Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
(تفسیر) 282۔: (یایھا الذین ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسمی ۔ اے ایمان والوں جب تم ادھار ، لین دین والا معاملہ کرو ایک میعاد معین تک) اس کو لکھ لیا کرو، (آیت)” اذا تداینتم “ سے مراد ہے کہ جب تم ادھار کا معاملہ کرو جیسے کہا جاتا ہے ” داینتہ اذا عاملتہ بالدین “۔ بدین کا ذکر ” تداینتم “ کے بعد کیا کیونکہ مداینہ میں مجازاۃ اور کبھی معاطاۃ بھی ہوتا ہے پھر اس کو دین کے ساتھ مقید کیا تاکہ لفظ کی مراد واضح ہوجائے ، بعض حضرات نے کہا کہ یہ تاکید کے طور پر دوبارہ ذکر کیا ، ” اجل “ سے مراد مدت معلوم ہو ابتدائی مدت ہو یا انتہائی ہو اور اجل ثمن میں اور بیع سلم میں مقرر کرنا لازم ہے تاکہ صاحب حق وقت سے پہلے مطالبہ نہ کرے اور قرض میں اجل لازم نہیں ، یہی اکثر اہل علم کا مسلک ہے ۔ لین دین لکھنے کا حکم : ” فاکتبوہ “ سے مراد کہ اس معاملہ کو لکھ لیا کرو خواہ وہ معاملہ بیع شراء کا ہو یا بیع سلم کا ہو یا قرض کا ہو ، اس لکھنے کے حکم کے متعلق آئمہ مفسرین کا اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ لکھنا واجب ہے اور اکثر حضرات کے نزدیک لکھنا مستحب ہے ، اگر لکھنے کو چھوڑ دیا گیا تو پھر کوئی حرج نہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں (آیت)” فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض “۔ نماز کے بعد زمین پر پھیل جانا اس میں کوئی حرج نہیں مستحب ہے اور بعض نے کہا کہ قرض کے متعلق لکھنا اور گواہی کے متعلق یا رھن کے متعلق لکھنا پہلے فرض تھا پھر یہ سب منسوخ ہوگیا ، اس آیت سے (آیت)” فان امن بعضکم بعضا فلیؤد الذی اتمن امانتہ “۔ اور یہ قول امام شعبی (رح) کا ہے پھر اس کے بعد اللہ عزوجل نے اس کی کیفیت بیان فرمائی ( (آیت)” ولیکتب بینکم کاتب بالعدل اور چاہے تو لکھ دے تمہارے درمیان انصاف کے ساتھ) قرض لکھنے والا مدیون اور دائن دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ لکھے نہ تو وہ لکھنے میں کسی کا حق کم لکھے اور نہ ہی زیادہ اور نہ مقررہ مدت کو کم کرکے لکھے اور نہ ہی بڑھا کر لکھ (ولا یاب اور نہ انکار کرے) نہ روکے (کاتب ان یکتب لکھنے والا لکھنے سے) اس بات میں آئمہ کا اختلاف ہے کہ کیا لکھنے والے پر تحریر کرنے اور گواہ پر گواہی دینا واجب ہے ؟ بعض حضرات نے کہا کہ ان دونوں پر واجب ہے کہ جب ان کو طلب کیا جائے ۔ یہ قول مجاہد (رح) کا ہے اور حسن (رح) فرماتے ہیں کہ اس شخص پر لکھنا واجب ہے جب اس کے علاوہ اور کوئی لکھنے والا نہ ہو اور بعض نے کہا کہ کاتب اور شاہد پر مستحب ہے کہ وہ لکھیں یا گواہی دے اور ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ کاتب پر لکھنا اور شاہد کے لیے گواہی دینا واجب ہے یہ اس آیت ” ولا یضار کاتب ولا شھید “ سے منسوخ ہے (کماعلمہ اللہ جیسے سکھایا اس کو اللہ نے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مشروع فرمایا اور حکم دیا (پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور وہ شخص لکھوا دے جس کے ذمہ حق واجب ہو) مطلوب اس کے سامنے اس بات کا اقرار کرے تاکہ دوسرے کو معلوم ہوجائے کہ اس پر کیا واجب ہے ، املال اور املاء یہ دو فصیح الغتان ہیں لیکن ان دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔ املال کا ذکر تو یہاں ذکر کیا گیا اور املاء کا ذکر دوسری جگہ (آیت)” فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا “۔ ( (آیت)” ولیتق اللہ ربہ “۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا پالنے والا ہے) لکھتے وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے ( (آیت)” ولا یبخس منہ شیئا “۔ اور اس سے ذرہ برابر بھی کمی نہ کرے) اس سے کمی نہ کیا کرو جو حق اس پر واجب ہے اس میں کسی چیز کی کمی نہ کرے (فان کان الذی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سفیھا) پس اگر وہ جس پر حق ہو وہ ناقص العقل ہو ) یعنی لکھنے سے جاہل ہو ، امام مجاہد (رح) اور ضحاک (رح) ، سدی (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد چھوٹا بچہ ہے ۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ” سفھہ “ سے مراد فضول خرچ ہے جس پر قرض ہو (اوضعیفا یا وہ بوڑھا ہو) بوڑھا شیخ مراد ہے، بعض نے کہا کہ اس سے ضعیف العقل یا بچپنہ پن یا جنون ہو ( (آیت)” اولا یستطیع ان یمل “۔ یا وہ خود لکھانے کی قدرت نہیں رکھتا) گونگا ہونے کی وجہ سے یا اندھا ہونے کی وجہ سے یا عجمی ہونے کی وجہ سے یا قید میں ہونے کی وجہ سے یا غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا اس تک کتابت کا پہنچانا ناممکن ہو یا اس کی جگہ کا علم نہ ہو (ھو یملل ولیہ تو چاہیے کہ لکھوائے اس کا ولی) ولی جو اس کا سرپرست ہے (بالعدل انصاف سے) مراد صدق اور حق ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ اور مقاتل (رح) کے نزدیک اس سے مراد قرض دینے والا ہے ۔ اگر یہ لکھوانے سے عاجز ہے تو ولی اس کا حق لکھوالے اور صاحب دین انصاف سے لکھوائے کیونکہ اس کو اس کے قرض کا علم ہے (واستشھدوا اور گواہ بنا لو) اس پر گواہ مقرر کرلو (شھدین دو گواہ) گواہی دینے والے دو اشخاص (من رجالکم تم اپنے مردوں میں سے) رجال سے مراد آزاد مسلمان ہو غلام اور بچہ نہ ہو اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے ، شریح ابن سیرین نے غلاموں کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے ( (آیت)” فان لم یکونا رجلین “۔ پھر اگر دو مرد نہ ہوں) دو گواہ مرد نہ ہوں (فرجل وامراتین تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں) پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔ بچوں اور عورتوں کی گواہی کا حکم : ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی اموال میں جائز ہے اور غیر اموال میں آئمہ کے مختلف اقوال ہیں ، ایک جماعت کے نزدیک عقوبات کے علاوہ میں مرد کے ساتھ عورتوں کی گواہی معتبر ہے ، یہ قول سفیان ثوری اصحاب الرای کا ہے ، اور ایک جماعت کے نزدیک غیر مال میں دو عادل مردوں کی گواہی معتبر ہوگی ۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ان کاموں میں عورتوں کی گواہی قابل قبول ہوگی جن کا تعلق عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے جیسے کہ ولادت اور رضاعت ثیبہ بکارۃ کے مسائل میں (عورتوں کی گواہی معتبر ہوگی) اور اگر مرد ہو تو چار عورتوں کی گواہی معتبر ہوگی ۔ اور اس بات کا اس میں اتفاق ہے کہ عقوبات (سزائیں ، حدود ، قصاص) میں عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں (ممن ترضون من الشھدائ “۔ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں سے) جن سے تم راضی ہو۔ شرائط شہادت : ان کی دیانت اور امانت سے شہادت کی قبولیت کی سات شرائط ہیں ، مسلمان ہوں ، آزاد ہوں ، عاقل ہوں ، بالغ ہوں ، عادل ہوں ، صاحب مروت ہوں ، متہم نہ ہوں ۔ کن کی شہادت مقبول ہے اور کن کی شہادت مردود ہے : کافر کی شہادت مردود ہے کیونکہ لوگوں کے نزدیک ان کا کذب مشہور ہے اس لیے انکی گواہی جائز نہیں ، جو اللہ تعالیٰ پر کذب کرے ، اولی یہ ہے کہ اس کی گواہی مردود ہو اور بعض حضرات نے اہل ذمہ کی شہادت ذمی کے لیے جائز ہے ، غلام کی شہادت مقبول نہیں لیکن شریح اور ابن سیرین کے نزدیک غلام کی شہادت جائز ہے اور یہی قول انس بن مالک ؓ کا ہے ۔ اور نہ ہی مجنون کا قول یہاں تک کہ اس کی شہادت دی جائے اور نہ ہی بچے کی گواہی معتبر ہے ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے جائز نہیں (آیت)” ممن ترضون من الشھدائ “ عدالۃ شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ گواہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور صغائر پر اصرار کرنے والا نہ ہو اور مروء ۃ کی شرط ہے ان آداب کا خیال رکھا جائے جن کے ترک کرنے سے حیاء میں کمی محسوس ہوجاتی ہے ، حسن الہیئت ہو ، حسن سیرت ، حسن معاشرت ، اور حسن صناعت ہو، انسان سے ایسی چیز ظاہر ہوجائے جس کے ظاہر ہونے سے انسان کو حیا آتی ہو تو ایسے امور سے شہادت مقبول نہیں ہوتی ، تہمت سے بچنا یہ بھی شرط ہے کیونکہ دشمن کی دشمن کے مقابلے میں شہادت مقبول نہیں ہوتی ، اگرچہ غیر کے معاملے میں اس کی شہادت مقبول ہوتی ہے اور اپنے دشمن کے حق میں ” متھم “ ہے اور شہادت قبول نہیں باپ کی بیٹے کے لیے اور نہ ہی اس کے برعکس اگرچہ دونوں مقبول الشہادت بھی ہوں ، اور ایسے شخص کی شہادت بھی مقبول نہیں جس کی شہادت میں نفع ہو جیسے وارث کی گواہی ہو اس کی مورث کے مقتول کے متعلق دے یا کسی ضرر کی بناء پر وہ اپنے آپ کو گواہی دینے سے بچائے جیسا کہ اگر کوئی شخص اس بات پر گواہی اس وجہ سے دے کہ اگر میں نے فریق مخالف کے بارے میں گواہی دی تو وہ مجھے نقصان پہنچاے گا ۔ حضرت عروہ ؓ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ خائن اور خائنتہ کی گواہی معتبر نہیں اور ناتجربہ کار کی گواہی اپنے بھائی کے لیے اور نہ آقا کی اپنے غلام کے لیے اور نہ ہی قریبی رشتہ دار کی اور نہ قانع کی اپنے گھر والوں کے لیے (ان تضل احداھما ان دونوں میں سے کوئی ایک بھول جائے) حضرت حمزہ ؓ نے ” ان تضل “ ان شرطیہ اور مکسور ہے اور ” فتذکر “ مرفوع ہے اور یہ پورا جملہ جزاء ہے اس صورت میں ” تضل “ مجزوم ہوگا شرط کی وجہ سے مگر تشدید کی بناء پر اس پر جزم نہیں آتی اور دوسرے حضرات نے ” ان تضل “ میں ہمزہ مفتوح کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں ان ناصبہ ہے ” تضل ” مفتوح اور ” فتذکر “ بھی منصوب ہوگا اور ” فتذکر “ کا عطف ” تضل “ پر ہے اس لیے یہ منصوب ہوگا ، آیت کا معنی یہ ہوگا کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے گی (احداھما الاخری تو ان میں سے ایک دوسرے کو یاد دلا دے) ” تضل “ کا معنی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھول جائے گواہی دینے میں تو دوسری یاد دلا دے گی وہ اس طرح کہے کہ ہم فلاں مجلس میں حاضر نہیں تھے اور کہا ہم نے ان سے سنا نہیں ۔ ابن کثیر (رح) اور اہل بصرہ نے ” فتذکر “ تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے ” ذکر “ اور ” اذکر “ کا معنی ایک ہی ہے یہ دونوں ذکر سے متعدی ہیں یہ نسیان کی ضد ہے سفیان بن عیینہ سے حکایت کی گئی کہ فرماتے ہیں کہ ذکر سے مراد کہ ایک دوسری عورت کو بات کرکے یاد دلا دے یعنی ایک کی یاد دہانی سے دوسری بھی اس پر گواہی دے ، پہلی صورت اولی ہے دوسری سے ۔ (آیت)” ولا یاب الشھداء اذا ما دعوا “۔ اور گواہ (گواہی دینے سے) انکار نہ کریں جب بلایا جائے) بعض حضرات نے کہا کہ جب ان کو شہادت کے لیے بلایا جائے تو ان کو حاضر ہونا چاہیے ، شہداء کے نام کے ساتھ موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہی شہداء (گواہی دینے کے اہل) ہیں اور بعض نے کہا کہ یہ امر و جواب کے طور پر ہے اور بعض لوگوں نے کہا کہ جب ان کے علاوہ اور کوئی گواہی دینے والا موجود نہ ہو تو ان کو گواہی دے دینی چاہیے ، اگر ان کے علاوہ کوئی اور بھی ہوں تو ان کو اختیار ہے اور یہی قول حسن کا ہے اور بعض قوم نے کہا کہ یہ حکم مندوب ہے تمام احوال میں خواہ ان کے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہو یا نہ ہو ، آیت کا معنی یہ ہوگا اور گواہ انکار نہ کریں جب ان کو گواہی کے لیے بلایا جائے جب وہ شہادت کے اہل ہوں ۔ امام شعبی (رح) فرماتے ہیں گواہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ گواہی نہ دے اور حسن (رح) فرماتے ہیں کہ تمام کاموں میں تحمل شہادت کا ہونا ضروری ہے جب کہ وہ فارغ ہو (ولا تساموا اور نہ سستی کرے) ” تملوا “ سے ہے اپنے نفسوں پر گواہی دینے سے ملال نہ کرو (ان تکتبوہ کہ تم اس کو لکھو) ہ ضمیر حق کی طرف راجع ہے ، (صغیرا چھوٹا ہو) وہ حق (اوکبیرا یا بڑا ہو) وہ حق تھوڑا ہو یا زیادہ (الی اجلہ ایک میعاد مقررہ تک) اس حق کی ادائیگی کی جگہ (ذلکم یہ) مراد کتاب ہے (اقسط زیادہ انصاف) عدل مراد ہے (عند اللہ اللہ کے نزدیک) کیونکہ یہ حکم اللہ ہی نے دیا ہے اس حکم کی اتباع کرنا زیادہ اولی ہے اس کے ترک کردینے سے (واقوم للشھادۃ اور اداء شہادت کو بہت قائم رکھنے والا) کیونکہ کتابت شہادت کو یاد دلاتی ہے (وادنی اور زیادہ قریب) یہ زیادہ آسان اور اس کے زیادہ قریب ہے (الاترتابوا کہ نہ شبہ میں پڑو) گواہی دینے میں شک میں نہ پڑو (الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ “ مگر یہ کہ تجارت ہو دست بدست) عاصم (رح) نے اس کو منصوب پڑھا کان کی خبر ہونے کی وجہ سے اور اس اسم ضمیر ہے ، عبارت یہ ہوگی ” الا ان تکون التجارۃ اور المبایعۃ تجارۃ “ اور دوسرے حضرات نے ” تجارۃ حاضرۃ “ مرفوع پڑھا ہے اس کی دو وجہیں ہیں۔ (1) تکون تامہ ہو تو اس صورت میں ” تریدونھا، تجارۃ “ کی صفت ہوگی ۔ (2) اور اگر تکون کو ناقصہ کہا جائے تو اس صورت میں ” تدیرونھا “ خبر ہوگی (تدیرونھابینکم جسے تم لیتے ہر تے ہو آپس میں) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مگر یہ کہ لین دین دست بدست جس کو تم آپس میں لیتے رہتے ہو اور جس کی میعاد متعین نہ ہو (اس کو نہ لکھنے کا تم پر کوئی گناہ نہیں) مراد اس سے تجارت ہے ۔ واشھدوا اذا تبایعتم “۔ اور خریدو فروخت کے وقت گواہ بنا لیا کرو) ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ عزم کرنا ہے گواہی دینا واجب ہے چھوٹے کے حق میں بڑے کے حق میں نقدی ہو معاملہ یا ادھار ہو ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ یہ حکم بطور امانت کے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” فان امن بعضکم بعضا “۔ بعض نے کہا کہ یہ حکم استحباب کے طور پر ہے (آیت)” ولا یضار کاتب ولا شھید “۔ اور کسی کاتب کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ کسی گواہ کو) یہ نہیں غائب کے لیے ہے ” یضار “ اصل میں ” یضارر “ تھا ، ایک راء کو دوسرے میں مدغم کیا گیا اور نصب دیا گیا ، اس کے اصل صیغہ میں اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ ” یضارر “ انہوں نے اس نہی کو کاتب اور شاہد کے ساتھ قرار دیا ہے ، آیت کا معنی یہ بنے گا کہ کاتب کسی کو تکلیف نہ دے کہ وہ لکھنے سے انکار کر دے اور نہ کوئی گواہ تکلیف دے بایں طور پر کہ وہ گواہی دینے سے انکار کرلے ، یہ طاؤس (رح) ، حسن (رح) ، اور قتادہ (رح) کا قول ہے اور بعض حضرات نے کہا کہ یہ اصل میں ” یضار “ تھا ، فعل مجہول اس صورت میں کاتب اور شاہد دونوں مفعول ہوں گے ، معنی یہ ہوگا کہ جب کوئی شخص کاتب یا شاہد کو بلائے ، اس حال میں کہ وہ دونوں کسی اہم کام میں مشغول ہوں تو جب ان سے کہا جائے تو یہ دونوں جواب میں کہیں کہ ہم اہم کام میں مشغول ہیں، ہمارے علاوہ کسی اور کو تلاش کرو (وان تفعلوا اور اگر تم کرو گے) (جس ضرر رسانی سے ہم نے تم کو منع کردیا ہے اگر وہ فعل تم کرو گے (فانہ فسوق بکم تو اس میں تمہارے لیے گناہ ہوگا) فسوق سے مراد معصیت اور اس حکم سے خروج ہے ، (آیت)” واتقوا اللہ ویعلمکم اللہ واللہ بکل شیء علیم اللہ کے حکم کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور اللہ تم کو تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جاننے والے ہیں) ۔
Top