہم کو کوئی حاجت ہے (ہم ابھی نہیں جاسکتے) تو وہ انہیں کہتا ہے کہ تم دونوں کو یہ بات قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بلانے والے پر یہ جائز نہیں کہ وہ کاتب اور شہید کو تکلیف دے۔ (49) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ سے مراد ہے اگر کاتب یا شاہد کو کوئی ایسی ضرورت ہو کہ جس کا چھوڑنا ممکن نہ ہو (تو ان کو تکلیف نہ پہنچاؤ) اور ان کو چھوڑ دو ۔ (50) سفیان، عبد الرزاق، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور بیہقی نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ یعنی مجہول کے صیغہ کے ساتھ۔ (51) ابن جریر نے کہا کہ حضرت ابن عباس ؓ یوں پڑھتے تھے۔ ” ولا یضار “۔ (52) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ اور وہ اس کی تاویل یہ کرتے تھے کہ وہ آدمی جاتا تھا جس کا حق ہوتا تھا اور وہ کاتب کو اور شاہد کو گواہی کے لیے بلاتا تھا شاید وہ کسی کام میں مشغول ہوتے تھے۔ (53) ابن جریر نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ سے مراد ہے کہ وہ ایسی بات لکھے جو اس کو نہیں لکھوائی تھی ” ولا شھید “ اور وہ ایسی گواہی دے جس کا اسے گواہ نہیں بنایا گیا۔ (54) ابن جریر اور بیہقی نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یضار کاتب “ یعنی وہ کوئی چیز زیادہ لکھ دے یا کوئی چیز مٹادے ” ولا شھید “ سے مراد ہے کہ گواہی کو نہ چھپائے اور سچی گواہی دے۔ (55) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ “ نازل ہوئی تو ان میں سے ایک آدمی کاتب کی طرف جا کر کہتا تھا مجھ کو لکھ دے تو وہ کہتا تھا کہ میں مشغول ہوں یا مجھے حاجت ہے (میں نہیں لکھ سکتا) تو میرے علاوہ کسی اور کے پاس چلے جاؤ۔ تو وہ اس سے چمٹ جاتا تھا اور کہتا تھا تجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ تو مجھے لکھ دے وہ اس کو نہیں چھوڑتا تھا اور وہ اس معاملہ میں اس کو تکلیف دیتا تھا حالانکہ وہ دوسرے کاتب کو پاتا تھا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ (56) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان تفعلوا فانہ فسوق بکم “ سے مراد ہے اگر وہ کام نہیں کرو گے جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے تو لفظ آیت ” واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ “ (یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اللہ تعالیٰ تم کو سکھاتے ہیں) یعنی یہ تعلیم ہے جو تم کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی سو اس کو (مضبوطی سے) پکڑ لو۔ (57) ابو یعقوب البغدادی نے کتاب روایۃ الکبار عن الصغار میں سفیان ؓ سے روایت کیا جو اپنے عمل کے مطابق عمل کرتا ہے تو وہ مدد دیا جائے گا اس علم کے ساتھ جو وہ نہیں جانتا۔ (58) ابو نعیم نے الحلیہ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے عمل کیا اس علم پر جو وہ جانتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ایسے علم کا وارث بنائیں گے جس کو وہ نہیں جانتا۔ (59) ترمذی نے یزید بن سلمہ جعفی ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ میں نے آپ سے بہت سی حدیثیں سنی ہیں اور میں ڈرتا ہوں اس کا اول اور اس کا آخر بھول جاؤں گا۔ مجھے ایسا کلمہ بتا دیجئے جو ان سب کا جامع ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈر اس بارے میں جو جانتا ہے۔ (60) الطبرانی نے الاوسط میں جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تقویٰ کے معاون میں سے یہ بھی ہے کہ جو تو جانتا ہے اس کے ساتھ وہ بھی سیکھے جو تو نہیں جانتا اور جو تو جانتا ہے اس میں نقص اور تقصیر یہ ہے کہ اس میں زیادتی کا خواہش مند نہ ہو اور جو چیز انسان نہیں جانتا اس میں عدم دلچسپی کا باعث انسان کے علم میں اس سے نفع نہ اٹھانا ہے۔ (61) الداری نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ (ان کے والد) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عبد اللہ بن سلام ؓ سے پوچھا ارباب علم کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا وہ لوگ جو عمل کرتے ہیں اس چیز پر جو وہ جانتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے پوچھا کہ لوگوں کے سینوں میں کس چیز سے علم اٹھ جاتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا طمع یعنی لالچ سے۔ (62) بیہقی نے شعب میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ خاموشی کو سیکھو، پھر بربادی کو سیکھو، پھر علم کو سیکھو، پھر اس پر عمل کرنے کو سیکھو پھر اس کو پھیلاؤ۔ (63) ابن ابن الدنیا نے کتاب التقویٰ میں زیادبن جریر ؓ سے روایت کیا کہ جو قوم دین کی سمجھ حاصل نہیں کرتی وہ تقویٰ کو نہیں پہنچ سکتی۔ (64) ابن ابی الدنیا نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب میں جانتا ہوں کہ میرے بندہ پر میری اطاعت کو مضبوطی سے پکڑنا غالب ہے تو میں اس پر احسان کرتا ہوں کہ وہ میرے ذکر میں مشغول رہے اور میری طرف ہی متوجہ رہے۔ (65) ابو الشیخ نے جویبر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا علم اسلام کی حیات ہے، ایمان کا ستون ہے اور جو علم کی تعلیم دے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس کے اجر میں قیامت کے دن تک اضافہ کرنا رہے گا اور جس شخص نے علم سیکھا اور اس پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو وہ باتیں سکھائے جو وہ نہیں جانتا۔ (66) ھناد نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا نہیں سنتا وہ آدمی جس کے ساتھ زانیہ عورت ہے جب بھی اس سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ! مجھے بخش دے، تو رب تعالیٰ فرماتے ہیں اس عورت سے دور ہوجا میں تجھ کو بخش دوں گا ورنہ نہیں۔ اور وہ آدمی جو کوئی چیز ایک مدت تک فروخت کرتا ہے اس پر گواہ نہیں بناتا اور اس کو نہیں لکھتا پھر مشتری اس کے حق کا انکار کر دے تو کہتا ہے اے میرے رب فلاں آدمی نے میرے مال کا انکار کردیا ہے تو رب تعالیٰ فرماتے ہیں تجھ کو نہ میں اجر دوں گا اور نہ تجھ کو جواب دوں گا میں نے تجھ کو حکم دیا تھا لکھنے کا اور گواہ بنانے کا تو نے میری نافرمانی کی۔ اور وہ آدمی جو کسی قوم کا مال کھاتا ہے اور وہ ان کی طرف دیکھتا رہتا ہے اور پھر دعا کرتا ہے اے میرے رب ! مجھ کو بخش دیجئے جو کچھ میں نے ان کے مال میں سے کھایا تو رب تعالیٰ فرماتے ہیں ان کا مال واپس کر دے (تو تجھے بخش دوں گا) ورنہ نہیں بخشوں گا۔
Top