Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے۔ اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی۔ اور جب گواہ (گواہی کے لئے طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں۔ اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے میں کاہلی نہ کرنا۔ یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لئے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وہ شبہ بھی نہیں پڑے گا۔ ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھوتو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ اور جب خرید وفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو۔ اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں کا) کسی طرح نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ : یعنی مسلمانو ! جب تم آپس میں کوئی ایسا لین دین کرو جس میں دونوں میں سے کسی ایک کے ذمہ کچھ قرض ہو ہم نے کسی ایک کی قید اس لیے لگائی کہ دونوں کے ذمہ قرض کا معاملہ ہونا درست نہیں بالاجماع غیر مقبوض کی بیع غیر مقبوض کے عوض صحیح نہیں۔ بیع الکأی بالکأی کی ممانعت میں رسول اللہ کا فرمان حضرت ابن عمر ؓ نے نقل کیا ہے کہ جس کو دار قطنی نے بیان کیا ہے۔ اس آیت کا حکم بیع۔ سلم، اجارہ، قرض۔ بلکہ نکاح، خلع اور صلح سب کو شامل ہے۔ بِدَيْنٍ : کسی قرض کا۔ اس لفظ کے اضافہ سے معلوم ہوا کہ تَدَاینتم سے مراد بدلہ دینا نہیں ہے کیونکہ تداین کا معنی بدلہ دینا بھی آتا ہے (بلکہ عقد مراد ہے یعنی لین دین کا معاملہ) نیز یہ بات بھی ملحوظ ہے کہ آئندہ فاکتبوہ آرہا ہے اس میں ضمیر ہُ ہے جس کا مرجع متعین کرنا مقصود ہے۔ بدینٍ نکرہ ہے اور شرط (اذا) کے تحت آیا ہے اس لیے اس لفظ کے اندر ہر قسم کا دین داخل ہے ثمن ہو یا مبیع۔ وزن فروخت ہونے والی ہو یا پیمانہ کے ناپ سے یا کچھ اور ہو (عددی ہو تخمینی ہو) ادھار واجب فی الذمہ ہو ‘ یا فی الفور مقبوض ہو۔ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مقررہ مدت میں ادائیگی پر۔ اس لفظ کی وجہ سے وہ معاملہ خارج ہوگیا جس میں طرفین سے فوری ادائیگی ہو اس لیے مقبوض الطرفین بیع کو لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مسمی سے مراد ہے معین جس میں دن مہینہ سنہ مقرر کردیا گیا ہو اس قید کے اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بیع جس میں ثمن بذمہ مشتری قرض ہو اور سلم (جس میں ادائیگی بیع بذمہ بائع شرط ہو) بغیر تقرر مدت کے صحیح نہیں۔ مدت ادا مقرر نہ ہوگی تو جھگڑا پیدا ہوگا۔ مدت کا تعین ہر جگہ ضروری ہے بیع میں ادائیگی ثمن کے لیے، مسلم میں ادائیگی مبیع کے لیے اور نکاح میں (ادائیگی مہر کے لیے) ہاں قرض میں ادائیگی کی مدت مقرر کرنی ضروری نہیں۔ وقت ادا آنے سے پہلے صاحب حق کو تقاضے کا حق نہیں اور مدت ادا ختم ہونے کے بعد مطالبہ دار کو روکنے کا حق نہیں۔ ادائے قرض کی اگر مدت مقرر کر بھی دی جائے تو مقرر نہیں ہوتی (قرض خواہ کو ہر وقت مطالبہ کا حق رہتا ہے) شریعت نے قرض کو ایک طرح کی عاریت قرار دیا ہے (اور مال عاریت کو واپس لے لینے کا حق صاحب مال کو ہر وقت ہے) گویا ادا کرنے والا عین مال کو ادا کرتا ہے اگر یہ اعتبار نہ کیا جائے تو نسیہ 1 ؂ لازم آئے گا جو ایک طرح کا سود ہے۔ اس آیت کی عبارت سلم کو (جس میں مبیع کی ادائیگی ایک مقرر مدت کے بعد ہوتی ہے) شامل ہے اور اس بیع کو بھی جس کی ثمن (فی الفور ادا نہیں کی جاتی بلکہ اس کی ادائیگی) کی ایک مدت مقرر کردی جاتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کا بھی یہی مطلب ہے آپ ﷺ نے فرمایا تھا میں شہادت دیتا ہوں کہ سلم ‘ جس کی ادائیگی ثمن کی ایک مدت مقرر کی جاتی ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کی ہے اور اس کی اجازت دی ہے ‘ فرمایا ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ۔۔ یہ روایت حاکم نے مستدرک میں بیان کی ہے اور شرائط شیخین کے مطابق اس کو قرار دیا ہے اس کے راوی قتادہ از ابو حسان ‘ اعرج از ابن عباس ؓ ہیں۔ شافعی نے اپنی مسند میں اور طبرانی و ابن ابی شیبہ نے اسکو بیان کیا ہے۔ بخاری نے بصورت تعلیق اسکو نقل کیا ہے۔ قیاس چاہتا ہے کہ سلم جائز نہ ہو یہ معدوم کی بیع ہے بیع کا اصل مقصد حصول بیع ہے ثمن تو حصول مبیع کا ذریعہ ہوتا ہے اس کے لیے تو صرف واجب فی الذمہ ہونا کافی ہے نقد کی ضرورت نہیں۔ بیع ہی ایسی چیز ہے جس پر عقد ہوتا ہے اس لیے اگر مبیع ہی موجود نہ ہو تو بیع کیسے ہوسکتی ہے اس لیے رسول اللہ نے ایسی چیز کی بیع کرنے کی ممانعت فرما دی تھی جو بائع کے پاس موجود نہ ہو لیکن بیع سلم کے جواز کی صراحت نص میں موجود ہے اور اجماع بھی اس پر ہے اس لیے تقاضائے قیاس کو ترک کردیا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ (مدینہ میں) تشریف لائے تو (دیکھا کہ) لوگ سال دو سال کے وعدہ پر چھواروں کی بیع سلم کرتے تھے۔ بعض روایات میں تین سال کا لفظ بھی آیا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : جو پھلوں میں بیع سلم کرے تو معین پیمانے ‘ معین وزن اور معین مدت کے ساتھ کرے۔ (متفق علیہ) عبد اللہ بن ابی اوفی کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں گیہوں جَو چھوارے اور کشمش کی بیع بطور سلم کرتے تھے۔ (رواہ البخاری) ابن جوزی (رح) نے امام احمد کی روایت اس طرح نقل کی ہے۔ میں نے ابن ابی اوفی ؓ سے پوچھا کیا رسول اللہ کے زمانہ میں تم گیہوں جَو اور روغن زیتون کی بیع سلم کرتے تھے ؟ ابن ابی اوفی ؓ نے کہا جی ہاں رسول اللہ کے زمانہ میں ہم کو مال غنیمت ملتا تھا تو ہم وہ مال دے کر گیہوں، جَو، چھوارے اور روغن زیتون بطور سلم خریدتے تھے میں نے کہا (کس سے خریدتے تھے) کیا اس شخص سے جس کے کھیتی ہوتی تھی یا اس شخص سے جس کے ہاں کھیتی نہیں ہوتی تھی۔ انہوں نے جواب دیا ہم ان سے یہ بات پوچھتے ہی نہ تھے (کہ تم کاشت کرتے ہو یا نہیں کرتے) اس قصہ کے بعد راوی نے جا کر ابن ابی ابزی سے دریافت کیا انہوں نے بھی ابن ابی اوفی ؓ کی طرح جواب دیا۔ جواز سلم چونکہ تقاضائے قیاس کے خلاف ہے اس لیے صرف اسی صورت میں جائز ہوگا۔ جب بیع دست بدست نہ دیا جائے کیونکہ نص شریعت میں اتنا ہی آیا ہے لہٰذا حکم سلم صرف اسی صورت میں ہوگا جس صورت کی صراحت شریعت نے کی ہے۔ اگر مبیع کی ادائیگی فوراً ہوجائے تو امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک سلم درست نہیں ہاں امام شافعی (رح) کے نزدیک صحیح ہے کیونکہ جب بیع کی ادائیگی ایک مدت کے بعد ہونے کی صورت میں سلم درست ہے تو فی الفور ادائیگی کی صورت تو بدرجہ اولیٰ درست ہونا چاہئے یا صورت ثانیہ کو صورت اوّل کی طرح ہی مان لیا جائے۔ ہم کہتے ہیں کہ سلم کا جواز صرف اس لیے ہو اتھا کہ جو نادار آدمی اپنے گھر کے مصارف سے مجبور ہو اس کو بچوں کے صرف کے لیے کچھ فوراً مل جائے آئندہ بیع جب اس کے ہاتھ میں آئے گا (مثلاً چھ ماہ کے بعد اس کو غلہ میسر ہوگا) تو وہ ادائیگی کردے گا اور مشتری کو اپنے گھر والوں کے لیے آئندہ کچھ نفع مل جائے کیونکہ سلم میں اکثر بیع کا نرخ سستا طے کیا جاتا ہے لہٰذا بیع پر اگر دست بدست قبضہ ہو اور اس کی ادائیگی فی الفور ہوجائے تو نادار کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مسئلہ باجماع علماء جواز سلم کے لیے ضروری ہے کہ بیع کی جنس، نوع، حالت اور مقدار اس طرح بیان کردی جائے کہ اس کو ذہنی تعیین حاصل ہوجائے۔ نیز مدت ادا کی تعیین بھی ضروری ہے تاکہ بقدر امکان بیع کی تعیین ہوجائے اور آئندہ کوئی جھگڑا باقی نہ رہے۔ جمہور کے نزدیک قیمت (راس المال) کی مقدار جاننا بھی ضروری ہے لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کہتے ہیں کہ اگر راس المال کو اشارہ سے بتارہا ہو تو مقدار بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس کی تردید میں کہتے ہیں کہ کبھی قیمت کا کچھ حصہ کھوٹا ہوتا ہے اور اس جگہ تو کھوٹا ہونا معلوم ہی نہ ہوگا کہ لوٹا کر کھرا لے لیا جائے اب اگر مقدار قیمت معلوم نہ ہوگی تو نہیں کہا جاسکتا کہ بیع سلم کے لیے کتنی قیمت ادا کی گئی اور کتنا بیع خریدا گیا اس کے علاوہ بائع کبھی بیع کو ادا نہیں کرسکتا (اس کے پاس ادا کرنے کے لیے کچھہوتا ہی نہیں) اس لیے اصل مال واپس کرنا ضروری ہوتا ہے اس لیے قیمت کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ رہی یہ بات کہ یہ تو محض امکانات ہیں ایسا ہوتا نہیں ہے (اور اگر ہوتا ہے تو محض اتفاقاً ہزاروں میں کبھی ایک بار) تو ہم کہتے ہیں کہ سلم کا جواز قیاس کے تو خلاف ہی ہے (بظاہر اس میں سود کا شائبہ نظر آتا ہے پھر اصل رکن بیع بھی مفقود ہے) لیکن شریعت نے اس کو جائز قرار دیا ہے اس لیے اس کے اندر ممکن الوقوع صورت کو بھی واقع کی طرح مانا جائے گا۔ (اور ممکن الوقوع احتمال سے بھی پرہیز لازم ہوگا) امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک آٹھویں شرط یہ بھی ہے کہ وقت عقد سے وقت ادا تک بیع (بازار میں یا ملک میں) موجود رہنا چاہئے جمہور کے نزدیک صحت سلم کی ساتویں شرط یہ ہے کہ اگر بار برداری میں کچھ خرچ اور محنت پڑتی ہو تو بیع کی سپردگی کا مقام بھی وقت عقد معلوم ہونا لازم ہے۔ باقی ائمہ کے نزدیک مقام سپردگی وہی متعین ہے جو مقام عقد ہے (جس جگہ بیع ہوئی ہے اسی جگہ بیع کی ادائیگی ہوگی) امام اعظم (رح) کے نزدیک یہ شرط ضروری نہیں صرف ادائیگی کے وقت بیع کا (باز ار یا شہر وغیرہ میں) پایا جانا کافی ہے (تاکہ اگر بائع کے پاس اپنی پیداوار نہ ہو تو وہ دوسری جگہ سے خرید کر لا کر دیدے) کیونکہ یہ شرط شریعت کی طرف سے عائدکردہ نہیں (کہیں حدیث میں مذکور نہیں) اور قاعدہ یہ ہی ہے کہ جو شرط مذکور نہ ہو اس کو ضروری نہیں قرار دیا جاتا عام احکام (جن میں کوئی قید اور شرط نہ ہو) مباح ہونے کے لیے کافی ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی بنا اس حدیث پر ہے جو ابو داؤد اور ابن ماجہ نے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ ایک نجرانی (یمنی) شخص نے بیان کیا۔ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ کیا میں چھواروں کی بیع سلم اس وقت کرسکتا ہوں جب کہ درختوں پر ان کے غنچے بھی برآمد نہ ہوئے ہوں ؟ فرمایا : نہیں۔ میں نے کہا کیوں ؟ فرمایا : اس لیے کہ رسول اللہ کے زمانہ میں ایک شخص نے اس طرح کی بیع سلم کی تھی مگر اس سال ان درختوں پر غنچے برآمد ہی نہیں ہوئے مشتری کہنے لگا میں اس وقت تک مہلت دیتا ہوں کہ (آئندہ سال یا تیسرے سال) درختوں میں شگوفے برآمد ہوجائیں (اس وقت میں بیع وصول کرلوں گا) بائع نے کہا اسی سال کے لیے درختوں کا سودا ہوا تھا (اس سال پھل نہ آئے تمہارا حق ختم ہوا) دونوں جھگڑا لے کر رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے آپ ﷺ نے بائع سے فرمایا : کیا اس نے تیرے درختوں سے کچھ حاصل کیا ہے اس نے عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر تو کیسے اس کے مال کو حلال سمجھتا ہے جو کچھ اس سے لیا ہے واپس دیدے جب تک درختوں پر صلاح (قابل استعمال پھل) برآمد نہ ہوجائے اس وقت تک ان کی بیع سلم نہ کیا کرو۔ بخاری نے ابو البختری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کھجور کے درختوں کی بیع سلم کا حکم پوچھا فرمایا : رسول اللہ نے کھجور کے درختوں (کی بہار) کی بیع کرنے کی ممانعت فرما دی ہے جب تک کہ ان میں صلاحیت نہ ہوجائے (یعنی قابل استعمال نہ ہوجائیں) اور نقد کے مقابل نسیۃً چاندی کی بیع کی بھی ممانعت فرما دی ہے (یعنی چاندی بصورت قیمت نقد دی جائے اور بیع بصورت چاندی فی الفور ادا نہ کیا جائے یہ صورت بھی ممنوع ہے) میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کھجور کے درختوں کی (بہار کی) بیع سلم کا حکم پوچھا تو آپ نے فرمایا : رسول اللہ نے کھجور کے درختوں کی (بہار کی) بیع کی ممانعت کی ہے جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں (یہ حدیث مجروح ہے) اس میں نجرانی شخص مجہول ہے اور ابن اسحاق کے معتبر ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے اور آثار کو دلیل میں نہیں پیش کیا جاسکتا۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کا قول احتیاط پر مبنی ہے کیونکہ سلم عقد ہی ایسا ہے جس کا جواز خلاف قیاس ہے لہٰذا زیادہ سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ مسئلہ علماء کا اتفاق ہے کہ پیمانہ سے ناپ کر یا گز سے ناپ کر یا وزن کرکے فروخت کی جانے والی چیزوں کی بیع سلم درست ہے لہٰذا اس ملک میں وہ موٹا کپڑا جس کا عرض 36 انچہ یا چوالیس انچہ یا 60 انچہ ہوتا ہے بیع سلم کے طور پر فروخت کیا جاسکتا ہے (بشرطیکہ عرض بتادیا جائے) کیونکہ اس کپڑے میں تفاوت بہت کم ہوتا ہے مگر ایسے کپڑے کے علاوہ دوسرے (متفاوت) کپڑوں کی سلم صحیح نہیں۔ رہیں وہ چیزیں جو شمار کرکے بکتی ہیں اور ان کے افراد میں تفاوت نہیں ہوتا (یا تفاوت ناقابل اعتبار ہوتا ہے) جیسے اخروٹ اور انڈے وغیرہ ان کی بھی سلم درست ہے البتہ امام احمد کی طرف ایک روایت میں عدم جواز کی نسبت کی جاتی ہے اور وہ عددی چیزیں جن میں (نمایاں) تفاوت ہوتا ہے جیسے خربوزہ، تربوز، انار وغیرہ ان میں امام اعظم (رح) کے نزدیک بیع سلم کسی طرح درست نہیں نہ گنتی کے اعتبار سے نہ وزن کے لحاظ سے لیکن یہ حکم ان ممالک میں ہوگا جہاں یہ چیزیں گنتی سے بکتی ہیں ہمارے ملک میں تو ان کی بیع وزن سے ہوتی ہے لہٰذا ان میں یہاں بیع سلم درست ہے امام مالک کے نزدیک معدودات متفاوتہ کی بیع سلم ہر طرح جائز ہے وزناً بھی اور شمار سے بھی۔ امام شافعی صرف وزناً جواز کے قائل ہیں امام احمد کا قول بھی ایک روایت میں یہی آیا ہے۔ مسئلہ امام اعظم (رح) کے نزدیک جانور کی بیع سلم درست نہیں دوسرے تینوں اماموں (امام مالک ‘ امام احمد اور امام شافعی رحمہم اللہ) کے نزدیک درست ہے مؤخر الذکر مسلک کا ثبوت حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت کردہ حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے حضرت عبد اللہ کو لشکر کی تیاری کا حکم دیا مگر اونٹ ختم ہوگئے (فوج کے لیے کافی نہ ہوئے) تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ زکوٰۃ کے اونٹوں (کی آمد) کی مدت کے ساتھ مشروط کرکے (لوگوں سے) لے لو (یعنی اب بقدر ضرورت اونٹ لے لو اور یہ شرط کرلو کہ جب زکوٰۃ کے اونٹ آئیں گے تو معاوضہ میں دیدیئے جائیں گے) چناچہ حضرت عبد اللہ ایک ایک اونٹ کے بدلہ دو ‘ دو اونٹوں کے دینے کی شرط پر لینے لگے۔ یہ حدیث ابوداؤد نے نقل کی ہے اس کی اسناد اس طرح ہے۔ محمد بن اسحاق، یزید بن ابی حبیب، مسلم بن جبیر، ابو سفیان، عمروبن حریش، عبد اللہ بن عمرو۔ حاکم نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور شرط مسلم کے موافق صحیح کہا ہے۔ ابن قطان کے نزدیک یہ حدیث مضطرب الاسناد ہے حماد بن سلمہ ؓ کی روایت تو مذکورہ اسناد کے ساتھ ہی ہے لیکن جریر بن حازم کی روایت میں یزید بن ابی حبیب کا ذکر نہیں ہے اور ابو سفیان کے ذکر سے پہلے مسلم بن جبیر کا ذکر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابن جوزی (رح) نے بھی تحقیق میں اسی طرح بیان کیا ہے عفان نے بروایت حماد بن سلمہ اس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ابن اسحاق یزید ‘ ابو حبیب، مسلم ابو سفیان عمرو بن حریش (گویا یزید سے ابو حبیب نے کہا اور ابو حبیب سے مسلم نے) ابوبکر بن ابی شیبہ (رح) نے عبد الاعلیٰ کی روایت نقل کی ہے اس روایت میں یزید بن ابی حبیب ؓ کا نام نہیں ہے اور ابو سفیان کا ذکر مسلم سے پہلے ہے اور مسلم کی ولدیت جبیر نہیں کثیر بیان کی ہے۔ اس سندی اضطراب کے ساتھ ساتھ ایک خرابی یہ ہے کہ عمرو بن حریش مجہول شخص ہے اور مسلم بن جبیر کا ذکر مجھے کہیں نہیں ملا اور ابو سفیان کی حالت محل تامل ہے۔ شیخ ابن حجر نے ابن اسحاق کی شخصیت کو مختلف فیہ کہا ہے۔ بیہقی نے اس حدیث کو سنن اور خلافیات میں باسناد عمرو بن شعیب از شعیب از جدہ نقل کیا ہے اور صحیح کہا ہے۔ میں کہتا ہوں اس سلسلہ کو ابن جوزی نے بھی نقل کیا ہے میرا خیال یہ ہے کہ یہ حدیث اس حدیث کے خلاف ہے جو حضرت سمرہ اور حضرت ابن عباس اور حضرت جابر ؓ ؓ کی روایت سے آئی ہے کہ رسول اللہ نے جانور کو جانور کے عوض بطور نسیہ فروخت کرنے سے منع فرمایا : لہٰذا حسب قاعدہ تحریم والی حدیث کو علت والی حدیث پر ترجیح دی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے جانور کی بیع سلم کے عدم جواز پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ حاکم اور دارقطنی نے بروایت اسحاق بن ابراہیم بن حوتا از عبد الملک ذماری از سفیان ثوری از معمر از یحییٰ بن ابی کثیر از عکرمہ از ابن عباس ؓ بیان کیا کہ رسول اللہ نے جانور کی بیع سلم سے منع فرمادیا۔ حاکم نے اس اسناد کو صحیح کہا ہے ابن جوزی نے ابو زرعہ کا قول نقل کیا ہے کہ عبد الملک ذماری منکر الحدیث ہے۔ رازی نے کہا یہ قوی نہیں ہے لیکن حلاس نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ اسحاق بن ابراہیم مجہول شخص ہے۔ میں کہتا ہوں شاید حاکم کو اسحاق کا علم ہو کہ اس کی روایت کو انہوں نے صحیح کہا ہے ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین کا ابن حوتا کو ضعیف قرار دینا محل تامل ہے۔ جب کہ متعدد صحیح اور حسن طریقوں سے ابن حوتا کی روایت کردہ حدیث ثابت ہے۔ متعدد طرق سے روایت معنوی اس حدیث کے معنی کو پایۂ حجت تک پہنچا دیتی ہے اس لیے اس حدیث سے حجت پیش کی جاسکتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی تائید حضرت ابن مسعود ؓ کے ایک اثر سے بھی ہوتی ہے جس کو حماد بن ابی سلیمان نے بروایت ابراہیم نخعی بیان کیا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے زید بن خویلد بکری کو کچھ مال شرکت مضاربت کے طور پر دیا۔ زید نے عریس بن عرقوب شیبانی سے کچھ اونٹنیاں بطور سلم خریدیں جب سپردگی کا وقت آگیا تو زید نے کچھ اونٹنیوں پر قبضہ کرلیا اور کچھ اونٹنیاں واجب الادا رہ گئیں عریس نادار ہوگیا ادھر اس کو یہ اطلاع بھی مل گئی کہ اصل مال حضرت عبد اللہ کا تھا اس لیے وہ آپ : ﷺ کی خدمت میں مطالبہ میں نرمی کا طلبگار بن کر حاضر ہوا حضرت نے فرمایا : کہ زید ؓ نے ایسا کیا ہے عریس نے عرض کیا : جی ہاں۔ آپ نے دریافت کیفیت کیلئے زید کو طلب فرمایا۔ جب وہ حاضر ہوگیا تو فرمایا : جو کچھ تم نے لیا ہے واپس کردو صرف اپنا اصل مال لے لو اور ہمارے مال سے کسی جانور کو بطور سلم نہ خریدو۔ صاحب التنقیح نے لکھا ہے کہ اس سند میں انقطاع ہے یعنی ابراہیم نخعی اور حضرت عبد اللہ ؓ کا درمیانی راوی مذکور نہیں کیونکہ ابراہیم یا تو علقمہ کی روایت بیان کرتے ہیں یا اسود کی (علقمہ اور اسود کی وساطت کے بغیر براہ راست حضرت عبد اللہ بن مسعود کا اثر نہیں بیان کرتے) ۔ ابن ہمام نے لکھا کہ ایسے بیان میں ہمارے نزدیک کوئی خرابی نہیں۔ خصوصاً ابراہیم نخعی کی مرسل حدیث تو یقیناً صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ رسول اللہ نے جانور کی بیع سلم کی ممانعت فرما دی ہے تو یہ امام ابوحنیفہ (رح) کی تائید ایک اور اختلافی مسئلہ میں بھی کرتی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک جانور کو بطور قرض دینا درست نہیں لیکن ائمہ ثلاثہ اس کے جواز کے قائل ہیں اور حضرت ابو رافع ؓ کی روایت کردہ حدیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے کسی شخص سے ایک نوجوان اونٹ بطور قرض لیا تھا جب حضور ﷺ کے پاس زکوٰۃ کے اونٹ آگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کو دیدو صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہمارے پاس (وصول شدہ اموال زکوٰۃ میں) تو صرف چار سالہ عمدہ اونٹ ہیں اور اس سے قرض نوجوان اونٹ لیا گیا تھا) فرمایا : دیدو سب سے اچھا آدمی وہی ہے جو بہت اچھی طرح قرض چکاتا ہے۔ (رواہ مسلم) حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ ایک آدمی کا رسول اللہ پر کچھ حق (یعنی قرض) تھا اس نے کلام میں کچھ درشتی کی صحابہ ؓ نے اس (کو مارنے) کا ارادہ کیا حضور ﷺ نے فرمایا : اس کو رہنے دو ۔ حقدار کو کچھ کہنے کا حق ہے اور فرمایا : اس کو یکسالہ اونٹ خرید دو صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم کو تو اس کے اونٹ سے بہتر یکسالہ اونٹ مل رہا ہے۔ فرمایا : وہی خرید کر دیدو تم میں سب سے اچھا وہی آدمی ہے جو قرض چکانے میں سب سے بہتر ہو۔ (بخاری و مسلم) امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی دلیل یہ ہے کہ جانور کے اوصاف کا تعیینی بیان نہیں ہوسکتا لہٰذا اس کو قرض دینا درست نہیں جس طرح بیع نسیہ میں جانور کو ثمن بنانا یا سلم میں بیع بنانا درست نہیں۔ لیکن مذکورہ بالا دو صحیح حدیثوں کے مقابل امام اعظم (رح) کی قیاسی وجہ قابل قبول نہیں جب تک کہ یہ حدیث صحیح ثابت نہ ہوجائے کہ رسول اللہ نے حیوان میں سلف کرنے کی ممانعت فرمائی ہے اگر اس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے گی تو جانور میں سلم کرنا اور قرض دینا دونوں ناجائز ہوجائیں گے کیونکہ سلف کا لفظ سلم کو بھی شامل ہے اور قرض کو بھی پس بر تقدیر صحت روایت ابن عباس ؓ تحریم والی حدیث حلت والی حدیث سے راجح ہوگی اور بر تقدیر عدم صحت صرف نوجوان اونٹ کو بطور قرض لینا جائز قرار پائے گا کیونکہ حدیث میں اسی کا ذکر ہے اور جو حکم نص میں آجائے مگر ہو مخالف قیاس اس حکم کو اس مسئلہ پر محدود کردیا جاتا ہے اس پر قیاس نہیں کیا جاتا پس اونٹ پر دوسرے جانوروں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اونٹ کا قرض کے طور پر لین دین بجائے خود تقاضائے قیاس کے خلاف ہے۔ ایک شبہ اگر جانور کے اوصاف بیان کرنے کے بعد بھی اس کی ذہنی تعیین نہیں ہوسکتی اور بائع کے ذمہ اس کا ادا کرنا واجب نہیں ہوسکتا تو کس طرح نکاح کے مہر اور خلع کے بدل میں غلام یا باندی یا گھوڑا مقرر کیا جاسکتا ہے اور غلام باندی اور گھوڑا متوسط قسم کا ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ ازالہ شبہ اس جگہ دو قیاس ہیں ایک تو بیع پر قیاس (اس لحاظ سے جانور میں بیع سلم قطعاً ناجائزہو گی کیونکہ) رسول اللہ نے بیع نسیہ سے منع فرمایا ہے۔ دوسرا قیاس دیت پر (اس لحاظ سے جانور کی بیع سلم جائز ہونی چاہئے کیونکہ) دیت میں اونٹوں کی ادائیگی شرعاً واجب ہے۔ دونوں قیاسوں میں تضاد ہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ تبادلۂ مال بمال کی صورت میں اوصاف مالی کی تعیین ذہنی پوری پوری ہونی چاہئے (کیونکہ مال کا مال سے مقابلہ ہے) جیسے بیع اور اجارہ اور اقرار مالی کے دعوے میں کچھ مال دے کر مصالحت (ان سب صورتوں میں مال کا تبادلہ مال سے ہوتا ہے) لیکن جہاں تبادلۂ مال بمال نہ ہو جیسے نکاح ‘ خلع ‘ قتل عمد کے عوض کچھ مال دے کر مصالحت اور انکار مالی کی صورت میں کچھ مال دے کر صلح ان صورتوں میں مالی اوصاف کا تعیینی بیان ضروری نہیں اور دیت پر قیاس کرتے ہوئے جانور کی خریدوفروخت بطور سلم جائز ہے۔ اسی لیے علماء اسلام کا اجماع ہے کہ حرہ حاملہ کی شکمی بچہ ضرب سے ساقط کردینے کی دیت ایک غلام یا باندی ہے اور حاملہ باندی کا جنین ضرب سے گراد ینے کی دیت غلام یا باندی نہیں بلکہ نقد روپیہ ہے جس کی مقدار امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک قیمت جنین کا دسواں حصہ (اگر جنین لڑکا ہو) یا بیسواں حصہ (اگر جنین لڑکی ہو) اور دوسرے علماء کے نزدیک دیت کی مقدار جنین کی ماں کی قیمت کا بیسواں حصہ ہے۔ اور جانور کے بچہ کے اسقاط کی دیت اتنی ہے جتنی اسقاط سے اس جانور کی قیمت کم ہوگئی ہو۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ مالی تبادلہ کی صورت میں اکثر نزاع جھگڑا اور اداء میں ٹال مٹول ہوتی رہتی ہے اور مال کا مال سے تبادلہ نہ ہو تو تاخیر ادا اور جھگڑا کم ہوتا ہے کیونکہ اس وقت مال مقصود نہیں ہوتا بلکہ حصول مقصد کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اونٹ کو قرض لینے اور بیع سلم کے طور پر خریدنے کے جواز کی وجہ شاید یہ ہو کہ عمر اور دوسرے اوصاف کے بیان کے بعد اس ملک میں اونٹوں کا باہمی تفاوت کم رہ جاتا ہو اور حقیر تفاوت ضرورت معاملات میں ناقابل توجہ ہوتا ہے۔ (اس لیے خصوصیت کے ساتھ اونٹوں کا قرض اور بیع سلم جائز ہو) ۔ تنقیح ہر قسم کے قرض کا لین دین تقاضائے قیاس کے خلاف ہے کیونکہ اگر نقد روپیہ قرض دیا جائے گا تو بیع صرف میں نسیہ لازم آئے گا۔ (ایک طرف سے روپیہ کی نقدسپردگی ہوگی اور دوسری طرف سے اس کے عوض کچھ مدت کے بعد نقد روپیہ کی شکل میں واپسی) اور اگر روپیہ کے علاوہ کوئی اور جنس قرض دی جائے (جس کے عوض کچھ مدت کے بعد وہی جنس واپس لی جائے) تو معدوم کی بیع لازم آئے گی اور بعض صورتوں میں نسیہ لازم آئے گا جو ربوا کے حکم میں ہے۔ لیکن ضرورت کے پیش نظر قرض لینے دینے کی اجازت شریعت کی نص میں بھی آئی ہے اور اجماع بھی اس پر ہے اس لیے علماء نے قرض کو جائز قرار دینے کے لیے ایک تاویل کی ہے۔ تاویل یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں قرض عاریت (کے حکم میں) ہے گویا قرض لینے والا قرض دینے والی کی ایک چیز استعمال کے لیے لیتا ہے (جس کو عند الطلب واپس کرنا ضروری ہے) لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو خرچ نہ کردیا جائے تو (صرف رکھنے یا کسی اور طریقہ سے استعمال کرنے سے) کوئی فائدہ نہیں جیسے روپیہ پیسہ اور کھانے کی چیزیں ایسی چیزیں اگر خرچ کردی جائیں تو بعینہٖ ان چیزوں کی واپسی ناممکن ہے پس شریعت نے اس ضرورت کے تحت اجازت دیدی کہ نفس شے خرچ ہوجانے کی صورت میں بالکل اسی کی طرح کوئی دوسری چیز واپس کردی جائے (جیسے اگر ایک روپیہ یا کچھ کھانا لیا ہے اور اس کو خرچ کردیا ہے تو ایک روپیہ دوسرا اور ویسا ہی کھانا واپس کیا جائے) قرض کا عاریت کے حکم میں ہونا اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عاریت دینے والے کی طرح قرض دینے والا بھی جب چاہے اپنا قرض واپس لے سکتا ہے خواہ قرض میعادی ہی دیا ہو جسے عاریت دینے والا اپنی عاریت کا مطالبہ ہر وقت کرسکتا ہے۔ لہٰذا جن چیزوں کے مثل کی واپسی ممکن ہو (اصل شئے کی واپسی ممکن نہ ہو جیسے روپیہ پیسہ کھانا، پھل وغیرہ) تو ان کو قرض دینا بھی جائز ہے اور جن کے مثل کی واپسی نہ ہو بلکہ اصل شئے کو واپس کرنا ضروری ہو اس کو قرض دینا بھی جائز نہیں۔ جیسے باندی، غلام، کپڑا، چوپایہ، مکان وغیرہ کیونکہ اس صورت میں نفس شئ کو واپس کرنا لازم ہے ایسی چیزیں اگر کسی کو استعمال کے لیے دی جائیں تو اس کو قرض نہیں بلکہ عاریت کہا جائے گا یہی بنیاد ہے جس کی وجہ سے امام اعظم (رح) نے جانور، لباس اور باندی غلام کے بطور قرض دینے کو ناجائز کہا ہے اور علماء کا اجماع ہے کہ قربت صنفی کے لیے کسی کو اپنی باندی قرض دینا ناجائز ہے۔ مسئلہ اگر قرضدار قرض خواہ کو کچھ تحفہ دے یا اپنی سواری پر سوار کرلے یا اپنا گھر رہنے کو دیدے اور اس سے پہلے ان کے آپس میں اس قسم کے تعلقات نہ ہوں یا جتنا قرض لیا ہو اس سے بڑھا کر (کچھ اپنی طرف سے بغیر شرط کیے) یا اس سے اعلیٰ اور کھری چیز دیدے تو کیا قرض خواہ کے لیے یہ صورتیں جائز ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک اور امام احمد ناجائز قرار دیتے ہیں امام شافعی کہتے ہیں اگر بغیرشرط کئے قرض دار نے ایسا کیا ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔ ائمہ ثلٰثہ نے حضرت انس ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : اگر تم میں سے کوئی کسی کو قرض دے پھر قرض لینے والا کچھ تحفہ دے تو قبول نہ کرے اور اپنی سواری پر سوار کرے تو سوار نہ ہوں ہاں اگر پہلے سے اس سے ایسے تعلقات ہوں (تو خیر) (رواہ ابن ماجہ) بخاری نے تاریخ میں اس لفظ کے ساتھ روایت کی ہے کہ ہدیہ نہ لے۔ سالم بن ابی الجعد ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا : میں نے ایک ماہی فروش کو بیس درہم قرض دیئے تھے پھر اس نے تحفہ میں مجھے ایک مچھلی دی جس کی قیمت میرے اندازہ کے مطابق تیرہ درہم تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تو اب اس سے (صرف) سات درہم لینا۔ (رواہ ابن الجوزی) حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے فرمایا : اگر تمہارا کسی پر کچھ حق (قرض) ہو اور وہ تم کو گون بھر انجیریا جو وغیرہ دے تو تم مت لو وہ سود ہے۔ (رواہ البخاری) حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایسے قرض کی ممانعت فرمائی ہے جو نفع کو کھینچ لائے۔ رواہ الحارث بن اسامہ فی مسندہ اس روایت کی سند میں ایک راوی سوار بن مصعب ہے جو متروک الحدیث ہے۔ بیہقی نے المعرفۃ میں بروایت فضالہ بن عبید ان الفاظ کے ساتھ موقوفاً یہ حدیث نقل کی ہے۔ ہر قرض جو کسی قسم کے نفع کو کھینچ کر لائے وہ ایک قسم کا سود ہے۔ سنن کبیر میں بیہقی نے اس حدیث کو حضرت ابن مسعود، حضرت ابی بن کعب حضرت عبد اللہ بن سلام اور حضرت ابن عباس ؓ پر موقوفاً درج کیا ہے۔ امام شافعی (رح) نے حضرت ابو رافع اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ مذکورۂ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے کہ (جب) صحابہ ؓ نے عرض کیا : ہم کو تو اس کی یک سالہ اونٹنی سے بہتر ہی دست یاب ہو رہی ہے (اس کی اونٹنی کی طرح نہیں ملتی تو) حضور ﷺ نے فرمایا : وہی دیدو تم میں بہترین شخص وہی ہے جو ادائے قرض میں سب سے اچھا ہو۔ امام شافعی (رح) کے قول کی تائید حضرت عائشہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ ام المؤمنین نے فرمایا : میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ کچھ خمیر یا روٹی ہمسائے باہم قرض دیدیتے ہیں اور واپسی کے وقت کم یا زیادہ واپس کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں یہ تو ہمسایوں کا باہمی حسن سلوک ہے اس سے مقصود بیشی نہیں ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے خمیر اور روٹی کو بطور قرض لینے دینے کا مسئلہ پوچھا گیا تو فرمایا : سبحان اللہ یہ تو اچھے اخلاق ہیں کم لے لو زیادہ دیدو، زیادہ لے لو کم دیدو تم میں بہترین وہ شخص ہے جو ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ میں نے رسول اللہ سے یہی سنا ہے۔ یہ دونوں حدیثیں ابن جوزی نے نقل کی ہیں۔ امام شافعی کے استدلال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ہمسایوں کے تعلقات میں یہ خوشگواری اور (کمی بیشی کے ساتھ) لین دین تو ہوتا ہی ہے ( ٖخواہ کوئی کسی سے قرض لے یا نہ لے) اور ہماری گفتگو کا موضوع وہ صورت ہے جب پہلے سے ایسے تعلقات نہ ہوں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک روٹی اور خمیر کا لین دین بطور قرض ناجائز ہے۔ جمہور کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کی روشنی میں درست ہے قائلین جواز میں سے کوئی قائل ہے کہ وزن کرکے قرض کا لین دین ہونا چاہئے اور کسی نے کہا کہ شمار سے ہونا چاہئے۔ وا اللہ اعلم۔ فَاكْتُبُوْهُ : یعنی آئندہ نزاع کو دور کرنے اور معاملہ کو پختہ کرنے کے لیے عقد کو (مع تفصیل) لکھ لیا کرو۔ جمہور کے نزدیک لکھنے کا حکم استحبابی ہے واجب نہیں اگر نہ لکھا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں جیسے آیت : فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا میں نماز ختم ہوجانے کے بعد منتشر ہوجانے کا حکم ہے۔ بعض علماء نے امر کو وجوبی کہا ہے یعنی لکھ لینا واجب ہے شعبی نے کہا رہن اور قرض کو مع گواہوں کے لکھنا فرض تھا لیکن آیت : فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ سے وجوب منسوخ ہوگیا۔ میں کہتا ہوں ناسخ کا زمانہ منسوخ سے پیچھے ہونا چاہئے اور مذکورہ دونوں آیتیں ایک ہی وقت میں نازل ہوئیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر وغیرہ کا حکم استحبابی ہے۔ وَلْيَكْتُبْ بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ ۠ : یعنی لکھنے والا انصاف کے ساتھ طرفین کے حقوق کا لحاظ رکھ کر تحریر لکھے کمی بیشی نہ کرے کاتب کو عدل کے ساتھ لکھنے کا حکم وجوبی ہے ذیلی طور پر فریقین کے معاملہ کے لیے بھی یہ حکم نکلتا ہے کہ سمجھدار دیندار کاتب کا انتخاب کریں۔ وَلَا يَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ يَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ : یعنی جس کو لکھنا آتا ہو وہ لکھنے سے انکار نہ کرے جس طرح اللہ نے اسکو لکھنا سکھایا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ نے جس طرح اپنے کرم سے اس کو لکھنا سکھایا ہے ویسا ہی وہ بھی دوسروں کو اپنے فن سے فائدہ پہنچائے دوسری آیت : اَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللہ اِلَیْک جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے اسی طرح تم بھی لوگوں سے بھلائی کرو۔ فَلْيَكْتُبْ : نہی کے بعد تاکید کے لیے حکم دیا یعنی سیکھی ہوئی تحریر کے موافق (لوگوں کے لیے) لکھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کما علمہٗ کا تعلق اس فعل سے ہو یعنی لکھے جیسا اللہ نے اسے سکھایا ہے گویا پہلے نہی انکار کے ذیل میں کتابت کا عام حکم تھا اب حکم کتابت کو مقید کردیا کہ اس طرح لکھے جس طرح اللہ نے اسے سکھایا ہے کیا کاتب پر تحریر اور شاہد پر شہادت دینا واجب ہے۔ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ مجاہد وجوب کے قائل ہیں بشرطیکہ کاتب سے لکھنے کا اور شاہد سے شہادت کا مطالبہ کیا جائے۔ حسن بصری بھی وجوب کے قائل ہیں لیکن وجوب کفایہ کے یعنی اس کاتب پر تحریر واجب ہے جو تحریر کے لیے مقرر ہو ضحاک کا قول ہے کہ کاتب پر کتابت اور شاہد پر شہادت واجب تھی لیکن آیت : وَ لَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَ لَا شَھِیْدٌ سے منسوخ ہوگئی اس قول پر وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں (کہ ناسخ کا زمانہ منسوخ سے پیچھے ہونا چاہئے اور یہ دونوں آیتیں ساتھ ہی نازل ہوئیں تھیں) وَلْيُمْلِلِ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ : املال اور املاء ہم معنی ہیں یعنی لکھوانا مطلب یہ کہ مدیون لکھوائے اسی کا اقرار حجت الزامی ہے قرض دینے والے کا قول اس وقت تک قابل اعتبار نہیں جب تک قرض لینے والا اقرار نہ کرے یا عدالتی ڈگری نہ ہوجائے۔ وَلْيَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ : اور لکھوانے والا یا کاتب اللہ سے ڈرتا رہے۔ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَـيْــــًٔـا : اور واجبی حق سے نہ کاتب کم لکھے نہ لکھوانے والا کم لکھوائے۔ فَاِنْ كَانَ الَّذِيْ عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيْهًا : پس اگر مدیون سفیہ ہو یعنی ناقص العقل برباد کن ہو سفیہ کا لفظ پاگل اور خبطی کو بھی شامل ہے۔ اَوْ ضَعِيْفًا : یا ضعف ہو یعنی بچہ یا اتنا بوڑھا ہو کہ حواس میں خرابی آگئی ہو بعض نے کہا کہ ضعیف سے مراد ہے ضعیف العقل خواہ ضعف عقل بچہ پن کی وجہ سے ہو یا دیوانگی کی وجہ سے یا وسواس کی وجہ سے۔ اَوْ لَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يُّمِلَّ ھُوَ : یا خود نہ لکھوا سکتا ہو خواہ گونگے ہونے کے سبب سے یا صحیح طور پر مطلب کو ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے یا قید یا بیماری یا غیر حاضری کی وجہ سے کہ کاتب اس کے پاس نہ پہنچ سکتا ہو یا پردہ نشین عورت ہو کہ کاتب اندرون پردہ نہ جاسکتا ہو۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهٗ : تو اس کا ولی لکھوا دے یعنی بچہ اور دیوانہ کا سر پرست یا وکیل یا ترجمان۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور مقاتل کے نزیک ولی سے مراد ہے قرض دینے والا یعنی اگر مدیوان لکھوانے سے عاجز ہو تو قرض دینے والا لکھوا دے۔ بِالْعَدْلِ : انصاف کے ساتھ یعنی بغیر زیادتی کے کیونکہ دوسروں کے مقابلہ میں مدیون کا ولی ہی حق سے زیادہ واقف ہوتا ہے اور اسی کو لکھوانے کا سب سے زیادہ استحقاق ہوتا ہے۔ (ایک شبہ) قرض دینے والے کے لکھوانے سے کیا فائدہ اس کا قول تو قرض لینے والے کو مجبور نہیں کرسکتا۔ (ازالہ) حجت تو شہادت ہے، ثبوت شہادت سے ہوتا ہے مگر قرض دینے والے کے لکھوانے سے اتنا تو فائدہ ہوتا ہے کہ تحریر کے بعد فریقین میں سے کوئی بھولتا نہیں قیمت اصل مال کی مقدار، بیع کی مقدار، مدت ادا وغیرہ بیع سلم میں دونوں کو یاد رہتی ہے۔ وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ : اور دو گواہ بنالو یعنی عقد سلم پر شہادت دینے کے لیے دو گواہ مقرر کرلو۔ مِنْ رِّجَالِكُمْ : اپنے مردوں میں سے یعنی آزاد مسلمان مرد۔ مسلم کی قید ہم نے اس لیے لگائی کہ آیت : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا تَدَایَنْتُمْ میں مسلمانوں کو ہی خطاب ہے۔ آزاد کی قید کی وجہ یہ ہے کہ بطور سلم خرید فروخت صرف احرار میں ہی ہوتی ہے لہٰذا بچہ کی شہادت ہمارے نزدیک ناقابل قبول ہے وہ مرد نہیں ہے امام مالک (رح) ، امام شافعی، امام احمد اور عموماً علماء کا یہی مسلک ہے بچہ کی شہادت ناقابل قبول اس وجہ سے ہے کہ اس میں عقل اور پرکھ کم ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر پاگل اور خبطی کی شہادت بھی غیر مقبول ہے یہ بھی بچہ کے حکم میں ہیں بلکہ (دماغی توازن نہ رکھنے کی وجہ سے) انکی شہادت بچہ کی شہادت سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہے یہ فیصلہ اجماعی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کے نزدیک غلام کی شہادت بھی قابل رد ہے امام احمد غلام کی شہادت قبول کرتے ہیں خواہ کسی غلام کے خلاف ہو یا آزاد کے۔ حضرت انس بن مالک کا بھی یہی قول ہے اسحاق اور داؤد (ظاہری) بھی اسی کے قائل ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ : حضرت انس ؓ نے فرمایا : غلام کی شہادت جائز ہے بشرطیکہ وہ فاسق نہ ہو شریح اور زرارہ بن ابی اوفیٰ نے اس کو جائز کہا ہے ابن سیرین نے فرمایا : غلام کی شہادت جائز ہے مگر اپنے آقا کے نفع کی شہادت ناجائز ہے۔ حسن اور ابراہیم نے اس کو بھی جائز کہا ہے۔ شریح نے کہا تم سب غلاموں اور باندیوں کی اولاد ہو۔ (انتہی نقل البخاری) مسلمان کے خلاف کافر کی شہادت بالاجماع جائز نہیں کسی کافر کی کافر کے خلاف بھی شہادت جائز نہیں۔ کیونکہ کافر فاسق ہے (اور فاسق کی شہادت غیر مقبول ہے) امام مالک (رح) ، امام شافعی اور امام احمد کا یہی مسلک ہے اللہ نے فرمایا : وَالْکَافِرُوْنَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ کفر کی شہادت آپس میں ایک دوسرے کے خلاف جائز ہے خواہ ان کے مذاہب اور ملتیں جدا جدا ہوں کیونکہ ذمی کافر ولی بننے کی اہلیت رکھتا ہے دیکھو ذمی اپنے نا بالغ بچوں کو ولی مانا جاتا ہے اور اللہ نے فرمایا ہے : بعضھم اولیاء بعض (لہٰذا ملت کے اختلاف کے باوجود ایک ملت والے کافر کی شہادت دوسری ملت والے کافر کے خلاف درست ہے) پھر (اپنے مال کی) کافر کو ملکیتحاصل ہوتی ہے۔ رہا کافر کا فاسق ہونا تو حقیقت اور نفس الامر میں وہ فاسق ہی ہوتا ہے (امر الٰہی سے خارج) لیکن کافر کے خیال میں تو اس کا کفر دین ہے اور جھوٹ بولنا تمام مذاہب میں حرام ہے۔ ابن ابی لیلیٰ اور ابو عبیدہ نے کہا (ایک ملت والے کافر کی شہادت دوسری ملت والے کافر کے خلاف درست نہیں جیسے یہودی کی شہادت عیسائی کے خلاف۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ مِنْ رِّجَالِکُمْ کا لفظ اسلام کی شرط کو بتارہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آیت میں مسلمانوں کو مخاطب کرنا بتارہا ہے کہ گواہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے بشرطیکہ مدعا علیہ مسلمان ہو۔ ابن جوزی (رح) نے کہا کہ سوائے مسلمانوں کے کسی ملت والے کی شہادت کسی ملت والے کے خلاف صحیح نہیں ابن جوزی نے اس قول کے ثبوت میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کوئی ملت دوسری ملت کی وارث نہیں اور میری امت کے علاوہ کسی ملت والے کی کسی دوسری ملت والے کے خلاف شہادت جائز نہیں صرف میری امت والوں کی شہادت دوسری ملت والوں کے خلاف جائز ہے۔ (رواہ الدار قطنی و ابن عدی) اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو ابن ابی لیلیٰ کے مسلک کی دلیل ہوجائے گی مگر امام احمد (رح) کے مسلک کا اس سے ثبوت نہ ہو سکے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا (تمام) کفر ایک ہی ملت ہے دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ کَفَرَ (مومن ایک فریق اور کافر دوسرا فریق ہے) اس صورت میں حدیث مذکور امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی بھی (فی الجملہ) دلیل ہوجائے گی۔ حدیث مذکور کی سند میں چونکہ ایک راوی عمربن راشد بھی ہے اس لیے حدیث ضعیف ہے دار قطنی نے عمر بن راشد کو ضعیف کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی تائید حضرت جابر (رح) کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ نے اہل کتاب کے باہم ایک فریق کی دوسرے فریق پر شہادت کو جائزقرار دیا ہے۔ (رواہ ابن ماجہ) تفصیلی حدیث اس طرح ہے کہ یہودی ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر خدمت گرامی میں حاضر ہوئے دونوں باہم زناء کے مرتکب ہوئے تھے رسول اللہ نے یہودیوں سے فرمایا : کیا وجہ ہے کہ تم خود ان دونوں کو شرعی سزا نہیں دیتے کہنے لگے جب ہماری حکومت تھی تو ہم خود ایسا کیا کرتے تھے اب ہماری حکومت نہیں رہی اس لیے ہم خود ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے فرمایا : تم اپنے سب سے بڑے دو عالم میرے پاس لے آؤ۔ یہودی صوریا کے دونوں بیٹوں کو لے آئے آپ نے ان سے فرمایا : کیا تم اپنے لوگوں میں سب سے بڑے عالم ہو انہوں نے جواب دیا لوگ ایسا ہی کہتے ہیں۔ فرمایا : میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے تورات موسیٰ پر نازل کی تھی کہ تورات میں تم کو ان دونوں کی سزا کیا ملتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : اگر چار آدمی شہادت دیں کہ انہوں نے مرد کو عورت کے اندر داخل کرتے اس طرح دیکھا جیسے سرمہ دانی میں سلائی داخل کی جاتی ہے۔ تو مرد کو سنگسار کردیا جائے۔ ارشاد فرمایا : تو گواہ پیش کرو۔ چناچہ چار آدمیوں نے شہادت دی اور حضور ﷺ نے ان دونوں مجرموں کو سنگسار کرا دیا۔ (رواہ ابو داؤد و اسحاق بن راہویہ و ابو یعلی الموصلی والبزار والدار قطنی) طحاوی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں میرے پاس اپنے میں سے چار مرد لے آؤ جو شہادت دیں۔ یہ دونوں حدیثیں سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں دونوں میں انتہا تنہا مجالدبن سعید پر ہوتی ہے اور امام احمد نے مجالد کے متعلق فرمایا : وہ کچھ نہیں ہے اور یحییٰ نے کہا اس کی حدیث حجت میں نہیں پیش کی جاسکتی۔ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ (یعنی اگر وہ گواہ دو مرد نہ ہوں۔ یعنی دو مردوں کو گواہ بنانا میسر نہ آسکے۔ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ : تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیا جائے۔ دو مردوں کے میسر نہ آنے کی صورت میں ایک مرد اور دو عورتوں کو شاہد بنانے کی صراحت بتارہی ہے کہ دو عورتیں ایک مرد کے قائم مقام ہیں۔ اصل تو یہی ہے کہ عورتوں کی شہادت نہ لی جائے لیکن ایک مرد کا بدل دو عورتوں کو مان لیا گیا ہے اسی شبہ بدلیت کی بناء پر ان حدود و قصاص میں جن کا سقوط ادنیٰ اشتباہ سے ہوجاتا ہے۔ عورتوں کی شہادت اجماعاً غیر معتبر ہے۔ اس کی تائید زہری کے اس قول سے ہوتی ہے جو ابن ابی شیبہ نے بروایت حفص از عجاج بیان کی ہے کہ رسول اللہ اور آپ ﷺ کے بعددونوں خلفاء کا طریقہ یہی رہا ہے کہ حدود و قصاص میں عورتوں کی شہادت جائز نہیں۔ یہ حدیث مرسل ہے اور ہمارے نزدیک مرسل قابل احتجاج ہے حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ کے خصوصی ذکر کی وجہ یہ ہے کہ انہی حضرات کے زمانہ میں بیشتر قوانین شرع کا قیام اور اجماع صحابہ ؓ ہوئے ہیں انکے بعد تو صرف اتباع (سابق) ہو (تاسیس ضوابط و انعقاد اجماع بہت کم ہوا) رسول اللہ کا ارشاد ہے ان دونوں کی اقتداء کرنا جو میرے بعد (خلیفہ) ہوں گے ابوبکر و عمر۔ (رواہ الترمذی عن حذیفہ ) ابن حجر نے لکھا ہے کہ ابن ابی شیبہ کی روایت کی طرح امام مالک (رح) نے بھی بروایت عقیل زہری کا قول نقل کیا ہے اس روایت میں اتنا زائد ہے کہ عورتوں کی شہادت حدود و قصاص میں جائز نہیں اور نہ نکاح میں اور نہ طلاق میں۔ لیکن امام مالک سے یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچی۔ امام شافعی (رح) اور امام مالک (رح) کا مسلک ہے کہ صرف مالی معاملات میں یا ان کے توابع میں عورتوں کی شہادت درست ہے۔ جیسے اجازت۔ خیار کی شرط، شفعہ، اجارہ، قتل خطاء اور ہر زخم جس میں مالی تاوان دینا پڑتا ہے۔ ان کے سوائے دوسرے امور میں عورتوں کی شہادت درست نہیں جیسے نکاح طلاق، وکالت، وصیت، غلام کی آزاد طلاق سے رجوع، ثبوت نسب وغیرہ۔ امام ابوحنیفہ (رح) قائل ہیں کہ سوائے حدود و قصاص کے تمام حقوق میں عورتوں کی شہادت درست ہے۔ امام شافعی اور مالک کی دلیل یہ ہے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں بہر حال یہ شہادت ایک خبر کی حیثیت رکھتی ہے جس میں غلطی کا احتمال ہے اس سے مدعی کا دعویٰ یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا۔ ہوسکتا ہے کہ مدعیٰ علیہ سچا ہو اور گواہ جھوٹے ہوں اس لیے مدعیٰ علیہ مجبور نہیں ہوسکتا کہ وہ ضرور ہی شہادت کو سچا تسلیم کرے لیکن شہادت کا ثبوت نص قرآنی سے ہے اس لیے تقاضائے قیاس کے خلاف ہوتے ہوئے بھی شاہدوں کی شہادت قبول کی جاتی ہے مگر جو حکم خلاف قیاس ہو اس کا حصر صرف اسی مقام پر ہوتا ہے جو نص میں آگیا ہوا اس لیے عورتوں کی شہادت اس معاملہ میں جائزہو گی جو نص میں آگیا ہے یعنی مالی معاملات میں دیکھو اللہ نے رجعت کے متعلق فرمایا : وَاشْھِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ اور رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍ وَ شَاھِدَیْ عَدْلٍ ۔ (1) [ فائدہ نمبر 1۔ اعلان نکاح باجماع علماء ضروری ہے اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ اعلان دو مردوں کی شہادت سے ہوجاتا ہے امام مالک اس کو کافی نہیں سمجھتے بہر حال باجماع علماء اعلان نکاح ضروری ہے اور اجماع سے کتاب اللہ پر زیادتی جائز ہے کتاب اللہ پر زیادتی جائز ہے کتاب اللہ میں : فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ اور وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَاءَ ذٰلِکم۔ اعلان کی شرط کے بغیر آیا ہے۔ فائدہ نمبر 2: امام احمد (رح) نے فرمایا : شہادت نکاح (کے ضروری ہونے کا ذکر) کسی روایت میں نہیں ابن منذر کا بھی یہی قول ہے اب اگر شبہ کیا جائے کہ نکاح کے لیے شہادت کی شرط جب کسی روایت میں نہیں آئی تو نکاح میں شہادت کو کیوں ضروری قرار دیا جاتا ہے میں کہتا ہوں کہ : اَعْلِنُوْا النِّکَاح صحیح حدیث ہے جس کو امام احمد اور ابن حبان (رح) اور طبرانی نے بیان کیا ہے نیز مستدرک میں حاکم نے اور حلیہ میں ابو نعیم نے حضرت ابن زبیر کی روایت سے اور ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے جب اس حدیث کی رو سے نکاح کا اعلان ضروری قرار پا گیا تو اب امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ اعلان کی آخری حد تو کوئی نہیں ہوسکتی (لاکھ دو لاکھ کروڑ، ارب ساری دنیا کہاں کہاں اطلاع نکاح پہنچائی جائے) اس لیے ادنیٰ درجہ یعنی دو شاہدوں کی شہادت کافی ہے شریعت نے اظہار کے اسی طریقہ کو معتبر مانا ہے دو آدمیوں کی شہادت کے بعد نکاح پوشیدگی کے پردہ سے نکل جاتا ہے۔ کرخی کہتے ہیں (کہ شاہدوں کا شہادت ادا کرنا ضروری نہیں) جب حاضرین نکاح کے وقت موجودہوں تو نکاح سِرّی نہیں رہتا علانیہ ہوجاتا ہے امام مالک (رح) کہتے ہیں کہ اعلان نکاح دف بجانے سے بھی ہوتا ہے اور نکاح کے بعد اطلاع دینے سے بھی لیکن اگر دو مردوں کو نکاح کا گواہ بنانے کے بعد ان سے کہہ دیا جائے کہ کسی کو نکاح کی اطلاع نہ دینا تو اعلان (کا فائدہ) فوت ہوجاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بقاء اعلان کی شرط تو بالاجماع نہیں ہے نکاح ہوجانے کے بعد نکاح کو چھپانے یا انکار کردینے سے نکاح فسخ نہیں ہوجاتا اور دف سے اعلان تو انعقاد نکاح کے بعد ہوتا ہے (جو غیر ضروری ہے) اسی لیے ہم نے دو گواہوں کا ایجاب و قبول کے وقت حاضر ہونا اور ایجاب و قبول کو سننا ضروری قرار دیا ہے تاکہ انعقاد نکاح کے وقت اعلان نکاح ہو یعنی چھپ کر نکاح نہ ہو گواہوں کے سامنے ہو۔ (مؤلف) ] (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ کتابی یا آن لائن نسخے سے ملاحضہ فرمائیں۔ طوالت کے باعث اس سے زیادہ نقل نہیں کیا جا رہا)
Top