Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو ! جب تم معیاد مقرر تک ادھار لین دین کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ لکھنے والا تمہارے درمیان انصاف سے لکھے اور لکھنے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے لکھنے سے انکار نہ کرے پس لکھ دے اور وہ شخص (بول کر) لکھوائے جس کے ذمہ حق (قرض) واجب ہو اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس میں ذرہ برابر کمی نہ کرے پھر اگر وہ شخص کہ جس کے ذمہ حق (قرض) ہے ضعیف العقل ہو یا ضعیف البدن ہو یا وہ بول کر سکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور گواہ کرلو اپنے مردوں میں سے دو گواہ پس اگر وہ مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو تاکہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو ان میں سے ایک ، دوسری کو یاد دلادے اور جب گواہ طلب کیے جائیں تو انکار نہ کریں اور (قرض) چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک اس کے لکھنے میں کاہلی نہ کرو تمہارا ایسا کرنا اللہ کے نزدیک بہت انصاف قائم رکھنے والا ہے اور شہادت کے لئے بہت درست ہے اور اس بات کے نزدیک ہے کہ تمہیں کسی قسم کا شبہ نہ پڑے ہاں اگر سودا دست بدست ہو کہ تم آپس میں لیتے دیتے ہو اگر اس کو نہ لکھو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اور جب تم سودا کرو تو گواہ کرلیا کرو اور کسی لکھنے والے کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ کسی گواہ کو اور اگر تم ایسا کرو گے تو یقینا یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہوگی اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تم کو تعلیم فرماتے ہیں اور اللہ ہر چیز کے جاننے والے ہیں
آیات 282- 283 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا اذاتداینتم……………واللہ بکل شیء علیم۔ آج کا دور تو تعلیم و تعلم اور نئی نئی ایجادات کا ہے اب تو بات کمپیوٹر کو بھی فیڈ کی جاسکتی ہے مگر معاملات کے بارے میں خصوصاً مالی معاملات جو اکثر جھگڑوں کی بنیاد بنتے اور پورے معاشرے کے سکون کو تباہی کے گڑھے میں پھینکنے کا سبب بنتے ہیں لیکن آج سے چودہ صدیاں پیشتر دیکھا جائے تو یہ صرف اسلام تھا جس نے انسان کو معاملات یا لین دین میں تحریر اور شہادت کا طریقہ تعلیم فرمایا کہ اس طرح سے نہ کسی کی حق تلفی ہو اور نہ فساد پیدا ہونے کا امکان رہے آج جو طریقہ رائج ہیں اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جن میں اصل وہی ہے کہ لین دین یا یاداشت کے لئے ضبط تحریر میں لایا جائے اگر جدت آگئی ہے تو طرز تحریر میں اور بس۔ ارشاد ہے کہ اے ایمان والو ! جب تم آپس میں کسی مدت تک ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ یہاں یہ تعلیم فرمایا کہ ایک تو معاہدہ ہو اور پھر قرض کی مدت مقرر کی جائے ایسی مدت کہ جس میں ابہام نہ ہو کہ جی فصل آنے پر دے دوں گا یہ درست نہیں بلکہ تاریخ اور مہینہ تک معین ہونا چاہیے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ لکھنے والا تمہارے درمیان پوری دیانتداری اور انصاف سے لکھے کسی فریق کی طرفداری نہ کرے کسی کے دنیوی نفع کے لئے اپنا ابدی نقصان نہ کرے۔ نیز پڑھا لکھا آدمی لکھنے سے انکار نہ کرے کہ اللہ نے اسے پڑھنا لکھنا سکھایا ہے تو اللہ کی مخلوق کے کام آکر ہی اللہ کا شکر بھی ادا کرسکتا ہے نیز جس کے ذمہ حق ہے وہ تحریر لکھوائے یا دستاویز کا مضمون وہ املاء کرائے اور اللہ سے ڈرتا رہے لکھوانے میں کسی طرح کی کوئی کمی بیشی اور حیلہ سازی نہ کرے۔ اور اگر جس پر قرض ہے وہ بےعقل ہے یا ایسا بوڑھا جس کی عقل درست نہیں یا املاء نہیں کراسکتا جیسے گونگا یا پردہ نشیں عورت تو چاہیے کہ اس کا ولی تحریر کرادے۔ مجنون اور نابالغ کا تو ولی ہی تحریر کرائے گا۔ گونگے یا پردہ نشیں عورت یا کسی غیر ملکی کی طرف سے جو زبان سے واقف نہ ہو۔ ولی ہی تحریر کرائے گا اور اگر وہ کسی کو اپنا وکیل مقرر کرے تو بھی درست ہے کہ لفظ ولی کے معنی میں وہ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ یہ سارا حکم استحبابی ہے جیسے ، واذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض۔ یہاں تک بات ضبط میں لانے کی تھی۔ اس کو درست ثابت کرنے کے لئے ارشاد ہوا ، اس پر تم میں سے دو مردوں کی گواہی ہونی چاہیے ۔ تم میں سے ظاہر ہے کہ گواہ مسلمان ہونے چاہئیں اور بالغ اور عادل ہوں کہ فاسق شہادت کا اہل نہیں اور اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کرلو۔ ایسے مرد اور ایسی عورتیں جن کی گواہی تمہیں پسند ہو ، یعنی عادل ہوں فاسق نہ ہوں ، ناپسندیدہ افراد نہ ہوں۔ اور ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتیں اس لئے کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلاسکے۔ نیز اکیلی عورت کا مردوں کی مجلس میں جانا پسندیدہ بات نہیں دو ہونگی تو بات اور ہوگی۔ عورت کی شہادت : نہ اکیلا مرد شہادت کے لئے کافی ہے اور نہ دو عورتیں ۔ بلکہ ایک مرد اور دو عورتیں ہوں اور بہتر صورت یہ ہے کہ شہادت مردوں سے دلائی جائے۔ آج کل ہمارے ہاں اس بات کا بہت چرچا ہے شرعی قانون شہادت میں بالکل اسی طرح سفارش کی گئی جس طرح اللہ کا ارشاد ہے اس پر ملک بھر میں عورتوں کے ایک خاص طبقہ نے بڑا شور مچایا ، یہاں تک کہ جلوس نکلے لاٹھی چارج ہوئے اور ابھی شورش ختم نہیں ہوئی حیرت ہے کہ عورت اس بات پہ جلوس کیوں نہیں نکالتی کہ اسے عورت کیوں بنایا گیا ہے غالباً مردانہ شکل بنا کر ، بال ترشوا کر بازاروں میں گھومنے والی عورتیں اس بات پہ مجسم احتجاج ہیں۔ ان کے مقابلے میں مردوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو اپنے مرد بنائے جانے سے بیزار ، سرخی پائوڈر لگا کر زنانہ لباس پہن کر بازاروں میں کھڑے صنعت باری پہ احتجاج کناں نظر آتے ہیں۔ یہ سب باتیں اللہ نے ناآشنائی ، خالق کی عظمت سے جہالت اور دین سے دوری کا ثبوت ہیں۔ مساوات کے یہ معنی نہیں کہ مرد اور عورت کو کانٹ چھانٹ کر ، ملا جلا کر کوئی درمیانہ راستہ اپنایا جائے اور ایسی مخلوق وجود میں آئے جو ہر طرح سے برابر ہو۔ بلکہ مساوات کا یہ معنی ہے کہ مرد کو جو حق بحیثیت مرد حال ہے وہ ملے اور عورت کو جو حق بحیثیت عورت حاصل ہو۔ عورتوں کو قال کرنے کے لئے ٹیلیویژن پروگرام آئے۔ بڑازور لگایا گیا ، لیکن صرف ان باتوں پر کہ عورت کہاں عدالتوں میں خوار ہوتی پھرے۔ اللہ نے اولاً مردوں کو گواہ کیا ہے اور مجبوراً گواہی دینی پڑے تو عورت اکیلی نہ ہو کم از کم دو ضرور ہوں۔ بھئی ! یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے مگر جو بات اللہ نے ساتھ بیان فرمادی ہے وہ کیوں نہیں کہتے کہ عورت فطرتاً مرد کی نسبت کم استعداد رکھتی ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ اگر ایک ہوئی اور بھول گئی تو پھر اس کے لئے کسے گواہ لائو گے ، شروع ہی سے دو رکھو کہ یاد دلاسکیں اور ایک دوسری کے ساتھ بھی ہوں۔ رہی استعداد کی بات ، تو عرض ہے کہ اصل علم نبوت ہے جو تمام علوم کا سرچشمہ اور ساری انسانیت کے لئے مصدر اور منبع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر چہ تمام انبیاء (علیہ السلام) نے عورتوں کی گود میں پرورش پائی۔ بجز حضرت آدم (علیہ السلام) ، جو براہ راست مٹی سے تخلیق کئے گئے مگر کسی عورت کو نبوت عطا نہیں ہوئی اور یہ بار امانت عورت پر نہیں ڈالا گیا۔ کیا کوئی عورت یہاں احتجاج کرے گی ؟ ایک حدیث پاک کا مضمون ہے کہ عقل مند اور سمجھ رکھنے والے مرد کو کم عقل اور کم دین رکھنے والی یعنی عورت سے بڑھ کر کوئی اندھا نہیں کرتا۔ تو کسی عورت نے عرض کی ، یا رسول اللہ ﷺ ! ہم عقل یا دین میں کمزور ہیں ؟ ارشاد ہوا ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی شہادت تو عقل کی کمی پر دال ہے اور ہر ماہ ایام مخصوصہ میں نماز ، روزہ نہ کرسکنا یا نماز کا معاف ہونا ، دین کے نقص پہ شاہد۔ تو کیا ہماری ترقی پسند خواتین جلوس نکالیں گی کہ آئندہ مرد بچے جنا کریں یا ایک بچہ عورت جنے اور ایک مرد ، کہ مساوات قائم رہے ؟ یہ ہرگز مساوات نہیں ، بلکہ مساوات یہ ہے کہ جو فرائض عورت کے ذمہ ہیں وہ ادا کرے ، اور جو حقوق اس کے بحیثیت عورت ہیں ضائع نہ ہونے پائیں۔ اور جو فرائض اللہ نے مرد کے ذمے لگائے ہیں وہ ادا کرے اور اپنے حقوق حاصل کرے۔ نیز جس کو گواہی کے لئے کہا جائے بلا عذر شرعی انکار نہ کرے کہ یہی احیائے حق کا طریقہ ہے اور شبہات سے بچنے کا ذریعہ نہ کوئی ایسا شخص جو گواہ ہو گواہی پر حاضری سے انکار کرے اور نہ ہی دستاویز لکھنے میں سستی کرو ، معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ ضرور مقررہ میعاد لکھا کرو کہ یہ تحریر اور شہادت ہی شک وشبہ سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سودا دست بدست ہو تو تحریر نہ لکھی جائے تو بھی حرج نہیں مگر بہتر ہے اس پر بھی گواہ کرلو ، کہ کسی وقت دینے والا یا لینے والا اپنی بات سے پھر نہ سکے۔ اور کوئی نزاع پیدا نہ ہو کبھی لکھنے والے یا گواہی دینے والوں کو تنگ نہ کرو کہ ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو ، پتہ چلا کہ کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانا حرام ہے۔ کاتب اگر اجرت مانگے یا گواہ آنے جانے کا خرچ طلب کرے تو یہ اس کا حق ہے ادا نہ کرنا بھی اس کو نقصان پہنچانا ہی ہوگا جو حرام ہے اور سخت گناہ۔ دین برحق نے پہلے تو معاملات کو ضبط تحریر میں لانے اور ان پر شہادت قائم کرنے کا حکم دیا۔ پھر کاتب کو ارشاد ہوا کہ لکھنے سے انکار نہ کرے ، نیز مسلمان شہادت دینے سے گریز نہ کریں اور آخر میں ارشاد ہوا کہ کاتب کر پریشان نہ کیا جائے نہ اس کو مالی نقصان پہنچایا جائے ، نہ توہین کی جائے اور نہ بلا وجہ عدالتوں کے چکر لگوائے جائیں تاکہ بات صاف ہو جھگڑے کم ہوں اور ان میں بھی انصاف حاصل ہوسکے۔ اب تو حال برعکس ہے پہلے تو گواہ کو تھانیدار صاحب ہی یوں دیکھتے ہیں جیسے سارا قصور اسی بےقصور کا ہے پھر آئے دن تھا نے کے چکر اور توہین آمیز دھمکیاں۔ جب وہاں سے بچے عدالتوں کے چکر۔ خصوصاً دیوانی عدالتیں تو دیوانہ کیے دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر شریف آدمی شہادت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور پیشہ ور گواہوں کی بن آئی ، عدالتیں ان کے رحم وکرم پر اور انصاف بھی ان کی مٹھی میں۔ کتاب اللہ نے سب کے حقوق مقرر فرمادیئے ہیں اور ارشاد ہوا کہ بحیثیت مسلمان اللہ سے ڈرتے رہو۔ تمہارا تو آخرت پر ایمان ہے اللہ کے ہاں حاضری کی امید لئے بیٹھے ہو اور پھر اللہ ہی اپنے کمال کرم سے تمہیں تعلیم فرمارہا ہے اور یہ بھی یادرکھو کہ وہ ہر بات سے واقف بھی ہے فقہاء نے اس آیہ کریمہ سے تقریباً بیس اہم فقہی مسائل نکالے ہیں۔ تفسیر مظہری میں عمدہ بحث ہے۔ اس کے ساتھ خوف خدا اور آخرت کی یاد کر رکھا کہ قانون پر عمل تب ہی ہوسکتا ہے جب دل میں ایمان بھی ہو۔ ورنہ تو پس دیوار جو جی میں آئی کر گزرے۔ وان کنتم علی سفر……………واللہ بما تعملون علیم۔ اگر تم سفر میں ہو یا کسی وجہ سے کاتب دستیاب نہ ہو تو کوئی یہ چاہے کہ اعتماد کے لئے کوئی چیز گردی رکھ لے ، تو اس کی بھی اجازت ہے لیکن لفظ مقبوضہ سے ظاہر ہے کہ مرتہن صرف قبضہ میں رکھ سکتا ہے اس سے نفع حاصل نہیں کرسکتا۔ اس سے نفع حاصل ہو تو راہن یعنی اصل مالک کا ہوگا۔ ہمارے ہاں زمین رہن رکھنے کا رواج ہے پھر مرتہن اسے کاشت کرتا ہے تو چاہیے کہ مالک کا حصہ اس کی رقم سے وصول کرلیا جائے یا اسے دے دیا جائے ورنہ جائز نہ ہوگا۔ نیز اگر باہم ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہو تو اس کو بحال رکھنے میں پوری کوشش کرو۔ جس کے پاس دوسرے کا مال ہو وہ ضرور مقرر وقت پر واپس کرے کہ باہمی اعتماد مجروح نہ ہو اور اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے یعنی اس کی روزی تو اللہ کے ذمے ہے پھر کیوں امانت میں خیانت کا مرتکب ہو۔ نیز جس کو کسی معاملہ کی خبر ہو یہ بھی امانت ہے۔ ضرورت پڑنے پر ضرور بیان کرے اور شہادت کو نہ چھپائے اگر ایسا کرے گا تو اس کا دل گناہگار ہوگا۔ یعنی یہ محض زبانی گناہ نہیں بلکہ براہ راست دل کو متاثر کرے گا۔ یقینا دل جس طرح گناہ سے آلودہ ہوتا ہے اسی طرح نیکی سے روشن بھی ہوتا ہے۔ حقیقتاً دل حکمران ہے اور گناہ کا حکم وہی صادر کرتا ہے تب اعضاء وجوارع عمل کرتے ہیں۔ اگر دل خود اللہ سے آشنا ہو اور اللہ کا ذکر کرنے والا ہو۔ اللہ کی ذات اور اللہ کا اسم ذاتی جو اس کا مذکور ہے اس میں موجود ہو تو وہ اس کے خلاف حکم نہیں کرتا۔ جب وہ حکم نہیں کرتا تو اعضاء وجوارح اللہ کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اسی لئے صوفیائے کرام دل پر حملہ آور ہوتے اور ذکر قلبی تعلیم کرتے ہیں کہ جب دل ذاکر ہو کر روشن ہوگا تو سارا جسم نیکی کرے گا۔ ذہن نظر ، کان ، زبان ، ہاتھ پائوں سب اس کے درباری اور پیادے ہیں جو اس کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ اور یہی مفہوم اس حدیث پاک کا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک بوٹی ہے اگر بگڑ گئی تو سارا جسم بگڑ گیا۔ اگر سدھر گئی تو سارا جسم سدھر گیا خوب جان لو ! وہ بوٹی دل ہے۔ سو جو تم سے صادر ہوتا ہے اللہ اس سے خوب آگاہ اس سے واقف ہے اس پر ایسا ہی پھل لگاتا ہے جیسا تم پودا کاشت کرتے ہو۔ ہمہ وقت اس بات کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح اس کے سوا محال ہے۔
Top