Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والوں جب تم آپس میں ایک مقرر مدت کیلئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارے مابین انصاف کے ساتھ لکھ دے اور کاتب لکھنے سے انکار نہ کے بلکہ جیسا کچھ اللہ تعالیٰ نے اسکو سکھایا ہی اس کے موافق لکھ دیا کرے اور جس کے ذرحق ہے یعنی مدیون خود دستاویز کا مضمون لکھوائے اور اس مدیون کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا پروردگار ہے اور غین دار کے حق میں سے چھ کم نہ کرے پھر اگر وہ مدیون کم عقل یا کمزور ہو یا دستاویز کا مضمون بتائے اور لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس مدیون کا مختار کار انصاف کے ساتھ لکھوا دے۔3 اور تم اپنے مردوں میں سے دو شاہدوں کو گواہ کرلیا کرو اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو جن گواہوں کو تم قابل اطمینان سمجھ کر پسند کرو ان میں سے ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوجائیں تا کہ ان دونوں عورتوں میں سے اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔ اور گواہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور تم دین کے کسی معاملہ کو اس کی مقررہ میعاد تک لکھنے سے اکتا یا نہ کروخواہ وہ دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو1 یہ میعادی دستاویز کا لکھ لینا اللہ کے نزدیک بہت انصاف کی بات ہے۔ اور گواہی کے لئے بھی یہ طریقہ بہت درست ہے اور اس سے بھی قریب تر ہے کہ تم کسی شک و شبہ میں نہ پڑ جائو مگر ہاں کوئی سود ا نقد اور دست بدست ہو جس کا تم آپس میں لین دین کیا کرتے ہو تو اس معاملہ کے تحریر نہ کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں اور ہاں اس قسم کی خریدو فروخت کے وقت بھی احتیاطا ً گواہ کرلیا کرو اور نہ کسی کاتب کو نقصان پہنچایا جائے اورو نہ کسی گواہ کو اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ تم کو باہمی معاملات کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شئی سے واقف ہے۔2
3۔ اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک میعاد معین تک ادھار اور قرض کا معاملہ کیا کرو یعنی ایسامعاملہ جس میں باہم عقد کرنے والوں میں سے کسی ایک کے ذمہ دین لازم آتا ہو تو اس معاملہ کو ایک دستاویز کی شکل میں لکھ لیا کرو۔ اور تمہارے مابین جو کوئی لکھنے والاہ و اس کو چاہئے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ لکھے یعنی مضمون میں کمی بیشی نہ کرے اور فریقین میں سے کسی کی رعایت نہ کرے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے بلکہ جیسا اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھایا ہے اس کا تب کو چاہئے کہ اس کے موافق لکھ دیا کرے اور کاتب کو دستاویز کا مضمون وہ شخص بتائے اور لکھوائے جس کے ذمہ حق کا ادا کرنا ہے یعنی مدیون جس پر دین واجب ہے خواہ وہ دین ثمن ہو یا مبیع ہو اور لکھوانے والے کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہے جو اس کا پروردگار ڈرتا رہے اور اس حق کو لکھوانے اور بتلانے میں کچھ کمی نہ کرے بلکہ صحیح صحیح لکھوائے اور اس حق میں سے کچھ کم نہ کرے ، پھر اگر وہ مدیون جس کے ذمہ دین واجب ہے نا قص العقل اور خفیف العقل ہو یا کمزور ہو یعنی بہت بوڑھا یا نابالغ ہو یا کسی وجہ سے خود دستاویز کا مضمون بتانے اور لکھوانے کی صلاحیت اور استعداد نہ رکھتا ہو تو ایسی حالت میں اس کا کارندہ اور مختارکارانصاف کے ساتھ ساتھ ٹھیک ٹھیک لکھوادے۔ ( تیسیر) ولیکتب بینکم میں بینکم کا تعلق کاتب سے بھی ہوسکتا ہے اور ولیکتب سے بھی ہوسکتا ہے ہم نے ترجمہ میں ایک قول کی رعایت سے اور تیسیر میں دوسرے قول کی رعایت سے ترجمہ کیا ہے اسی طرح کما علم اللہ کی ترکیب میں بھی دو احتمال تھے ہم نے ایک کو اختیار کرلیا ہے جیسا کہ ہمارے لفظ بلکہ سے سمجھ میں آسکتا ہے ۔ ولا یبخس منہ کی ضمیر میں بھی دو احتمال ہیں ۔ ایک یہ کہ حق میں کمی نہ کرے دوسرا یہ کہ حق کو لکھوانے میں کمی اور کوتاہی نہ کرے ہم نے تیسیر میں دونوں کی رعایت کردی ہے۔ ولیہ میں بھی مفسرین کے دو قول ہیں ایک یہ کہ جس پر حق واجب ہے اور اس کا کارکن اور دوسرا یہ کہ مجبوری کی حالت میں صاحب حق لکھوا دے یعنی جس کا لینا ہے وہی دستاویز کا مضمون لکھوا دے۔ ہم نے پہلی صورت اختیار کرلی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ بعض معاملات تو ہاتھ در ہاتھ ہوتے ہیں جیسے روپیہ دیا ۔۔۔۔۔ کوئی چیز لے لی ، روپیہ دیا مکان لے لیا ۔ روپیہ دیا گیہوں لے لئے ۔ قیمت دی غلام خرید لیا ۔ یہ نقد اور ہاتھ در ہاتھ کا سودا کہلاتا ہے اس کا حکم آگے آئے گا اور بعض معاملات ادھار اور قرض کے ہوتے ہیں ۔ جس میں عوض فی الحال نہیں ہوتا بلکہ بعد کو عوض ادا کرنے کی کوئی میعاد نہیں ہوتی ۔ مثلاً گیہوں لے لئے اور قیمت ایک مہینے بعد دی ۔ نکاح کرلیا دواع ہوگئی اور مہردو سال بعد دیا ۔ ایک شخص ملازم رکھ کر خدمت لے لی اور تنخواہ چھٹے مہینے دی اس قسم کے معاملات کا یہاں حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس قسم کے معاملات کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ چیز فی الحال لے لی اور قیمت ادا کرنے کا کوئی وعدہ کرلیا کہ دو مہینے میں دیں گے یا چاند کی فلاں تاریخ کو دیں گے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چیز کی قیمت فی الحال ادا کردی اور چیز دینے کا کوئی وعدہ کرلیا کہ تین مہینے میں دیں گے یا چاند کی فلاح تاریخ کو دیں گے ۔ اس کو شہر والے کم سمجھتے ہیں البتہ زمیندار اور کاشتکار خوب سمجھتے ہیں ۔ اس کو بیع سلم کہتے ہیں اور کاشتکار اس کو بدنی کہتے ہیں ۔ یہ بیع عام طور سے دیہات میں بہت ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کا شکار کو ایک بھائو ٹھہرا کر روپیہ بانٹ آئے اور یہ وعدہ لے آئے کہ ہم اپریل کی پندرہ تاریخ کو تم سے سومن گیہوں یا ہزار من جو یادس من گھی لیں گے اس کو بدنی کہتے ہیں اور یہ شریعت اسلامی میں بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔ آیت میں ان دونوں صورتوں کا بیان ہے خواہ چیزفی الحال لو اور قیمت بعد میں دو ، خواہ قیمت فی الحال دو اور مال بعد میں لو۔ اسی کو تداینتم بدین الی اجل مسمیٰ کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور یہ ان تمام شکلوں کو شامل ہے جس میں دو معاملہ کرنے والوں میں سے ایک کے ذمہ حق لازم ہوتا ہو خواہ ثمن کا ، خواہ بیع کا ، اور چونکہ ادھار کا معاملہ ایسا معاملہ ہے کہ اس میں بھگتان آگے چل کر ہوتا ہے خواہ وہ بھگتان قیمت کا ہو یا وہ بھگتا شئے کا ہو ۔ اس لئے قرآن کریم نے الی اجل مسمیٰ کا لفظ قانون میں بڑھایا ہے ۔ یعنی معیاد صاف طور سے معین ہوکر فلاں مہینے کی فلاح تاریخ کو بھگتان ہوگا ۔ میعاد مجہول نہ ہو مثلاً یوں نہ کہے کہ جس دن مینہ برسے گا اس دن دوں گا یا جس دن آندھی آئے گی اس دن ادا کروں گا یا جب فصل کٹے گی جب دوں گا اور چونکہ قرض کے معاملات میں میعاد زیر بحث ہوتی ہے اس لئے تحریر کا حکم دیا تا کہ آئندہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو ۔ اگرچہ جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں ، لیکن بعض نے وجوبی کہا ہے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جہاں معاملہ تھوڑا ہو اور کسی قسم کے جھگڑے اور خطرہ کا اندیشہ نہ ہو وہاں تحریر نہ کرائی جائے تو مضائقہ نہیں لیکن جہاں کسی جھگڑے کا خطرہ یقینی ہو اور کسی حق دار کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو وہاں ضرور تحریر کرالی جائے اور تحریر کا معاملہ دین ہی پر کیا موقوف ہے اور ہاتھ در ہاتھ کے معاملہ میں بھی اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو تحریر کرا لینی چاہئے۔ مثلاً کوئی مکان نقد روپیہ لے کر خریدا لیکن یہ اندیشہ ہوا کہ کل کوئی حقدار نہیں آیا یا شفیع نے قیمت کم لگا کرلینا چاہا ۔ فروخت کرنے والا منکر ہوگیا تو ان احتمالات کے پیش نظر اگر ضرورت محسوس کی جائے ۔ تو دستاویز لکھوا لی جائے۔ کاتب کو جو حکم ہے وہ بھی استحبابی ہے اور اسی وجہ سے کتابت پر اجرت لینا جائز رکھا گیا ہے اگرچہ بعض علماء نے واجب اور بعض نے واجب علی الکفایہ فرمایا ہے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی بستی میں سوائے ایک کاتب کے کوئی دوسرا کاتب ہی نہ ہو اور عاقدین اس سے کتابت کا مطالبہ کریں تو اس کو انکار کرنے کا حق نہ دیا جائے اور وجوباً اس کو لکھنے کا حکم دیا جائے۔ ادھار کی ایک شکل اور بھی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ ثمن بھی ادھار ہو اور بیع بھی ادھار ہو اس کو کالے با لکالے کہتے ہیں ۔ اس قسم کے بیع مختلف فیہ ہے اور حنیفہ کے نزدیک یہ بیع ناجائز ہے اور یہ اس آیت میں زیر بحث نہیں ہے۔ علیہ الحق کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ذمہ حق کی ادائیگی ہے وہی دستاویز کا مضمون لکھوائے تا کہ اس کے اقرار سے حق ثابت ہوجائے کیونکہ حق کے لئے اقرار کا ہونا ضروری ہے اور وہ اسی طرح حاصل ہوسکتا ہے کہ جس پر حق ہے وہی دستاویز لکھوائے۔ یہاں سفیھا کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا ناقص نیم مجنوں کبھی کچھ کہتا ہے کبھی کچھ یا بوڑھا بہت ہے کہ کہتا کچھ ہے منہ سے نکلتا کچھ ہے۔ اسی طرح نابالغ کہ اس کی بات بھی ٹھکانے کی نہیں ہوتی یا یہ باتیں نہ ہوں مگر وہ جس پر حق کی ادائیگی واجب ہے دستاویز کا مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو مثلاً گونگا ہے۔ غیر ملکی ہے جو بول نہیں سکتا یا مریض ہے یا پردہ نشین عورت ہے جو کاتب کے روبرو نہیں آسکتی یا دستاویز کی عبارت نہیں لکھوا سکتا تو اس کا کارندہ یا مختار کار یا وارث ٹھیک ٹھیک لکھوا دے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول یہ ہے کہ ایسی مجبوری کی حالت میں جس کا حق چاہئے یعنی دائن اور لین دار ہی لکھوا دے۔ اس صورت میں اگرچہ اقرار حق کا فائدہ تو حاصل نہیں ہوگا لیکن پھر بھی فی الجملہ یہ فائدہ تو حاصل ہی ہوجائے گا کہ جو چیز زبانی کہی جاتی ہے وہ تحریر میں آجائے گی اور آئندہ نزاع کا خطرہ نہ رہے گا۔ ( واللہ اعلم) خلاصہ یہ ہے۔ (1) مسلمان جب کوئی ایسا معاملہ کریں جس میں دونوں عاقدین میں سے کسی ایک کے ذمہ حق باقی رہتا ہو تو اس کے لئے ایک معیاد معین ہونی چاہئے اور اسی مقررہ معیاد پر دائن کو مدیون سے اپنا مطالبہ کرنا چاہئے۔ (2) اس قسم کے معاملات کے لئے مناسب یہ ہے کہ دستاویز لکھ لی جایا کرے۔ (3) ہرچند کہ دستاویز کا لکھنا مستحب ہے لیکن اگر کوئی عارض اور ضرورت پیش آجائے تو امر استحبابی موکد ہوجائے گا ۔ (4) دستاویز کا لکھنا صرف اسی قسم کے معاملات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایسے معاملہ کا جس میں باہمی نزاع کا خطرہ ہو تحریر کرلینا مناسب ہے۔ (5) جس معاملہ کے متعلق کتابت کا حکم ہوا ہے اسی کے متعلق کاتب کو یہ حکم ہے کہ وہ کتابت سے انکار نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ کتابت کا اس کو تعلیم کر رکھا ہے اس کے موافق جب ضرورت ہو تو لکھ دیا کرے انکار نہ کرے۔ (6) دستاویز کا مضمون لکھوانے کی ذمہ داری اس شخص پر ہے جو مدیون ہے خواہ قیمت کی ادائیگی کا اس پر حق ہو یا مبیع کی ادائیگی کا۔ (7) دستاویز کا مضمون لکھوانے والے کو یہ بھی حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور حق والے کے حق میں کوئی کمی نہ کرے اور لکھوانے میں اس کو نقصان نہ پہنچائے۔ (8) اگر سوئے اتفاق سے دستاویز لکھوانے والا اس قابل نہ ہو تو اس کا مختیار یا وارث یا کارندہ لکھوا دے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسی مجبوری کی حالت میں کہ جب مدیون لکھوانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا تو دستاویز کا مضمون دائن ہی لکھوا دے۔ (9) آیت سے اگرچہ ہر معاملہ دین کی کتابت کا حکم مفہوم ہوتا ہے ۔ جیسے بیع اور بیع سلم اور اجارہ اور قرض بلکہ نکاح اور خلع اور صلح وغیرہ کو بھی تداین کا مفہوم شامل ہے۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے اس آیت سے بیع سلم یعنی بدنی کو مراد لیا ہے اور بظاہر یہی مناسب بھی ہے کیونکہ اوپر کی آیتوں میں سود کو حرام فرمایا تھا جو ظاہری اعتبار سے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کی حرمت کے ساتھ بیع سلم کی حلت کا اظہار فرمایا ۔ اور منشاء یہ ہے کہ ہم نے سودکو حرام کیا تو اس کی حرمت پر ایمان لائو اور اس سے اجتناب کرو ۔ ہم تم کو بیع سلم کی اجازت دیتے ہیں ۔ اگر تم دولت ہی کمانی چاہتے ہو تو بیع سلم سے کمائو یہ بیع تمہارے لئے حلال ہے اور اس میں نفع کی بہت امید ہے ۔ عبد اللہ بن عباس ؓ کی اس روایت کی بناء پر عام طور سے مفسرین نے یہاں بیع سلم سے بحث کی ہے۔ بیع سلم کو ہم بتا چکے ہیں کہ اس کو ہماری اصطلاح میں بدنی کہتے ہیں۔ (01) بدنی یا بیع سلم کے مسائل کتب فقہ سے معلوم کئے جاسکتے ہیں یہاں صرف اتنی بات یاد رکھنی چاہئے کہ بیع سلم ان چیزوں میں جو کیلی ہوں یا وزنی ہوں جائز ہے بلکہ جو چیزیں گنتی سے فروخت ہوتی ہیں ان میں بھی جائز ہے بشرطیکہ ان معدودات میں زیادہ فرق نہ ہو یعنی کوئی چھوٹا کوئی بڑا نہ ہو ۔ وزنی چیزوں میں سونا چاندی شامل نہیں ہے اور بیع سلم اسی بیع کو کہتے ہیں جو موجل ہو ، یعنی مبیع بعد میں ادا کی جائے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس کی سات شرطیں ہیں جن کا عقد کے وقت ذکر کرنا ضروری ہے۔ 1۔ جنس معلوم ہو مثلاً گیہوں ، چنا، باجرہ وغیرہ۔ 2۔ نو ع معلوم ہو یعنی سفید ہو یا لال ہو ، کھجور برنی ہو یا غیر برنی ہو وغیرہ۔ 3۔ صفت معلوم ہو یعنی تازی ہوگی یا پرانی ہوگی ، اعلیٰ درجے کی ہوگی یا اوسط درجے کی ہوگی۔ 4۔ مقدار معین ہو دس سیر ہوگی یا من بھرہو گی۔ 5۔ مدت معین ہو مثلاً دو ماہ میں یا چار ماہ میں ادا کرنی ہوگی۔ 6۔ راس المال کی مقدار کا اظہار ۔ 7۔ اور اس مکان اور مقام کا نام جہاں مال سپرد کیا جائے گا بعض شرطوں کے متعلق امام صاحب اور صاحبین میں اختلاف بھی ہے جو کتب فقہ سے معلوم ہوسکتا ہے ۔ اب آگے قانون کی اور دفعات کا بیان ہے۔ (تسہیل) 1۔ اور علاوہ دستاویز کے اپنے مردوں میں سے دو شخصوں کو گواہ بھی کرلیا کرو یعنی دونوں شخص مسلمان ہوں ۔ عاقل بالغ ہوں آزاد ہوں اور عادل و دیندار ہوں ۔ پھر اگر وہ دو گواہ جن کو تم اس معاملہ دین پر گواہ بنانا چاہتے ہو مرد نہ ہوں یعنی دو مرتبہ میسر نہ آئیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہوں میں سے گواہ کرلیا کروجن کو تم دیندار اور معتبر ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہو یعنی فاسق اور قلیل المروۃ وغیرہ نہ ہوں ایک مرد کی جگہ دو عورتیں اس لئے مقرر کی گئی ہیں کہ ان دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک عورت شہادت دیتے وقت کچھ بھول جائے تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلائے اور اس طرح شہادت مکمل ہو سکے اور گواہ جب گواہ بننے کے لئے بلائے جائیں تو گواہ بننے سے انکار نہ کیا کریں اور تم اس دین کے میعاد معاملہ کو بار بار لکھنے سے اکتا یا نہ کرو اور سستی نہ کیا کرو خواہ وہ دین کا معاملہ چھوٹا یا بڑا ہو بلکہ جو میعاد اہل معاملہ مقرر کیں اس معیاد تک کے لئے لکھ دیا کرو۔ ( تیسیر) شہدا جب طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اس کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ گواہ بننے کو بلائے جائیں اور دوسرا یہ کہ گواہی دینے کو بلائے جائیں ہم نے پہلی صورت اختیار کرلی ہے کیونکہ گواہی دینے کا حکم آگے آ رہا ہے گواہی دینے کو بلائے جائیں تو حاضری کا حکم و جو بی ہوگا اور گواہ بننے کو بلائے جائیں تو حاضری کا حکم استحبابی ہوگا ۔ ہم نے جو صورت اختیار کی ہے اس میں گواہ بننے والوں کو گواہ فرمانا با اعتبار مایول کے فرمانا یعنی جن دو مردوں کو بلایا ہے اگرچہ وہ بالفعل گواہ نہیں ہیں لیکن معاملہ کو سنتے ہی اور دستاویز پر اقرار لیتے ہی گواہ ہوجائیں گے۔ ان تکتبوہ کی ضمیر کے بھی تین مرجمع ہوسکتے ہیں ۔ ایک حق ، دوسرا دین ، تیسرا کتاب یعنی چھوٹا ہو یا بڑا ، یا دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا یا دستاویز چھوٹی ہو یا بڑی اس کے لکھنے سے گھبرایا اور اکتا یا نہ کرو اسی طرح الیٰ اجلہ کی ضمیر کے بھی تین مرجمع ہوسکتے ہیں ۔ ہم نے ایک صورت اختیار کرلی ہے مطلب یہ ہے کہ دستاویز تو صرف اس غرض کے لئے لکھوائی جاتی ہے کہ دستاویز کو دیکھ کر معاملہ کی تفصیل یاد آجائے ورنہ دعویٰ کے ثبوت کے لئے تو اصل گواہوں کی ضرورت ہے دستاویز ہو اور گواہ نہ ہوں تو حق ثابت نہ ہوگا اور گواہ ہوں مگر دستاویز نہ ہو تو حق ثابت ہوجائے گا ۔ بشرطیکہ گواہ گواہی کے لائق ہوں ، یعنی مسلمانوں کے باہمی معاملات میں گواہ مسلمان ہوں ۔ عادل ہوں فاسق نہ ہوں آزاد ہوں غلام نہ ہوں بالغ ہوں نابالغ نہ ہوں جس کے حق میں گواہی دے رہے ہوں اس کے عزیز نہ ہوں جس کے خلاف گواہی دیں اس سے ان کی کوئی عداوت نہ ہو اور چونکہ دعویٰ کا ثبوت گواہوں پر موقوف ہے۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ دستاویز کی تحریر کے ساتھ دو گواہ بھی اپنے میں سے بنا لیا کرو تا کہ وہ دستاویز کو سن لیں یا واقعہ کا مشاہدہ کرلیں یا مدیون ان کے سامنے حق کا اقرار کرلے یا دستاویز کا مضمون سن کر ان گواہوں کے روبرو اس کی تصدیق کرے اور اس کی صحت کا اقرار کرلے۔ بہر حال شہادت کی تفصیلات بھی فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے پھر ارشاد فرمایا اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنا لو اور مردوں کے نہ ملنے کا یہ مطلب ہے کہ دو نہیں ملتے ایک ملتا ہے یہ مطلب نہیں کہ کوئی مرد ملتا ہی نہیں یعنی نفی الشمول کا طریقہ مطلوب ہے شمول النفی کا نہیں ۔ لہٰذا اگر ایک مرد موجود ہو تو دو عورتیں ایک مرد کے قائم مقام ہوسکتی ہیں جب کہ حدود و قصاص کا مقدمہ نہ ہو عام طریقہ سے چونکہ عورتیں حافظہ کی کمزور ہوتی ہیں اور واقعات کو صحیح طور سے کم یاد رکھتی ہیں اور ان کے ذہن سے اکثر باتیں نکل جاتی ہیں یا صحیح طور پر بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتیں اس لئے دو عورتیں کو ایک مرد کے قائم مقام کردیا گیا ہے۔ ان تضل احدھما تعلیل کے قائم مقام ہے اور یہ علۃ عدد کی بیان فرمائی ۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اشارہ کردیا ہے ورنہ اصل علۃ تو تذکیر ہے لیکن ان کا بھول جانا چونکہ سبب ہے تذکیر کا اس لئے ضلال ہی کو علت قرار دے دیا ۔ بھولنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ واقعہ یا واقعہ کا کچھ حصہ ذہن سے نکل جائے تو دوسری یاد دلادے اور اس طرح شہادت کی تکمیل ہوجائے۔ ممن ترضون کا مطلب ہم نے تیسیر میں ظاہر کردیا ہے کہ شہادت کے اہل ہوں اور تم ان کو عادل اور معتبر ہونے کی وجہ سے پسند کرتے ہو۔ ولا تسئموا ان تکتبوہ میں نے تین احتمال عرض کئے تھے ان تینوں احتمالات کی گنجائش ہے یعنی دین کے ماملہ کو یا حق کے معاملہ کو لکھنے سے ملول نہ ہوا کرو اور اکتا یا نہ کروخواہ دین کا معاملہ یا وہ حق چھوٹا ہو یا بڑا ہو اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دستاویز کے لکھنے سے اکتا یا نہ کرو خواہ وہ دستاویز چھوٹی ہو یا بڑی ہو اس کی طے شدہ میعاد تک کے لئے لکھ دیا کرو۔ یہاں اجل سے وہ مدت مراد ہے جو آپس میں عاقدین کے مابین طے ہو اور چونکہ دستاویز آئندہ کے لئے معاملہ کی شرائط وغیرہ کو مستحضر کرنے میں مفید ہوتی ہے اور دستاویز کو پڑھ کردہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو معاملہ کے وقت طے ہوئی تھیں اور اس طرح باہمی نزاع اور جھگڑا نہیں بڑھتا اور مسلمانوں میں باہم منازعت نہیں پیدا ہوتی ایسی چیز جو مسلمانوں کو باہم جھگڑنے سے روکتی ہو اس کے لکھنے سے اکتانا یا اس میں سستی نہیں کرنی چاہئے ، بلکہ جب کوئی ایسا معاملہ لکھنے کو کہے اور تم کو لکھنا آتا ہو تو اس کو لکھ دیا کرو۔ اب آگے قانون کی مصلحت اور بعض صورتوں کا استثناء ذکر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل) 2۔ یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک بہت انصاف کی بات ہے یعنی انصاف کو خوب قائم رکھنے والا ہے اور گواہی کے لئے بہت معین و مدد گار ہے اور شہادت کا خوب دوست رکھنے والا ہے اور یہ لکھ لینا اس بات سے قریب تر ہے اور اس امر کے لائق ہے کہ تم یعنی گواہ، حاکم اور صاحب حق کسی شک و شبہ میں نہ پڑ جائو لہٰذا ان مصالح کا لحاظ رکھتے ہوئے دین کے معاملہ کو قلم بند کرلینا ہی بہتر اور اچھا ہے مگر وہاں کوئی سودا نقد اور دست بدست ہو جس کا تم آپس میں لین دین کیا کرتے ہو اور روز مردہ لیتے دیتے رہتے ہو تو اس قسم کی تجارت اور لین دین کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی الزام اور کوئی ضرر نہیں ۔ ہاں اس قسم کی خریدو فروخت میں بھی احتیاطاً گوا ہ کرلیا کرو یعنی کاتب کو یا گواہ کو تکلیف پہنچائو گے تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور اس میں تم کو گناہ ہوگا اور تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یعنی اس کے احکام کی مخالفت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ تم کو ایسے مفید احکام کی تعلیم دیتا ہے جو تمہارے لئے دنیا میں بھی سود مند ہیں اور دین میں بھی اللہ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے والا اور ہر شے سے واقف ہے۔ ( تیسیر) لا یضار کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے بیان کیا مگر دوسرے معنی اور بھی ہوسکتے ہیں یعنی نہ کاتب نقصان پہنچائے اور نہ گواہ ۔ پہلے معنی بنا بر معقول ہیں اور دوسرے معنی بنا بر عاقل ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو دین کے معاملات کی کتابت کا حکم دیا تو اس میں تمہارے بھلے کی بات ہے اول تو یہ کہ اللہ کے نزدیک یہ بڑے انصاف کی بات ہے اور اس سے انصاف خوب قائم رہتا ہے اور تحریر کی وجہ سے کسی کی حق تلفی نہیں ہوسکتی ۔ دوئم شہادت دینے میں یہ تحریر خوب مدد پہنچاتی ہے شاید اس تحریر کو دیکھ کر واقعہ یاد کرلیتا ہے اس طرح یہ تحریر شہادت کو مضبوط کرنے میں مفید ہوتی ہے ۔ سوئم یہ کہ تحریر کی موجودگی میں نہ گواہ شبہ میں پڑ سکتا ہے نہ حاکم اور نہ لین دار کو کوئی شبہ ہوسکتا ہے اور نہ دین دار کسی شک میں پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا جب دستاویز بھی ہو اور گواہی دینے والے گواہ بھی ہوں ۔ تو صاحب حق کا حق ثابت ہونے میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہ سکتا اور انصاف طلب کرنے والے کو صحیح انصاف مل سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ شبہ ہوتا تھا کہ اگر کتابت اس قدر مفید ہے تو کیا ہر چھوٹا بڑا معاملہ جو صبح سے شام تک ہم لیتے دیتے رہتے ہیں وہ بھی تحریر میں آیا کرے مثلاً چار آنیکے آلو لائیں تو وہ بھی لکھوائیں اور آٹھ آنے کی پیاز لائیں تو وہ بھی لکھی جائے۔ حضرت حق تعالیٰ نے اس قسم کے دست بدست لین دین کو مستثنا قرار دیا اور فرمایا ۔ الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم تجارت حاضرہ کا مطلب یہی ہے کہ آمنے سامنے کا لین دین جو تم میں روز مرہ دائرہ ہے اس قسم کے لین دین کی کتابت ضروری نہیں ۔ نہ تم پر کوئی الزام ہے اور نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے ہاں اس قسم کے معاملات میں بھی گواہ کرلیا کرو تو احتیاطا ً اچھا ہے کیونکہ اس قسم کا اندیشہ تو بہر حال ہے ہی کہ کل کلاں کو کوئی بات نکل آئے دکان دار کہنے لگے مجھے پیسے وصول نہیں ہوئے یا میں نے تو یہ مال فروخت نہیں کیا بلکہ جو میں نے فروخت کیا تھا وہ دوسرا مال تھا یا میں نے خیارعیب کی شرط نہیں لگائی تھی ۔ اسی طرح مشتری کہنے لگے کہ میں تو جا کر یعنی خیار شرط کے ساتھ لے گیا تھا یا مجھ کو ابھی پورا مال نہیں ملا ۔ بہر حال اس قسم کے نزاع کا خطرہ رہتا ہے اس لئے اگر ہر سودے پر گواہ کرلو تو اچھا ہے۔ کاتب اور گواہ کو ضرر نہ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے شغل کا خیال نہ کیا جائے اور اپنے کام کے لئے ان کو مجبور کیا جائے یا کاتب کو کتابت کی اجرت نہ دی جائے یا اجرت کے لئے اس کو پریشان کیا جائے یا ایک مقدمہ میں کئی گواہ ہوں اور ایک گواہ بیمار ہو یا کمزور ہو یا کسی کام میں مشغول ہو اور وہ کہے دوسرے گواہ کو لے جائو اور تم کہو کہ نہیں تم ہی چلو اور میری شہادت دو گواہ کے آنے جانے کا خرچ اس کو نہ دیا جائے اور کاتب اور گواہ کا نقصان پہنچانا یہ کہ دستاویز میں کمی بیشی کر دے یا باوجود فرصت کے کتابت سے انکار کر دے یا اجرت بہت زیادہ طلب کرے گواہ کا نقصان یہ کہ گواہ زیادہ نہ ہوں اور صرف دو ہی گواہ ہوں پھر گواہی سے عذر کریں یا کوئی کام نہ ہو پھر بہانہ کریں۔ بہر حال ہم نے دونوں معنی کردیئے ہیں اور دونوں کی گنجائش ہے اگرچہ پہلے معنی کو بعض حضرات نے ترجیح دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ کاتب اور گواہ اہل معاملہ کو تکلف پہنچائیں اور نہ اہل معاملہ کی جانب سے کاتب کو اور گواہ کو کوئی ضرر پہنچانایا جائے۔ بہر حال یہ ضرر جس کی طرف سے بھی ہو گناہ اور فسق کی بات ہے اور یہ جو فرمایا کہ نہ لکھنے میں الزام نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دنیوی نقصان کا اندیشہ نہیں ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس رکوع میں ہر امر استحبابی ہے اور روزمرہ کا لین دین جس کو تجارت حاضرہ فرمایا ہے اس میں کتابت کا حکم نہ دینا آسان اور تکلیف سے بچانے کی غرض ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ پورا قانون مسلمانوں کو باہمی منازعت اور آپس میں جھگڑے سے بچانے کے لئے ہے ۔ اگر کہیں اس قسم کا اندیشہ نہہو یا ضعیف ہو تو وہاں کتابت کی ضرورت نہیں ہوگی اور کسی معاملہ میں باہمی نزل کا خطرہ قوی ہو خواہ وہ تجارت حاضر ہ ہی کیوں نہ ہو تو وہاں کتابت اور شہادت کا اہتمام نافع اور مفید ہوگا ۔ آخر میں بندوں کو قوانین کی بےاعتنائی سے ڈرایا ہے اور اپنے احسان کا اظہار کیا ہے کہ اس قسم کے قوانین جس میں تمہارے دین اور تمہاری دنیا کے مصالح مضمر ہیں ۔ ہم نے تم کو تعلیم کئے ہیں کیونکہ ہم ہی تمہارے دین و دنیا کے نشیب و فراز کو جانتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس آیت میں دو چیز کا تقید فرمایا ایک تو وعدہ کے معاملہ کو لکھنا کہ اس میں پھر قفیہ نہ ہو اور اپنے تئیں شبہ نہ پڑے اور شاہد کو دیکھ کر یاد آوے۔ دوسرے شاہد کرلینا ہر معاملہ پر دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں جن کو ہر کوئی پسند رکھے اور تقید فرمایا کہ تو پسند اور شاہد نقصان کسی کام نہ کریں ۔ جو حق واجبی ہے سو ہی ادا کریں اور لکھنے میں جو دینے والا اپنی زبان سے کہے سو لکھیں یا اس کا کوئی بزرگ کہے اگر اس کو عقل نہ ہو۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے پوری آیت کا خوب خلاصہ نکالا ہے چونکہ کوئی بات اس میں نئی اور زائد نہیں ہے۔ اس لئے اس پر کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں اب آگے شہادت اور رہن بالقبض کے بارے میں ارشاد ہے۔ ( تسہیل)
Top