Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے
[ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ : اے لوگو ! جو ] [اٰمَنُوْآ : ایمان لائے ] [اِذَا : جب بھی ] [تَدَایَنْتُمْ : تم لوگ باہم لین دین کرو ] [بِدَیْنٍ : کسی ادھار کا ] [اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی : ایک معین وقت تک کے لیے ] [فَاکْتُبُوْہُ : تو تم لوگ لکھو اس کو ] [وَلْیَکْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھے ] [بَّـیْنَـکُمْ : تمہارے مابین ] [کَاتِبٌ : ایک لکھنے والا ] [بِالْعَدْلِ : انصاف سے ] [وَلاَ یَاْبَ : اور انکار نہ کرے ] [کَاتِبٌ : کوئی لکھنے والا ] [اَنْ یَّــکْتُبَ : کہ وہ لکھے ] [کَمَا : اس طرح جیسے ] [عَلَّمَہُ : سکھایا اس کو ] [اللّٰہُ : اللہ نے ] [فَلْیَکْتُبْ : پس چاہیے کہ وہ لکھے ] [وَلْیُمْلِلِ : اور چاہیے کہ املاء کرائے ] [الَّذِیْ عَلَیْہِ : وہ جس پر ] [الْحَقُّ : حق ہے (یعنی مقروض) ] [وَلْیَتَّقِ : اور چاہیے کہ وہ تقویٰ اختیار کرے ] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [رَبَّـہٗ : جو اس کا پالنے والا ہے ] [وَلاَ یَبْخَسْ : اور وہ نہ گھٹائے ] [مِنْہُ : اس سے ] [شَیْئًا : کوئی چیز ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [کَانَ : ہو ] [الَّذِیْْ عَلَیْہِ : وہ جس پر ] [الْحَقُّ : حق ہے ] [سَفِیْہًا : کچھ ناسمجھ ] [اَوْ ضَعِیْفًا : یا کچھ کمزور ] [اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ : یا وہ صلاحیت نہیں رکھتا ] [اَنْ یُّمِلَّ : کہ املاء کرائے ] [ہُوَ : وہ خود ] [فَلْیُمْلِلْ : تو چاہیے کہ املاء کرائے ] [وَلِـیُّـہٗ : اس کا سرپرست ] [بِالْعَدْلِ : انصاف سے ] [وَاسْتَشْہِدُوْا : اور تم لوگ گواہی کے لیے کہو ] [شَہِیْدَیْنِ : دو گواہوں سے ] [مِنْ رِّجَالِکُمْ : اپنے مردوں میں سے ] [فَاِنْ : پھر اگر ] [لَّمْ یَکُوْنَا : نہ ہوں ] [رَجُلَیْنِ : دو مرد ] [فَرَجُلٌ : تو ایک مرد ] [وَّامْرَاَتٰنِ : اور کوئی دو عورتیں ] [مِمَّنْ : ان میں سے جن سے ] [تَرْضَوْنَ : تم لوگ راضی ہو ] [مِنَ الشُّہَدَآئِ : موقع پر موجود میں سے ] [اَنْ : (اس لیے) کہ ] [تَضِلَّ : بھٹک (یعنی بھول) جائے ] [اِحْدٰٹہُمَا : دونوں کی ایک ] [فَتُذَکِّرَ : تو یاد دلائے ] [اِحْدٰہُمَا : دونوں کی ایک کو ] [ الْاُخْرٰی : دوسری ] [وَلاَ یَاْبَ : اور انکار نہ کریں ] [الشُّہَدَآئُ : گواہ ] [اِذَا مَا : جب کبھی بھی ] [دُعُوْا : وہ لوگ بلائے جائیں ] [وَلَا تَسْئَمُوْآ : اور تم لوگ مت اکتا ئو ] [اَنْ : کہ ] [تَـکْتُبُوْہُ : تم لوگ لکھو اس کو ] [صَغِیْرًا : (خواہ) چھوٹا ہو ] [اَوْ : یا ] [کَبِیْرًا : بڑا ] [اِلٰٓی اَجَلِہٖ : اپنی مدت تک (کے لحاظ سے) ] [ذٰلِکُمْ : یہ ] [اَقْسَطُ : زیادہ حق کے مطابق ہے ] [عِنْدَ اللّٰہِ : اللہ کے نزدیک ] [وَاَقْوَمُ : اور زیادہ نگران ہے ] [لِلشَّہَادَۃِ : گواہی کے لیے ] [وَاَدْنٰٓی : اور زیادہ قریب ہے ] [اَلاَّ تَرْتَابُوْا : کہ تم لوگ شبہ میں نہ پڑو ] [اِلَّآ اَنْ : سوائے اس کے کہ ] [تَـکُوْنَ : وہ ہو ] [تِجَارَۃً حَاضِرَۃً : کوئی ایسا حاضر سودا ] [تُدِیْرُوْنَہَا : تم لوگ گھماتے ہو جس کو ] [بَیْنَـکُمْ : اپنے مابین ] [فَلَیْسَ : تو نہیں ہے ] [عَلَیْکُمْ : تم لوگوں پر ] [جُنَاحٌ : کوئی گناہ ] [اَلاَّ تَـکْتُبُوْہَا : کہ نہ لکھو اس کو ] [وَاَشْہِدُوْآ : اور تم لوگ گواہ بنائو ] [اِذَا : جب بھی ] [تَــبَایَعْتُمْ : باہم خریدو فروخت کرو ] [وَلاَ یُضَآرَّ : اور تکلیف نہ دی جائے ] [کَاتِبٌ : لکھنے والے کو ] [وَّلاَ شَہِیْدٌ : اور نہ گواہ کو ] [وَاِنْ تَفْعَلُوْا : اور اگر تم لوگ (یہ) کرو گے ] [فَاِنَّـہٗ : تو یقینا یہ ] [فُسُوْقٌ : نافرمانی ہے ] [بِکُمْ : تم لوگوں کی ] [وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ اختیار کرو ] [اللّٰہَ : اللہ کا ] [وَیُعَلِّمُکُمُ : اور سکھاتا ہے تم لوگوں کو ] [اللّٰہُ : اللہ ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [بِکُلِّ شَیْئٍ : ہر ایک چیز کو ] [عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] ء ج ل اَجِلَ (س) اَجَلًا : کسی مشکل میں یا کسی چیز میں مبتلا ہونا۔ اَجَلٌ (اسم ذات بھی ہے) : (1) مدت (ابتلاء کے جاری رہنے کی) ۔ (2) وقت (ابتلاء کے خاتمے کا) ۔{ لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَــآ اِلٰی اَجَلٍ } (النسائ :77) ” کیوں نہ تو نے مؤخر کیا ہمیں کچھ مدت تک ؟ “{ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌج } (الاعراف :34) ” اور ہر ایک امت کے لیے ایک وقت ہے (یعنی خاتمے کا) ۔ “ اَجْلٌ : سبب ‘ وجہ ۔ { مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَج } (المائدۃ :32) ” اس وجہ سے۔ “ اَجَّلَ (تفعیل) تَأْجِیْلًا : وقت مقرر کرنا۔ { وَبَلَغْنَا اَجَلَنَا الَّذِیْ اَجَّلْتَ لَنَاط } (الانعام :128) ” اور ہم پہنچے اپنی اس مدت کو جس کا تو نے وقت مقرر کیا ہمارے لیے۔ “ مُؤَجَّلٌ (اسم المفعول) : مقرر کیا ہوا وقت ۔ { وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰــبًا مُّؤَجَّلًاط } (آل عمران :145) ” اور نہیں ہے کسی جان کے لیے کہ وہ مرے مگر اللہ کے حکم سے ایک لکھے ہوئے مقرر کردہ وقت پر۔ “ ب خ س بَخَسَ (ف) بَخْسًا : حق سے کم دینا ‘ گھٹانا۔ { وَلَا تَـبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَـآئَ ھُمْ } (الاعراف :85) ” اور تم لوگ حق سے کم نہ دو لوگوں کو ان کی چیزیں۔ “ س ء م سَئِمَ (س) سَئَمًا : کسی چیز یا کام سے اکتا جانا۔ آیت زیر مطالعہ۔ ق س ط قَسَطَ (ض) قَسْطًا : حق کے خلاف کرنا ‘ ظلم کرنا۔ قَاسِطٌ (اسم الفاعل) : حق کے خلاف کرنے والا۔ { وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَـکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًا ۔ } (الجن) ” اور جو حق کے خلاف کرنے والے ہیں تو وہ لوگ جہنم کے لیے ہیں بطور ایندھن۔ “ قَسَطَ (ن) قِسْطًا : حق کے مطابق ہونا ‘ انصاف ہونا۔ قِسْطٌ (اسم ذات بھی ہے) : حق ‘ انصاف۔ { وَیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ } (آل عمران :21) ” اور وہ لوگ قتل کرتے ہیں ان لوگوں کو جو ترغیب دیتے ہیں انصاف کی۔ “ اَقْسَطُ (افعل التفضیل) : زیادہ انصاف والا۔ آیت زیر مطالعہ۔ اَقْسَطَ (افعال) اِقْسَاطًا : حق کے مطابق کرنا ‘ انصاف کرنا۔ { اَنْ تَـبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْآ اِلَـیْھِمْط } (المُمتحنۃ :8) ” کہ تم لوگ نیکی کرو ان سے اور تم لوگ انصاف کرو ان کے ساتھ۔ “ اَقْسِطْ (فعل امر) : تو انصاف کر۔ { فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاط } (الحُجُرٰت :9) ” تو تم لوگ صلح کرائو ان دونوں کے درمیان انصاف سے اور تم لوگ حق کے مطابق کرو۔ “ مُقْسِطٌ (اسم الفاعل) : حق کے مطابق کرنے والا۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ } (المائدۃ) ” بیشک اللہ پسند کرتا ہے حق کے مطابق کرنے والوں کو۔ “ ترکیب : ” وَلْـیَکْتُبْ “ کا فاعل ” کَاتِبٌ“ ہے۔ ” لَا یَاْبَ “ میں ” یَاْبَ “ دراصل ” یَاْبٰی “ تھا جسے لائے نہی نے مجزوم کیا تو ” ی “ گرگئی اور ” لَا یَاْبَ “ ہوگیا۔ ” وَلْیُِِمْلِلْ “ کو آگے ملانے کے لیے کسرہ دی گئی ہے ‘ اس لیے یہ ” وَلْیُِِمْلِلِ “ ہوگیا ہے۔ اور یہ فعل امر غائب ہے۔ ” اَللّٰہَ “ کا بدل ہونے کی وجہ سے ” رَبَّـہٗ “ منصوب ہے۔ ” مِنْہُ “ کی ضمیر ” اَلْحَقُّ “ کے لیے ہے۔ ” سَفِیْھًا اَوْ ضَعِیْفًا “ ‘” کَانَ “ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔ ” اَنْ یُّمِلَّ “ میں ضمیر فاعلی ” ھُوَ “ از خود موجود ہے ‘ لیکن یہاں تاکید کے لیے اسے ظاہر کیا گیا ہے ۔ ” یَـکُوْنَا “ دراصل ” یَـکُوْنَانِ “ تھا جس کا نون اعرابی ” لَمْ “ کی وجہ سے گرا ہوا ہے۔ اس کا اسم اس میں شامل ” ھُمَا “ کی ضمیر ہے جو ” شَھِیْدَیْنِ “ کے لیے ہے ‘ جبکہ ” رَجُلَیْنِ “ اس کی خبر ہے۔ ” مِنَ الشُّھَدَآئِ “ میں لفظ ” اَلشُّھَدَآئِ “ اپنے لغوی مفہوم میں آیا ہے۔ ” تَضِلَّ “ کا فاعل ” اِحْدٰٹـھُمَا “ ہے۔” اَنْ “ پر عطف ہونے کی وجہ سے ” فَتُذَکِّرَ “ منصوب ہوا ہے۔ اس کا فاعل ” اَلْاُخْرٰی “ کو اور مفعول ” اِحْدٰٹھُمَا “ کو مانا جائے گا۔ ” اِذَا “ میں غیر معین مدت کا مفہوم ہوتا ہے۔ اسے مزید غیر معین کرنے کے لیے ” مَا “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ” اَنْ تَـکْتُـبُوْہُ “ میں ضمیر مفعولی حق یا ” بِدَیْنٍ “ کے لیے ہے اور ” صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا “ اس کا حال ہے۔ ” اَلاَّ تَـکْتُبُوْھَا “ کی ضمیر مفعولی ” تِجَارَۃً حَاضِرَۃً “ کے لیے ہے۔ ” یُضَارَّ “ کو مضارع معروف اور مجہول ‘ دونوں ماننا ممکن ہے ‘ لیکن آگے ” وَاِنْ تَفْعَلُوْا “ آیا ہے اس لیے یہ مضارع مجہول ہے۔ نوٹ (1) : سود کی ممانعت کے بعد اب اس آیت میں ادھار کے بیع و شراء کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں۔ مدینہ والوں کا ادھار لین دین دیکھ کر آنحضور ﷺ نے فرمایا : ” ناپ تول یا وزن مقرر کرلیا کرو ‘ بھائو تائو چکا لیا کرو اور مدت کا بھی فیصلہ کرلیا کرو “۔ (بخاری شریف ‘ منقول از ابن کثیر) ۔ حضرت ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ میعاد مقرر کر کے قرض کے لین دین کی اجازت اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتی ہے۔ (ابنِ کثیر) نوٹ (2) : عربی کے جملہ فعلیہ میں عام طور پر فعل کے بعد فاعل اور اس کے بعد مفعول آتا ہے۔ لیکن اس ترتیب کو ہمیشہ قائم رکھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ چند صورتیں ایسی ہیں جب فاعل کو مقدم کرنا واجب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ : 1) جب فاعل اور مفعول دونوں مبنی کی طرح ہوں ‘ یعنی ان کی اعرابی حالت ظاہر نہ ہو۔ 2) جب دونوں الفاظ میں فاعل اور مفعول بننے کی صلاحیت موجود ہو۔ (3) جب ان دونوں میں امتیاز کرنے کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو۔ مثلاً اگر ہم اَکْرَمَ زَیْدٌ حَامِدًاکے بجائے اَکْرَمَ حَامِدًا زَیْـدٌ کہیں ‘ تب بھی معنی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ‘ کیونکہ ہم زید اور حامد کی اعرابی حالت سے فاعل اور مفعول کا تعین کرسکتے ہیں۔ البتہ اگر اَکْرَمَ یَحْیٰی عِیْسٰیک ہیں تو اب یَحْیٰیکو فاعل اور عِیْسٰیکو مفعول ماننا لازمی ہے۔ لیکن اگر ہم اَکَلَ یَحْیٰی کُمَّثْرٰی (یحییٰ نے امرود کھایا) کے بجائے اَکَلَ کُمَّثْرٰی یَحْیٰیک ہیں تو بھی درست ہوگا اور دونوں جملوں میں یَحْیٰیکو ہی فاعل مانا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ کُمَّثْرٰی (امرود) میں اَکَلَ کا فاعل بننے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٹھُمَا الْاُخْرٰی آیا ہے۔ اس میں اِحْدٰی اور اُخْرٰی دونوں مبنی کی طرح ہیں اور دونوں میں فاعل اور مفعول بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ البتہ ان میں امتیاز کرنے کا ایک قرینہ موجود ہے۔ اس سے پہلے اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٹھُمَا میں اِحْدٰیکے بھولنے کی بات ہوچکی ہے ‘ اس لیے اب فَتُذَکِّرَ کا فاعل اَلْاُخْرٰیکو اور مفعول اِحْدٰٹھُمَاکو مانا جائے گا۔
Top