Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
(2:282) تد اینتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ تم نے ایک دوسرے کو قرض دیا۔ تم نے ایک دوسرے کو ادھار دیا۔ رداین (تفاعل) مصدر۔ جس کے معنی ایک دوسرے سے قرض کا لین دین کرنے کے ہیں ۔ دین بمعنی قرض۔ دین مفعول بہ (مجرور بوجہ جرب کے) تداینتم۔ بدین۔ تم آپس میں دین یا ادھار کا معاملہ کرو۔ الی اجل مسمی۔ اجل کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ایما الاجلین قضیت (28:28) ان دو متعینہ مدتوں میں سے جونسی مدت میں پوری کردوں۔ موت کو بھی اجل کہا گیا ہے کہ اس کا وقت بھی معین اور مقرر ہے۔ اجل کے معنی وجہ کے بھی ہیں مثلاً قرآن مجید میں ہے : من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل (5:32) اس (قتل) کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا۔ مسمی۔ اسم مفعول واحد مذکر تسمیۃ (تفعیل) مصدر سے۔ جس کا نام لیا گیا ہو۔ جس کا نام رکھا گیا ہو۔ الی اجل مسمی۔ مقررہ یا متعین مدت کے لئے جس کی مدت نامزد کی گئی ہو۔ مطلب یہ کہ اس معاملہ یا سودے کی مدت بالکل صاف اور متعین ہونا چاہیے۔ گول اور مجمل نہ رہے۔ جاڑوں کے زمانہ میں ” برسات کے موسم میں دور بیع کی فصل میں “ ان مبہم مدتوں کی بجائے تعین و صراحت ہونا چاہیے کہ فلاں سنہ کے فلاں مہینہ کی فلاں تاریخ ۔۔ یایھا الذین امنوا۔ یا حرف نداء الذین امنوا موصول وصلہ مل کر منادی۔ اذا تداینتم بدن الی اجل مسمی جملہ شرطیہ ہے ماکتبوہ جواب شرط۔ فاکتبوہ۔جواب شرط کے لئے ہے اکتبوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم لکھ لو۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع دین ہے۔ جس کا آپس میں لین دین زیر بحث ہے۔ ای الدین الذی تداینتم بہ۔ ولیکتب واؤ عاطفہ لیکتب فعل امر واحد مذکر غائب۔ کتابۃ (باب نصر) چاہیے کہ لکھے بینکم۔ ای بین الدائن والمدیون۔ بین الطالب والمطلوب۔ کاتب۔ لیکتب کا فاعل۔ بالعدل۔ ای بالحق۔ اور کاتب کو چاہیے کہ دائن اور مدیون کے درمیان (دین کے متعلق) ٹھیک ٹھاک انصاف سے لکھے۔ فعل یکتبکا مفعول محذوف ہے ای الدین اوامرالمتدائنین (طرفین کا لین دین) ۔ ولایاب واؤ عاطفہ۔ لایاب فعل نہی واحد مذکر غائب ۔ اباء (باب فتح) مصدر اصل میں یابی تھا۔ نہی میں یاء کو ساقط کردیا ۔ نہ انکار کرے۔ ا ب ی مادہ۔ ان یکتب میں ان مصدریہ ہے۔ کما۔ ک اور ما سے مرکب ہے۔ کاف تشبیہ کا ہے۔ یعنی جیسا ۔ جیسے ۔ جس طرح۔ اور ما موصولہ ہے۔ فلیکتبعطف کا ہے لیکتب امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس کا مفعول محذوف ہے۔ ای امر المتداینین او امر الدین بین الطرفین۔ باہمی لین دین کرنے والوں کا معاہدہ بابت دین۔ ترجمہ : اور لکھنے والا جیسا کہ خدا نے اسے سکھایا ہے۔ لکھنے سے انکار نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔ لیملل۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب چاہیے کہ وہ لکھوائے۔ املال (افعال) مصدر۔ امل یمل املال۔ مضمون کو بول کر لکھوانا۔ بعض صورتوں میں دوسرے لام اور یاء سے بدل دیتے ہیں۔ (اس کو علم صرف میں ابدال سماعی کہتے ہیں) مثلاً امللت سے املیت میں نے بول کر لکھوایا۔ اور املال سے املاء (یہاں ہمزہ قائم مقامی کے ہے) بول کر لکھوانا۔ الذی علیہ الحق۔ ای المدیون۔ مقروض۔ جو زیربار ہے۔ جس کے ذمہ حق (قرض) ہے۔ ولیتق اللہ ربہ۔ واؤ عاطفہ۔ لیتق۔ امر کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ اتقاء (افتعال) مصدر یلق اصل میں یتقی تھا۔ لام کے عمل سے ی ساقط ہوگئی۔ چاہیے کہ وہ ڈرے۔ اللہ مفعول ربہ مضاف مضاف الیہ مل کر اللہ کی صفت۔ ترجمہ : اور مضمون وہ لکھوائے کہ جس پر مطالبہ ہو اور وہ (لکھوانے والا یا کاتب) اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے۔ ولا یبخس۔ واؤ عاطفہ۔ لا یبخس۔ فعل نہی واحد مذکر غائب۔ بخس (باب فتح) مصدر۔ اور وہ کم نہ کرے۔ (اور وہ اس میں کوئی کسر نہ رکھے) یعنی لکھوانے والا۔ یا کتب کم نہ لکھے۔ یا لکھوائے۔ ان کان الذی علیکم الحق سفیہا۔ ان شرطیہ۔ کان فعل ناقص الذی اسم موصول علیہ الحق سلہ۔ صلہ موصول مل کر اسم کان ۔ (جس پر حق واجب ہے یعنی مدیون) سفیہا خبر کان او ضعیفا خبر ثانی۔ اور اولا یستطیع ان یمل ھو۔ خبر سوم۔ لایستطیع مضارع منفی واحد مذکر غائب ان مصدریہ۔ یمل مضارع واحد مذکر غائب۔ املال (افعال) مصدر کہ وہ لکھوائے ۔ یعنی اگر مدیون اس قابل نہ ہو کہ وہ خود مضمون دستاویز لکھوا سکے۔ یہ سارا جملہ شرط ہے۔ فلیملل ولیتہ بالعدل جواب شرط۔ تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ (یعنی بےکم وکاست) لکھوائے۔ سفیھا۔ بےوقوف، بےعقل۔ سفہ وسفاہۃ (باب کرم) بیوقوف ہونا۔ جاہل ہونا۔ بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ عاجز۔ احمق (ابن زید) جاہل (مجاہد) مبذر المال ، فضول خرچ (الشافعی) ضعیفا۔ ضعیف۔ سست۔ کمزور۔ ضعف (باب سمع) مصدر بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ضعیف العقل ۔ ضعیف الرائے۔ ضعیف یہاں ایک جامع لفظ ہے۔ نابالغ اور پیر فرتوت سب اس میں آجاتے ہیں۔ استشھدوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ تم گواہ لاؤ۔ تم گواہ بناؤ۔ تم گواہ کرو۔ استشھاد (استفعال) مصدر۔ جس کے معنی گواہ بنانے کے ہیں اور گواہی طلب کرنے کے ہیں شھد علی (باب سمع) کسی چیز کی گواہی دینا۔ کسی کے خلاف شہادت دینا۔ شاھد۔ آنکھ سے مشاہدہ کرنے والا۔ سچا گواہ۔ من رجالکم۔ اپنے لوگوں میں سے ۔ صفت ہے شھدین کی۔ ممن ترضون۔ صفت ہے رجل وامراتن کی اور من الشھداء بدل ہے من سے جو ممن میں ہے۔ (ان) میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں سے۔ ترضون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم پسند کرتے ہو، تم راضی ہو، رضی (باب سمع) سے مصدر۔ ان تضل۔ ان مصدریہ ناصب فعل ہے۔ اور یہ مفعول لہ ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ لان تضل فتذکر۔ کیوں اگر (ان دونوں میں سے ایک) بھول جائے گی تو (دونوں میں سے دوسری اس کو) یاد دلادیگی۔ یعنی دو عورتوں کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بات بھول جائے تو دوسری اس کو یاد کرا دے۔ تضل۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ (عورت) بہک جائے ۔ بھول جائے۔ بھٹک جائے ۔ تذکر۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ تذکیر (تفعیل) سے مصدر۔ وہ (عورت) یاد دلائے۔ تذکر۔ منصوب ہے اس کا عطف تضل پر ہے۔ احدھما۔ ان دونوں میں سے ایک ۔ اجدی مضاف۔ ھما ضمیر تثنیہ مؤنث غائب۔ مضاف الیہ۔ فاعل ہے اور الاخری۔ دوسری۔ پچھلی۔ مفعول ہے تذکر کا۔ لایاب۔ نفی واحد مذکر غائب۔ اباء (باب فتح) مصدر۔ اصل میں یابی تھا۔ نہی میں ی کو ساقط کردیا۔ نہ انکار کرے۔ اذاما۔ جب کبھی۔ جب۔ جونہی کہ۔ دعوا ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ دعاء (باب نصر) مصدر۔ وہ بلائے گئے۔ وہ بلائے جائیں ۔ وہ پکارے گئے۔ وہ پکارے جائیں۔ لاتسموا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ تم کاہلی نہ کرو۔ تم مت اکتاؤ۔ سامۃ (باب فتح) ملول ہونا اکتانا ۔ السامۃ (س ء م) کے معنی کسی چیز کے زیادہ عرصہ تک رہنے کی وجہ سے اس سے کبیدہ خاظر یا دل برداشتہ ہوجانے کے ہیں۔ اور یہ فعلاً (کسی کام کو زیادہ عرصہ تک کرنے) اور انفعالا (کسی چیز سے زیادہ متاثر ہونے) دونوں طرح ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے۔ وھم لا یسئمون (41:38) اور وہ کبھی تھکتے ہی نہیں ۔ نیز اور جگہ فرمایا : لا یسئم الانسان من دعاء الخیر (41:49) انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تھکتا ہی نہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے ؎ سمئت تکالیف الحیوۃ ومن یعش ثمانین حولا لاابالک یسئم میں زندگی کی خوشگواریوں سے اکتا چکا ہوں۔ ہاں جو شخص اسی کو پہنچ جائے وہ لامحالہ اکتا ہی جاتا ہے۔ ان تکتبوہ۔ ان مصدریہ۔ تکتبوا مضارع جمع مذکر حاضر کتابۃ (باب نصر) سے مصدر بمعنی لکھنا ۔ ہ ضمیر مفعول بہٖ واحد مذکر غائب جس کا مرجع الدین یا الحق یا الکتاب ہے۔ تکتبوا اصل میں تکتبون تھا۔ نون اعرابی ان ناصبہ کے آنے سے حذف ہوگیا ہے ان تکتبوہ ب تاویل مصدر لا تسموا کا مفعول ہے۔ صغیرا او کبیرا (خواہ وہ معاملہ) چھوٹا ہو یا بڑا۔ دونوں تکتبوہ کی ضمیر ہ سے حال ہیں۔ الی اجلہ۔ لکھو وقت ادا کے تعین کے ساتھ (جو فریقین کے مابین طے پایا ہو) یہ بھی تکتبوہ کی ہ سے حال ہے۔ ذلکم۔ ذلک۔ اسم اشارہ کم ضمیر جمع خطاب کے لئے ہے۔ یہ ۔ یہی۔ اس سے معاہدہ کی کتابت۔ گواہان کا تقرر۔ یا سب کچھ جو اوپر مذکور ہوا۔ مراد ہے۔ اقسط۔ قسط۔ یقسط (باب ضرب) قسط مصدر سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے زیادہ انصاف کرنے والا۔ قسط۔ اضداد میں سے ہے۔ اس کے معنی ظلم کرنے کے بھی آتے ہیں اور انصاف کرنے کے بھی۔ یہاں اقسط عند اللہ کے معنی اللہ کے حکم میں زیادہ انصاف والے ہوں گے قسط یقسط فھو قاسط بمعنی ظلم کرنا ۔ اسی معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے : واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا (72:15) اور جو گنہگار ہوئے وہ دوزخ کا ایندھن بنے۔ لیکن جب اقسط یقسط فھو مقسط (افعال) سے آئے۔ تو اس کے معنی ہوں گے اس نے انصاف کیا۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین (49:9) اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اقوم۔ بہت درست رکھنے والا۔ زیادہ درست، زیادہ سیدھا۔ قیام مصدر باب نصر ۔ بمعنی راست ہونا۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے ادنی۔ نزدیک تر۔ کم تر۔ رذیل تر۔ اقصی (زیادہ دور) کے مقابل آئے تو ادنی کے معنی نزدیک تر ہوں گے۔ اکثر (زیادہ) کے مقابل آئے تو بمعنی کمتر ۔ جیسے ولا ادنی من ذلک ولا اکثر (58:7) اور نہ اس سے کم نہ زیادہ۔ اکبر (زیادہ بڑا کے مقابل آئے تو بمعنی اصغر (بہت چھوٹا) جیسے ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر (32:21) اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا چھوٹے (کمتر) عذاب کا بھی مزہ چکھائیں گے۔ اور خیر کے مقابل رذیل تر کے معنی میں جیسے اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر (2:61) تو اس (موسیٰ علیہ السلام) نے کہا کہ بھلا بہتر چیز چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص (رذیل تر) چیزیں کیوں لیتے ہو۔ یہ دان اور دنی کا اسم تفضیل ہے۔ الا ترتابوا۔ الا اصل میں ان لا تھا (ان مصدریہ لا نافیہ) نون کا لام میں ادغام کردیا گیا۔ لاترتابوا۔ مضارع منفی جمع مذکر حاضر۔ تم شک میں نہ پڑو۔ ارتیاب (افتعال) مصدر جس کے معنی شک کرنا اور دوسرے کو متہم سمجھنا ہے۔ کہ تم شبہ میں نہ پڑو۔ ادنی الا ترتابوا۔ یہ دفع شبہ کے لئے سہل ترین یا قریب ترین (طریقہ) ہے ای اترب الی انتفا۔ ریبکم وشککم۔ یعنی اس طرح تم قرض کی رقم اس کی شہادت اس کی میعاد کے متعلق کسی قسم کے شک و شبہ سے بچے رہو گے۔ الا۔ استثناء منقطع۔ یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ مستثنیٰ منہ اور الا حرف استثناء اور ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم مستثنیٰ ان کے درمیان کا کلام جملہ معترضہ ہے۔ ان تکون۔ ان مصدریہ تکون مضارع منصوب بوجہ عمل ان۔ ان تکون میں ضمیر اسم ہے ۔ ای المعاملۃ (ای الا ان تکون المعاملۃ تجارۃ حاضرۃ۔ مگر جبکہ معاملہ دست بدست تجارت کا ہو) تجارۃ حاضرۃ۔ موصوف وصفت مل کر خبر تکون کی۔ (اور بدیں وجہ منصوب ہے) تدیرونھا بینکم صفت ثانی ہے تجارۃ کی۔ اور صفت اول حاضرۃ ہے۔ تدیرونھا۔ تدیرون۔ جمع مذکر حاضر۔ تم پھراتے ہو۔ ادارۃ (باب افعال) مصدر بمعنی گھمانا ۔ چکر دینا۔ پھرانا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب (جس کو تم آپس میں پھیرتے پھراتے ہو۔ مراد یہاں ہاتھوں ہاتھ لین دین ہے۔ جناح۔ گناہ۔ مضائقہ۔ حرج۔ جناح جنوح سے ماخوذ ہے جس کے معنی ایک طرف مائل ہونے کے ہیں۔ اس لئے وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کر دے اور دوسری طرف جھکادے جناح سے موسوم ہوا۔ اور پھر ہر گناہ کے لئے اس کا استعمال ہونے لگا۔ الا تکتبوھا۔ الا مرکب ہے ان مصدریہ اور لا نافیہ سے۔ لاتکتبوا مضارع منصوب بوجہ عمل ان) مطلب یہ کہ اگر تجارت حاضرہ ہے۔ دست بدست لین دین اور نقد بہ نقد ہے تو اس صورت میں معاہدہ تجارت نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ واشھدو اذا تبایعتم۔ اور جب آپس میں خریدو فروخت کرتے ہو تو گواہ بنا لیا کرو۔ جمہور کے نزدیک یہ امر استجابی ہے یعنی بہتر ہے کہ گواہ بنا لیا کرو۔ گواہ بنانے اور اس میں رعائیت کا ذکر اوپر بیان ہوچکا ۔ یہ عام خریدوفروخت کے متعلق ارشاد ہوا ہے۔ فروخت نقد قیمت پر ہو یا ادھار۔ اشھدوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اشھاد (افعال) مصدر۔ گواہ کرلیا کرو، گواہ کرلو۔ بتایعتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ بتابع (تفاعل) مصدر جس کے معنی باہمی خریدوفروخت کرنے کے ہیں۔ بتایعتم۔ باہمی خریدو فروخت کرو۔ لایضار۔ فعل نہی مجہول واحد مذکر غائب۔ ضرا رومضارۃ (مفاعلۃ) تکلیف نہ دی جائے دکھ نہ پہنچایا جائے۔ ضرر مادہ۔ شھید۔ شاہد۔ گواہ۔ کسی چیز کے مشاہدہ کرنے والے کو بھی شہید کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے شہید وہ ذات ہے جس کے علم سے کوئی چیز غائب نہ ہو۔ اور شرع میں شہید وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں قتل کیا گیا ہو۔ وان تفعلوا جملہ شرطیہ ہے۔ ای وان تفعلوا الضرار وما نھیتم عنہ اگر تم کاتب یا گواہ کو تکلیف پہنچاؤ گے یا جس بات سے تمہیں منع کیا گیا ہے اسے کروگے۔ فانہ فسوق بکم۔جواب شرط کے لئے ہ ای ذلک الفعل۔ فسوق (باب نصر) مصدر نافرمانی کرنا۔ گناہ کرنا۔ جواب شرط۔ تو یہ فعل تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ واتقوا اللہ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بابت ان امور کے جن کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے اور جن سے اس نے منع کیا ہے ۔ ای فیما امرکم بہ ونھاکم عنہ۔ ویعلمکم اللہ۔ اور اللہ تمہیں وہ احکام بتاتا ہے جن میں تمہاری بھلائی ہے۔ واللہ بکل شیء علیم۔ اور اللہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں : ” لفظ اللہ کو تین بار تین جملوں میں ذکر کیا۔ کیونکہ ہر جملہ اپنا خاص مقصد رکھتا ہے۔ پہلے جملہ میں ترغیب تقویٰ ہے۔ دوسرے جملہ میں وعدہ انعام ہے اور تیسرے جملہ میں اللہ کی عظمت شان کا اظہار ہے “۔
Top