Al-Qurtubi - Al-Baqara : 273
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو ! جب تم مقررہ مدت تک ادھار لینے دینے کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور چاہئے کہ جو شخص تمہارے درمیان لکھنے والا ہو وہ انصاف کے ساتھ لکھے، اور کوئی لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اسے سکھایا ہے۔ سو چاہئے کہ لکھ دیا کرے، اور جس کے اوپر حق ہے اسے چاہئے کہ لکھوا دے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کرے، سو اگر وہ شخص کم سمجھ ہو جس پر حق ہے یا ضعیف ہو یا املا کرانے پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنا لیا کرو، پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ان گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرتے ہو تاکہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھٹک جائے تو ایک دوسری کو یاد دلا دے، اور نہ انکار کریں گواہ جب ان کو بلایا جائے، اور قرضے کے معاملہ میں لکھنے سے مت اکتاؤ، چھوٹا ہو یا بڑا ہو اس کی مدت مقررہ تک یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی ہے اور اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم شک میں نہ پڑو، مگر یہ کہ کوئی تجارت ہو جس میں لینا دینا دست بدست ہو جس کا تم آپس میں معاملہ کر رہے ہو سو تم پر اس بات کا کوئی گناہ نہیں کہ لکھا پڑھی نہ کرو، اور گواہ بنا لیا کرو جب کہ تم آپس میں خریدو فروخت کا معاملہ کرو، اور نہ ضرر دیا جائے کاتب کو، اور نہ گواہ کو، اور اگر تم ایسا کرو تو بلاشبہ اس میں گناہ گاری ہے تمہارے لیے، اور اللہ سے ڈرو اللہ تمہیں سکھاتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
مداینت اور کتابت اور شہادت کے ضروری مسائل یہ کلمات اور حروف کے اعتبار سے قرآن مجید کی سب سے بڑی آیت ہے جو متعدد احکام پر مشتمل ہے۔ شروع آیت میں فرمایا کہ جب تم آپس میں قرض کا لین دین کرو جس کی میعاد مقرر ہو تو اسے لکھ لیا کرو۔ اس سے ایک تو قرض کے لین دین کا جواز معلوم ہوا۔ دوسرے اس بات کا تاکیدی حکم معلوم ہوا کہ قرض کے لین دین کو لکھ لیا کرو۔ اس لکھنے میں قرض کی مقدار بھی آ جائیگی اور جس وقت ادا کرنا طے کیا ہو وہ وقت تحریری طور پر متعین ہوجائے گا۔ دونوں باتیں مفید ہوں گی۔ کیونکہ خدا نخواستہ آپس میں کوئی اختلاف ہوگیا تو تحریر سامنے ہوگی جس سے اختلاف رفع ہوجائے گا۔ لفظ اَجَل کے ساتھ جو مسمّیٰ بڑھایا ہے اس میں یہ بتایا کہ ادائیگی کا وقت اس طرح مقرر کریں جسے واقعی مقررہ وقت کہا جاسکے۔ مثلاً کسی مہینہ کی تاریخ مقرر کردیں، اگر یوں کہا کہ جب میرا باغ پکے گا تو دے دوں گا یا کھیت کٹے گا تو دیدوں گا یا میرا بیٹا یا باپ سفر سے آئے گا تو ادا کردوں گا تو یہ اجل مسمّیٰ نہیں ہے۔ قرض کے لین دین کے لکھنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے علماء کرام نے اس کو فرض یا واجب پر محمول نہیں کیا بلکہ یہ ایک مستحب عمل ہے اور استحباب مؤکد ہے تاکہ کوئی اختلاف واقع ہوجائے یا بھول چوک ہوجائے تو تحریر کے ذریعہ رفع ہو سکے۔ جہاں دین (قرض) کی لکھا پڑھی کا حکم ہوا اسی کے ساتھ ان لوگوں کو بھی پابند کیا جو لکھنا جانتے ہیں کہ انصاف کے ساتھ لکھیں، کچھ رد و بدل نہ کردیں اور یہ بھی فرمایا کہ جو لکھنا جانتا ہو وہ اللہ کی نعمت کی قدر دانی کرے اللہ نے اسے کتابت کی نعمت دی ہے اور لکھنے کے لائق بنایا ہے تو اللہ کی مخلوق کے کام آئے اور جب اس سے لکھنے کے لیے کہا جائے تو لکھ دیا کرے۔ پھر فرمایا : (وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ) یعنی جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ املا کرائے اور کاتب کو بتائے کہ یہ لکھ دو اور عبارت لکھوانے میں اللہ سے ڈرے، صحیح بات لکھوائے، پورا حق لکھوائے، حق واجب میں سے ذرا سی کمی بھی نہ کرے۔ تحریر کرانے میں اس کو خطاب فرمایا جس پر حق ہے کیونکہ جس پر حق ہے اس کا لکھوانا ایک قسم کا اقرار بھی ہے اور چونکہ اسی کو ادا کرنا ہے اس لیے حق واجب سے زیادہ تو لکھوا ہی نہیں سکتا۔ البتہ صاحب حق کی غفلت یا کم سمجھی یا محاورات نہ جاننے یا کاتبوں کی اصطلاحات نہ سمجھنے کے باعث اصل حق سے کم نہ لکھوا دے۔ اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ وہ کم سمجھ اور خفیف العقل ہے یا کسی بھی اعتبار سے ضعیف ہے (جس میں کم سن نابالغ بچہ ہونا اور بہت زیادہ بوڑھا ہونا بھی شامل ہے جو کاتب تک نہیں پہنچ سکتا یا اس پر خطاء و نسیان غالب ہے) یا املاء کرانے لکھوانے پر قدرت نہیں رکھتا (مثلاً غیر ملکی ہے یا گونگا ہے یا بےپڑھا ہے۔ عبارت بنانے اور بولنے پر قدرت نہیں رکھتا یا جو عبارت دستاویز میں لکھی جاتی ہے وہ نہیں جانتا بات کے الٹ پلٹ ہونے کا اندیشہ ہے) تو اس کا ولی (جس کے ذمہ اس کے اعمال و اموال کی دیکھ بھال ہے) انصاف کے ساتھ املا کرا دے، کتابت کرانے کے حکم کے ساتھ گواہ بنا لینے کا بھی حکم فرمایا اور فرمایا کہ (وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ) جس کا مطلب ہے کہ کتابت کے ساتھ دو گواہ بھی بنا لو، دونوں گواہ مرد ہوں اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے کہ دو (2) مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لیں، عورتیں چونکہ حافظہ کے اعتبار سے اور ادائیگی مفہوم کے اعتبار سے کمزور ہوتی ہیں اس لیے ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی گواہی رکھی گئی ہے۔ اس بات کو (اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی) میں بیان فرمایا کہ ایک عورت بھٹک جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے گی۔ قانون چونکہ عمومی احوال کے اعتبار سے وضع کیا جاتا ہے اس لیے شاذ و نادر احوال اور افراد کو سامنے نہیں رکھا جاتا اس سے یہ اشکال رفع ہوگیا کہ بعض عورتیں بعض مردوں سے زیادہ فہیم ہوتی ہیں اور حافظہ میں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور بات پیش کرنے کا سلیقہ زیادہ رکھتی ہیں۔ گواہ عاقل بالغ ہوں، مسلم ہوں یہ (مِنْ رِّجَالِکُمْ ) سے مفہوم ہو رہا ہے اور (مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآءِ ) جو فرمایا اس سے واضح ہو رہا ہے کہ گواہ صالح عادل ہونے چاہئیں جن پر بھروسہ ہو اور جن پر دونوں فریق کا اعتماد ہو، اور ان میں سے کسی کے بارے میں جانب داری اور غلط بیانی کا احتمال نہ ہو۔ پھر فرمایا : (وَ لَا یَاْبَ الشُّھَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا) کہ جن لوگوں کے سامنے معاملہ ہوا ہے ان کو معاملہ کی صحیح خبر ہے اب جب ضرورت کے وقت ان کو بلایا جائے کہ گواہی دے دو تو ان کا انکار کرنا جائز نہیں ہے وہ جا کر حاکم کے یہاں یا جہاں بلائے جائیں جا کر گواہی دے دیں، اگر کسی کا حق مارا جاتا ہو اور گواہ کی گواہی سے اس کا حق زندہ ہوسکتا ہو تو گواہوں پر واجب ہے کہ گواہی دیں حق جانتے ہوئے گواہی کو چھپائیں گے تو گناہ گار ہوں گے جس کا ذکر آئندہ آیت میں آ رہا ہے۔ بعض مرتبہ آپس کے اعتماد یا ہجوم اشغال کی وجہ سے کتابت کرانے میں تنگی محسوس کرتے ہیں اس کے بارے میں تنبیہ فرمائی کہ (وَ لَا تَسْءَمُوْآ اَنْ یَّکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلٰیٓ اَجَلِہٖ ) کہ چھوٹا قرضہ ہو یا بڑا اس کے لکھنے میں بد دلی اختیار نہ کرو، یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی چیز ہے اور ٹھیک طرح گواہی کی ادائیگی کے لیے بھی بہت زیادہ قائم رکھنے والی ہے اور اس میں ہر قسم کے شک و شبہ سے بچنے اور دور رہنے کا فائدہ ہے البتہ ایک صورت میں کتابت کرنے کی تاکید نہیں ہے جسے یوں بیان فرمایا : (اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَھَا بَیْنَکُمْ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلاَّ تَکْتُبُوْھَا) کہ اگر ایسی تجارت ہو جس کا لین دین نقد اسی وقت ہو رہا ہو اس کی اگر لکھا پڑھی نہ کی تو اس میں کوئی گناہ ہے۔ لفظ (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ) سے معلوم ہوا کہ صورت مذکورہ میں نہ لکھنے کی اجازت تو ہے لیکن اگر لکھ لیا تو وہ بھی کوئی ممنوع چیز نہیں ہے جیسا کہ دور حاضر میں خریدتے وقت کیش میمو نقد کاٹ کر دے دیتے ہیں اور اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جس کا نام کیش میمو میں لکھ دیا گیا ہو اس پر خود دکان دار جس سے خریدا ہے یا دوسرا شخص غصب کرنے یا چرانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ پھر فرمایا : (وَ اَشْھِدُوْآ اِذَا تَبَایَعْتُمْ ) (اور جب تم خریدو فروخت کا معاملہ کرو تو گواہ بنا لیا کرو) گواہ بنانے میں بہت سے فائدے ہیں آپس میں کوئی اختلاف ہوجائے گا تو گواہوں کے ذریعہ رفع ہوگا۔ مثلاً فریقین کے دل میں کوئی خیانت کا جذبہ پیدا ہوجائے یا بھول کر کسی بات کا انکار کردیں مثلاً بیچنے والا کہنے لگے کہ مجھے قیمت وصول نہیں ہوئی (حالانکہ خریدار کا دعویٰ ہے کہ میں قیمت ادا کرچکا ہوں) یا بیچنے والا سرے سے بیع ہی کا انکار کر دے یا یوں کہہ دے کہ میں نے ہر عیب سے برأت کرلی تھی یا خریدار کہنے لگے کہ میں نے خریدا ہی نہیں، یا یوں کہہ دے کہ قیمت تو میں نے دے دی ہے لیکن سامان مجھے نہیں ملا، یا یوں کہنے لگے کہ میں نے اپنے لیے واپسی کا اختیار بھی رکھا تھا جسے بائع نے مان لیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ بیع کا معاملہ کرتے وقت اور قیمت لیتے وقت اور مال دیتے وقت گواہ بنانے کی صورت میں اس طرح کے انکار اور نزاع کا دفعیہ ہو سکے گا، گواہ ہوں گے تو صحیح بات کی گواہی دے دیں گے، بھول اور خیانت سب کا دفاع ہوجائے گا۔ پھر فرمایا : (وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیْدٌ) (کہ کسی کاتب کو اور گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے) پہلے کاتب کو حکم دیا کہ انصاف کے ساتھ کتابت کر دے اور لکھنے سے انکار نہ کرے اور اللہ کی اس نعمت کی قدر کرے کہ اس نے اسے لکھنا سکھایا ہے اور گواہوں کو حکم دیا کہ گواہی کو نہ چھپائیں (جیسا کہ آئندہ آیت میں مذکور ہے) کاتب اور گواہ دونوں کو ان سے متعلقہ کام کی تاکید کے ساتھ ان لوگوں کو ہدایت فرمائی جو کاتب سے کتابت کروائیں اور جو گواہوں کی گواہی دینے کے لیے بلائیں کہ کتابت کرانے والے ایسا نہ کریں کہ کاتب کو کسی طرح کی کوئی تکلیف یا نقصان پہنچائیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر کاتب کتابت کرنے پر اجرت مانگے تو اس کو اجرت دے دی جائے اور مفت لکھنے پر مجبور نہ کیا جائے، اسی طرح جب گواہ کو بلائیں اور اس کو آنے جانے میں زحمت ہو یا جگہ دور ہو سواری طلب کرتا ہو تو اس کے لیے سواری کا انتظام کردینا واجب ہے، اور جب وہ گواہی دے چکے تو اس کے واپس گھر پہنچانے کا بھی انتظام کردیں ایسا نہ کریں کہ اب تو ہمارا کام نکل ہی گیا ہے اب خیر وخبر کا خیال نہ کیا تو کیا حرج ہے۔ البتہ گواہی دینا چونکہ فرض ہے اس لیے اس کی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ جب سچی گواہی کی اجرت لینا جائز نہیں تو جھوٹی گواہی کی اجرت لینا جس کا عام رواج ہوگیا ہے کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ یوں تو ہر مسلمان کو ضرر پہنچانا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : ملعون من ضارَّ مؤمنا او مکربہٖ (رواہ الترمذی) وہ شخص ملعون ہے جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے، کاتب اور شہید کو ضرر نہ پہنچانے کی تاکید فرمائی اور مزید تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا (وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌم بِکُمْ ) کہ اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے گناہ گار ہونے کی بات ہے۔ آخر میں فرمایا (وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ط وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (کہ اللہ سے ڈرو اللہ تعالیٰ کا احسان مانو، وہ تمہیں احکام کی تعلیم دیتا ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے، کوئی گناہ صغیرہ یا کبیرہ کرو گے تو اسے اس کا علم ہوگا، دنیا میں کسی کا حق مار لیا یا کسی کو ضرر پہنچایا یا تکلیف دے دی تو یہ نہ سمجھنا کہ یہیں پر ختم ہوگیا بلکہ وہ سب محفوظ ہے۔ اللہ کے علم میں ہے۔ یوم آخرت میں پیش ہونے کا یقین رکھو اور وہاں کے مؤاخذہ اور محاسبہ سے ڈرو۔
Top