Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والوجب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو اور چاہئے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے اور انکارنہ کرو لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو اللہ نے سو اس کو چاہیے کہ لکھ دے اور بتلاتا جاوے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور کم نہ کرے اس میں سے کچھ پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بےعقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتلا سکتا تو بتلادے کار گذار اس کا انصاف سے اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں اور ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں تاکہ بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلاوے اس کو دوسری اور انکار نہ کریں گواہ جس وقت بلائے جاویں اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا اس کی معیاد تک اس میں پورا انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور بہر درست رکھنے والا ہے گواہی کو اور نزدیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑو مگر یہ کہ سوداہو ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آپس میں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگھر اس کو نہ لکھو اور گواہ کرلیا کرو جب تم سودا کرو، اور نقصان نہ کرے لکھنے والا اور نہ گواہ اور اگر ایساکرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر اور ڈرتے رہو اللہ سے اور اللہ تم کو سکھلاتا ہے اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے،
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والوں جب معاملہ کرنے لگو ادھار کا (خواہ دام ادھار ہوں یا جو چیز خریدنا ہے وہ ادھار ہو جیسے بیع سلم میں) ایک میعاد معین تک (کے لئے) تو اس (کی یاد داشت ودستاویز) کو لکھ لیا کرو اور یہ ضرور ہے کہ تمہارے آپس میں (جو) کوئی لکھنے والا (ہو وہ) انصاف کے ساتھ لکھے (یعنی کسی کی رعایت کرکے مضمون میں کمی بیشی نہ کرے) اور لکھنے والا لکھنے سے انکار بھی نہ کرے جیسا کہ خدا نے اس کو (لکھنا) سکھایا ہے، اس کو چاہئے کہ لکھ دیا کرے اور (کاتب کو) وہ شخص (بتلادے اور) لکھوا دے جس کے ذمہ وہ حق واجب ہو (کیونکہ دستاویز کا حاصل اقرار حق کا ہوتا ہے، تو جس کے ذمہ حق ہے اسی کا اقرار ضرور ٹھرا) اور (لکھاتے وقت) اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرتا رہے اور اس (حق) میں سے ذرہ برابر (بتلانے میں) کمی نہ کرے، پھر جس شخص کے ذمہ حق واجب تھا وہ اگر ضعیف العقل (یعنی معتوہ یا مجنون) ہو یا ضیعف البدن (یعنی نابالغ یا پیر فرتوت) ہو یا (اور کسی اتفاقی امر سے) خود (بیان کرنے کی اور) لکھانے کی قدرت نہ رکھتا ہو، (مثلا گونگا ہے اور لکھنے والا اس کا اشارہ نہیں سمجھتا یا مثلا دوسرے ممالک کا رہنے والا ہے اور زبان غیر رکھتا ہے اور لکھنے والا اس کی بولی نہیں سمجھتا) تو (ایسی حالت میں) اس کا کارکن ٹھیک ٹھیک طور پر لکھوا دے اور دو شخصوں کو اپنے مردوں میں سے گواہ (بھی) کرلیا کرو (اور شرعا اصل مدار ثبوت دعویٰ کا یہی گواہ ہیں گو دستاویز نہ ہو اور خالی دستاویز بدون گواہوں کے ایسے معاملات میں حجت اور معتبر نہیں۔ دستاویز لکھنا صرف یاد داشت کی آسانی کے لئے رہے کہ اس کا مضمون دیکھ کر اور سن کر طبعی طور پر اکثر تمام واقعہ یاد آجاتا ہے جیسا عنقریب قرآن ہی میں آتا ہے) پھر اگر وہ گواہ مرد (میسر) نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنالی جائیں) ایسے گواہوں میں سے جن کو تم (ان کے معتبر ہونے کی وجہ سے) پسند کرتے ہو (اور ایک مرد کی جگہ دو عورتیں اس لئے تجویز کی گئیں) تاکہ ان دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک بھی (شہادت کے کسی حصہ کو خواہ ذہن سے یا شہادت کے وقت بیان کرنے سے) بھول جائے تو ایک دوسری کو یاد دلادے (اور یاد دلانے کے بعد شہادت کا مضمون مکمل ہوجائے) اور گواہ بھی انکار نہ کریں جب (گواہ بننے کے لئے) بلائے جایا کریں (کہ اس میں اعانت ہے اپنے بھائی کی) اور تم اس (دین) کے (بار بار) لکھنے سے اکتایا مت کرو خواہ وہ (معاملہ دین کا) چھوٹا ہو یا بڑا ہو یہ لکھ لینا انصاف کا زیادہ قائم رکھنے والا ہے اللہ کے نزدیک اور شہادت کا زیادہ درست رکھنے والا ہے اور زیادہ سزا وار ہے اس بات کا کہ تم (معاملہ کے متعلق) کسی شبہ میں نہ پڑو (اس لئے لکھ ہی لینا اچھا ہے) مگر یہ کہ کوئی سودا دست بدست ہو جس کو باہم لیتے دیتے ہو تو اس کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی الزام (اور مضرت) نہیں اور (اتنا اس میں بھی ضرور کیا کرو کہ اس کے) خریدو فروخت کے وقت گواہ کرلیا کرو (شاید کل کو کوئی بات نکل آئے، مثلاً بائع کہنے لگے کہ مجھ کو دام ہی وصول نہیں ہوئے یا یہ چیز میں نے فروخت ہی نہیں کی یا مشتری کہنے لگے کہ میں نے تو واپسی کا اختیار بھی لے لیا تھا یا ابھی تو مبیع پوری میری پاس نہیں پہنچی) اور (جس طرح ہم نے اوپر کاتب اور گواہ کو منع کیا ہے کہ کتابت اور شہادت سے انکار نہ کریں اسی طرح ہم تم کو بھی تاکید کرتے ہیں کہ تمہاری طرف سے) کسی کاتب کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ کسی گواہ کو (مثلا اپنی مصلحت کے لئے ان کی طرف سے) کسی مصلحت میں خلل ڈالا جائے) اور اگر تم ایسا کرو گے تو اس میں تم کو گناہ ہوگا اور خدا تعالیٰ سے ڈرو (اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے وہ مت کرو) اور اللہ تعالیٰ (کا تم پر احسان ہے کہ) تم کو (احکام مفیدہ کی) تعلیم فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کے جاننے والے ہیں (تو وہ مطیع اور عاصی کو بھی جانتے ہیں ہر ایک کو مناسب جزاء دیں گے) اور اگر تم (دین کا معاملہ کرانے کے وقت) کہیں سفر میں ہو اور (دستاویز لکھنے کے واسطے وہاں) کوئی کاتب نہ پاؤ سو (ایسی حالت میں اطمینان کا ذریعہ) رہن رکھنے کی چیزیں (ہیں) جو مدیون کی طرف سے صاحب حق کے) قبضہ میں دے دیجائیں اور اگر (ایسے وقت میں بھی) ایک دوسرے کا اعتبار کرتا ہو (اور اس لئے رہن کی ضرورت نہ سمجھے) تو جس شخص کا اعتبار کرلیا گیا ہے (یعنی مدیون) اس کو چاہئے کہ دوسرے کا حق (پورا پورا) ادا کردے اور اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے (اور اس کا حق نہ مارے) اور شہادت کا اخفاء مت کرو اور جو شخص اس کا اخفاء کرے گا اس کا قلب گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتے ہیں (سو اگر کوئی اخفاء کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ضرور ہے سو وہ سزا دیں گے۔

معارف و مسائل
قرض اور ادھار کے لئے اقرار نامہ لکھنے کی ہدایت اور متعلقہ احکام
آیات مذکورہ میں قانون معاملات جن کو آجکل کے قانون میں معاہدات کہا جاتا ہے اس کے اہم اصول کا بیان ہے اور اس کے بعد ضابطہ شہادت کے خاص اصول کا ذکر ہے۔
آجکل تو زمانہ لکھنے لکھانے کا ہے اور تحریر ہی انسان کی زبان کی قائم مقام بن گئی ہے لیکن آپ چودہ سو سال پہلے زمانہ کی طرف مڑ کر دیکھئے تو اس وقت دنیا کا سب کاروبار صرف زبانی ہوتا تھا لکھنے لکھانے اور دستاویز مہیا کرنے کا اصول نہ تھا سب سے پہلے قرآن نے اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا
اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ یعنی جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کیا کرو کسی معین مدت کے لئے تو اس کو لکھ لیا کرو۔
اس میں ایک اصول تو یہ بتلا دیا کہ ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہئے تاکہ بھول چوک یا انکار کے وقت کام آئے۔
دوسرا مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ ادھار کا معاملہ جب کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرر کی جائے غیر معین مدت کے لئے ادھار دینا لینا جائز نہیں کیونکہ اس سے جھگڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے اسی وجہ سے فقہاء نے فرمایا کہ میعاد بھی ایسی مقرر ہونا چاہئے جس میں کوئی ابہام نہ ہو مہینہ اور تاریخ کے ساتھ معین کی جائے کوئی مبہم میعاد نہ رکھیں، جیسے کھیتی کٹنے کے وقت کیونکہ وہ موسم کے اختلاف سے آگے پیچھے ہوسکتا ہے اور چونکہ لکھنا اس زمانے میں عام نہ تھا اور آج بھی عام ہونے کے بعد دنیا کی بیشتر آبادی وہی ہے جو لکھنا نہیں جانتی تو یہ ممکن تھا کہ لکھنے والا کچھ کا کچھ لکھ دے جس سے کسی کا نفع اور کسی کا نقصان ہوجائے اس لئے اس کے بعد ارشاد فرمایا
وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ یعنی یہ ضروری ہے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔
اس میں ایک تو اس طرف ہدایت کی گئی کہ کاتب کسی فریق کا مخصوص آدمی نہ ہو بلکہ غیر جانبدار ہو تاکہ کسی کو شبہ اور خلجان نہ رہے، دوسرے کاتب کو ہداہت کی گئی کہ انصاف کے ساتھ لکھے دوسرے کے فانی نفع کے لئے اپنا دائمی نقصان نہ کرے اس کے بعد کاتب کو اس کی ہدایت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ ہنر دیا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے اس کا شکرانہ یہ ہے کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کرے۔
اس کے بعد یہ بتلایا گیا کہ دستاویز کی کتابت کس کی طرف سے ہو تو فرمایا
وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ یعنی لکھوا دے وہ آدمی جس کے ذمہ حق ہے مثلاً سودا خریدا اور قیمت کا ادھار کیا تو جس کے ذمہ ادھار ہے وہ دستاویز کا مضمون لکھوا دے کیونکہ یہ اس کی طرف سے اقرار نامہ ہوگا، اور لکھوانے میں بھی یہ احتمال تھا کہ کوئی کمی بیشی کردے اس لئے فرمایا وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا یعنی اللہ تعالیٰ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرتا رہے اور حق کے لکھوانے میں ذرہ برابر کمی نہ کرے معاملات میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص پر حق عائد ہو وہ خفیف العقل یا سٹھیا ہوا بوڑھا یا نابالغ بچہ یا گونگا ہو یا کوئی دوسری زبان بولنے والا ہو جس کو کاتب نہیں سمجھتا اس لئے دستاویز لکھوانے پر اس کو قدرت نہیں ہوتی اس لئے اس کے بعد فرمایا کہ اگر ایسی صورت پیش آئے تو ان کی طرف سے ان کا ولی لکھوا دے مجنون اور نابالغ کی طرف سے تو ولی کا ہونا ظاہر ہے کہ ان کے سارے معاملات ولی ہی کی معرفت ہوا کرتے ہیں اور گونگے یا دوسری زبان بولنے والے کا ولی بھی یہ کام کرسکتا ہے اور اگر وہ کسی کو اپنا وکیل بنادے تو بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں اس جگہ لفظ ولی دونوں معنے ٰ پر حاوی ہے۔
ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول
یہاں تک معاملات میں دستاویز لکھنے اور لکھوانے کے اہم اصول کا بیان تھا۔ آگے یہ بتلایا گیا کہ دستاویز کی صرف تحریر کو کافی نہ سمجھیں بلکہ اس پر گواہ بھی بنالیں کہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ محض تحریر حجت شرعی نہیں جب تک کہ اس پر شہادت شرعی موجود نہ ہو خالی تحریر پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، آج کل کی عام عدالتوں کا بھی یہی دستور ہے کہ تحریر پر زبانی تصدیق و شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتیں۔
گواہی کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونا ضروری ہیں
اس کے بعد ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول بتلائے گئے مثلا (1) گواہ دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں ہونا ضروری ہیں ایک اکیلا مرد یا صرف دو عورتیں عام معاملات کی گواہی کے لئے کافی نہیں۔
گواہوں کی شرائط
(2) دوسرے یہ کہ گواہ مسلمان ہوں، لفظ مِنْ رِّجَالِكُمْ میں اس کی طرف ہدایت کی گئی ہے (3) تیسرے یہ کہ گواہ ثقہ اور عادل ہوں جن کے قول پر اعتماد کیا جاسکے فاسق وفاجر نہ ہوں مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاۗءِ میں یہ حکم مذکور ہے۔
گواہی دینے سے بلا عذر شرعی انکار کرنا گناہ ہے
اس کے بعد لوگوں کو یہ ہدایت کی گئی کہ جب ان کو کسی معاملہ میں گواہ بنانے کے لئے بلایا جائے تو وہ آنے سے انکار نہ کریں کیونکہ شہادت ہی احیائے حق کا ذریعہ اور جھگڑے چکانے کا طریقہ ہے اس لئے اس کو اہم قومی خدمت سمجھ کر تکلیف برداشت کریں اس کے بعد پھر معاملات کی دستاویز لکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا سب کو لکھنا چاہئے اس میں اکتائیں نہیں کیونکہ معاملات کا قلم بند کرلینا انصاف کو قائم رکھنے اور صحیح دینے اور شک وشبہ سے بچنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے، ہاں اگر کوئی معاملہ دست بدست ہو ادھار نہ ہو اس کو اگر نہ لکھیں تب بھی کچھ حرج نہیں مگر اتنا اس میں بھی کیا جائے کہ معاملہ پر گواہ بنالیں کہ شاید کسی وقت فریقین میں کوئی نزاع واختلاف پیش آجائے۔ مثلا بائع کہے کہ قیمت وصول نہیں ہوئی یا مشتری کہے کہ مجھے مبیع پوری وصول نہیں ہوئی تو اس جھگڑے کے فیصلہ میں شہادت کام آئے گی۔
اسلام میں عدل و انصاف قائم کرنے کا اہم اصول کہ گواہوں کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ پہونچے
آیت کے شروع میں لکھنے والوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ لکھنے یا شاہد بننے سے انکار نہ کریں تو یہاں یہ احتمال تھا کہ لوگ ان کو پریشان کریں گے اس لئے آخر آیت میں فرمایا وَلَا يُضَاۗرَّ كَاتِبٌ وَّلَا شَهِيْدٌ یعنی کسی لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو نقصان نہ پہنچایا جائے یعنی ایسا نہ کریں کہ اپنی مصلحت اور فائدہ کے لئے ان کی مصلحت اور فائدہ میں خلل ڈالیں۔ پھر فرمایا وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ یعنی اگر تم نے لکھنے والے یا گواہ کو نقصان پہنچایا تو اس میں تم کو گناہ ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ لکھنے والے یا گواہ کو نقصان پہنچانا حرام ہے، اسی لئے فقہاء نے فرمایا کہ اگر لکھنے والا اپنے لکھنے کی مزدوری مانگے یا گواہ اپنی آمد ورفت کا ضروری خرچ طلب کرے تو یہ اس کا حق ہے اس کو ادا نہ کرنا بھی اس کو نقصان پہنچانے میں داخل اور ناجائز ہے، اسلام نے اپنے نظام عدالت میں جس طرح گواہ کو گواہی دینے پر مجبور کیا ہے اور گواہی چھپانے کو سخت گناہ قرار دیا ہے اس طرح اس کا بھی انتظام کیا کہ لوگ گواہی سے بچنے پر مجبور نہ ہوجائیں اسی دو طرفہ احتیاط کا یہ اثر تھا کہ ہر معاملہ میں سچے بےغرض گواہ مل جاتے اور فیصلے جلد اور آسان حق کے مطابق ہوجاتے۔ آج کی دنیا نے اس قرآنی اصول کو نظر انداز کردیا ہے تو سارا نظام عدالت برباد ہوگیا۔ واقعہ کے اصلی اور سچے گواہ ملنا تقریبا مفقود ہوگیا ہر شخص گواہی سے جان چرانے پر مجبور ہوگیا، وجہ یہ کہ جس کا نام گواہی میں آگیا اگر معاملہ پولیس اور فوجداری کا ہے تو روز وقت بےوقت تھانیدار صاحب اس کو بلا بھیجتے ہیں اور بعض اوقات گھنٹوں بٹھائے رکھتے ہیں، دیوانی عدالتوں میں بھی گواہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی مجرم ہے پھر روز روز مقدمہ کی پیشیاں بدلتی ہیں تاریخیں لگتی ہیں گواہ بیچارہ اپنا کاروبار اور مزدوری اور ضروریات چھوڑ کر آنے پر مجبور ہے ورنہ وارنٹ کے ذریعہ گرفتار کیا جائے اس لئے کوئی شریف کاروباری آدمی کسی معاملہ کا گواہ بننا اپنے لئے ایک عذاب سمجھنے اور مقدور بھر اس سے بچنے پر مجبور کردیا گیا صرف پیشہ ور گواہ ملتے ہیں جن کے ہاں جھوٹ سچ میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ قرآن حکیم نے ان بنیادی ضروریات کو اہمیت کے ساتھ بتلا کر ان تمام خرابیوں کا انسداد فرمایا۔ آیت کے آخر میں ارشاد ہے واتَّقُوا اللّٰهَ ۭ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ یعنی ڈرو اللہ سے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اصول صحیہ کی تعلیم دیتا ہے (یہ اس کا احسان ہے) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے چونکہ اس آیت میں بہت سے احکام آئے ہیں بعض فقہاء نے بیس اہم مسائل فقہی اس آیت سے نکالے ہیں اور قرآن کریم کی عام عادت ہے کہ قانون بیان کرنے سے آگے اور پیچھے خوف خدا اور خوف روز جزاء دلا کر لوگوں کے ذہنوں کو تعمیل حکم کے لئے آمادہ کرتا ہے، اسی طریقہ کے مطابق اس آیت کا خاتمہ خوف خداوندی پر کیا اور یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اگر تم کسی ناجائز حیلہ سے بھی کوئی خلاف ورزی کرو گے تو خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔
دوسری آیت میں دو اہم مضمون بیان فرمائے گئے۔ ایک یہ کہ ادھار کے معاملہ میں اگر کوئی یہ چاہے کہ اعتماد کے لئے کوئی چیز گروی رکھ لے تو اس کی بھی اجازت ہے، مگر اس میں لفظ مقبوضۃ سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ شئے مرہونہ سے نفع اٹھانا اس کے لئے جائز نہیں مرتہن کو صرف اتنا حق ہے کہ اپنے قرض وصول ہونے تک اس کی چیز پر اپنا قبضہ رکھے اور منافع اس کے وہ سب اصل مالک کا حق ہیں۔
دوسرا مضمون یہ ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو کسی نزاعی معاملہ کا صحیح علم ہو وہ شہادت کو نہ چھپائے اور اگر اس نے چھپایا تو اس کا دل گنہگار ہے، دل کو اس لئے گنہگار فرمایا کہ کوئی شخص اس کو خالی زبان ہی کا گناہ نہ سمجھے کیونکہ اول ارادہ تو دل ہی سے ہوا ہے، اس لئے اول گناہ دل ہی کا ہے۔
Top