Tibyan-ul-Quran - Al-Baqara : 273
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
آیت نمبر : 282۔ اس آیت میں باون مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین “۔ الایہ حضرت سعید بن مسیب ؓ نے کہا ہے : مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ قرآن کریم نے آیۃ الدین عرش کے پاس سے حاصل کی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : یہ آیت خاص کر بیع سلم کے بارے میں نازل ہوئی، اس کا معنی یہ ہے کہ اہل مدینہ کا بیع سلم کرنا اس آیت کے نازل ہونے کے سبب ہے پھر یہ بالاجماع ان عقود کو شامل ہوگئی ہے جن میں قرض اور دین وغیرہ ہوتا ہے۔ (1) ۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت تیس احکام کو متضمن ہے اور اس سے ہمارے بعض علماء نے قرضوں میں مدت مقرر کرنے کے جواز پر استدلال کیا ہے، جیسا کہ امام مالک (رح) نے کہا ہے، کیونکہ انہوں نے قرض اور تمام عقود مداینات میں کوئی فرق نہیں کیا، اور شوافع نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے : اس آیت میں تمام قرضوں میں تاجیل کے جواز پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلاشبہ اس میں اس گواہ بنا لینے کا حکم ہے جب وہ دین مؤجل ہو، پھر دین میں تاجیل کے جواز اور اس کے ممتنع ہونے کے بارے دوسری دلیل سے جانا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” بدین “ یہ تاکید ہے، جیسا کہ یہ قول ہے۔ (آیت) ” ولا طیریطیر بجناحیہ (انعام : 38) ترجمہ ؛ اور نہ کوئی پرندہ جو اڑتا ہے اپنے دو پروں سے۔ (آیت) ” فسجدالملئکۃ کلھم اجمعون “۔ (الحجر) ترجمہ : پس سر بسجود ہوگئے فرشتے سارے کے سارے) اور دین کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عبارت ہے ہر اس معاملہ سے جس میں دو عوضوں میں سے ایک نقد ہو اور دوسرا دوسرے کے ذمہ ادھار ہو، کیونکہ عربوں کے زندیک عین وہ ہے جو حاضر ہو اور دین وہ ہے جو غائب ہو جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : وعدتنا بدرھمینا طلاء وشواء معجلا غیر دین : اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : لترم بی المنایا حیث شائت اذا لم ترم بی فی الحفرتین : اذا ما اوقدوا حطبا ونارا فذاک الموت نقدا غیر دین : تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس معنی کو اپنے اس قول حق کے ساتھ بیان کیا ہے (آیت) ” الی اجل مسمی “۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الی اجل مسمی “۔ ابن منذر نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” الی اجل مسمی “۔ اس پر دلیل ہے کہ بیع سلم کرنا مجہول مدت تک جائز نہیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت بھی کتاب اللہ کے معنی کی مثل پر دلیل ہے، یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور وہ پھلوں میں قرض دو ، تین سال کے لئے لے لیا کرتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو کوئی کھجوروں کے عوض قرض کسی کو دے تو اسے چاہیے کہ وہ معین کیل اور وزن معین مدت تک قرض دے “ (1) (صحیح بخاری کتاب السلم، باب السلم فی کیل معلوم، حدیث نمبر 2085، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے، اسے بخاری، مسلم وغیرہما نے نقل کیا ہے، اور حضرت ابن عمر ؓ نے کہا ہے : دور جاہلیت کے لوگ اونٹوں کے گوشت کی بیع اونٹنی کے حمل کے حاملہ ہونے تک کرتے تھے حبل الحبلہ کا معنی ہے کہ اونٹنی بچہ جنے پھر وہ حاملہ ہو جو جنا گیا، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اس سے منع فرمایا (2) (ایضا، باب السلم الی تنتج الناقۃ، حدیث نمبر 2096، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اہل علم میں سے وہ تمام جن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ان کا اس پر اجماع ہے کہ جائز بیع سلم وہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے ساتھی کے ساتھ ایسے طعام (اناج) کی بیع سلم کرین جس کی مقدار معلوم ہو اور وصف بھی معلوم ہو، وہ عام زمین کے اناج میں سے ہو جس کی مثل میں وہ غلطی اور خطا نہ کرے، معین کیل کے ساتھ، مدت معلومہ تک معلوم دنانیر یا دراہم کے عوض، جو وہ اسے مسلم فیہ کے بدلے دے گا دونوں (رب السلماو مسلم الیہ) کے اس مقام سے جدا ہونے سے پہلے پہلے جہاں انہوں نے آپس میں بیع کی ہے اور دونوں اس جگہ کا تعین بھی کریں گے جس میں اس طعام پر قبضہ کیا جائے گا پس جب دونوں نے ایسا کرلیا تو یہ امر جائز ہوگیا اور بیع سلم صحیح ہوگئی، میں اہل علم میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا جو اسے باطل قرار دیتا ہو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور ہمارے علماء نے کہا ہے : بیشک بیع سلم کرنا فصل کی کٹائی، پھل توڑنے اور نیروز اور مہرجان کے دنوں تک یہ جائز ہے کیونکہ یہ وقت اور معلوم زمانے کے ساتھ مختص ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) ہمارے علماء نے بیع سلم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے (1) (بیع معلومل الذمۃ محصور بالصفۃ بعین حاضرۃ او ماھو فی حکمھا الی اجل معلوم) یہ معلوم شے کی بیع ہے جو دوسرے کے ذمہ لازم ہوجائے اور اس کا وصف معلوم ہو ایسے دراہم ودنانیر کے عوض جو موجود ہوں یا ایسی شے کے عوض جو ان کے حکم میں ہو مدت معلومہ تک، پس اسے معلوم فی الذمۃ کے ساتھ مقید کرنا مجہول سے بچنے کا فائدہ دیتا ہے اور اعیان معینہ میں سلم کرنے سے (بچنے کا فائدہ دیتا ہے) مثلا وہ جو مدینہ طیبہ کے باسی اس وقت قرض لیتے تھے جب حضور نبی مکرم ﷺ تشریف لائے کیونکہ وہ کھجور کے پھلوں میں ان کے اعیان کے بدلے قرض لیتے تھے تو آپ ﷺ نے انہیں اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس میں دھوکے اور نقصان کا امکان ہے، کیونکہ کبھی وہ درخت خراب ہوجاتے ہیں اور وہ بالکل ثمر بار نہیں ہوتے اور ان کا قول محصور بالصفۃ “ یہ اس معلوم سے بچنے کے لئے ہے جس کے بارے مجمل علم تو ہو لیکن تفصیلی علم نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی کھجوروں، یا کپڑوں یا مچھلیوں میں بیع سلم کرے اور ان کی نوع بیان کرے اور نہ ان کی کوئی معین صفت بیان کرے۔ اور ان قول بین حاضرۃ یہ دین کے عوض دین کی بیع کرنے سے بچنے کے لئے ہے اور ان کا قول اوماھوفی حکمھا یہ ان دو اور تین دونوں سے بچنے کے لئے ہے جن میں مسلم الیہ کور اس المال میں تاخیر کرنا جائز ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک اتنی مقدار اسے موخر کرنا جائز ہوتا ہے، شرط کے ساتھ بھی اور بغیر شرط کے بھی کیونکہ یہ بالکل قریب ہے اور اسے اس پر مشروط کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام ابوحنیفہ (رح) نے بیع سلم میں راس المال کو عقد اور افتراق (رب السلم اور مسلم الیہ کا مجلس عقد سے جدا ہونا) سے مؤخر کرنا جائز قرار نہیں دیا، اور انہوں نے یہ جانا ہے کہ یہ بیع صرف کی طرف ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں باب مختلف ہیں اور اپنے اپنے اوصاف کے ساتھ مختص ہیں، کیونکہ بیع صرف اس کا باب تنگ ہے اور اس میں شروط زیادہ ہیں، بخلاف سلم کے کیونکہ اس پر معاملات کے عیوب بہت زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم اور قولھم، الی اجل معلوم یہ سلم حال سے بچنا ہے کیونکہ یہ مشہور قول کے مطابق جائز نہیں ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا اور اجل کو معلوم کی صفت سے متصف کرنا اس مجہول مدت سے بچنا ہے جس پر وہ زمانہ جاہلیت میں بیع سلم کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (5) سلم اور سلف دونوں لفظ ایک ہی معنی سے عبارت ہیں اور یہ دونوں حدیث میں آئے ہیں مگر اس باب سے خاص اسلم سلم ہے کیونکہ سلف قرض پر بولا جاتا ہے اور سلم بالاتفاق جائز بیوع میں سے ایک بیع ہے اور حضور ﷺ نے اس شے کی بیع کرنے سے جو تیرے پاس نہ ہو منع فرمایا ہے (1) (مسند امام احمد، حدیث 6628) یہ اس سے مستثنی ہے، اور آپ ﷺ نے سلم میں رخصت دی ہے کیونکہ سلم جب ذمہ میں معلوم شے کی بیع ہے تو یہ ایک غائب شے کی بیع ہے جس کی طرف متبایعین میں سے ہر ایک کی ضرورت دعوت دیتی ہے، کیونکہ راس المال کا مالک اس کا محتاج ہے کہ وہ پھل خریدے اور پھل کا مالک اسے توڑے اور علیحدہ کرنے سے پہلے اس کے ثمن کا محتاج ہے تاکہ وہ اسے اس پر کرچ کرسکے، پس یہ ظاہر ہوا کہ بیع سلم ضروری مصالح میں سے ہے، اور فقہاء نے اس کا نام بیع المحاویج رکھا ہے، اور اگر یہ حالا (یعنی ثمن اور مبیع کا موجود ہونا) ہی جائز ہو تو یہ حکمت باطل ہوگئی اور یہ مصلحت اٹھ گئی اور جو شے تیرے پاس موجود نہیں اس کی بیع سے اس کی استثناء کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (6) بیع سلم کی وہ شرائط جن پر اتفاق کیا گیا ہے اور جن میں اختلاف کیا گیا ہے وہ نو ہیں : چھ شرائط مسلم فیہ میں ہیں اور تین بیع سلم کے راس المال میں ہیں۔ پس وہ چھ جو مسلم فیہ میں پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں : مسلم فیہ اس کے ذمہ لازم ہوجائے، اس کا وصف بیان ہو، اس کی مقدار معلوم ہو، وہ مؤجل ہو، اس کی مدت معلوم ہو اور وہ مدت پوری ہونے کے وقت محل معین پر موجود ہو۔ اور رہی وہ تین شرطیں جو راس المال میں پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں : اس کی جنس معلوم ہو، مقدار معلوم ہو، اور نقد ہو، اور یہی وہ تین شرائط ہیں جو راس المال میں پائی جاتی ہیں اور یہ نقد کے سوا متفق علیہ ہیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ مسلم فیہ اس کے ذمہ ہوجائے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ اس سے مقصود اس کا ذمے میں ہونا ہے، کیونکہ یہ عقد بداینہ ہے (یعنی یہ اس کے ذمہ قرض ہوجاتی ہے) اور اگر ایسا نہ ہو تو از روئے دین کے یہ مشروع نہ ہو اور نہ ہی ریح ورفق کے طور پر لوگ اس کا قصد کریں اور اس قول پر لوگوں کا اتفاق ہے، مگر امام مالک (رح) نے کہا ہے : کسی معین شے میں بیع سلم جائز نہیں ہوتی، مگر دو شرطوں کے ساتھ، ان میں سے ایک یہ کہ وہ بستی محفوظ ومامون ہو اور دوسری یہ کہ وہ اس کے لینے میں شروع ہوجائے مثلا بکری سے دودھ اور کھجور کے درخت سے تر کھجوریں اور ان کے سوا کسی نے یہ قول نہیں کیا ہے۔ اور یہ دونوں مسئلے دلیل میں صحیح ہیں، کیونکہ بیع سلم میں تعیین ممتنع ہے مزابنہ اور غرر کے خوف سے تاکہ (دائیگی کے) محل کے وقت وہ متعذر نہ ہو اور جب جگہ مامون ہو تو اغلبا جو شے اس میں ہوتی ہے اس کا پایاجانا متعذر نہیں ہوتا (لہذا) وہ جائز ہے، کیونکہ مسائل فقہ میں عواقب اور انجام کی ضمانت کے قطعی ہونے پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور ان میں تھوڑے سے دھوکے کا احتمال ضرور ہوتا ہے اور فرعی مسائل میں ایسا بہت زیادہ ہے ان کی تعداد کتب مسائل میں ہے۔ اور رہی بیع سلم دودھ میں اور ایسی کچی کھجوروں میں جنہیں لینا شروع کردیا ہو تو یہ مدینہ طیبہ کا مسئلہ ہے اور اس پر اہل مدینہ کا اجماع ہے اور اس کی بناء مصلحت کے قاعدہ پر ہے کیونکہ آدمی دودھ اور کھجوریں یومیہ مزدوری اور اجرت کے طور پر لینے کا محتاج ہے اور ہر روز ابتداء اس کے لئے شاق ہوتا ہے، کیونکہ نقد کبھی موجود نہیں ہوتے اور اس لئے بھی کہ بھاؤ مختلف ہوتا رہتا ہے اور کھجوروں اور دودھ والا نقد کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس تو سامان ہے وہ اپنے لئے کوئی تصرف نہیں کرسکتا پس جب دونوں ہی حاجت میں مشترک ہیں تو دونوں کے لئے اس معاملہ میں رخصت دی گئی ہے عرایا اور دیگر اصول حاجات ومصالح پر قیاس کرتے ہوئے۔ اور رہی دوسری شرط تو وہ یہ ہے کہ اس کی صفت بیان کی گئی ہو، یہ متفق علیہ ہے اور اسی طرح تیسری شرط بھی ہے اور اندازہ تین وجہوں سے ہوسکتا ہے، کیل (ماپ) وزن اور عدد، اور اس کا دارومدار عرف پر ہوتا ہے اور وہ یا تو لوگوں کا عرف ہوگا یا عرف شرع ہوگا۔ اور رہی چوتھی شرط ! تو وہ یہ کہ مسلم فیہ مؤجل ہو اور اس میں اختلاف ہے، پس امام شافعی نے کہا ہے : سلم حال جائز ہوتی ہے اور اکثر علماء کا اس کا انکار کیا ہے۔ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : مدت مقرر کرنے میں مالکیہ مضطرب ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اسے ایک دن کی طرف لوٹا دیا ہے، یہاں تک کہ ہمارے بعض علماء نے کہا ہے : سلم حال جائز ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس میں تاجیل (مدت مقررہ) کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ مبیع کی دو قسمیں ہیں : معجل اور وہ معین ہے اور دوسری موجل پس اگر یہ سلم حال ہو اور مسلم الیہ کے پاس اس وقت موجود نہ ہو تو یہ بیع مالیس عندک کے باب سے ہوجائے گی، پس مدت کا مقرر ہونا اور مہلت ہونا ضروری ہے تاکہ ہر عقد اپنی صفت اور اپنی شرائط کے مطابق خالص ہو، اس میں احکام شرعیہ جاری ہو سکتے ہوں۔ اور ہمارے علماء کے نزدیک اس کی حد اتنی مدت ہے جتنی مدت میں منڈیاں متغیر ہوتی رہتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” الی اجل مسمی “ اور حضور ﷺ کا ارشاد گرامی : الی اجل معلوم “ یہ ہر کہنے والے کے قول سے غنی اور بےنیاز کردیتے ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : سلم حال میں سے ہمارے علماء نے جسے جائز قرار دیا ہے وہ وہ ہے جس کا بھاؤ شہروں میں مختلف ہوتا رہتا ہے، پس سلم ان چیزوں میں جائز ہوتی ہے جن میں اور اس کے درمیان ایک دن یا دو دن یا تین دن باقی ہوں اور رہا ایک ہی شہر تو اس میں جائز نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا بھاؤ ایک ہی ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور رہی پانچویں شرط اور وہ یہ ہے کہ اجل معلوم ہو تو امت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی معظم ﷺ نے اس اجل (مدت کے تعین) کے بارے فرما دیا ہے۔ اور امام مالک (رح) فقہائے امصار میں سے اس میں منفرد ہیں کہ باغ توڑنے اور فصل کاٹنے کے وقت تک بیع سلم جائز ہے کیونکہ انہوں نے اسے مدت معلوم ہی قرار دیا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : یسالونک عن الاھلۃ کے تحت بحث گزر چکی ہے۔ اور رہی چھٹی شرط : تو وہ یہ ہے کہ ادائیگی کے وقت وہ موجود ہو تو اس میں بھی امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور اگر مدت پوری ہونے پر امرا الہی سے مبیع ناپید ہوجائے تو تمام علماء کے نزدیک عقد فسخ ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر : (7) بیع سلم کی شرائط میں سے یہ نہیں ہے کہ مسلم الیہ مسلم فیہ کا مالک ہو بخلاف بعض سلف کے کیونکہ امام بخاری نے محمد بن مجالد سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ عبداللہ بن شداد اور ابو بردہ نے مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی کی طرف بھیجا اور ان دونوں نے کہا : ان سے پوچھو کیا حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب آپ کے زمانہ میں گندم میں بیع سلم کرتے تھے ؟ تو حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا : ہم شام کے رہنے والے کسانوں سے گندم، جو او زیتون میں معلوم کیل کے ساتھ معلوم مدت تک بیع سلم کرتے تھے، میں نے کہا کون ہے جس کے پاس اس کی اصل ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہم اس کے بارے ان سے سوال کرتے رہے پھر ان دونوں نے مجھے عبدالرحمن بن ابزی کی طرف بھیجا، سو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا : حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب آپ کے عہد مقدس میں بیع سلم کرتے تھے اور ہم ان سے نہ پوچھتے کیا انکی کھیتی ہے یا نہیں۔ (1) ؟ (صحیح بخاری، کتاب السلم، حدیث نمبر 2088، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے عقد کے وقت سے لے کر مدت مقررہ تک مسلم فیہ کا پایا جانا شرط قرار دیا ہے، اس خوف کی وجہ سے کہ مسلم فیہ کا مطالبہ کیا جائے اور وہ نہ پائی جائے تو وہ دھوکہ اور نقصان ہوگا، اور تمام فقہاء نے آپکی مخالفت کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ مدت مقررہ مکمل ہونے کے وقت اس کے موجو ود ہونے کا لحاظ رکھا جائے گا، علمائے کوفہ اور ثوری نے یہ شرط لگائی ہے کہ اگر مسلم فیہ ایسی شے ہو جس کا بوجھ ہو اور اسے اٹھانے میں مشقت ہو تو پھر محل قبض کا ذکر کیا جائے، اور انہوں نے کہا ہے : جب مسلم فیہ سپرد کرنے کی جگہ کا ذکر نہ کیا گیا تو بیع سلم فاسد ہوگی اور اوزاعی نے کہا ہے : وہ مکروہ ہوگی، اور ہمارے نزدیک اگر وہ اس کے ذکر سے خاموش رہے تو عقد فاسد نہ ہوگا اور محل قبض متعین ہوجائے گا، امام احمد، اسحاق، اور محدثین کی ایک جماعت نے یہی کہا ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں اس جگہ کا ذکر موجود نہیں ہے جس میں مسلم فیہ پر قبضہ کیا جائے گا، اگر یہ بیع سلم کی شرائط میں سے ہوتی تو یقینا حضور نبی مکرم ﷺ اسے اسی طرح بیان فرما دیتے جس طرح آپ نے کیل، وزن اور اجل (مدت) کے بارے بیان فرما دیا ہے اور اسی کی مثل حضرت ابن ابی اوفی کی حدیث ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) ابو داؤد نے سعد الطائی سے، انہوں نے عطیہ بن سعد سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس کسی نے کسی شے میں بیع سلم کی تو اسے چاہیے کہ وہ اسے کسی اور کی طرف نہ پھیرے (2) (سنن ابی داؤدباب السفف لایحول، حدیث نمبر 3008، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “ ابو محمد عبد الحق بن عطیہ نے کہا ہے : وہ عوفی ہے (یہ عطیہ بن سعد کا لقب ہے) اور کسی نے بھی اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے، اگرچہ بزرگ اور اجلہ راویوں نے اس سے روایت نقل کی ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : ہمارے نزدیک اس آدمی کے بارے میں حکم یہ ہے جس نے معلوم قیمت کے ساتھ مقررہ مدت تک کسی اناج میں بیع سلم کی، پس مدت گزر گئی اور خریدنے والے نے بائع کے پاس اس شے میں سے ادا کرنے کے لئے کوئی شے نہ پائی جسے اس نے اس سے خریدا تھا تو وہ اس سے اقالہ کرلے اور اسے چاہیے کہ وہ اس سے چاندی یا سونے یا بعینہ اس ثمن کے سوا جو اس نے اسے دیئے تھے نہ لے اور نہ اس ثمن کے عوض وہ اس سے کوئی اور شے خریدے، یہاں تک کہ وہ ان پر قبضہ کرلے اور وہ اس لئے ہے کہ جب اس نے ان ثمنوں کے علاوہ لے لئے جو اس نے دیئے تھے یا اس نے انہیں ایسے سودے کی طرف پھیر دیا جو اس طعام کے سوا ہو جو اس نے اس سے خریدا تھا تو یہ طعام کو پورا کرنے سے پہلے اسے بیچنا لازم آتا ہے، امام مالک (رح) نے کہا ہے : تحقیق رسول اللہ ﷺ نے طعام کو پورا کرنے سے پہلے اس کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاکتبوہ “۔ یعنی تم قرض اور مدت کو لکھ لو اور کہا جاتا ہے : کتابت کا حکم دیا گیا ہے لیکن مراد لکھنا اور گواہ بنانا ہے کیونکہ تحریر گواہوں کے بغیر حجت نہیں ہوتی، اور کہا جاتا ہے ہمیں کتابت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ ہم بھول نہ جائیں۔ ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں حماد بن سلمہ سے، انہوں نے علی بن زید سے انہوں نے یوسف بن مہران سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں فرمایا ہے : (آیت) ” اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ “۔ الی اخر الایہ بلاشبہ جس نے سب سے اول انکار کیا وہ حضرت آدم (علیہ السلام) تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان کی اولاد دکھائی تو آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جس کا نور انتہائی روشن اور پھیلا ہوا تھا، تو آپ نے عرض کی اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ رب کریم نے فرمایا یہ تیرا بیٹا داؤد (علیہ السلام) ہے، عرض کی اے میرے پروردگار اس کی عمر کتنی ہے ؟ فرمایا : ساٹھ برس، عرض کی : اے میرے رب ! اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، تو رب کریم نے فرمایا : نہیں مگر یہ کہ تو اپنی عمر میں سے اس میں اضافہ کر دے، عرض کی : میری عمر کتنی ہے ؟ فرمایا ہزار برس، آدم (علیہ السلام) نے عرض کی : میں نے چالیس برس اسے عطا کردیئے، بیان فرمایا : پس اللہ تعالیٰ نے اس پر تحریر لکھ لی اور اس پر اپنے ملائکہ کو گواہ بنا لیا، پس جب وفات کا وقت آپہنچا اور ملائکہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے فرمایا ابھی میری عمر سے چالیس برس باقی ہیں۔ ملائکہ نے کہا : بلاشبہ آپ نے وہ اپنے بیٹے داؤد (علیہ السلام) کو ہبہ کردیئے تھے تو آپ نے فرمایا : میں نے کسی کو کوئی شہ ہبہ نی ہیں کی آپ نے فرمایا : سو اللہ تعالیٰ نے وہ تحریر نکالی اور اس پر ملائکہ گواہ تھے، اور ایک روایت میں ہے : اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کے لئے سو برس اور آدم (علیہ السلام) کے لئے ان کی عمر ہزار برس مکمل کردی (1) (جامع ترمذی، حدیث نمبر 3002، 3250، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ترمذی نے بھی نقل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : فاکتبوہ میں اس طرح واضح اشارہ ہے کہ وہ (قرض کے بارے) تحریر لکھے اس طرح جو اس کی مکمل وضاحت کرنے والی ہو اور اس سے ہر قسم کے وہم کو دور کرنے والی ہو ایسے اختلاف کے بارے میں جس کا وہم دو باہم معاملات کرنے والوں کے درمیان ہو سکتا ہے اور اگر وہ دونوں اپنا معاملہ حاکم کے سامنے پیش کریں تو وہ تحریر حاکم کی ایسی راہنمائی کرنے والی ہو جس کے مطابق وہ فیصلہ کرسکے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (10) بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قرضوں کا لکھنا ان کے مالکوں پر واجب ہے، اسی آیت کے ساتھ وہ فرض کیا گیا ہے، چاہے وہ بیع کے سبب ہو یا قرض کی صورت میں ہو، تاکہ اس میں بھول یا انکار ممکن نہ ہو سکے، اور یہی علامہ طبری کا اختیار ہے اور ابن جریج نے کہا ہے : جس کسی کو کوئی قرض دے اسے چاہیے کہ وہ لکھ لے اور جو کوئی شے فروخت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ گواہ بنا لے۔ اور علامہ شعبی نے کہا ہے : وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ : (آیت) ” فان امن “ یہ حکم تحریر کے لئے ناسخ ہے اور اسی طرح ابن جریج نے بیان کیا ہے اور ابن زید نے یہی کہا ہے اور حضرت ابو سعید خدری ﷺ سے روایت کیا گیا ہے اور ربیع نے یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ ان الفاظ کجے ساتھ واجب ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ساتھ اس میں تخفیف فرمائی : (آیت) ” فان امن بعضکم بعضا، اور جمہور نے کہا ہے : اموال کی حفاظت اور شک کو زائل کرنے کے لئے لکھ لینا مستحب ہے، اور جب مقروض متقی ہو تو تحریر اس کے لئے ضرر رساں نہیں اور اگر وہ ایسا نہ ہو تو تحریر اس کے قرض کے بارے اور صاحب حق کی حاجت کے بارے ایک اعتماد اور یاد دہانی ہے، بعض نے کہا ہے : اگر تو گواہ بنا لے تو یہ احتیاط ہے اور اگر تو امین بن جائے تو یہ بھی حلال ہے اور اس کی گنجائش ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہی قول صحیح ہے اور اس میں نسخ مرتب نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کے لئے اس شے کے بارے میں لکھنا مستحب قرار دیا ہے جسے وہ ہبہ کرے اور اسے چھوڑے دے یہ اجماع سے ثابت ہے اور اس کا مستحب ہونا بلاشبہ لوگوں کے اعتماد اور بھروسہ کی بناء پر ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والیکتب بینکم کاتب بالعدل “۔ حضرت عطا وغیرہ نے کہا ہے : کاتب پر واجب ہے کہ وہ لکھے، شعبی نے یہی کہا ہے اور یہ اس وقت ہے جب اس کے سوا کوئی کاتب موجود نہ ہو تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ لکھے، سدی نے کہا ہے : اس پر لکھنا واجب ہے جب وہ فارغ ہو، پہلے سے لام کو حذف کردیا گیا ہے اور دوسرے میں اسے ثابت رکھا گیا ہے کیونکہ دوسرا غائب کے لئے ہے اور پہلا مخاطب کے لئے ہے اور کبھی یہ مخاطب میں ثابت ہوتی ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فلتفرحوا “ یہ تاء کے ساتھ ہے اور غائب میں حذف ہوجاتی ہے اور اسی سے شاعر کا یہ قول ہے : محمد تفد نفسک کل نفس اذا ما خفت من شی تبالا : اس میں تفد سے لام محذوف ہے یہ مونث غائب کا صیغہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (12) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” بالعدل “ یعنی حق اور انصاف کے ساتھ، یعنی صاحب حق کے لئے نہ اس سے زیادہ لکھا جائے گا اور نہ اس سے کم۔ اور فرمایا (آیت) ” بینکم “ یہ نہیں کہا احدکم “ ، کیونکہ جب وہ آدمی جس کا قرض ہے وہ اس کی کتابت میں شک کرسکتا ہے جس پر قرض ہے اور اسی طرح اس کا برعکس بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے کاتب ایسے آدمی کو قرار دیا ہے جو ان دونوں کے سوا ہو وہ عدل کے ساتھ لکھے، اس کے دل میں اور نہ اس کے قلم میں دونوں میں سے ایک کی دوسرے پر ترجیح ہو۔ (یعنی ایک جانب اس کا جھکاؤ نہ ہو) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشک لوگ جب معاملات کرتے ہیں تو کوئی بھی معاملہ سے جدا نہیں ہوتا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو لکھ سکتے ہیں اور وہ بھی جو نہیں لکھ سکتے، اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ ان کے درمیان ایک کاتب عدل و انصاف کے ساتھ لکھ دے۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” بالعدل “ میں باؤ والیکتب کے متعلق ہے ” کاتب کے متعلق نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ کوئی معاہدہ (یادستاویز) نہ لکھے مگر اپنی ذات میں عدل کے ساتھ، حالانکہ اسے بچہ، غلام اور حفاظت ونگرانی کرنے والا سب اسے لکھ سکتے ہیں جبکہ وہ اس کی سمجھ اور فقاہت رکھتے ہوں، وہ لوگ جو لکھنے کے لئے مقرر ہوتے ہیں والیوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ انہیں چھوڑ دیں مگر جب کہ وہ اپنی رضا مندی کے ساتھ کنارہ کش ہوجائیں۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : لوگوں کے درمیان معاہدے کوئی نہیں لکھ سکتا مگر وہی جو انہیں جاننے والا ہو، فی نفسہ عادل ہو اور مامون ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” والیکتب بینکم کاتب بالعدل “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 379 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : پس اس بنا پر باکاتب کے متعلق ہے یعنی چاہیے کہ ان کے درمیان عادل کاتب لکھے، پس ” بالعدل “ محل صفت میں واقعہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (14) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا یاب کاتب ان یکتب “۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے کاتب کو انکار کرنے سے منع کیا ہے، لوگوں نے کاتب پر کتاب کے وجوب اور شاہد پر شہادت کے وجوب میں اختلاف کیا ہے، پس طبری اور ربیع نے کہا ہے، ” کاتب پر واجب ہے جب اسے لکھنے کا حکم دیا جائے اور حسن نے کہا ہے : یہ اس پر ایسی جگہ واجب ہے جہاں اس کے سوا اور کوئی کاتب میسر نہ ہو، کیونکہ اس کے انکار سے صاحب قرض کا نقصان ہوجائے گا، پس اگر صورت حال اس طرح ہو تو پھر یہ فرض ہے اور اگر اس کے سوا دوسرے کاتب پر قدرت ہو تو پھر اس کے لئے وسعت اور گنجائش ہے جبکہ وہ دوسرا اس ذمہ داری کو ادا کرے، سدی نے کہا ہے : کاتب پر فارغ ہونے کی حالت میں لکھنا واجب ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے، مہدوی نے ربیع اور ضحاک سے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” ولا یاب “ اس ارشاد کے ساتھ منسوخ ہے (آیت) ” ولایضار کاتب ولا شھید “۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ ان کے نظریہ پر جاری ہوتا ہے جن کا یقین یا ظن یہ ہے کہ پہلے متبایعین میں سے جو بھی لکھنا پسند کرے اس پر لکھنا واجب تھا اور اس کے لئے انکار کرنا جائز نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد نے اسے منسوخ کردیا۔ (آیت) ” ولایضار کاتب ولا شھید “۔ اور یہ بعید ہے، کیونکہ اس کا واجب ہونا ہر اس پر ثابت نہیں جو بھی متبایعین میں سے اس کا ارادہ کرے وہ جو بھی ہو، اگر کتابت واجب ہوتی تو اس کے عوض اجرت لینا صحیح نہ ہوتا، کیونکہ فرائض میں سے کسی فعل پر اجرت لینا باطل ہے اور اس دستاویز کے لکھنے پر اجرت لینے کے جواز میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے، ابن عربی (رح) نے کہا ہے : صحیح یہ ہے کہ یہ امر ارشاد ہے پس وہ لکھتا ہے اور اپنا حق لے لیتا ہے اور ابی یابی شاذ ہے اور یہ نہیں آتا مگر اس طرح قلی یقلی، ابی یابی، غسی یغسی اور جی الخراج یحی “ اور یہ بھی پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (15) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کما علمہ اللہ فلیکتب “۔ کما میں کاف ان یکتب کے متعلق ہے معنی یہ ہے کتبا کما علمہ اللہ، یعنی لکھنا اس طرح ہو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ اس کے متعلق ہو جو اس قول میں ہے ” ولا یاب “ معنی کے اعتبار سے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پر علم کتابت کے ساتھ انعام و احسان فرمایا ہے پس وہ انکار نہ کرے اور چاہیے کہ اسے اسی طرح فضیلت دے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پر (اسے) فضیلت دی ہے اور یہ احتمال، بھی ہو سکتا ہے کہ کلام اس معنی پر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” ان یکتب “ کے پاس مکمل ہو پھر (آیت) ” کما علمہ اللہ “ یہ نیا کلام ہو اور کاف قول باری تعالیٰ ” فلیکتب “ کے متعلق ہو۔ مسئلہ نمبر : (16) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والیملل الذی علیہ الحق “۔ اور املا کرانے والا وہ مقروض اور مطلوب ہے جو اپنے بارے میں اپنی زبان سے اقرار کرتا ہے تاکہ جو اس کے ذمہ واجب الاداء ہے وہ اس کے بارے آگاہ کرے، املا اور املال دو لغتیں موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا “۔ (الفرقان : 5) ترجمہ : پھر یہ پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اسے ہر صبح وشام (تاکہ ازبر ہوجائیں۔ اصل امللت ہے اس میں لام کو یا سے بدل دیا گیا ہے کیونکہ یہ زیادہ خفیف ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اسے املا کا حکم دیا ہے جس پر حق ہے، کیونکہ شہادت اس کے اقرار کے سبب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں تقوی کا حکم دیا ہے جس میں وہ املا کرائے اور حق میں سے کوئی شے کم کرنے سے منع کیا ہے، اور النحس کا معنی کم کرنا اور گھٹانا ہے، اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ (آیت) ” ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن “۔ (البقرہ : 228) ترجمہ : اور یہ جائز نہیں ان کے لئے کہ چھپائیں جو پیدا کیا ہے اللہ نے ان کے رحموں میں۔ مسئلہ نمبر : (17) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان کان الذی علیہ الحق سفیھا او ضعیفا “۔ بعض لوگوں نے کہا ہے : ضعیف سے مراد صغیر ہے اور یہ غلطی ہے کیونکہ سفیہ (بےوقوف) کبھی بڑا بھی ہوتا ہے اس کا بیان آگے آئے گا، (آیت) ” او ضعیفا “ یعنی ایسا کبیر جس کی عقل نہ ہو، (آیت) ” اولا یستطیع ان یمل “۔ وہ جس پر قرض ہو اللہ تعالیٰ نے ان کی چار قسمیں قرار دی ہیں : ایک مستقل بنفسہ ہو خود املا کرائے۔ اور تین قسموں کے وہ ہیں جو خود املا نہیں کرا سکتے اور ہر وقت ان کی تکلیفیں اور اعذار باقی رہتے ہیں، معاملات کے سوا کئی جہتوں میں ان کا حق اس طرح مترتب ہوتا ہے جس طرح کہ میراث جب وہ تقسیم کی جائے، وغیر ذالک اور وہ بےوقوف، کمزور اور وہ آدمی ہے جو املا کرانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ پس سفیہ وہ ہے جس کی رائے اس مال کے بارے میں عمدہ ہو جسے نہ تو اپنی ذات کے لئے لینا اچھا ہوتا ہے اور نہ اس میں سے کوئی شے دینا (حسین ہوتا ہے) اسے اس گھٹیا کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی بنائی باریک اور ہلکی ہو، اور بد زبان کو سفیہ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ بدزبانی لوگوں میں سے جاہلوں اور کمزور عقل والے لوگوں میں داخل کردیتی ہے اور عرب کبھی عقل کی کمزوری پر سفہ کا اطلاق کرتے ہیں اور کبھی بدنی کمزوری پر۔ شاعر نے کہا ہے : نخاف ان تسفہ احلامنا ویجھل الدھر مع الجالم : اس میں عقل کی کمزوری کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اور ذو الرمۃ نے کہا ہے : مشین کما ھتزت رماح تسفھت اعلیھا مر الریاح النواسم : اس میں بدنی کمزوری اور ضعف کے معنی میں مذکور ہے یعنی اس نے اسے کمزور اور نرم پایا تو اس نے اسے حرکت دی۔ تحقیق انہوں نے کہا ہے : الضعف ضاد کے ضمہ کے ساتھ بدن کی کمزوری کے لئے اور ضاد کے فتحہ کے ساتھ رائے میں کمزوری کے لئے آتا ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں لغتیں ہیں اور پہلی زیادہ صحیح ہے۔ جبکہ ابو داؤد نے حضرت انس بن مالک (رح) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک آدمی خریداری کرتا تھا اور اس کی عقل میں ضعف (کمزوری) تھی، پس اس کے گھر والے حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی یا نبی اللہ ﷺ فلاں کو روک دیجئے کیونکہ وہ خرید وفروخت کرتا ہے اور اس کی عقل میں ضعف ہے، چناچہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے بلایا اور اسے بیع کرنے سے روک دیا، تو اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں تو ایک ساعت بھی خرید وفروخت کے بغیر نہیں رہ سکتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر تو خریدوفروخت کے بغیر نہیں رہ سکتا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر تو خرید وفروخت کو چھوڑ نہیں سکتا تو پھر یہ کہہ کرلے کہ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی دھوکہ نہیں (1) (سنن ابی داؤد باب فی الرجل یقول فی البیع لا خلابۃ، حدیث نمبر 3038، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ سلمی ترمذی نے حدیث انس سے بیان کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث صحیح ہے اور کہا ہے : بیشک ایک آدمی کی عقل میں ضعف تھا اور آگے حدیث ذکر کی (2) (جامع ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء فیمن یغدع فی البیع، حدیث نمبر 1171، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور امام بخاری نے اسے تاریخ میں ذکر کیا ہے اور اس میں یہ کہا ہے۔ “ جب تو بیع کرے تو یہ کہا کر دھوکہ نہیں ہے اور تو ہر سامان تین راتوں کے خیار کے ساتھ خریدا کر “۔ یہ آدمی حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھا اور یحییٰ اور واسع ابن حبان کا والد تھا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ منقذ یحییٰ اور واسع کا دادا تھا، یہ دونوں امام مالک کے شیخ تھے اور منقذ کا والد حبان تھا، اس کی عمر ایک سو تیس برس تھی، وہ حضور نبی مکرم ﷺ کی معیت میں ایک غزوہ میں زخمی ہوگئے اور زخم ان کے دماغ میں لگا جس سے ان کی عقل اور زبان میں وہم اور خلل پیدا ہوگیا۔ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے : حبان بن منقذ کمزور آدمی تھا اور اس کی قوت بصارت بھی کمزور تھی اس کے سر میں طمانچہ مارا گیا درآنحالیکہ اس کے سر میں زخم ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے ہر اس شے میں تین دن کا خیار رکھ دیا جو وہ خریدے گا اور اس کی زبان بھی بوجھل تھی، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : تو خرید وفروخت کر اور یہ کہہ کوئی دھوکہ وغیرہ قبول نہیں۔ “ پس میں اسے یہ کہتے ہوئے سنا کرتا تھا : لا خذابۃ لا خذابہ اسے حضرت ابن عمرو ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے، الخلابۃ کا معنی الخدیعۃ (دھوکہ دہی) ہے۔ اور اسی سے ان کا یہ قول ہے : اذا لم تغلب فاخلب “۔ (3) (ایضا، حدیث 1171) ( جب تو غالب نہ آسکے تو پھر حیلے اور چال سے مقصد تلاش کر۔ ) مسئلہ نمبر : (18) علماء کا اس آدمی کے بارے میں اختلاف ہے جسے تجربہ کی قلت اور عقل کے ضعف کی وجہ سے خریدوفروخت میں دھوکہ دیا جاتا ہو کیا اس پر پابندی عائد کی جائے یا نہیں ؟ تو امام احمد اور اسحاق (رح) نے اس پابندی کا قول کیا ہے۔ اور دوسروں نے کہا ہے اس پر پابندی نہیں لگائی جائے گی، دونوں قول ایک ہی مذہب میں ہیں۔ اور صحیح پہلا قول ہے، اس آیت کی بنا پر، اور حدیث طبیہ میں اس قول کی بناء پر، یانبی اللہ احجر علی فلان (اے اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ فلاں پر پابندی لگا دیجئے) البتہ اس قول کی بنا پر پابندی کا ترک کرنا ثابت ہوتا ہے، یا نبی اللہ انی لا اصبر عن البیع “۔ (اے اللہ تعالیٰ کے نبی ! ﷺ میں بیع سے رک نہیں سکتا) تو آپ ﷺ نے اس کے لئے بیع کو مباح قرار دیا اور اسے اس کے ساتھ خاص کردیا، کیونکہ وہ جسے خریدوفروخت “ میں دھوکہ دیا جاتا ہو چاہیے کہ اس پر پابندی لگادی جائے بالخصوص جب اس کی عقل ناقص اور فاسد ہو، اور جو شے اس کی خصوصیت پر دلالت کرتی ہے وہ وہ روایت ہے جسے محمد بن اسحاق (رح) نے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے، محمد بن یحییٰ بن حبان (رح) نے مجھے بیان کیا ہے : وہ میرے دادا منقز بن عمرو تھے اور وہ وہ آدمی تھے جن کے سر میں زخم آ لگا، تو ان کی زبان میں لکنت آگئی، اور انکی عقل چھن گئی (یعنی کمزور ہوگئی) وہ تجارت نہیں چھوڑتے تھے اور انہیں ہمیشہ دھوکہ دیا جاتا تھا، پس وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا :” جب تو بیع کرے تو یہ کہا کر کوئی دھوکہ (قبول) نہیں پھر تو جو سامان بھی خریدے گا تیرے لئے تین راتوں کا خیار ہوگا پس اگر تو اس پر راضی ہوجائے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور اگر راضی نہ ہو تو اسے اس کے مالک کے پاس لوٹا دے ، “ اور انہوں نے طویل عمر پائی ہے، وہ ایک سو تیس برس تک زندہ رہے ہیں اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ میں جب لوگ پھیل گئے اور تعداد میں کثیر ہوگئے تو وہ بازار میں خریدوفروخت کرتے تھے اور شے لے کر اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے حالانکہ انہوں نے غبن فاحش کھایا ہوتا، پھر گھر والے انہیں ملامت کرتین تھے اور کہتے کس کے لئے خریدتے ہو ؟ تو وہ کہتے : مجھے خیار حاصل ہے اگر میں پسند کروں تو لے لوں اور اگر نہ پسند کروں تو واپس لوتا دوں، تحقیق رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین دن کا خیار عطا فرمایا ہے، پس وہ دوسرے دن یا تیسرے دن سامان اس کے مالک پر واپس لوٹا دیتے تو وہ کہتا، قسم بخدا ! میں اسے قبول نہیں کروں گا، تحقیق تو نے میرا سامان لے لیا ہے اور مجھے دراہم دے دیئے ہیں، تو وہ کہتے : بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین دنوں کا اختیار عطا فرمایا ہے، پھر رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کوئی آدمی ادھر سے گزرتا تو وہ تاجر کو کہتا : تجھ پر افسوس ہے ! بلاشبہ یہ سچ بول رہا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اسے تین دنوں کا خیار عطا فرمایا تھا، اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے، ابو عمر نے الاستیعاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے : بخاری نے تاریخ میں عیاش بن ولید عن عبدا الاعلی عن ابن اسحاق کی سند سے اسے ذکر کیا ہے مسئلہ نمبر : (19) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اوضعیفا “۔ ضعیف سے مراد وہ آدمی ہے جس کی عقل میں نقص اور فساد داخل ہوچکا ہو، لکھوانے سے اس کی فطرت اور طبیعت عاجز ہو یا تو اس کے بولنے میں رکاوٹ ہونے کی وجہ سے یا اس کے گونگا ہونے کی وجہ سے یا ادائے کلام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اور یہ بھی کہ کبھی اس کا ولی باپ ہوتا ہے یا وصی، اور وہ جو املا کرانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتا وہ صغیر ہے اور اس کا ولی اس کا وصی ہوگا یا اس کا باپ ہوگا، اور وہ غائب ہے جو محل اشہاد سے غائب ہو یا تو بیماری کی وجہ سے یا اس کے علاوہ کسی عذر کی وجہ سے اور اس کا ولی اس کا وکیل ہوگا اور رہا گونگا تو یہ جائز ہے کہ وہ بھی ضعفاء میں سے ہو، اور اولی یہ ہے کہ وہ ان میں سے ہو جو استطاعت نہیں رکھتے، پس یہی وہ اصناف ہیں جو ممتاز ہو سکتی ہیں، ان کا تفصیلی بیان سورة النسارء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (20) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلیملل ولیہ بالعدل “۔ طبری نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ولیہ میں ضمیر الحق کی طرف عائد ہیں اور انہوں نے اس بارے میں ربیع سے اور ابن عباس ؓ سے بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ضمیر (آیت) ” الذی علیہ الحق “۔ کی طرف لوٹ رہی ہے اور یہی صحیح ہے، اور جو حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ صحیح نہیں ہے اور کس طرح گواہ اس شے پر شہادت دے سکتے ہیں اور سفیہ کے ذمہ اس کی املا کے سبب مال ڈال سکتے ہیں جس کا قرض ہو ! یہ شے شریعت میں جائز نہیں ہے مگر اس کا قائل ارادہ رکھتا ہے، بیشک وہ جو املا کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا بیماری کی وجہ سے یا عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے املا کرانے سے اس کی زبان لڑکھڑا جائے یا گونگا ہونے کی وجہ سے اور جب صورتحال اس طرح ہو تو مریض پر اور جس کی زبان گونگا ہونے وجہ سے املا کرانے سے عاجز ہو تو علماء میں سے کسی کے نزدیک کوئی ولی نہیں، مثلا جو بچے پر اور سفیہ پر ان کے نزدیک جو اس پر پابندی لگاتے ہیں کچھ ثابت نہیں، پس جب صورتحال اس طرح ہو تو صاحب حق (قرض کا مالک) عدل و انصاف کے ساتھ املا کرائے اور اسے سنائے جو اس سے عاجز ہے اور جب املا مکمل ہوجائے تو وہ اس کا اقرار کرائے اور یہ معنی آیت سے مراد نہیں ہے اور نہ یہ صحیح ہو سکتا ہے مگر صرف اس کے بارے میں جو بیماری کی وجہ سے املا کرانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور جن کا اس کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 380 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (21) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ولملل الذی علیہ الحق “۔ یہ اس پر دلیل ہے کہ بیشک اسے اس بارے میں امین بنایا گیا ہے جسے وہ شروع کر رہا ہے اور جسے وہ پورا کر رہا ہے اور یہ راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول ہونے کا تقاضا کرتا ہے جبکہ راہن اور مرتہن کا قرض کی مقدار میں اختلاف ہوجائے اور رہن موجود ہو۔ اور یہی اکثر فقہاء کا مذہب ہے، یعنی سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم اور اسے ہی ابن منذر نے پسند کیا ہے اور کہا ہے : کیونکہ مرتہن زیادتی کا دعوی کرنے والا ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے : البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ (گواہ لانا مدعی پر لازم ہے اور قسم مدعی علیہ پر ہے) اور امام مالک نے کہا ہے : اس صورت میں قول مرتہن کا قبول کیا جائے گا جبکہ وہ (راہن کے) قول اور رہن کی قیمت کے درمیان ہو اور اس سے زیادہ پر اس کی تصدیق نہیں کیا جائے گی، تو گویا آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ رہن اور اس کی قسم مرتہن کے لئے شاہد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” ولملل الذی علیہ الحق “۔ آپ کے اس نظریہ کا رد ہے، بیشک وہ جس پر حق ہے وہ راہن ہے اور یہ مسئلہ عنقریب آئے گا۔ اور اگر کوئی کہنے والا کہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے رہن کو شہادت اور کتاب (تحریر) کا بدل بنایا ہے اور شہادت مشہودلہ کے صدق پر دال ہے اس قول میں جو اس کے دعوی اور رہن کی قیمت کے درمیان ہو جب وہ اس کی قیمت کو پہنچ جائے اور زیادتی کے بارے میں کوئی دستاویز نہ ہو، تو اسے کہا جائے گا رہن اس پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کی قیمت کا قرض کی مقدار کے برابر ہونا واجب ہوتا ہے، بسا اوقات مرھونہ شے قلیل اور کثیر کے عوض ہوتی ہے، ہاں اکثر اوقات رہن قرض کی مقدار سے کم نہیں ہوتی اور یہ کہ وہ اس کے مطابق ہوتی ہے تو ایسا بھی نہیں۔ اور یہ کہنے والا کہتا ہے : قرض کی مقدار میں قسم کے ساتھ مرتہن کے قول کی تصدیق کی جائے گی یہاں تک کہ وہ رہن کی قیمت کے مساوی ہو، اور عرف اس پر نہیں ہے بسا اوقات قرض رہن سے کم ہوتا ہے اور یہی اس میں غالب ہے، پس ان کے اس قول کا کوئی نتیجہ نہیں۔ مسئلہ نمبر : (22) اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ مراد ولی ہے تو اس میں اس پر دلیل ہے کہ اس کا اقرار اپنے یتیم کے خلاف جائز ہے کیونکہ جب اس نے اسے املا کرایا تو اس کا قول اس پر اس بارے میں نافذ ہوگیا جو اس نے اسے لکھوایا۔ مسئلہ نمبر : (23) اور وہ سفیہ جس پر پابندی عائد کی گئی ہو اسکا اپنی ولی کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا فاسد ہے اس پر اجماع ہے یہ ہمیشہ کے لئے فسخ کردیا گیا ہے نہ کہ کوئی حکم ثابت کرے گا اور نہ کسی شے میں موثر ہوگا، پس اگر سفیہ تصرف کرے اور اس پر کوئی پابندی نہ ہو تو اس بارے میں اختلاف ہے اس کا بیان سورة النساء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (24) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “۔ الاشتھاد کا معنی ہے شہادت طلب کرنا (یعنی شاہد بنانا) اور لوگوں کے مابین یہ اختلاف ہے کہ کیا یہ فرض ہے یا مستحب ؟ اور صحیح یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (25) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” شھیدین “۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے ساتھ شہادت کو حقوق مالیہ، بدنیہ اور حدود میں مرتب فرمایا ہے اور سوائے زنا کے ہر شے میں دو گواہ مقرر کئے ہیں، جیسا کہ اس کا بیان سورة النساء میں آئے گا، اور شہید مبالغہ کا وزن ہے اور اس میں اس دلالت ہے جو شہادت اور وہ اس کی طرف سے بار بار ہو، تو گویا یہ اس کے عادل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (26) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” من رجالکم “۔ یہ کفار، بچوں اور عورتوں کو چھوڑنے کے بارے نص ہے اور رہے غلام ! تو لفظ انہیں شامل ہے اور مجاہد نے کہا ہے مراد آزاد مرد ہیں اور قاضی ابو اسحاق نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور اس میں مبالغہ کی حد تک بحث کی ہے اور علماء نے غلاموں کی شہادت کے بارے میں اختلاف کیا ہے پس شریح، عثمان البتی، احمد، اسحاق، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : غلام کی شہادت جائز ہے، بشرطیکہ وہ عادل ہو اور انہوں نے آیت کے لفظ کو غلبہ دیا ہے اور امام مالک، ابو حنیفہ، شافعی اور جمہور علماء رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : غلام کی شہادت جائز نہیں ہوتی اور انہوں نے غلامی کے نقص کو غلبہ دیا ہے اور علامہ شعبی اور نخعی نے تھوڑی سی شے میں اسے جائز قرار دیا ہے اور صحیح جمہور کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اذا تداینتم بدین “۔ اور خطاب (آیت) ” من رجالکم “ تک جاری ہے، پس ظاہر خطاب ان لوگوں کو شامل ہوگا جو آپس میں قرض کا لین دین کرتے ہیں اور غلام اپنے آقاؤں کی اجازت کے بغیر کسی شے کے مالک نہیں ہوتے۔ اور اگر وہ کہیں کہ آیت کے اول حصہ کا خاص ہونا اس کے آخر کے عموم کے ساتھ تعلق کے مانع نہیں ہے تو انہیں کہا جائے گا اسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کر رہا ہے : (آیت) ” ولا یاب الشھدآء اذا دعوا “۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” رجالکم “۔ اس پر دلیل ہے کہ اندھے اہل شہادت میں سے ہیں لیکن تب جب انہیں یقینی علم ہو۔ مثلا وہ جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے شہادت کے بارے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو اس سورج کو دیکھ رہا ہے پس تو اس کی مثل پر شہادت دے یا چھوڑ دے “ اور یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ شاہد کا اس شے کو دیکھنا شرط ہے جس کے بارے وہ شہادت دے رہا ہے نہ کہ وہ ایسے استدلال کے ساتھ شہادت دے جس میں اس کے خطا کرنے کا احتمال اور امکان ہو، البتہ اس کا اپنی بیوی کے ساتھ وطی کرنا جائز ہوتا ہے جب وہ اس کی آواز پہچان لے، کیونکہ وطی کا عمل کرنا غلبہ ظن کے ساتھ جائز ہے، پس اگر شب زفاف کوئی عورت اس کی طرف بھیج دی گئی اور اسے کہا گیا، یہ تیری بیوی ہے اور وہ اسے نہ پہچانتا ہو تو اس کے لئے اس سے وطی کرنا جائز ہے اور اس کے لئے ہدیہ قبول کرنا حلال ہوتا ہے قاصد کے قول کے ساتھ جو اس کے پاس آئے، اور اگر کوئی خبر دینے والا اسے زید کے بارے میں اقرار یا بیع یا قذف یا غصب کی خبر دے تب اس کے لئے مخبر عنہ کے خلاف شہادت دینا جائز نہیں ہے، کیونکہ شہادت کا راستہ یقین ہے اور ان کے سوا میں ظن غالب کا استعمال جائز ہوتا ہے اور اسی لئے امام شافعی، (رح) ابن ابی لیلیرحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : جب اسے نابینا ہونے سے پہلے اس کا علم ہو تو اندھا ہونے کے بعد اس کی شہادت جائز ہے، اور اس کے اور مشہود علیہ کے درمیان حائل ہونے والا اندھا پن مشہود علیہ میں غیبت اور موت کے طاری ہونے کی طرح ہے اور یہ ان کا مذہب ہے اور وہ جو اندھے کو اس بارے میں ادائے شہادت سے روکتے ہیں جو شہادت اس نے بصارت کے ساتھ لی ہو اس کی کوئی وجہ اور علت نہیں ہے اور اس کی شہادت اس نسب کے بارے میں صحیح ہوگی جو خبر مشہور سے ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ وہ ایسی شے کے بارے خبر دے جس کا حکم رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو۔ اور علماء میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اندھے کی شہادت کو ان چیزوں میں قبول کیا ہے جن کی شہادت کا ذریعہ آواز ہے کیونکہ انہوں نین اس کے ساتھ استدلال کو حد یقین تک پہنچنے والا خیال کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ آوازوں کا مشتبہ ہونا شکلوں اور رنگوں کے مشتبہ ہونے کی طرح ہی ہے، یہ استدلال ضعیف ہے، کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آنکھ والے کے لئے بھی آواز پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ نابینے آدمی کا طلاق وغیرہ میں آواز پر شہادت دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ آواز کو پہچانتا ہو، ابن القاسم نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک (رح) سے کہا : ایک آدمی دیوار کے پیچھے سے اپنے پڑوسی کی آواز کو سنتا ہے اور اسے دیکھتا نہیں، وہ یہ سنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہے (کیا) وہ اس پر شہادت دے سکتا ہے درآنحالیکہ اس نے اس کی آواز پہچان لی ہو ؟ تو امام مالک نے فرمایا : اس کی شہادت جائز ہے اور یہی حضرت علی بن ابی طالب ؓ قاسم بن محمد، شریح الکندی، شعبی، عطا بن ابی رباح، یحییٰ ابن سعید، ربیعہ، ابراہیم نخعی، امام مالک اور لیث رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (27) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتن “۔ معنی یہ ہے کہ اگر طالب دو مرد گواہ نہ لا سکے تو اسے چاہیے کہ وہ ایک مرد اور دو عورتیں لے آئے، یہ جمہور کا قول ہے، فرجل یہ مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے اور (آیت) ” وامراتن “ اس پر معطوف ہے اور خبر محذوف ہے۔ (تقدیر کلام یہ ہے) فرجل وامراتان یقومان مقامھما “۔ یعنی ایک مرد اور دو عورتیں دو مردوں کے قائم مقام ہوجائیں گے، اور غیر قرآن میں نصب بھی جائز ہے (یعنی) فاستشھدوارجلا وامراتین “۔ پس تم گواہ بناؤ ایک مرد اور دوعوریتں، اور سیبویہ نے بیان کیا ہے : ان خنجرا فخنجرا “۔ (اگر وہ خنجر لے کر آئے تو تم بھی خنجر لے کر آؤ) اور ایک قوم نے کہا ہے : بلکہ معنی یہ ہے کہ پس اگر دو مرد نہ ہوں، یعنی وہ نہ پائے جائیں تو دو عورتوں کو گواہ بنانا جائز نہ ہوگا مگر مرد نہ ہونے کی صورت میں، ابن عطیہ نے کہا ہے (1) (المحرر الوجیز) یہ ضعیف ہے اور آیت کے الفاظ یہ معنی نہیں دیتے بلکہ اس سے ظاہر جمہور کا قول ہے یعنی اگر گواہ بنانے والے کے پاس دو مرد نہ ہوں یعنی اگر صاحب حق اسے چھوڑ دے یا کسی عذر کے سبب اس کا قصد کرے تو اسے چاہیین کہ وہ ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لے، پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دو مردوں کی موجودگی کے باوجود ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی شہادت کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے سوا کسی اور میں اس کا ذکر نہیں فرمایا اور جمہور کے قول کے مطابق اسے صرف اموال میں جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ ان دونوں کے ساتھ ایک مرد بھی ہو بلاشبہ یہ اموال میں ہو سکتا ہے ان کے سوا میں نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اموال کو پختہ کرنے اور ان کی توثیق کرنے کے اسباب کثیر بنائے ہیں، کیونکہ انہیں حاصل کرنے کی جہتیں کثیر ہیں اور ان کے ساتھ عموم بلوی ہونے اور ان کا کاروبار بار بار ہونے کی وجہ سے، پس ان میں مضبوطی اور توثق کو کبھی لکھوانے کے ساتھ، کبھی گواہ بنا لینے کے ساتھ، بھی رہن کے ساتھ اور کبھی ضمان کے ساتھ رکھ دیا، اور ان تمام میں عورتوں کی شہادت کو مردوں کے ساتھ داخل کردیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” اذا تداینتم بدین “ سے یہ وہم نہیں ہوتا کہ یہ بضع کے ساتھ مہر کے قرض پر اور دم عمد کے صلح پر مشتمل ہے، کیونکہ وہ شہادت شہادت علی الدین نہیں ہے، بلکہ وہ شہادت علی النکاح ہے اور علماء نے ان معاملات میں اکیلی عورتوں کی شہادت جائز قرار دی ہے جن پر ضرورت کے وقت ان کے سوا کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا اور اسی طرح ضرورت کے وقت بچوں کی شہادت کی اجازت دی گئی ہے ان زخموں اور جھگڑوں میں جو ان کے آپس کے درمیان ہوں۔ تحقیق علماء نے زخموں میں بچوں کی شہادت کے بارے اختلاف کیا ہے اور وہ یہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (28) امام مالک (رح) نے اسے جائز قرار دیا ہے جب تک وہ مختلف اور متفرق نہ ہوں اور ان میں سے دو سے کم کی شہادت جائز نہیں ہے نہ بڑے کی چھوٹے پر اور نہ چھوٹے کی بڑے پر، اور علماء میں سے جو بچوں کے آپس کے جھگڑوں میں ان کی شہادت کے فیصلے کرتے تھے وہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ ہیں اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : ہمارے نزدیک اس پر اجماع کیا گیا ہے۔ اور امام شافعی (رح) امام ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم نے بچوں کی شہادت کو جائز قرار نہیں دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من رجالکم “ اور ” ممن ترضون “ اور ذوی عدل منکم “ اور یہ صفات بچوں میں موجود نہیں ہوتیں۔ مسئلہ نمبر : (29) جب اللہ تعالیٰ نے دو دعورتوں کی شہادت کو ایک آدمی کی شہادت کا بدل قرار دیا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ ان دونوں کا حکم ایک مرد کے حکم کی طرح ہو، پس اسی طرح ہمارے نزدیک آدمی کے لئے جائز ہے کہ وہ شاہد کے ساتھ قسم کھائے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک بھی اسی طرح ہے، لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ دو عورتوں کی شہادت کے ساتھ بھی قسم کھا سکتا ہے کیونکہ مطلقا دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کا عوض ہے، اور اس میں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب نے اختلاف کیا ہے اور وہ شاہد کے ساتھ قسم کے قائل نہیں اور انہوں نے کہا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے شہادت کو تقسیم کیا اور اسے متعدد شمار کیا، لیکن شاہد اور یمین کا ذکر نہیں کیا، لہذا اس کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز نہیں، کیونکہ جو تقسیم اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے یہ قسم اس پر زائد ہے اور یہ نص پر زیادتی ہے اور یہ نسخ ہے اور جنہوں نے یہ قول کیا ہے ان میں سے ثوری، اوزاعی، عطا، حکم بن عتبہ اور ایک جماعت ہے۔ بعض نے کہا ہے : شاہد کے ساتھ قسم لے کر فیصلہ کرنا قرآن کے ساتھ منسوخ ہے اور عطا نے یہ گمان کیا ہے، کہ سب سے پہلے عبدالملک بن مروان نے اس کے مطابق فیصلہ کیا، اور حکم نے کہا ہے : قسم اور شاہد کے ساتھ فیصلہ کرنا بدعت ہے اور سب سے پہلے اس کے ساتھ حضرت معاویہ ؓ نے فیصلہ کیا اور یہ سب غلط اور وہم ہے جو حق میں سے کسی شے کا فائدہ نہیں دیتا اور جو نفی کرے اور ناواقف ہو وہ اس کی طرح نہیں جو ثابت کرے اور جانتا ہو، اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : (آیت) ” واستشھدواشھیدین من رجالکم “۔ الآیہ۔ میں وہ نہیں ہے جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا شاہد کے ساتھ قسم کے بارے میں فیصلہ رد ہوسکتا ہو، اور نہ اس میں یہ ہے کہ اسے حقوق کے ساتھ نہیں ملایا جاسکتا اور نہ یہ کہ شہادت کے ساتھ صرف انہی چیزوں میں حق حاصل ہوتا ہے جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے کسی اور کا نہیں، کیونکہ وہ مطلوب کے انکار اور طالب کی قسم کے ساتھ باطل ہوجاتا ہے، بیشک وہ اس کے ساتھ بالاجماع مال کا مستحق ہوجاتا ہے اور اس کا ذکر کتاب اللہ میں نہیں ہے اور یہ ان کے خلاف قطعی رد ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : جنہوں نے یہ قول کیا ہے ان کے خلاف حجت یہ ہے کہ انہیں کہا جائے گا : آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے آدمی کے خلاف مال کا دعوی کرے تو کیا مطلوب اس کے بارے قسم نہیں دے گا جو حق اس پر ہے ؟ پس اگر وہ قسم کھالے تو وہ حق اس سے باطل ہوجائے گا اور اگر قسم سے انکار کر دے تو پھر صاحب حق (مدعی) قسم دے گا کہ اس کا حق یقینی ہے اور اس کا حق مدعی علیہ پر ثابت ہوجائے گا، پس یہ ایسی شے ہے جس میں لوگوں میں سے کسی کے نزدیک اور نہ ہی شہروں میں سے کسی شہر میں کوئی اختلاف ہے، پس کون سی شے ہے جسے انہوں نے لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کون سی کتاب میں اسے پایا ہے ؟ پس جس نے اس کا اقرار کیا تو اسے چاہیے کہ وہ شاہد کے ساتھ قسم کا بھی اقرار کرے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : پھر تعجب ہے کہ مشہور اور صحیح احادیث کے باوجود انہوں نے اسے بدعتی قرار دیا جس نے انکے مطابق عمل کیا، یہاں تک کہ اس کے فیصلے کو توڑ دیا اور اس کی رائے کو حقیر سمجھا، اس کے باوجود کہ اس کے مطابق خلفائے اربعہ ابی بن کعب، معاویہ، شریح عمرو بن عبدالعزیز اور آپ نے اس کے بارے اپنے عمال کی طرف لکھا، ایاس بن معاویہ ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو الزناد اور ربیعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و رحمۃ اللہ علہیم نے عمل کیا ہے اور اسی لئے امام مالک (رح) نے کہا ہے، اس بارے میں وہی کافی ہے جو سنت کے عمل میں سے گزر چکا ہے، کیا آپ ان کے بارے رائے رکھتے ہیں کہ ان کے احکام توڑ دیئے جائیں گے اور ان کی بدعت کے مطابق فیصلے کئے جائیں گے ؟ یہ شدید عدم توجہ اور غفلت ہے اور ایسی رائے ہے جو پختہ اور مضبوط نہیں، ائمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ حضرت عمرو بن دینار ؓ نے کہا ہے : یہ صرف اموال میں ہے، اسے سیف بن سلیمان نے قیس بن سعد سے انہوں نے عمرو بن دینار ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے۔ ابو عمر ؓ نے کہا ہے : اس حدیث کی یہ سند اصح الاسناد ہے اور یہ حدیث ہے جس کی اسناد میں کسی کے لئے کوئی طعن نہیں ہے اس حدیث کے بارے اہل معرفت کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں، یحییٰ القطان نے کہا ہے : سیف بن سلیمان ثابت اور مضبوط راوی ہیں میں نے ان سے زیادہ حافظ کوئی نہیں دیکھا اور نسائی نے کہا ہے : یہ اسناد جید ہے، سیف ثقہ راوی ہے اور قیس ثقہ راوی ہے اور مسلم نے ابن عباس ؓ کی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ ابو بکر البزار نے کہا ہے : سیف بن سلیمان اور قیس بن سعد دونوں ثقہ راوی ہیں اور جو ان دونوں کے بعد ہیں وہ ثقاہت اور عدالت میں اپنی شہرت کے سبب ذکر سے مستغنی ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کوئی ایک بھی نہیں جس نے شاہد کے ساتھ قسم کا انکار کیا ہو، بلکہ اس کے بارے ان سے قول مروی ہیں اور مدینہ طیبہ کے جمہور اہل علم اسی موقف پر ہیں اور اس میں حضرت عمروہ بن زبیر اور ابن شہاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اختلاف مروی ہے، معمر نے کہا ہے : میں نے زہری سے یمین مع الشاہد کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : یہ ایسی شے ہے جسے لوگوں نے ایجاد کیا ہے۔ دو شاہدوں کا ہونا ضروری ہے اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ جب قضا کے والی بنے تو پہلا فیصلہ ایک شاہد اور قسم کے ساتھ کیا اور امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب، امام شافعی (رح) اور آپ کے متبعین، امام احمد، اسحاق، ابو عبید، ابو ثور، داؤد بن علی، اور محدثین کی ایک جماعت رحمۃ اللہ علہیم نے یہی کہا ہے اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ سے اس کے بارے متواتر آثار ہیں اور کئی صدیوں سے اہل مدینہ کا اس پر عمل ہے، اور امام مالک نے فرمایا ہے : ہر شہر میں ایک شاہد اور قسم کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور آپ نے الموطا میں اس کے سوا کسی مسئلہ کے لئے حجت اور دلیل بیان نہیں فرمائی اور آپ کے ساتھ یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ کرنے میں اختلاف نہیں کیا گیا اور نہ ہی مدینہ طیبہ اور مصر وغیرہما میں آپ کے اصحاب میں سے کسی سے اختلاف کیا گیا ہے اور ہر شہر میں مالکی اس کے سوا اپنے مذہب سے نہیں پہچانے جاسکتے سوائے ہمارے پاس اندلس میں، کیونکہ یحی (بن یحی) نے گمان کیا ہے کہ انہوں نے لیث کو اس کے مطابق فتوی دیتے نہیں دیکھا اور انہوں نے یہ موقف اپنایا ہے اور اس مسئلہ میں یحی نے امام مالک (رح) سے اختلاف کیا ہے باوجود اس کے کہ یہ ان کی سنت اور دارالہجرت کے عمل سے مخالفت ہے۔ پھر یمین مع الشاہد رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ایک حکم کی زیادتی ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے عورت کو اپنی پھوپھی اور اپنی خالہ پر نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا تنکح المراۃ علی عب تھا، حدیث نمبر 4718، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (یعنی پہلے کسی آدمی کے نکاح میں پھوپھی ہو اور اوپر سے دوسرا نکاح بھتیجی یا پہلے خالہ ہو اور پھر بھانجی آجائے تو یہ دونون ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں) اس کے باوجود کہ اللہ تاعلیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” واحل لکم ما ورآء ذلکم “۔ (النسائ : 24) ترجمہ : اور حلال کردی گئی ہیں تمہارے لئے ماسوا ان کے۔ اور جیسا کہ آپ ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا اور درندوں میں سے ہر ذی ناب کا، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” قل لا اجد “۔ (الانعام : 145) ترجمہ : آپ فرمائیے میں نہیں پاتا۔ اور اسی طرح مسح علی الخفین “ کا حکم ہے حالانکہ قرآن کریم میں صرف پاؤں کو دھونے یا ان کا مسح کرنے کے بارے وارد ہے اور اس قسم کی مثالیں کثیر ہیں۔ اور اگر یہ کہا جانا جائز ہو کہ قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کے یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ کو منسوخ کردیا ہے تو پھر یہ کہنا بھی جائز ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے یہ ارشاد : (آیت) ’ واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ (بقرہ : 275) اور (آیت) ” الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ (النسائ : 29) ترجمہ : مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری باہمی رضا مندی سے۔ بیع مزابنہ، بیع الغرر، ان چیزوں کی بیع جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئیں، یہاں تک کہ وہ تمام بیوع جو ممنوع ہیں ان کی نہی کے لئے ناسخ ہیں اور یہ کسی کے لئے بھی جائز نہیں، کیونکہ سنت کتاب اللہ کے لئے مبین اور وضاحت کرنے والی ہے۔ اور اگر کہا جائے : بیشک جو حدیث میں وارد ہے اور وہ ایک معین فرد کے بارے فیصلہ ہے اور اس میں عموم نہیں ہے تو ہم کہیں گے، بلکہ وہ اس قاعدہ کی تقعید (روک دینا) سے عبارت ہے، گویا کہ انہوں نے یہ کہا : رسول اللہ ﷺ نے یہ ایک شاہد اور قسم کے ساتھ حکم ثابت کیا ہے اور جو اس تاویل کی شہادت دیتی ہیں ان میں سے ایک وہ روایت ہے جسے ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حقوق میں ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ فرمایا اور قیاس اور نظر وفکر کے اعتبار سے ہم قسم کو دو عورتوں کی نسبت زیادہ قوی پاتے ہیں، کیونکہ ان دونوں کا لعان میں کوئی داخل نہیں ہے اور قسم لعان میں داخل ہوتی ہے۔ اور جب حدیث صحیح ہے تو پھر اس کے ساتھ کلام کرنا واجب ہے اور سنت ان کی محتاج نہیں ہوتی جو اس کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ جو اس سے مخالفت کرے گا وہی اس کے خلاف حجت بن جائے گی، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (30) اور جب یہ بات پختہ ہوگئی اور یمین مع الشاہد کے ساتھ حکم ثابت ہوگیا، تو قاضی ابو محمد عبد الوہاب نے کہا : یہ اموال اور ان کے متعلقات کے بارے ہے بدنی حقوق کے بارے نہیں، جو بھی یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا قائل ہے ان تمام کی طرف سے اس پر اجماع ہے، فرمایا : کیونکہ اموال کے حقوق ابدان کے حقوق سے پست اور ہلکے ہوتے ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان عورتوں کی شہادت قبول ہے، اور عمدا زخم لگانے کے بارے میں امام مالک (رح) کا قول مختلف ہے، کیا اس میں ایک گواہ اور قسم کے ساتھ قصاص ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس میں دو روایتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ساتھ قصاص اور دیت کے درمیان اختیار ثابت ہوجائے گا اور دوسری یہ ہے کہ اس سے کوئی شے بھی ثابت نہ ہوگی کیونکہ یہ بدنی حقوق میں سے ہے، فرمایا : اور یہی صحیح ہے۔ امام مالک نے الموطا میں کہا : وہ (یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ) صرف اموال میں ہو سکتا ہے اور عمرو بن دینار نے بھی یہی کہا ہے اور مازری نے کہا ہے : وہ (یمین مع الشاہد کے ساتھ فیصلہ) صرف اموال میں ہو سکتا ہے اور عمرو بن دینار نے بھی یہی کہا ہے اور مازری نے کہا ہے : بغیر کسی اختلاف کے اسے صرف مال میں قبول کیا جائے گا اور محض نکاح اور طلاق میں بغیر کسی اختلاف کے اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر شہادت کا مضمون مال نہ ہو، لیکن وہ مال تک پہنچانے والی ہو، جیسا کہ وصیت اور موت کے بعد نکاح کے بارے شہادت دینا، یہاں تک کہ اس کے ثابت ہونے سے صرف مال وغیرہ کا مطالبہ کیا جائے گا تو اس کی قبولیت میں اختلاف ہے، پاس جنہوں نے مال کا لحاظ رکھا ہے انہوں نے اسے قبول کیا ہے جیسے وہ اسے مال میں قبول کرتے ہیں اور جنہوں نے حال کا لحاظ رکھا ہے انہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ اور مہدوی نے کہا ہے : عام فقہاء کے قول کے مطابق حدود میں عورتوں کی شہادت جائز نہیں اور اسی طرح اکثر علماء کے قول کے مطابق نکاح اور طلاق میں بھی (ان کی شہادت جائز نہیں) اور یہی امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) وغیرہما کا مذہب ہے وہ صرف اموال میں شہادت دے سکتی ہیں اور ہر وہ معاملہ جس میں وہ خود شہادت نہیں دے سکتیں وہ اس میں اپنے سوا کسی اور کی شہادت پر بھی شہادت نہیں دے سکتیں، چاہے انکے ساتھ کوئی مرد ہو یا نہ ہو اور وہ شہادت نقل نہیں کرسکتیں مگر مرد کے ساتھ (جبکہ) انہوں نے مرد اور عورت سے شہادت نقل کی ہو، اور ان تمام معاملات میں دو عورتوں کی شہادت کے ساتھ فیصلہ کیا گا جن میں ان کے سوا کوئی حاضر نہ ہو سکتا ہو، جیسا کہ ولادت اور ولادت کے وقت بچے کا رونا وغیرہ، یہ سب امام مالک کا مذہب ہے اور بعض مسائل میں اختلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (31) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ممن ترضون من الشھدآء “۔ یہ رجل وامراتان کی صف ہونے کی بنا پر محل رفع میں ہے، ابن بکیر وغیرہ نے کہا ہے : یہ حکام کو خطاب کیا گیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ عمدہ قول نہیں ہے بلکہ یہ خطاب تمام لوگوں کو ہے لیکن جن کا اس قضیہ کے ساتھ تعلق ہے وہ صرف حکام ہیں اور یہ کتاب اللہ میں بہت زیادہ ہے کہ ان احکام میں خطاب عام ہوتا ہے جن کے ساتھ تعلق بعض کا ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (32) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ممن ترضون من الشھدآء “۔ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ گواہوں میں سے وہ بھی ہیں جو پسند نہیں کئے جاتے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو عدالت پر محمول نہ کیا جائے یہاں تک کہ وہ ان کے لئے ثابت ہوجائے اور یہ معنی اسلام پر زائد ہے اور یہ جمہور کا قول ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : ہر وہ مسلمان جس کا اسلام ظاہر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ظاہری فسق سے سلامت اور محفوظ ہو تو وہ عادل ہے، اگرچہ وہ مجہول الحال ہو۔ اور شریح، عثمان البتی اور ابو ثور نے کہا ہے : وہ مسلمانوں میں سے عادل لوگ ہیں اگرچہ وہ غلام ہوں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں پس انہوں نے حکم کو عام قرار دیا ہے اور اس سے شہری کے خلاف بدوی (جنگ میں رہنے والا) کی شہادت کا قبول ہونا لازم آتا ہے، بشرطیکہ وہ عادل اور پسندیدہ ہو اور یہی امام شافعی (رح) اور ان کے موافقت کرنے والوں نے کہا ہے اور وہ (بھی) ہمارے مردوں اور ہمارے اہل دین میں سے ہے، اور اس کا بدوی ہونا اس کے دوسرے شہر سے ہونے کی طرح ہے اور قرآن کریم میں آیات عمومات عادلوں کی شہادت قبول کرنے پر دال ہیں اور وہ بدوی اور شہری کو مساوی قرار دیتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے (آیت) ” ممن ترضون من الشھدآء “۔ اور مزید ارشاد فرمایا : (آیت) ” واشھدوا ذوی عدل منکم “۔ (اور تم اپنے میں سے عدل کرنے والوں کو گواہ بنالو) پس ” منکم “ میں خطاب مسلمانوں کو ہے اور یہ یقینا اس کا تقاضا کرتا ہے کہ عدالت کا معنی بالضرور اسلام پر زائد ہو (یعنی وہ مسلمان ہونے ساتھ عادل بھی ہو) کیونکہ صفت موصوف پر زائد ہوتی ہے اور اسی طرح (آیت) ” ممن ترضون “۔ بھی اسی کی مثل ہے، بخلاف اس کے جو امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے پھر اس کا پسندیدہ ہونا معلوم نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی حالت کو آزما لیا جائے، پس اس سے لازم آتا ہے کہ فقط ظاہر اسلام پر اکتفاء نہ کیا جائے، امام احمد بن حنبل (رح)، امام مالک (رح) نے ان سے ابن وہب کی روایت میں شہری کے خلاف بدوی کی شہادت شہر میں رہنے والے کے خلاف جائز نہیں ہوتی (1) (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام، باب من لا تجوز شھادۃ، حدیث نمبر 2357، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور صحیح یہ ہے کہ اس کی شہادت جائز ہے جبکہ وہ عادل اور پسندیدہ ہو جیسا کہ اس کا بیان سورة النساء اور سورة البراۃ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں سفر یا حضر میں شہری کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور جب وہ سفر میں ہو تو اس کی شہادت قبول ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : عدالت سے مراد احوال دینیہ میں اعتدال ہے اور یہ تب مکمل ہوتا ہے کہ وہ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرنے والا ہو، اپنی مروت کی حفاظت کرنے والا ہو اور گناہ صغیرہ کو ترک کرنے کا محافظ ہو اور امانت کا ظاہر یہ ہے کہ اسے چھپایا نہ جائے، (غفلت نہ برتی جائے) اور کہا گیا ہے ،: عادل قرار دینے والے کے گمان میں باطن صاف ہو اور سیرت مستقیم ہو اور یہ معنی باہم متقارب ہیں۔ مسئلہ نمبر : (33) جب شہادت ولایت عظیمہ اور مرتبہ بلند ہے اور یہ غیر کے قول کے خلاف قبول کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں رضا اور عدالت کی شرط لگائی ہے، پس شاہد کے حکم میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق واوصاف کے ساتھ منفرد ہو اور فضائل و کمالات سے آراستہ اور مزین ہو، یہاں تک کہ اسے دوسروں پر فضیلت و برتری حاصل ہو اور وہی فضیلت اس کا قول قبول کرنے کے بارے اس کے لئے رتبہ اختصاص ثابت کرتی ہو اور اس کی شہادت کے ساتھ مطلوب کے ذمہ کے مشغول ہونے کے بارے حکم لگایا جاسکتا ہو، ہمارے علماء کے نزدیک اجتہاد اور امارات و علامات کے ساتھ استدلال کرنے کے جواز پر اسی شے میں جس کے معانی اور احکام مخفی اور پوشیدہ ہوں یہ بہت بڑی دلیل ہے، اس کا بیان سورة یوسف میں تفصیل کے ساتھ آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، اور اس میں ایسی دلیل موجود ہے جو امر کو حکام کے اجتہاد کے سپرد کرنے پر دلالت کرتی ہے اور بسا اوقات وہ شاہد میں غفلت یا شک کو دیکھ لیتا ہے اور اس وجہ سے اس کی شہادت رد کردیتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (34) امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اموال میں ظاہر اسلام پر اکتفا کیا جائے گا لیکن حدود میں نہیں، اور یہ مناقضہ ہے جو آپ کے کلام کو ساقط کردیتا ہے اور آپ پر اس کے مقاصد فاسد کردیتا ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں : یہ حقوق میں سے ایک حق ہے، پس شہادت میں فقط ظاہر دین پر ہی اکتفا نہ کیا جائے گا جیسا کہ حدود میں، ابن عربی نے یہی کہا ہے۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت میں)
Top