Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! جب تم آپس میں کسی میعاد معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اسے خدا نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے اور جو شخص قرض لے وہی (دستاویز کا) مضمون بول کر لکھوائے اور خدا سے کہ اس کا مالک ہے خوف کرے اور زر قرض میں سے کچھ کم نہ لکھوائے اور اگر قرض لینے والا بےعقل یا ضعیف ہو یا مضمون لکھوانے کی قابلیت نہ رکھتاہو تو جو اس کو ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے کے) گواہ کرلیا کرو۔ اور اگر دو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلادے گی اور جب گواہ (گواہی کے لئے) طلب کئے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض تھوڑا ہو یا بہت اس (کی دستاویز) کے لکھنے لکھانے میں کاہلی نہ کرنا یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہہ بھی نہیں پڑے گا ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو تو اگر (ایسے معاملے کی) دستاویز نہ لکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور جب خریدوفروخت کیا کرو تو بھی گواہ کرلیا کرو اور کاتب دستاویز اور گواہ (معاملہ کرنے والوں) کسی طرح کا نقصان نہ کریں۔ اگر تم (لوگ) ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور خدا سے ڈرو اور (دیکھو کہ) وہ تم کو (کیسی مفید باتیں) سکھاتا ہے اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
آیت نمبر 282 تا 283 ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم ادھار کا مثلا بیع سلم کا اور قرض کا معاملہ ایک مدت معلومہ کے لیے کرنے لگو تو اس کو دستاویز کے طور پر نزاع دفع کرنے کیلئے لکھ لیا کرو اور تمہارے درمیان قرض (کی تحریر) لکھنے والے کو چاہیے کہ حق (و انصاف) سے لکھے مال اور مدت میں نہ زیادتی کرے اور نہ کمی۔ اور لکھنے والے کو لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ جب اس سے لکھنے کے لیے کہا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو لکھنا سکھلایا ہے۔ یعنی کتابت کے ذریعہ اس کو فضیلت بخشی ہے لہٰذا لکھنے میں بخیلی نہ کرے۔ اور کاف، یابَ سے متعلق ہے پس چاہیے کہ وہ لکھ دے۔ یہ تاکید ہے۔ اور جس پر حق ہے (یعنی) مقروض کو چاہیے کہ کاتب کو لکھائے۔ اس لیے کہ وہی مشہور علیہ ہے تو اقرار کرے تاکہ معلوم ہو کہ اس پر کیا واجب ہے ؟ اور کاتب کر لکھانے میں اپنے رب اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور حق میں سے کچھ بھی کم نہ کرے پس اگر مدیون کم عقل فضول خرچ ہو یا صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے (جسمانی طور) پر ضعیف ہو۔ یا گونگا ہو یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے لکھانے پر قادر نہ ہو تو اس کے کارندے کو چاہیے کہ ٹھیک ٹھیک لکھائے (کارندہ) خواہ والد ہو، یا وصی ہو، یا منیجر ہو، یا مترجم ہو، اور قرض پر بالغ، مسلمان آزاد مردوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لینا چاہیے۔ اور اگر دو مرد گواہ میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوجائیں، ایسے گواہ جن کو تم ان کے دین اور عدالت کی وجہ سے پسند کرتے ہو اور عورتوں کے دو عدد ہونے میں مصلحت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک شہادت بھول جائے ان کی عقل اور یادداشت کے ناقص ہونے کی وجہ سے تو ان میں سے ایک یعنی یاد رکھنے والی دوسری یعنی بھولنے والی کو یاد دلا دے (فَتُذکِّر) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے حقیقت میں اذکار لام علت کے داخلہ کا محل ہے، ای لِتُذکّرَ اِنْ ضلَّتْ ، اگر بھول جائے تو یاد دلادے، اور لام علت ضلال پر اس لیے داخل ہوا ہے کہ وہی سبب تذکیر ہے اور ایک قراءت میں، اِنْ شرطیہ کسرہ اور تذکر رفع کے ساتھ جملہ مستانفہ اور جواب شرط ہے اور جب گواہ بننے یا گواہی دینے کے لیے گواہوں کو بلایا جائے، ” ما “ زائدہ ہے، تو انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ادائیگی کی میعاد کی تعیین کے ساتھ لکھانے میں تساہل نہیں برتنا چاہیے، یعنی جس پر تم نے حق کی شہادت دی ہے، اس کے کثرت سے واقع ہونے کی وجہ سے اکتانا نہیں چاہیے (الی اجلہ) تکتبوا کی ضمیر سے حال ہے۔ یہ لکھ لینا اللہ کے نزدیک زیادہ قربین عدل ہے اور شہادت کو قائم کرنے پر زیادہ معاون ہے اس لیے کہ یہ تحریر شہادت کی یاد دلاتی ہے اور زیادہ قریب ہے اس کے کہ تم حق کی مقدار اور مدت کے بارے میں شک میں نہ پڑو (اور) اگر لین دین دست بدست (نقد) ہو جس کا تم لین دین کرتے رہتے ہو (یعنی مبیع اور ثمن پر) دست بدست قبضہ کرتے ہو اور اس کی کوئی مدت نہیں ہوتی (یعنی ادھار نہیں ہوتا) اور (تجارۃً حاضرۃً ) ایک قراءت میں نصب کے ساتھ ہے اس صورت میں ” تکون “ ناقصہ ہوگا اور اس کا اسم، تجارۃ (کی طرف لوٹنے والی) ضمیر ہوگی تو تمہارے لیے اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نہ لکھو، اور تجارت سے مراد سامان تجارت ہے (تب بھی تم اس پر) گواہ کرلیا کرو جب خریدو فروخت کرو اس لیے کہ یہ بات اختلاف کو زیادہ ختم کرنے والی ہے، اور (شہادت کا یہ حکم اور ماقبل میں کتابت کا حکم) استحبابی ہے۔ اور کاتب و گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جائے یعنی صاحب حق اور جس پر حق ہے نقصان نہ پہنچائیں۔ (تحریر) میں تحریف کرکے یا گواہ کو اور کاتب کو گواہی اور کتابت سے روک کر اور نہ صاحب حق کاتب اور گواہ کو تکلیف پہنچائے ان کو ایسی بات کے لیے مجبور کرکے جو شہادت اور کتابت کے لائق نہیں اور اگر تم ممنوعہ حکم کا ارتکاب کروگے تو یہ تمہارے حق میں ایک گناہ ہے جو تم کو لاحق ہوگا۔ یعنی طاعت سے خروج ہے، اس کی امر و نہی کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ تم کو تمہارے معاملات کی مصلحتیں سکھاتا ہے اور (وَیعلمکم، اتقوا کی ضمیر سے) حال مقدرہ ہے۔ یا کلام مستانفہ ہے اور اللہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والا ہے اور اگر تم حالت سفر میں ہو یعنی مسافر ہو اور ادھار لینے دینے کی نوبت آجائے اور کسی لکھنے والے کو نہ پاؤ تو رہن رکھنے کی چیزیں ہی قبضہ میں دیدی جائیں کہ جن کے ذریعہ تم معاملہ مضبوط کرلو، اور ایک قراءت میں ” رُھُنٌ“ ہے اور حدیث میں حالت حضر اور کاتب دستیاب ہونے کی صورت میں بھی رہن کو بیان کیا گیا ہے، اس لیے کہ مذکورہ دونوں قیدیں اس لیے ہیں کہ حالت سفر میں مضبوطی کی ضرورت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ اور مقبوضۃ کے لفظ سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ رہن میں قبضہ شرط ہے، اور یہ کہ خود مرتہن یا اس کا وکیل قبضہ کرلے تو کافی ہے اور اگر آپس میں ایک دوسرے پر دائن اور مدیون کو اپنے حق کے بارے میں اعتبار ہو تو رہن نہ رکھے۔ تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے (یعنی مدیون) تو اس کو چاہیے کہ اس کا دین ادا کرے اور اللہ سے جو کہ اس کا رب ہے اداء دین کے بارے میں ڈرتا رہے اور جب تم کو ادائے شہادت کیلئے بلایا جائے تو تم شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو کوئی اسے چھپائے گا تو اس کا قلب گنہگار ہوگا اور قلب کا مخصوص طور پر ذکر اس لیے کیا ہے کہ وہی محل شہادت ہے اور اسلئے بھی کہ جب قلب گنہگار ہوگا تو اس کی اتباع میں دیگر اعضاء بھی گنہگار ہوں گے تو گنہگاروں کے مانند ان کے ساتھ سزا کا معاملہ کیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے تمہارے اعمال میں سے اس سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : تَدَایَنْتُمْ (تَدَایُنٌ) تَفَاعُلٌ، ماضی جمع مذکر حاضر : تم نے قرض کا لین دین کیا۔ قولہ : تعامَلْتُمْ اس کا اضافہ تَدَایَنْتُمْ ، کے بیان معنیٰ کے لیے ہے۔ اس لیے کہ تَدَایُنٌ، کے دو معنیٰ آتے ہیں آپس میں قرض کا معاملہ کرنا۔ اور بدلہ دینا (کما یقال، کما تُدِیْنُ تُدَانُ ) یہاں پہلے معنیٰ مراد ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ دَیْنٌ، تَدَایَنْتُمْ کے لیے تاسین ہو نہ کہ تاکید، اگر تَدَایَنْتُمْ کو دَیْنٌ کے معنی میں لیا جائے تو آگے بِدَیْنٍ کا لفظ تَدَایَنْتُمْ کی تاکید ہوگا حالانکہ تاکید سے تاسیس بہتر ہے اسی لئے تَدَایَنْتُمْ کا تَعَاملتم کے معنیٰ میں لیا گیا ہے۔ قولہ : اِستینافٌ۔ یعنی فَتُذَکِّر جملہ مستانفہ ہے بایں معنیٰ کہ اِنْ شرطیہ اس میں عامل نہیں ہے۔ قولہ : کانَ ، کانَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ صغیراً اور کبیراً ، کان محذوف کی خبر ہیں۔ قولہ : تَقَعُ ، کان کی تفسیر تَقَعُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ کان تامہ ہے تجارۃ حاضرۃ اس کا اسم، اور ایک قراءت میں نصب کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں تکون ناقصہ ہوگا۔ تقدیر عبارت یہ ہوگی ” اِلَآ ان تکون التِّجَارَۃُ تِجَارَۃً حَاضرۃً “۔ قولہ : حَالٌ مقدرۃ اَوْ مُسْتَانِفٌ۔ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یُعَلِّمُکمُ اللہُ ۔ کا عطف واتقوا اللہ پر درست نہیں ہے اس لیے کہ یہ جملہ خبریہ کا جملہ انشائیہ پر عطف ہوگا جو کہ درست نہیں ہے جواب : واؤ عاطفہ نہیں ہے بلکہ حالیہ یا استینافیہ ہے۔ قولہ : تَسْتَوْثِقُوْنَ بھا، اس جملہ کو محذوف ماننے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فرھانٌ مقبوضۃٌ، موصوف صفت سے مل کر مبتداء ہے اور تَسْتَوْثِقُوْنَ جملہ ہو کر اس کی خبر ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ تَدَایَنْتُمْ ، آپس میں لین دین کا معاملہ کرنا، یقول تَدَایَنْتُ الرُّجُلَ ، ای عَامَلْتُہٗ ، یُمْلِلُ ، مِنْ الِامْلَال، لکھنا، املا کرانا، الاِمْلال اور الاملاء، دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں، فَرِھٰنٌ، راء کے کسرہ کے ساتھ مصدر ہے یا رَھْنٌ، کی جمع ہے بعض قراءتوں میں رُھُنٌ بضمتین، جمع کا صیغہ ہے۔ عَلیٰ سَفَرٍ ، اس میں استعارہ تبعیہ ہے، اس میں مخاطب کو سوار سے اور سفر کو سواری کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ استعارہ تبعیہ وہ ہے کہ جس میں لفظ مستعار، فعل، یا حرف، یا اسم مشتق ہو جیسے فلان رکب علیٰ کتفَیْ غریمہٖ فلاں شخص اپنے قرض دار کے کندھوں پر سوار ہوگیا۔ یعنی اپنے قرضدار کے بری طرح پیچھے پڑگیا۔ تفسیر و تشریح ربط : سب سابقہ آیات میں سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقہ و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو اب آپسی قرض کے لین دین کے احکام و مسائل کی ہدایات فرمائیں اس لیے کہ جب سودی لین دین کو حرام قرار دیدیا گیا اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کے علاوہ بعض لوگ صدقہ و خیرات لینا پسند بھی نہیں کرتے، تو ایسی صورت میں ضروریات پوری کرنے کے لئے طریقہ قرض ہی کا باقی رہ جاتا ہے، اسی لیے احادیث میں قرض دینے کا بڑا اجر وثواب بیان فرمایا گیا ہے، تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اس میں بےاحتیاطی یا تساہل جھگڑوں کا سبب بھی ہوسکتی اسی لیے اس آیت میں جسے آیت دَیْن کہتے ہیں اور جو قرآن کی طویل ترین آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلہ میں ضروری ہدایات ارشاد فرمائی ہیں۔ ادھار معاملہ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ مبیع (چیز) نقد وصول کی اور قیمت کے لیے مدت طے کرلی دوسرے یہ کہ مبیع کی قیمت اسی وقت نقد دیدی اور مبیع وصول کرنے کے لیے وقت مقرر کردیا، اس کا اصطلاح میں بیع سلم کہتے ہیں یہ حدیث کی رو سے جائز ہے اگرچہ یہ معدوم کی بیع ہے۔ (تفصیلات کتب فقہ میں دیکھئے) اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی، مفسرین نے اس سے یہ اشارہ سمجھا ہے کہ قرضہ کے معاملات میں مدت بالکل صاف اور غیر مبہم ہونی چاہیے، گول مول اور مبہم نہ رہے۔ مثلاً یہ کہ جاڑوں میں یا گرمیوں میں یا کھیتی کٹنے کے وقت دیدیں گے، اس لیے کہ ان مواعید میں تقدیم و تاخیر ہوتی ہے، اور ابیام کی وجہ سے نزاع کا اندیشہ ہے۔ مدت ماہ و تاریخ کے ساتھ متعین ہونی چاہیے۔ اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ، یعنی جب تم آپس میں ادھار لین دین کا معاملہ کیا کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اس آیت میں ایک اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ ادھار لیتے دیتے وقت تحریر لکھ لیا کرو۔ عمومًا دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں تحریر (دستاویز) لکھنے اور گواہ مقرر کرنے کو معیوب اور بےاعتمادی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قرار دادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس میں شہادت بھی ثبت کرلینی چاہیے، تاکہ آئندہ کوئی نزاع پیدا نہ ہو۔ اس آیت میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ ادھار کا معاملہ جب کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرر کرلی جائے۔ غیر معین مدت کے لئے ادھار لین دین جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس سے جھگڑے، فساد کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی وجہ سے فقہاء نے کہا ہے کہ میعاد بھی ایسی ہونی چاہیے کہ جس میں کوئی ابہام و اجمال نہ ہو۔ وَلْیَکْتُبْ بَیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ، چونکہ لکھنا اس زمانہ میں عام نہ تھا بمشکل ہی کوئی لکھنے والا دستیاب ہوتا تھا، آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں دنیا کی بیشتر آبادی ناخواندہ ہے تو یہ ممکن تھا کہ لکھنے والا کچھ کا کچھ لکھ دے جس کی وجہ سے کسی کو نقصان اور کسی کا فائدہ ہوجائے اس لیے ارشاد فرمایا کہ لکھنے والے کو چاہیے کہ عدل و انصاف سے صحیح صحیح لکھے، اور دستاویز لکھنے کا ماحصل چونکہ اپنے ذمہ حق کا اقرار کرنا ہے لہٰذا لکھنے کا انتظام اسی کو کرنا چاہیے جس کے ذمہ حق واجب الاداء ہے، لکھنے والے اور لکھوانے والے کو دل میں خوف خدا رکھ کر لکھنا لکھانا چاہیے۔ (وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ ) میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْ ضعِیْفًا (الآیۃ) بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص پر حق عائد ہوتا ہے اور خفیف العقل ہو یا سٹھیایا ہوا بوڑھا ہو یا نابالغ بچہ یا گونگا، یا کوئی دوسری زبان بولنے والا ہو جس کی زبان کاتب نہیں سمجھتا، اس لئے دستاویز لکھوانے پر اس کی قدرت نہ ہو تو ان کی طرف سے ان کا ولی لکھائے یا کوئی وکیل اور کا رمختار لکھائے یہاں ولی دونوں معنی میں ہوسکتا ہے۔ ضابطہ شہادت کے چند اہم اصول : سابقہ آیت میں تحریر و دستاویز لکھنے اور لکھانے کا بیان تھا، اس آیت میں بتایا گیا کہ صرف تحریر و دستاویز کو کافی نہ سمجھیں بلکہ اس پر گواہ بھی بنالیں تاکہ بوقت نزاع عدالت میں ان گناہوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تحریر حجۃ شرعیہ نہیں ہے، جب تک کہ اس ہر شہادت شرعیہ موجود نہ ہو، آج کل کی عدالتیں بھی محض تحریر پر زبانی شہادت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتیں۔ شہادت کے لیے دو عادل مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے، اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَافَتُذََکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرَیٰ ، یہ ایک مرد کے بجائے دو عورتوں کو گواہ بنانے کا حکمت بیان ہے، یعنی دو عورتوں کو بمنزلہ ایک مرد کے رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ عورت عام طور پر مرد کے مقابلہ میں ضعیف الخلقت اور قلیل الفہم ہوتی ہے اس لیے اگر ایک عورت معاملہ کا کچھ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے، رہا یہ شبہ کی عورت کو مرد کے مقابلہ میں ضعیف کیوں تسلیم کیا گیا ہے اور نسیان کا احتمال مرد کی شہادت میں کیوں نہیں رکھا گیا ؟ تو یہ سوالات ذہن و اخلاق کی دنیا میں ایسے ہی ہیں جیسے جسمانی ساخت و مادیات کی دنیا میں یہ دریافت کیا جائے کہ حمل ورضاعت کا تعلق صرف عورت ہی سے کیوں رکھا گیا ؟ اور مرد کو باوجود اس کی قوت اور برداشت کے کیوں ناقابل سمجھا گیا ؟ خالق کائنات جو کائنات کے ہر ایک ذرہ سے واقف ہے اس کے پیش نظر بھی ذہنیات اور اخلاقیات کی باریک سے باریک حقیقتیں ہیں۔ مغرب کے ماہر نسائیات ہیولاکایلس Hoolock Ellis نے یہاں تک لکھ دیا کہ عورت کے لیے دھوکا اور فریب بمنزلہ امر طبعی کے ہوتا ہے۔ (ملاحظہ ھو تفسیر ماجدی، انگریزی) ہاں اگر تجارتی لین دین دست بدست ہو اور اس کو نہ لکھا جائے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں، مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی خریدو فروخت کی تحریر ضروری نہیں ہے پھر بھی اگر لکھ لیا جائے تو بہتر ہے جس طرح آج کل کیش میمودینے کا رواج ہے۔ وَلَایُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَاشَھِیْدٌ، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ کسی شخص کو دستاویز لکھنے اور گواہ بننے پر مجبور نہ کیا جائے، اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کاتب اپنی کتابت کی اجرت طلب کرے یا گواہ اپنی آمدورفت کا خرچہ طلب کرے تو اس کا حق ہے۔ اسلام نے اپنے نظام عدالت میں جس طرح گواہ کو گواہی دینے پر مجبور کیا ہے اور گواہی چھپانے کو سخت گناہ قرار دیا ہے اسی طرح اس کا انتظام بھی کیا ہے کہ لوگ گواہی سے بچنے پر مجبور نہ ہوں۔
Top