Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
احکام قرض ورہن۔ قال تعالی، یا ایھا الذین آمنوا اذا۔۔۔ الی۔۔۔ تعملون علیم۔ ربط) ۔ حق تعالیٰ نے صدقہ اور خیرات کے فضائل کے بعد سود کی مذمت بیان فرمائی اور چونکہ سود کی ضرورت اکثر قرض اور ادھار کی حالت میں پیش آتی ہے اس لیے کہ سود کے بعدقرض اور ادھار کے احکام بیان فرماتے ہیں تاکہ سود سے بچ جائیں اور مال بھی محفوظ رہے نیز صدقہ اور ربا اور دین تینوں مالی معاملات میں پہلا محض رحمت ہے اور مقتضائے شفقت ہے اور دوسرا محض ظلم ہے اور مقتضائے حرص وہوا ہے اور تیسرا محض عدل اور انصاف ہے اور مقتضائے مروت ہے اس لیے آئندہ آیات میں دین کے احکام بیان کیے تاکہ حاجت کی ضرورت پوری ہوجائے اور قرض دینے والے کا مال ضائع اور تلف ہوجانے سے محفوظ ہوجائے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو جب تم کسی سے ایک معین مدت تک ادھار کا معاملہ کیا کرو خواہ قیمت ادھار ہو یا وہ چیز ادھار ہو جس کا خریدنا مقصود ہے جیسے بیع سلم میں تو اس کو لکھ لیا کرو تاکہ آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیش نہ آئے جمہور علماء فقہاء کے نزدیک یہ امر استحباب کے لیے ہے لہذا اگر نہ لکھے تو کوئی حرج نہیں بعض علماء اس طرح گئے کہ یہ امر وجوبی ہے۔ فائدہ) ۔ بیع کی چار قسمیں ہیں (ا۔ بیع الدین بالدین یعنی مبیع اور قیمت دونوں ادھار ہوں یعنی ادھار کو ادھا کے بدلہ میں فروخت کرنا یہ بیع بالاجماع باطل ہے۔ 2۔ بیع العین بالدین یعنی مبیع نقد ہو اور قیمت ادھار ہو یہ صورت بالاجماع جائز ہے۔ 3۔ بیع الدین بالعین یعنی قیمت نقدہو اور مبیع ادھار ہو اسی کو بیع سلم کہتے ہیں، ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت خاص طور پر بیع سلم کی اجازت کے لیے نازل ہوئی مگر بیع سلم کے لیے یہ شرط کے معاملہ کے وقت مدت اور بیع سلم کی اجازت کے لیے نازل ہوئی مگر بیع سلم کے لیے یہ شرط ہے کہ معاملہ کے وقت مدت اور مبیع کی نوع اور قسم اور اس کی مقدار اور نرخ سب مقرر کرلیاجائے تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیش نہ آئے۔ 4۔ بیع العین بالعین یعنی مبیع اور قیمت دونوں نقد ہوں اللہ جل شانہ نے بیع کی اس قسم کو آئندہ آیت میں تجارت حاضرہ سے تعبیر فرمایا ہے کماقال تعالی، ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بیکم۔۔۔ الی۔۔ تکتبوھا۔ جس کا حکم یہ فرمایا کہ تجارۃ حاضرہ میں بیع سلم کی طرح دستاویزلکھنے کی ضرورت نہیں البتہ دوگواہوں کی گواہی کر الینی چاہیے کہ کوئی لکھنے والا تمہارے درمیان یہ دستاویز نہایت انصاف سے لکھے کہ نہ اس میں کوئی کمی کرے اور نہ زیادتی کرے اور نہ کسی کی رعایت کرے اور جو شخص لکھنا جانتا ہو اس کو چاہیے کہ لکھنے سے انکارنہ کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو لکھنا سکھایا ہے پس اس نعمت کے شکریہ میں چاہیے کہ دوسروں کو اپنی کتابت سے نفع پہنچائے، احسن کمااحسن اللہ الیک۔ لہذا اور جو شخص اس سے وثیقہ اور دستاویز لکھوانا چاہے تو اس کاتب کو چاہیے کہ لکھ دے اور اس دستاویز اور وثیقہ کا املاء وہ شخص کرائے کہ جس کے ذمہ حق واجب ہے یعنی جس کے ذمہ دین اور قرض ہے وہ خود لکھوائے تاکہ اس کا اقرار آئندہ خود اس پر حجت ہو بخلاف قرض خواہ کے کہ اس کے قول کا اعتبار نہیں جب تک خود قرض دار یعنی مقروض اور مدیون اقرار نہ کرے یا ثبوت شرعی کے بعد حاکم حکم نہ کرے اور چاہیے کہ لکھانے والا یالکھنے والا اپنے پروردگار سے ڈرے اور لکھوانے اور لکھنے میں حق سے ذرہ برابر بھی کمی نہ کرے یعنی ٹھیک ٹھیک لکھے پس اگر وہ شخص جس پر حق واجب ہے یعنی جس کے ذمہ دینا آتا ہے وہ کم عقل ہو یعنی دیوانہ یا دل چلاہوکر اندھا دھند خرچ کرتا ہو اور انجام نہ سوچتا ہوں جیسے مبذر (بےجاصرف کرنے والا) یا ضعیف البدن ہو یعنی کم عمر ہو یا بہت بوڑھا ہو کہ اس کی عقل میں فتور آگیا ہو یا کسی اور وجہ سے خود نہ لکھواسکتا ہو مثلا گونگا ہو یا زبان نہ جانتا ہو یا قید میں ہو یا بیمار ہو یا ایسی جگہ ہو کہ جہاں کاتب نہ ہو یا پردہ نشین عورت ہو کہ وہ کاتب کے سامنے نہیں آسکتی تو ایسے حالات میں اس کا مختار اور کارگذار ٹھیک ٹھیک طور پر لکھوا دے اور لکھوانے اور معاملہ کے قلمبند ہوجانے کے بعد احتیاطا اپنے مردوں میں سے دو گواہ بھی بنالو یعنی دو آزاد مسلمان بالغوں کو گواہ بناؤ غلام اور کافر اور بچہ کو گواہ نہ بناؤ کیونکہ جب کتابت کے ساتھ شہادت بھی مل جائے گی تو نزاع اور مخاصمت کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے گا اور اگر گواہی کے لیے دو مرد میسر نہ آئیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہی کے لیے کافی ہیں بشرطیکہ یہ سب ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تم گواہ بنانے کے لیے پسند کرتے ہو یعنی ثقہ اور امین ہوں فسق اور فجور اور بےمروتی سے متہم نہ ہوں اور نہ دونوں میں کوئی ایسی قرابت ہو جو کہ شبہ اور تہمت کا باعث ہو اور ایک مرد کے بجائے دوعورتوں کا ہونا اس لیے شرط کیا گیا کہ شاید ایک عورت اپنی فطری غفلت اور ذاتی قصور عقلی کی وجہ سے واقعہ شہادت کے کسی جزء کو بھول نہ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلائے اور اس طرح شہادت کا مضمون مکمل ہوجائے۔ حضرت مولانا قاسم صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں عجب نہیں کہ مجموعہ بنی آدم میں من اولھم الی آخرھم دوتہائی عورتیں اور ایک تہائی مرد ہوں اور حکم ازلی نے باعتبار جہت تقابل کے بھی وہی حساب للذکر مثل حظ الانثیین بٹھا کر ایک مرد کو دوعورتوں کے مقابل رکھا ہو اور گواہوں کو جب گواہی دینے کے لیے یا گواہ بنانے کے لیے بلایاجائے تو ان کو چاہیے کہ انکار نہ کریں کیونکہ گواہ بننے میں اپنے بھائی کے حق کی حفاظت اور اعانت ہے اور گواہ بننے کے بعد گواہی نہ دینے میں اپنے بھائی کی حق تلفی ہے اور حق کے لکھنے میں کاہلی نہ کرو خواہ وہ حق چھوٹا ہو یا بڑا، شروع وقت سے لے کر اخیر میعاد تک اس کو لکھ لیا کرویہی بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت منصفانہ اور عادلانہ ہے اور نیز شہادت کے قائم اور محفوظ رکھنے میں نہایت معین اور مددگار ہے نیز اس بات کے بہت قریب ہے کہ تم گواہی دینے کے وقت کسی شک اور شبہ میں نہ پڑو نہ قرض کی مقدار میں اور نہ اس کی جنس اور نوع میں اور نہ اس کی مدت وغیرہ میں ان وجوہ کی بناء پر ہر حالت میں لکھ لینا نہایت بہتر ہے مگر اس وقت کہ جب معاملہ دست بدست ہو جس کا تم آپس میں نقد لین دین کررہے ہو مبیع بھی نقد ہو اور دام بھی نقد ہو تو ایسی صورت میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اس معاملہ کو نہ لکھو کیونکہ جب معاملہ نقد ہے اور مبیع ور قیمت کوئی شے ادھار نہیں تو ایسی صورت میں بظاہر کسی نزاع اور خصومت کا احتمال بعید ہے اس لیے کہ لکھنے کی ضرورت نہیں و لیکن مستحب یہ ہے کہ جب کبھی تم کوئی خریدوفروخت کیا کرو احتیاطا گواہ بنالیا کرو اگرچہ عوضین نقد ہوں یعنی اگرچہ سودا دست بدست ہو تب بھی یہی بہتر ہے کہ اس پر گواہ بنالو تاکہ نزاع اور خصومت کا بالکلیہ سدباب ہوجائے اور جس طرح ہم نے کاتب اور شاہد کو یہ حکم دیا کہ وہ کتاب اور شہادت سے انکار نہ کرے اسی طرح تم کو یہ حکم دیا کہ کہ لکھنے والے اور گواہ کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایاجائے مثلا کاتب اور شاہد اپنے کسی ضروری کام میں مشغول ہوں یا بیمار اور ناطاقت ہوں ایسی حالت میں ان کو لکھنے اور گواہی دینے کی تکلیف نہ دی جائے اور اگر تم ایسا کرو گے تو سمجھ لو کہ یہ تمہارے لیے اللہ کی اطاعت سے خروج کرنا ہوگا جو کسی طرح تمہارے لائق نہیں اور تم کو چاہیے کہ ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو کہ کہیں اطاعت سے نکلنے پر پکڑنہ ہوجائے اور تم اللہ کی اطاعت سے کیسے خارج ہوتے ہو اور اللہ تو تم کو دین اور دنیا کی مصلحتیں سکھاتا اور بتابتا ہے لہذا تم کو اللہ کی اطاعت سے خارج نہ ہونا چاہیے اور اگر کسی حکم کی مصلحت تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو حکم دے اس کی اطاعت کرو خواہ وہ تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے پہلے جملہ میں تقوی کی ترغیب دی جائے اور دوسرے جملہ میں اپنی نعمت تعلیم کو ذکر فرمایا اور اس تیسرے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت شان کو بیان فرمایا اور اگر سفر کی حالت میں قرض اور ادھار کا معاملہ کرو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی لکھنے والا تم کو میسر نہ آئے تو تم کو لازم ہے کہ جس کا تم نے قرض اور ادھار لیا ہے قرض کے عوض میں کوئی شے اس کے پاس رہن رکھ دو جو اس کے قبضہ میں دے دی جائے۔ 1) ۔ سفر کی قیداحترازی نہیں کہ قیام کی حالت میں رہن جائز نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہے کہ بہ نسبت حضر کے سفر میں رہن کی زیادہ حاجت پیش آتی ہے اسلیے آیت میں سفر کا خاص طور پر ذکر فرمایا ورنہ رہن سفر اور حضرت دونوں حالتوں میں جائز ہے اور یہ رہن رکھنے کا حکم اس وقت ہے کہ جب ایک کو دوسرے پر اطمینان نہ ہو اور اگر ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو اور ایک کو دوسرے کا اعتبار کرتا ہو اور رہن اور لکھنے کی بھی ضرورت نہ سمجھتا ہو پس اس شخص کو چاہیے کہ جس کا اعتبار کیا گیا اور بلارہن اور بلالکھے اس کو قرض دے دیا گیا وہ اپنی امانت یعنی اپنے قرضہ کو پورا پورا ادا کردے یعنی جس نے اس کا اعتبار کیا ہے اس کا حق پورا پورا ادا کردے۔ 2) ۔ امانت سے قرضہ مراد ہے قرضہ کو امانت سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ مامون ہونے کی وجہ سے بغیر تحریر اور بغیر رہن کے اس کو قرض دے دیا اور اس کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرے کہ نہ خیانت کرے اور نہ حق کا انکار کرے اور اے گواہو جس وقت تمہاری شہادت کی ضرورت ہو اور بغیر تمہاری شہادت دیے کسی کے حق کے ضائع اور تلف ہونے کا اندیشہ ہو خصوصا جس وقت بغیر کسی رہن اور بغیر کسی تحریر کے کسی کو کوئی قرض دیا گیا ہو، تو اس وقت تم اپنی شہادت کو مت چھپانا اور وجہ اس کی یہ ہے جو شہادت کو دل میں چھپا کر رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت زبان سے اس کو ظاہر نہیں کرتا تو بلاشبہ اس کا قلب بالذات اور بلاواسطہ گنہ گار ہوتا ہے، اس لیے کہ کتمان شہادت بلاواسطہ قلب کا فعل ہے جس میں کسی عضو اور جارحہ کو بالکل دخل نہیں اور قلب چونکہ رئیس الاعضاء ہے اس لیے کہ اس کی معصیت بھی راس المعاصی ہوگی۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اولاد آدم کے جس میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جس وقت تک وہ درست رہتا ہے تو سارا بدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوجاتا ہے توسارا بدن خراب ہوجاتا ہے اور یادرکھو کہ وہ ٹکڑا ، ، دل ، ، ہے۔ (بخاری ومسلم) ۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے آگاہ اور واقف ہے تمہارے گواہی دینے اور نہ دینے اور شہادت کے چھپانے اور ظاہر کرنے کو بھی بخوبی جانتا ہے جو شہادت تم نے دل میں چھپائی ہے اگرچہ لوگوں کو اس کا علم نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔ مسئلہ 1) ۔ واستشھدوا شھدین من رجالکم، میں گواہ بنانے کا حکم استحبابی ہے۔ مسئلہ 2) ۔ سوائے شہادت زنا کے ہر امر کی شہادت کے لیے دو ثقہ آدمیوں کی گواہی کافی، البتہ زنا کی شہادت کے لیے چار مردوں کی گواہی ضروری ہے کیونکہ زنا کا تعلق مرد اور عورت دونوں سے ہے اس لیے چار آدمیوں کی گواہی ضروری ہوئی کہ گویا دو گواہ مرد کے زنا کے لیے اور دو گواہ عورت کے زنا کے لیے نیز شریعت کا مقصود پردہ پوشی بھی مطلوب ہے۔ مسئلہ 3) ۔ پھر سوائے زنا کے حدود اور قصاص میں دو مردوں کی گواہی کافی ہے مگر شرط یہ ہے کہ کوئی گواہ عورت نہ ہو، مصنف ابن ابی شیبہ میں زہری سے منقول ہے، مضت السنۃ من لدن رسول اللہ ﷺ والخلیفتین بعدہ ان لاشہادۃ للنساء فی الحدود یعنی نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور ابوبکر اور عمر کے زمانہ سے یہ سنت جاری ہے کہ حدود اور قصاص میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں۔ مسئلہ 4) ۔ باقی ان کے سوا اور تمام معاملات میں خواہ مالی ہوں یا غیر مالی دو مردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی معتبر ہے۔
Top