Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
تفسیر آیت دین : 282 : یٰٓـاَ ۔ یُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْٓ ا اِذَا تَدَ ایَنْتُمْ بِدَیْنٍ ۔ (اے ایمان والو۔ جب تم باہمی قرض کا معاملہ کرو) ۔ یعنی جب ایک دوسرے کو قرض لو۔ دو ۔ عرب کہتے ہیں۔ داینت الرجل۔ جب کسی کو قرض دیا جائے۔ یا لیا جائے۔ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی (ایک مقررہ وقت تک) مقررہ مدت تک۔ مثلاً کٹائی یا گہائی یا حجاج کے لوٹنے تک نکتہ : دَیْن کا لفظ واضح ذکر کیا۔ اذا تدا ینتم الٰی اجل مسمًّی فقط نہیں کہا تاکہ فاکتبوہ کی ضمیر اس کی طرف لوٹ سکے۔ اگر دَیْن کا لفظ واضح نہ ہوتا تو لازم آتا تھا۔ کہ کہا جاتا فاکتبوا الدین اور اس طرح سے کلام میں وہ خوبصورتی نہ ہوتی۔ جو ‘ اب ہے۔ دو وجوہ : وجہ اول : یہ انداز کلام قرض کی اقسام مؤجل اور دَیْنِحالی کو بیان کرنے میں زیادہ واضح ہے۔ وجہ دوم : قرض کے تحریر کرنے کا حکم دیا گیا۔ کیونکہ یہ زیادہ پختہ بات ہے اور بھول چوک سے محفوظ ہے اور انکار سے دور ہے۔ مطلب آیت : مطلب آیت کا یہ ہوا کہ جب تم باہمی مؤجل قرض کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ استنباطی مسائل : مسئلہ : یہ حکم استحبابی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے۔ کہ اس سے مراد بیع سلم ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیا تو بیع سلم کو جائز کردیا۔ جو کہ کتاب اللہ میں مدت معلوم کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور اس میں طویل ترین آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں یہ بھی دلیل ہے۔ کہ بیع سلم میں مدت شرط ہے۔ وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ (اور چاہیے کہ تمہارے درمیان لکھے) یعنی قرض دار اور قرض دینے والے کے درمیان۔ امین کاتب کی تعریف : کَاتِبٌم بِالْعَدْلِ (کاتب انصاف کے ساتھ) بالعدل یہ کاتب کے متعلق ہے اور اس کی صفت ہے یعنی ایسا کاتب جو احتیاط سے لکھے۔ اور جو کچھ لکھتا ہے اس پر امین ہو جس چیز کا لکھنا ضروری ہے اس میں اضافہ اور کمی نہ کرے۔ فائدہ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کاتب سمجھ دار اور شرائط کو جاننے والا ہو۔ تاکہ اس کا لکھا ہوا شرع کے مطابق ہو۔ فائدہ : کاتب کے چنائو کا حکم قرض دینے والے لینے والے دونوں کو ہے اور وہ ایسے آدمی سے کتابت کروائیں جس پر فریقین کو اتفاق ہو۔ وَلَا یَاْبَ کَاتِبٌ۔ (اور کاتب انکار نہ کرے) یعنی کوئی کاتب تحریر سے انکار نہ کرے۔ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ (لکھنے سے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو علم دیا) یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو وثیقہ نویسی کا علم دیا ہے نہ اس میں تبدیلی کرے اور نہ تغیر۔ کَمَا کا لفظ ان یکتب کے متعلق ہے۔ فَلْیَکْتُبْ (پس چاہیے کہ وہ لکھے) یعنی دستاویز لکھے اس سے عدول نہ کرے۔ مدیون کی املاء اقرار ہے : وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ (اور چاہیے کہ وہ شخص املاء کروائے جس کے ذمہ حق ہے) یعنی مدیون لکھوالے اسی کا اقرار حجت الزامی ہے کہ قرض اس کے ذمہ ہے اور یہ لکھوانا اپنے متعلق اقرار بن جائے گا زبان سے۔ املال اور املاء یہ دونوں لغات ہیں۔ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ (اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے) یعنی مدیون اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور املاء سے انکار نہ کرے۔ کیونکہ اس طرح تو اس کے تمام حق کا انکار ہوگا۔ وَلَا یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْئًا (اور اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے) یعنی املاء کروانے میں حق واجب سے کوئی چیز کم نہ کرے۔ اس میں مدیون کے بعض حق کا انکار لازم آتا ہے۔ فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا (پس اگر مدیون سفیہ ہو) یعنی مجنون کیونکہ سفہہ خفت عقل کو کہا جاتا ہے۔ یا فضول خرچ اور تصرف سے جاہل ہونے کی بناء پر ممنوع التصرف ہو۔ اَوْ ضَعِیْفًا (یا کمزور ہو) یعنی نادان بچہ ہو۔ اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ہُوَ (یا وہ املاء کرانے کی طاقت نہ رکھتا ہو) یعنی عاجزی یا جہالت یا زبان سے ناواقفیت کی بناء پر۔ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ (پس اس کا ولی املاء کرائے) یعنی وہ شخص جو اس کا سرپرست و وکیل ترجمان ہے۔ بِالْعَدْلِ (انصاف کے ساتھ) یعنی سچائی اور حق کے ساتھ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ (اور تم دو گواہ بنائو) تاکہ وہ قرض پر گواہی دینے والے بن جائیں۔ شروطِ گواہی : مِنْ رِّجَالِکُمْ (اپنے مردوں میں سے) یعنی مسلمانوں میں سے اسلام کے ساتھ آزادی وبلوغ بھی شرط ہے۔ مسئلہ : احناف کے نزدیک کفار کی گواہی کفار کے متعلق درست ہے۔ فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ (پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں) یعنی اگر دو گواہ مرد نہ ملیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔ حدود و قصاص کے علاوہ بقیہ معاملات میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی گواہی مقبول ہے۔ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآئِ (جن کو تم بطور گواہ پسند کرو) یعنی جن کی عدالت سے تم واقف ہو۔ مسئلہ : اس میں دلیل ہے کہ ناپسندیدہ بھی شاہد بن سکتا ہے۔ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰہُمَا الْاُخْرٰی (اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلائے) یعنی اس بناء پر کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔ اختلافِ قراءت : حمزہ کی قراءت میں اِنْ تَضِلَّ میں ان شرطیہ ہے اور فَتُذَکِّرُ مرفوع ہے اور پورا جملہ جزاء ہے۔ تَضِلَّ پر شرط کی وجہ سے جزم آنی چاہیے مگر تشدید کی وجہ سے جزم نہیں آئی۔ جیسا کہ سورة المآئدہ میں آیت نمبر 95 ومن عادفینتقم اللّٰہ منہ، تو فَیَنْتَقِمُ میں باوجود جزاء کے رفع ہے۔ مکی اور بصری قراء نے فَتُذْکِرَ نصب کے ساتھ پڑھا۔ اور اصل اس کی الذِکْر سے بتلائی نہ کہ الذُکْرِ سے۔ وَلَایَاْبَ الشُّہَدَآئُ اِذَا مَادُعُوْا (اور نہ انکار کریں گواہ جب ان کو بلایا جائے) یعنی ادائیگی شہادت کے لئے یا گواہ بنانے کے لئے تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوں۔ یہاں ان کو گواہ بننے سے پہلے ہی ان کو شہداء کہا گیا۔ کیونکہ آئندہ چل کر وہ گواہ بننے والے ہیں۔ پہلی صورت میں تو فرض ہے اور دوسری صورت میں مستحب ہے۔ وَلَا تَسْئَمُوْٓا (نہ اکتائو) جیسا شاعر نے کہا۔ سئمتُ تکالیف الحیاۃ ومن یعش ٭ ثمانین حولا لا ابالک یسأم (اکتاجانا) محل استدلال یسئام ہے۔ ان تکتبوہ کی ضمیر دَیْنکی طرف لوٹ رہی ہے یا الحق کی طرف صَغِیْرًا اَوْکَبِیْرًا (تھوڑا ہو یا زیادہ) یعنی جس حالت میں ہو خواہ تھوڑا حق ہو یا زیادہ۔ اس میں دلیل ہے کہ بیع سلم کپڑے میں بھی جائز ہے کیونکہ جو کیل وزن میں آسکے۔ اس کے لئے صغیر و کبیر کا لفظ نہیں لاسکتے۔ البتہ تھوڑی چیز کے لئے ذرعی استعمال کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ضمیر کُتَّاب کی طرف لوٹے۔ مطلب یہ ہو کہ وہ تحریر کو مختصر مشتمل لکھیں۔ اِلٰٓی اَجَلِہٖ (وقت مقررہ تک) یعنی وہ وقت جس پر دونوں دائن و مدیون متفق ہوئے ہیں۔ ذٰلِکُمْ (یہ) یعنی لکھنا۔ اس کا مشارالیہ ان تکتبوہ ہے۔ اَقْسَطُ (زیادہ انصاف والی بات ہے) یہ قسط سے ہے جس کا معنی عدل ہے۔ عِنْدَاللّٰہِ (اللہ کے ہاں یہ اقسط کا ظرف ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں۔ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ (یہ ادائے شہادت کو بہت قائم کرنے والا ہے) یعنی اقامت شہادت میں زیادہ معاون ہے۔ اقسط ٗ اقوم یہ دونوں سیبویہ کے نزدیک تفضیل کے صیغے ہیں۔ وَاَدْنٰٓی اَلاَّ تَرْتَابُوْٓا (اور زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو) یعنی گواہ اور حاکم اور صاحب حق کے لئے شک کو زیادہ دور کرنے والی چیز ہے۔ اس لئے کہ بسا اوقات مقدار وصفات میں شک پڑجاتا ہے جب دستاویز کی طرف رجوع کریں گے۔ تو شک زائل ہوجائے گا۔ صرَف : اَدْنٰی : کی الف اصل میں وائو تھی۔ کیونکہ یہ دَنْوٌ سے ہے۔ اِلَّآٓ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً (ہاں اگر دست بدست تجارت ہو) قراءت ونحو : عاصم نے اس طرح پڑھا۔ الا ان تکون التجارۃُ تجارۃً یا الا ان تکون المعاملۃُ تجارۃً حاضرۃً نصب کے ساتھ۔ اسم کو محذوف مان کر تجارۃً حاضرۃً کو خبر بنایا۔ دیگر قراء نے تجارۃٌ حاضرِۃٌ پڑھا۔ اور جمہور کا یہی قول ہے۔ اس صورت میں کان تامہ ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہے۔ الا ان تقع تجارۃٌ حاضرۃٌ۔ کہ تجارت حاضرہ پیش آئے۔ یا کان ناقصہ ہے۔ اور تجارۃٌ حاضرۃٌ مرفوع اس کا اسم اور تدیرونہا اس کی خبر ہو۔ تُدِیْرُوْنَہَا بَیْنَکُمْ ۔ (تم اس کو اپنے درمیان لوٹانے والے ہو) بینکم، تدیرون کا ظرف ہے۔ اس کا معنی اپنے درمیان پھیرنا۔ فوری لین دین کرنا۔ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلاَّ تَکْتُبُوْہَا۔ تمہیں نہ لکھنے میں کچھ حرج نہیں۔ جبکہ تم دست بدست فوری لین دین کرو۔ اگر اس کو نہ لکھو تو کچھ حرج نہیں۔ کیونکہ اس میں وہ وہم نہیں جو قرض میں ہوتا ہے۔ نقد میں گواہی : وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ ۔ (اور خریدو فروخت کے وقت گواہ بنا لو) خریدو فروخت نقد قیمت پر ہو یا ادھار گواہ بنا لیا کرو۔ کیونکہ احتیاط اسی میں ہے۔ اور یہ گواہ بنانا اختلاف میں پڑنے سے بچانے والا ہے۔ دوسرا قول : اس سے مراد یہ ہے کہ جب یہ تجارت حاضرہ والی بیع کرو۔ تو اس میں گواہ کافی ہیں کتابت کی ضرورت نہیں۔ اور امر استحباب کے لئے ہے۔ دو قراءتیں اور مراد نہی : وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ۔ (کاتب اور گواہ کو تکلیف نہ دی جائے) نمبر 1۔ احتمال یہ ہے کہ یہ معروف ہو۔ حضرت عمر ؓ کی قراءت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ لَا یُضَارِرْ ۔ نمبر 2۔ قراءت ابن عباس ؓ کے مطابق مجہول ہے۔ لَا یُضَارَرْ معنی یہ ہے کہ کاتب اور گواہ سے جو طلب کیا جائے۔ اس کو ماننے میں وہ پس و پیش نہ کریں۔ تحریف، زیادتی ٗ نقصان سے باز رہیں۔ نمبر 3۔ نہی ضرار مراد ہے کہ فریقین نہ کاتب کو دکھ دیں اور نہ گواہ کو کہ اس کو جلدی پر مجبور کریں۔ لازم پکڑیں۔ یا کاتب کو آنے جانے کا خرچہ نہ دیں۔ یا گواہ کو اس کے شہر سے آنے کی مشقت اسی پر ڈالیں۔ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌم بِکُمْ ۔ (اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لئے گناہ ہے) یعنی اگر تم ضرر پہنچائو گے تو یہ ضرار گناہ ہے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۔ (اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو) یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مخالفت نہ کرو۔ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ۔ (اور اللہ تعالیٰ تمہیں سکھاتے ہیں) یعنی اپنے دین کے احکام وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ (اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والے ہیں) اس کو سہو و قصور لاحق نہیں ہوتا۔
Top