Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
ایمان والو جب تم ادھار پر کسی میعاد معین تک لین دین کیا کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ تم میں سے کوئی کاتب پورا پورا لکھے اور لکھنے والے کو انکار نہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ اس کو خدا نے سکھایا ہے لکھ دے۔ پس اس کو لکھ دینا چاہیے اور مضمون وہ بتائے کہ جس پر مطالبہ ہو اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس میں کوئی کسر نہ رکھ جائے۔ پھر جس پر مطالبہ ہے اگر وہ بیوقوف یا معذور ہو یا وہ مضمون نہیں بتا سکتا تب اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف سے مضمون بتائے اور اپنے لوگوں میں سے دو مرد گواہ کرلیا کرو اور اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتیں کہ جن کو تم گواہوں میں پسند کرتے ہو کیونکہ اگر ان میں سے ایک بھولے گی تو دوسری اس کو یاد دلائے گی اور گواہوں کو انکار نہ کرنا چاہیے جبکہ وہ طلب کئے جائیں اور معاملہ میعادی لکھنے میں کاہلی نہ کرو خواہ (معاملہ) چھوٹا ہو یا بڑا۔ یہ خدا کے نزدیک منصفانہ بات ہے اور گواہی کے لیے بھی مضبوطی ہے اور زیادہ قرین عقل ہے کہ تم کو شبہ نہ پڑے مگر جبکہ وہ معاملہ دست بدست تجارت کا ہو کہ جس کو باہم لیتے دیتے ہو تب تو اس کے نہ لکھنے میں تم پر کچھ مضائقہ نہیں اور جب سودا کرو تو گواہ کرلیا کرو اور نہ کاتب کو ضرر پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو اور جو ایسا کرو گے تو یہ تمہاری بدکاری ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خدا (تو) تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے
ترکیب : یا حرف ندا ‘ ایہا الذین الخ صلہ و موصول منادی ‘ اذا کلمہ شرط تدا ینتم بدین الی اجل متعلق ہے فعل سے۔ یہ جملہ شرط فاکتبوہ جواب بالعدل متعلق ہے ولیکتب سے۔ کما علمہ اللّٰہ کاف موضع نصب میں ہے صفت ہے مصدر محذوف کی۔ ولیملل اس کی ماضی امل ہے من رجالکم صفت ہے شہیدین کی ممن ترضون موضع رفع میں صفت ہے رجل وامرتان کی۔ من الشہداء بدل ہے من سے جو ممن میں ہے۔ ان تضل ان مصدریہ ناصبہ فعل ہے اور یہ مفعول لہ ہے تقدیرہ لان تضل۔ فتذکر منصوب ہے معطوف ہے تضل پر۔ احدھما فاعل الاخری مفعول ان تکتبوہ بتاویل مصدر مفعول ہے لاتساموا کا صغیرا اوکبیرا دونوں حال ہیں تکتبوہ کی ہ سے عند اللہ ظرف ہے اقسط کا اور لام للشہادۃ میں اقوم سے متعلق ہے ان لا ترتابوا موضع نصب میں ہے وتقدیرہ لئلا ترتابوا۔ تجارۃ موصوف حاضرۃ صفت مجموعہ خبر۔ تکون اور اسم اس کا ضمیر ہے یکون میں جو المعاملۃ کی طرف پھرتی ہے تدیرو نہا بینکم ای نقبضونہا جملہ صفت ثانیہ ہے تجارۃ کی رھان موصوف مقبوضۃ صفت مجموعہ خبر ہے مبتداء محذوف کی اے الوثیقہ رہان۔ تفسیر : پہلی آیتوں میں صدقہ و خیرات کا حکم دیا۔ اس کے بعد سود کو منع کیا جس سے بظاہر مال میں کمی ہوتی ہے۔ اس کے بعد مال کی حفاظت اور ترقی کی تدبیران آیات میں بیان کی۔ لکھنے اور بیع السلم کا حکم دیا۔ یہ اس لیے کہ مال سے انسان بہت سے نیک کام کرسکتا ہے اور سوال اور ذلت سے بچتا رہے۔ بفراغتِ دل عبادت کرسکتا ہے اور اسی لیے بیجا صرف کرکے مال برباد کرنے سے بھی بڑی تاکید سے منع فرمایا۔ ولا تسرفوا یا یوں کہو جبکہ خدا نے سود سے منع کیا تو اس کے بدلہ میں ایک اور جائز آمدنی یعنی بیع السلم کو جائز کیا کیونکہ بعض مفسرین نے اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی سے بیع السلم مراد لی ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوتا ہے۔ فرماتا ہے اے مسلمانو ! جب تم باہم کچھ قرض کسی میعاد پر لو دو تو اس کو لکھ لیا کرو اور کوئی لکھنے والا حق حق لکھے ‘ کمی زیادتی نہ کرے اور قرض لینے والا خود بتاتا جاوے اور جو وہ کم سنی یا بیوقوفی وغیرہ کی وجہ سے خود نہیں لکھ سکتا یا مضمون تمسک نہیں بتا سکتا تو اس کے ولی وارث بتائیں اور لکھوائیں اور پھر دو شخصوں کو کہ جو معتبر ہوں گواہ بنا لو اور جو دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہی میں کافی ہیں تاکہ ایک بھولے تو دوسری یاد دلائے اور جب وقت پڑے تو گواہوں کو لازم ہے کہ پوری گواہی دیں۔ اس کو ہرگز نہ چھپائیں۔ ہاں اگر نقد بنقد تجارت ہو تو اس کا لکھنا کچھ ضرور نہیں اور جو باہم بیع کرو تو کسی کو اس پر گواہ بنا لیا کرو اور جو سفر کی وجہ سے لکھنے والا نہ ملے تو کوئی چیز رہن کر دینی چاہیے اور جو کوئی کسی کو امانت سپرد کرے تو اس کو لازم ہے کہ پھر اس کی امانت واپس کر دے۔ خدا سے ڈرے۔ یہ آیت کا خلاصہ مطلب ہے اب ہم اس میں جس قدر احکام ہیں ان کی تفصیل کرتے ہیں اور اس میں اقوال مفسرین بھی بیان کرتے ہیں تاکہ آیت کے مطالب پر بخوبی آگاہی ہوجاوے۔ (1) اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جبکہ نبی ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ چھوہاروں کی دو برس تین برس کے وعدہ پر بیع کیا کرتے تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا جو کوئی بیع سلم کرے تو وزن اور وقت اور پیمانہ معین کرلیا کرے۔ اس پر خدا تعالیٰ نے اور بھی اس آیت میں اس بیع کی حفاظت کردی کہ ان سب باتوں کو لکھ لیا کرو۔ پس ابن عباس ؓ کے نزدیک اس آیت میں تداینتم بدین سے بیع سلم مراد ہے اور اس کے لکھنے سے یہ مراد ہے کہ وزن اور پیمانہ اور وقت لکھ لیا جاوے۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ بیع چار طور سے ہوسکتی ہے۔ اول نقد بنقد یعنی ابھی دام دینا اور ابھی چیز لینا جس کو تجارۃ حاضرۃ سے تعبیر کیا ہے سو وہ اس جگہ مراد نہیں کیونکہ وہاں دین نہیں اور تداین تفاعل ہے۔ دین سے اور تداینتم بتبایعتم بدین دوم اور ادھار کو ادھار سے فروخت کرنا کہ ہم تم کو پرسوں اتنے روپیہ دیں گے تم ہم کو اس قدر چیز دینا سو یہ بیع باطل ہے۔ یہ بھی اس آیت میں داخل نہیں۔ تیسرے کسی چیز کو ادھار سے فروخت کرنا یعنی بیع العین بالدین جیسا کہ کوئی کہے ہم نے یہ شے اتنے روپیہ سے خریدی مگر روپیہ دو مہینے میں دوں گا۔ چوتھی بیع الدین بالعین یعنی روپیہ تو اسی وقت دے دیا جاوے اور مال کے لیے کوئی مہلت مقرر ہوجاوے۔ مثلاً کوئی کہے کہ ہم نے تم سے سو من گیہوں اس نرخ سے خریدے اور فلاں مہینے میں ہم تم سے لے لیں گے۔ اس کو بیع السلم 1 ؎ اور بیع السلف کہتے ہیں۔ اس آیت میں تیسری اور چوتھی قسم مراد ہے اور یہی قوی ہے۔ بعض کہتے ہیں اس سے قرض دینا مراد ہے کہ 1 ؎ بیع السلم جمہور آئمہ کے نزدیک جائز ہے جس کو ہمارے عرف میں بدنی کہتے ہیں مگر اس میں چند شرطیں ہیں ٗ مال جو لیا جاوے گا اس کی ناپ تول مقرر اگر کوئی کسی کو قرض دے تو اس کو لکھ لے لیکن اس میں ضعف ہے کیونکہ لغت میں قرض اور چیز ہے دین اور چیز ہے قرض میں مدت مقرر کرنا درست نہیں دین میں ہے۔ قرض روپیہ پیسہ وغیرہ کسی کو بشرط واپسی دینا دین کسی حق کی بابت کوئی چیز اس پر لازم ہونا اور کبھی دونوں ایک معنی میں بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ پس آیت میں دین کا ذکر ہے نہ قرض کا۔ (2) فاکتبوہ جمہور محققین کے نزدیک یہ امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ اباحت کے لیے یعنی لکھنا اس معاملہ کا فرض و واجب نہیں بلکہ بہتر ہوتا کہ باہم نزاع اور کسی شرط پر جھگڑا نہ ہو۔ (3) ولیکتب بینکم کاتب بالعدل کاتب پر بھی اس کا لکھنا بقول جمہور فرض واجب نہیں۔ (4) ولا یضار کاتب ولا شہید بلکہ اسی لیے متاخرین نے کاتب کے لیے اجرت کتابت لے کر لکھنا جائز قرار دیا ہے اور مستحب یہ ہے کہ کاتب بلا اجرت اس شکریہ میں کہ خدا نے اس کو لکھنا سکھایا یا ثواب جان کر لکھے۔ جیسا کہ اہل اسلام کے اور سب کار اجر آخرت پر ہوتے ہیں۔ والیہ یشیربقولہ ولایاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللّٰہ۔ (5) ولیملل الذین علیہ الحق املال اور املاء دونوں کے لغت میں بتانے اور پڑھ کر سنانے کے معنی ہیں۔ قال تعالیٰ فہی تملیٰ علیہ بکرۃ واصیلا یعنی جس پر دین ہے اور اس نے اپنے ذمہ پر لے لیا ہے کہ میں فلاں مہینے میں اس شے کو کہ جس پر بیع واقع ہوئی دوں گا۔ وہ اقرار کرلے اور لکھوائے اور کچھ کم زیادہ نہ کرے اور جو یہ خود لکھوا نہیں سکتا یا خود لکھ نہیں سکتا تو اس کا ولی انصاف سے یہ کام کرے۔ (6) واستشہد واشہیدین من رجالکم گواہ بنانا بھی امر استحابی ہے من رجالکم اور ممن ترضون من الشہداء سے شہادت کے متعلق چند مسائل مستفاد ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ سوائے شہادت زنا کے ہر امر کی شہادت کے لیے دو آدمی کافی ہیں۔ لانہ قال شہیدین اور زنا کے معاملہ میں چار شخصوں کی گواہی معتبر ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ واللاتی یا تین الفاحشۃ من نساء کم فاستشہدوا علیہن اربعۃ منکم وقال ثم لم یا توا باربعۃ شہداء کیونکہ یہ کام مرد اور عورت دونوں سے متعلق ہے۔ ہر ایک کے دو دو گواہ چاہییں اور نیز پردہ پوشی بھی مطلوب ہے۔ پھر سوائے زنا کے اگر حدود و قصاص کا معاملہ ہے تو اس میں صرف دو مرد ہوں ٗ عورتیں نہ ہوں کیونکہ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں زہری سے روایت کی ہے۔ مضت السنۃ من لدن رسول اللہ ﷺ والخلیفتین من بعدہ ان لاشہادۃ للنساء فی الحدود کہ حضرت ﷺ کے عہد سے ابوبکر و عمر ؓ کے عہد تک حدود (و قصاص) میں عورتوں کی گواہی قبول نہ کی جاتی تھی۔ اس کے سوائے اور سب معاملات میں خواہ مالی ہوں خواہ غیر مالی دو مردوں کی گواہی اور جو دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد 1 ؎ اور دو عورتوں کی کافی ہے۔ دو عورتیں ایک مرد کے قائم مقام کی گئی ہیں کیونکہ ان کے مزاج میں برودت ہے جس سے نسیان پیدا ہوتا ہے دو میں اگر ایک بھولے گی تو دوسری یاد دلائے گی۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی مالی معاملات میں قبول ہوگی اور غیر مالی میں مرد کا ہونا ضروری بات ہے۔ (دوم) فمن ترضون سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہر شخص گواہی کے قابل نہیں بلکہ عمدہ آدمی ہو۔ اب اس کی تفسیر بالتفصیل علمائِ امت نے احادیث اور قیاس سے یوں کی ہے کہ گواہ میں دس شرطیں ہونی چاہییں۔ اول حر ہو یعنی کسی کا غلام نہ ہو۔ دوم بالغ ہو کم سن لڑکا نہ ہو۔ سوم مسلمان ہو جیسا کہ من رجالکم سے سمجھاتا ہے۔ کافر نہ ہو البتہ کافر مستامن کی گواہی دوسرے کافر مستامن پر درست ہوسکتی ہے نہ مسلمانوں پر۔ واضح ہو کہ یہ شرطیں ان باتوں کی گواہی میں معتبر ہیں جو دین سے متعلق ہیں اور معاملات میں تو صرف اہل عقل و تمیز ہونی چاہیے اور یہ کہ کب لیا جاوے گا اور کہاں لیا جاوے گا۔ وغیرہ ذلک تاکہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ خواہ وقت مقررہ پر وہ چیز ارزاں ہو خواہ گراں بائع کو دینی پڑے گی اور اس کا نفع مشتری کو درست ہوگا۔ 12 منہ 1 ؎ امام بخاری وغیرہ محدثین نے روایت کیا ہے۔ 12 منہ کا قول معتبر ہوگا ٗ خواہ حر خواہ غلام خواہ مسلمان ہو۔ خواہ کافر جوان ہو یا عقل وتمیز والا لڑکا کس لیے کہ معاملات کثیر الوقوع ہیں اگر ان میں یہ قیدیں معتبر ہوں تو حرج ہوگا۔ چناچہ ہدایہ کی کتاب الکراہۃ میں لکھا ہے ویقبل فی المعاملات قول الفاسق ولا یقبل فی الدیانات الاقول العدل دوجہ الفرق ان المعاملات یکثر وجودھا فیما بین الناس فلو شرطناشرط زائدا یودی الی الحرج فیقبل قول الواحد فیہا عدلاکان وفا سقا کافرا کان او مسلما عبدا کان او حرا ذکرا کان او انثی دفعا للحرج۔ معاملات کی مثال شراء اور اذن تجارت اور وکیل بنانا وغیرہ دیانات کی مثال نجاستِ آب کی خبر دینا یا اور کوئی حل و حرمت کے متعلق خبر دینا۔ چہارم عادل ہو فاسق نہ ہو۔ پنجم جس چیز کی گواہی دیتا ہو اس کو خوب جانتا ہو۔ ششم اس گواہی سے اس کا کوئی نفع نہ ہو۔ ہفتم اس سے کوئی اس کی مضرت دفع نہ ہو۔ ہشتم غلط اور نسیان میں مشہور نہ ہو۔ نہم بےمروت ‘ لالچی نہ ہو۔ دہم جس پر گواہی دے رہا اس میں اور اس میں کوئی عداوت نہ ہو۔ (سوم) ولایاب الشہداء اذا ما دعویٰ ولا تکتموا الشہادۃ سے گواہوں پر فرض واجب ہوگیا کہ جب ان کو عدالت میں طلب کیا جاوے تو ایمانداری سے سچی شہادت دیویں اور اس میں سے ہرگز کوئی بات مخفی نہ کریں نہ اس کو بدل کر کہیں ٗ خواہ اپنا ہی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو۔ اگر گواہ کا کوئی خرچ وادائے شہادت میں سفر کرنا پڑے تو جب درس تدریس و عہدہ قضا کے لیے اجرت لینا متاخرین نے جائز رکھا ہے تاکہ یہ دروازہ بند ہوجائے تو اسی طرح گواہ کو خرچ و خوراک بھی دینا جائز ہوسکتا ہے جس کی طرف ولایضار کاتب ولاشہید میں اشارہ ہے۔ 1 ؎ مگر وہ معاملات جن پر مرد مطلع نہیں ہوتے وہاں صرف ایک عورت کی بھی شہادت کافی ہے جیسا کہ بکارت ولادت اور عورتوں کے خاص عیب ہدایہ۔ 12 منہ
Top