Dure-Mansoor - Al-Furqaan : 32
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْلَا : کیوں نہ نُزِّلَ : نازل کیا گیا عَلَيْهِ : اس پر الْقُرْاٰنُ : قرآن جُمْلَةً وَّاحِدَةً : ایک ہی بار كَذٰلِكَ : اسی طرح لِنُثَبِّتَ : تاکہ ہم قوی کریں بِهٖ : اس سے فُؤَادَكَ : تمہارا دل وَرَتَّلْنٰهُ : اور ہم نے اس کو پڑھا تَرْتِيْلًا : ٹھہر ٹھہر کر
اور کافروں نے کہا کہ ان پر قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہ کردیا گیا، ہم نے اسی طرح نازل کیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ ہم آپ کے دل کو قوی رکھیں اور ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کر اتار ہے
1۔ ابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابن مردویہ والضیا فی المختارہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین نے کہا اگر محمد ﷺ نبی ہیں جیسے وہ گمان کرتے ہیں تو ان کا عذاب نہ دیتا اللہ تعالیٰ نے ان پر یکبارگی میں قرآن کیوں نازل نہیں کیا آپ پر کبھی ایک آیت کبھی دو آیتیں اور کبھی ایک سورت نازل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر جواب کو نازل فرمایا جو انہوں نے کہا تھا آیت ” وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القراٰن جملۃ واحدۃ “ سے لے کر آیت ” واضل سبیلا “ تک۔ 2۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القراٰن جملۃ واحدۃ “ یعنی ایک مرتبہ قرآن کیوں نہیں اتارا گیا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” کذلک لنثبت بہ فؤادک ورتلنہ ترتیلا “ یعنی ہم نے اس کو کھول کر بیان کیا آیت ” ولا یاتونک بمثل الا جئنک بالحق واحسن تفسیر “ یعنی اس کی بہترین تفصیل کرتے ہوئے۔ 3۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” کذلک لنثبت بہ فؤادک “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر ایک آیت کو نازل فرماتے تھے جب رسول اللہ ﷺ اسے جان لیتے تھے تو پھر دوسری آتی نازل ہوتی تاکہ آپ اس کتاب کو زبانی یاد کرلیں اور اس کے ذریعہ آپ کے دل کو ثابت کردیں آیت ” ولا یاتونک بمثل الا جئنک بالحق واحسن تفسیر ا “ یعنی ہم اس کی بہترین تفسیر کردیں۔ 4۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” کذلک لنثبت “ تاکہ پختہ کردیں اس کو تیرے دل میں اور ہم آپ کے دل کو مضبوط کردیں آیت ” ورتلنہ ترتیلا “ اور ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے بھیجا آتی ” ولا یاتونک بمثل “ یعنی اگر ہم ایک ہی دفعہ قرآن نازل کردیتے پھر وہ لوگ آپ سے سوال کرتے تو آپ اس کا جواب نہ دے سکتے۔ لیکن ہم اسے آپ پر رو کے رکھتے ہیں جب وہ آپ سے سوال کریں گے تو میں جواب دوں گا۔ قرآن تیس سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔ 5۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قریش نے کہا کیا وجہ ہے کہ قرآن نبی ﷺ پر یکبارگی نازل نہیں ہوا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا آیت ” وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القراٰن جملۃ واحدۃ کذلک لنثبت بہ فؤادک ورتلنہ ترتیلا “ یعنی تھوڑا تھوڑا جیسے وہ آپ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے مگر ہم لاتے ہیں اس چیز کو جو ان کا توڑ کردیتی ہے سو ہم نے اس کو آپ پر تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا جب وہ کوئی اعتراض کرتے ہیں تو ہم ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو وضاحت کے لحاظ سے بہترین چیز ہوتی ہے۔ 6۔ عبدالرزاق وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے آیت ’ ’ ورتلنہ ترتیلا “ کے بارے میں روایت کیا کہ آپ پر ایک آیت یا دو آیتین یا کئی آیات نازل ہوتی تھیں ان کافروں کے کے سوالات کے جواب میں جب وہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں آیات کو نازل فرماتے تھے اور نبی ﷺ کی طرف سے رد فرماتے تھے جن کے بارے میں کافر نازیبا باتیں کرتے تھے اور یہ سلسلہ تقریباً بیس سال تک چلتا رہا۔ 7۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے آیت ” کذلک لنثبت بہ فؤادک ورتلنہ ترتیلا “ کی بارے میں روایت کیا کہ قرآن مشرکوں کے جواب میں نازل ہوتا تھا کہ تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کا جواب دیتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں آیت ” ولا یاتونک بمثل الا جئنک بالحق “ فرمایا کفار جو بھی باتیں کریں گے تو ہم وہ قرآن لائیں گے مشرک جو اعتراض کریں گے وہ ان کو رد کردے گا۔ 8۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ورتلنہ ترتیلا “ سے مراد ہے کہ (قرآن متفرق طور پر نازل کیا گیا ) ۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آتی ” ورتلنہ ترتیلا “ سے مراد ہے کہ ہم نے اسے خوب کھول کر بیان کیا۔ 10۔ ابن ابی حاتم نے عطار (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واحسن تفسیرا “ سے مراد ہے تفصیل کے ساتھ۔ 11۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واحسن تفسیر “ سے مراد ہے (بہترین طریقہ سے) بیان کرنا۔
Top