Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو جب ادھار کا معاملہ کسی مدت معین تک کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو،1085 ۔ اور لازم ہے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھادیا ہے،1086 ۔ پس چاہیے کہ وہ لکھ دے اور چاہیے کہ وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق واجب ہے،1087 ۔ اور چاہیے کہ وہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرتا رہے اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے،1088 ۔ پھر اگر وہ جس کے ذمہ حق واجب ہے عقل کا کوتاہ ہو یا یہ کہ کمزور ہو،1089 ۔ اور اس قابل نہ ہو کہ وہ خود لکھوا سکے،1090 ۔ تو لازم ہے کہ اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک لکھوا دے،1091 ۔ اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ کرلیا کرو،1092 ۔ پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو،1093 ۔ تاکہ ان دوعورتوں میں سے ایک دوسری کو یاد دلا دے اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے،1094 ۔ اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں،1095 ۔ اور اس (معاملت) کو خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اس کی میعاد تک لکھنے سے اکتا نہ جاؤ یہ کتابت اللہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ قرین عدل ہے اور شہادت کو درست تر رکھنے والی ہے اور زیادہ سزاوار اس کی کہ تم شبہ میں نہ پڑو،1096 ۔ بجز اس کے کہ کوئی سودا دست بدست ہو جسے تم باہم لیتے ہی رہتے ہو سو تم پر اس میں کوئی الزام نہیں کہ تم اسے نہ لکھو،1097 ۔ اور جب خرید وفروخت کرتے ہو (تب بھی) گواہ کرلیا کرو،1098 ۔ اور کسی کاتب اور گواہ کو نقصان نہ دیا جائے،1099 ۔ اور اگر (ایسا) کرو گے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ (شمار) ہوگا،1100 ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو،1101 ۔ اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے،1102 ۔ اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے،1103 ۔
1085 ۔ (اور اس صاف صاف لکھا پڑھی کو نہ دلیل بےاعتمادی کی سمجھو اور نہ اس میں شرماؤ) (آیت) ” دین۔ دین کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ عربی میں یہ (عین) کے مقابلہ میں ہے اور اس کا اطلاق ہر اس معاملت پر ہوتا ہے، جس کے معاوضہ کا ایک جزء فی الفور نہ ہو۔ ھو عبارۃ عن کل معاملۃ کان احد العوضین فیھا نقدا والا خر فی ذمۃ النسیءۃ کان العین عند العرب ما کان حاضرا والدین ماکان غائبا (ابن عربی) (آیت) ” تداینتم بدین “۔ دین یا ادھار معاملت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ چیز ابھی خریدی اور قیمت کے لیے طے پا گیا کہ اتنی مدت کے بعد دیں گے۔ دوسری یہ کہ قیمت اسی وقت دے دیں اور چیز کے لیے یہ طے پا گیا کہ اتنی مدت کے بعد لیں گے، شرعا دونوں صورتیں جائز ہیں تفصیلات فقہ کی کتابوں میں ملیں گی، (آیت) ” الی اجل مسمی “ فقہاء مفسرین نے اس سے یہ اشارہ سمجھا ہے کہ قرضہ کے معاملات میں مدت بالکل صاف اور متعین ہونا چاہیے۔ گول اور مجمل نہ رہے۔ ” جاڑوں کے زمانہ میں “ ” برسات کے موسم میں “ ” ربیع کی فصل میں “ ان مبہم مدتوں کی بجائے تعیین وصراحت ہونا چاہیے کہ فلاں سنہ کے فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ۔ فقیہ ابن عربی مالکی نے ایک اس آیت کے ذیل میں 52 مسئلہ لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ آیت مسائل بیع میں اہم ترین آیت ہے۔ ھی اصل فی مسائل البیوع وکثیر من الفروع عامی صوفیہ اور جاہل مشائخ نے جو یہ سمجھ رکھا ہے کہ معاملت ومعاشرت کی اصلاح ودرستی سلوک وطریقت کے منافی ہے وہ غور کریں کہ قرآن کو اس باب میں کتنا اہتمام بلکہ جزئیات تک کا انضباط مدنظر ہے ! 1086 ۔ باہمی لین دین اور قانونی معاملات کے سلسلہ میں ادنی ادنی جزئیات تک کے لیے شریعت کا یہ اہتمام اللہ اللہ عالمگیر ہدایت و رہنمائی کا حق اگر کسی کتاب کو پہنچتا ہے تو بیشک وہ یہی کتاب ہوسکتی ہے۔ کہاں ایک طرف یہ مکمل نظام زندگی اور مفصل ضابطہ حیات اور کہاں اس کے مقابلہ میں انجیل جس کے صفحات قانون ومعاملت کی چھوٹی چھوٹی ہدایات تک سے خالی ہیں ! (آیت) ” بالعدل “ یعنی کسی فریق سے متاثر ہوئے، کسی کی رورعایت کیے ہوئے بغیر لکھے۔ فقہاء نے یہاں سے یہ بھی نکالا ہے کہ کاتب کو متدین اور شرائط تحریر کا عالم ہونا چاہیے اور فریقین پر لازم ہے کہ ایسے ہی کاتب کی تلاش کریں۔ فیہ دلیل ان یکون الکاتب فقیھا عالما بالشروط وھو للمتداینین بتخییر الکاتب (مدارک) (آیت) ” ولا یاب کاتب “۔ فقہا نے کہا ہے کہ کاتب کو اپنی محنت کی اجرت لینا جائز ہے۔ 1087 ۔ دستاویز کا ماحصل کسی حق کا اپنی طرف اقرار کرنا ہے۔ یہ قدرۃ اسی کو کرنا چاہیے جس کے ذمہ کوئی حق واجب الاداہو۔ (آیت) ” ولیملل “ یعنی دستاویز کو لکھانا۔ 1088 ۔ یعنی جو حق جس طرح اور جتنا اس پر واجب ہے اس میں سے کاتب دستاویز کو بتلائے اور لکھاتے وقت کچھ بھی کتربیونت نہ کرے، (آیت) ” والیتق اللہ ربہ “۔ خوف خدا تو مسلمان کے لیے جزء زندگی اور اس کی زندگی بھر رہنا چاہیے۔ دستاویز لکھاتے وقت اس کی تاکید ویاد دہانی کی حکمتیں اور مصلحتیں بالکل واضح ہیں۔ 1089 ۔ اور یہ ابھی اوپر گزر چکا ہے کہ دستاویز لکھانے والا وہی ہونا چاہیے۔ سفیۃ۔ یہ مراد نہیں کہ پاگل ہو بلکہ صرف ضعیف العقل مراد ہے۔ ضعیف الراے ناقص العقل من البالغین (کبیر) ضعیف۔ یہاں ایک جامع لفظ ہے۔ نابالغ اور پیر فرتوت سب اس کے اندر آجاتے ہیں۔ الصغیر والمجنون والشیخ الخرف وھم الذین فقدوا العقل بالکلیۃ (کبیر) 1090 ۔ (کسی ج اور عذر یا مانع سے) مثلا یہ کہ گونگا ہو، یا پردیسی ہو، ملک کی زبان سے ناواقف،۔ 1091 ۔ (ایسی ہر صورت میں اس کی طرف سے ٹھیک ٹھیک) (آیت) ” ولی “۔ سے مراد ولی شرعی ہے یا وکیل یا مختار۔ (یا پردیسی کے لیے) ترجمان۔ تفصیلات فقہ کی کتابوں میں ملیں گی۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی صورت جب ایسی پیش آجائے کہ صاحب معاملہ کا اقرار اور بیان معتبر نہ رہ جائے تو اعتبار اس کے کارکن کے بیان واقرار کا کیا جائے۔ 1092 ۔ (جو عاقل ہوں، بالغ ہوں، آزاد ہوں، دیندار ہوں) ای من رجال المومنین والحریۃ البلوغ مشروط مع الاسلام (مدارک) (آیت) ” من رجالکم “ کی قید نے صاف بتا دیا کہ گواہوں کو مسلمان ہونا چاہیے، یہودی قانون میں بھی گواہ کا اسرائیلی ہونا ضروری ہے۔ کافروں کے معاملات میں مقبول ہوسکتی ہے۔ وشھادۃ الکفار بعضھم علی بعض مقبولۃ عندنا (مدارک) (آیت) ” واشتشھدوا “ گواہوں کی یہ گواہی تحریر ودستاویز کے علاوہ ہونا چاہیے۔ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ اصل مدار ثبوت انہی گواہوں کی گواہی ہوگی۔ 1093 ۔ (یعنی جو تمہارے نزدیک ثقہ وقابل اعتبار ہوں) (آیت) ” فان لم یکونا رجلین “۔ یعنی دو مرد گواہی کے لیے میسر نہ آئیں۔ (آیت) ” رجل وامراتن “ یہودی قانون میں گواہی صرف مردوں کی معتبر ہے اور عورت کی شہادت سرے سے قابل تسلیم نہیں۔ اسلام نے اسے یہ حق دیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے علم کامل اور تحقیق مطلق کی بنا پر عورت کی گواہی کا مرتبہ مرد کے مقابلہ پر نصف مانا ہے۔ (آیت) ” ممن ترضون “۔ دیانت، ضمیر، سیرت، کردار کا ایک خاص معیار اسلام نے زندگی کے چھوٹے بڑے ہر شعبہ اور معاشرت کے بعید سے بعید گوشہ میں بھی قائم رکھا ہے۔ چناچہ یہاں یہ قید لا کر صاف بتا دیا کہ شہادت بھی ایک خاص اعزاز ومنصب ہے ہر کس وناکس اس کا اہل نہیں۔ اس کے اہل وہی ہیں جن کی سیرت وکردار پر ہر اسلامی معاشرہ کو اطمینان ہو اور جن کی دیانت کم از کم عام طور پر مشتبہ نہ ہو۔ 1094 ۔ (اور اس طرح شہادت مکمل ہوجائے) (آیت) ” ان تضل “ بھول جائے شہادت کے کسی حصہ کو۔ واقعہ کے کسی جزء کو، رہا یہ امر کہ عورت کی شہادت مرد کے مقابلہ میں ضعیف کیوں مانی گئی ہے۔ اور نسیان کا احتمال مرد کی شہادت میں کیوں نہیں رکھا گیا ؟ تو یہ سوالات ذہن واخلاق کی دنیا میں بالکل ایسے ہی ہیں جیسے جسم ومادیات کی دنیا میں دریافت یہ کیا جائے کہ حمل ورضاعت کا تعلق صرف عورت ہی سے کیوں رکھا گیا اور مرد کو باوجود اس کے قوت وجسامت کے اس بار کے برداشت کے کیوں ناقابل سمجھ لیا گیا ؟ یہ فاطر کائنات ظاہر ہے کہ جسمیات ومادیات کے ایک ایک دانہ سے واقف ہے۔ اس کے پیش نظر ذہنیات واخلاقیات کی بھی باریک سی باریک حقیقتیں ہیں۔ مغرب کے ماہر نسائیات ہیولاک ایلز Hoolock Ellis نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ عورت کے لیے دھوکہ اور فریب بہ منزلہ امر طبعی کے ہوتا ہے (ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی) 1095 ۔ (کہ اس میں اعانت ہے معاملات امت کی اور خدمت ہے دین کی) (آیت 9” ولا یاب الشھدآء “۔ یعنی گواہ بننے اور گواہی دینے سے انکار نہ کریں۔ 1096 ۔ (یعنی وہی کتابت معاملہ دین سے متعلق) (آیت) ” عند اللہ “۔ یعنی اللہ کے قانون وضابطہ میں۔ ای فی حکمہ سبحانہ (روح) (آیت) ” لا تسئموا “۔ بار بار لکھنے لکھانے سے نفس میں ایک قسم کی کاہلی پیدا ہوجانا تقریبا طبعی ہے۔ (آیت) ” تکتبوہ “۔ میں ضمیر اسی معاملہ دین سے متعلق ہے۔ نافہموں نے آج کل شور برپا کر رکھا ہے کہ اب زمانہ اس کا نہیں کہ مذہب خصوصا اسلام کو عقائد معاد سے پرکھا جائے اب تو دیکھنا یہ ہے کہ اس دنیا کے لیے سب سے زیادہ عملی مذہب کون ہے ؟ روزانہ مسائل زندگی کے حل کرنے میں کون مذہب سب سے زیادہ زور دے رہا ہے ؟ یہ معیار بجائے خود کس حد تک صحیح ہے ؟ یہ تو ایک الگ سوال ہے۔ لیکن بہرحال جو لوگ اسی معیار کو مانے ہوئے ہیں کم از کم وہ تو خلوئے ذہن کے ساتھ غور کریں کہ ساری شریعتوں میں اسلام سے بڑھ کر کس شریعت نے روزانہ زندگی کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کے حل کرنے کا اہتمام رکھا ہے ! 1097 ۔ یہ اس لیے کہ دستگرداں معاملتیں کثرت سے برابر واقع ہوتی رہتی ہیں اور عموما مقداریں بھی ان کی خفیف ہوتی ہیں اور عموما ان میں احتمال نزاع واختلاف کا بھی کم ہی ہوتا ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایسے موقعوں پر کتابت دستاویز کے التزام سے ہرج لازم آتا تھا اس لیے شریعت نے التزام کو یہاں سے اٹھا دیا۔ لیکن اگر کوئی معاملت ایسی ہو کہ شکل کے اعتبار سے ہو تو دست بدست لیکن مالیت بڑی ہو یا آئندہ اختلاف ونزاع کے احتمالات موجود ہوں۔ یا اور کسی اعتبار سے حالات وہاں وہ نہ ہوں جو عموما تجارت حاضرہ یا معاملہ دستگرداں میں ہوا کرتے ہیں۔ تو ایسے موقعہ پر ترک کتابت کی علت مفقود ہوگی اور اہتمام کتابت مطلوب ہوگا۔ 1098 ۔ یعنی ایسے موقع پر گواہی کرالینا بہتر ہوگی (آیت) ” واشھدوا “۔ صیغہ امر یہاں وجوب کے لیے نہیں صرف استحسان کے لیے ہے۔ والامر للندب (مدارک) والاوامر التی فی ھذہ الایۃ للاستحباب عند اکثر الائمۃ (بیضاوی) ۔ 1099 ۔ یعنی فریق اپنی مصلحت کی خاطر کاتب یا گواہ کو زحمت میں نہ ڈالے ادھر کاتب اور گواہوں کو حکم مل چکا ہے کہ کتابت اور گواہی سے پہلوتہی نہ کریں اب فریقین کو حکم مل رہا ہے کہ وہ بھی کاتب اور گواہوں کی مصلحت و آسائش کا خیال رکھیں۔ (آیت) ” ولا یضآر کاتب “ کاتب کو نقصان پہنچانا مثلا یہ کہ اسے بلااجرت کتابت پر مجبور کیا جائے۔ (آیت) ” ولا شھید “۔ گواہ کو تکلیف میں ڈالنا۔ مثلا یہ کہ باوجود احتیاج اسے آمد ورفت کا خرچ بھی نہ دیا جائے۔ 1100 ۔ (کہ جس کام سے منع کیا گیا وہی کررہے ہو) (آیت) ” فانہ فسوق “۔ کی تصریح کرکے حکم کی اہمیت کو کس درجہ بڑھا دیا ہے۔ 1101 ۔ (چھوٹے بڑے سارے معاملات اور کاروائیوں میں) سبحان اللہ ! تقوی الہی کی تاکید کن کن موقعوں پر کیا ہے۔ 1102 ۔ (تمام ترحکمت کی باتیں) بعض اہل علم نے (آیت) ” یعلمکم اللہ “ کو فقرۂ سابق (آیت) ” واتقوا اللہ “ سے بالکل مربوط پاکر استنباط یہ کیا ہے کہ علم حقیقی عین نتیجہ ہوتا ہے تقوی الہی کا۔ تقوی اختیار کرو اور از خود علم الہی مرحمت ہونے لگے گا۔ 1103 ۔ چناچہ اپنے اس علم کے مطابق معاملت بھی مطیع وعاصی سے کرے گا۔
Top