Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں (قرض و ادھار کا) کوئی لین دین کرو کسی مقررہ مدت تک، تو اس کو تم لکھ لیا کرو3، اور تمہارے درمیان (ایسی دستاویز) لکھنے والا شخص عدل (وانصاف) کے ساتھ لکھے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے سو وہ لکھے4، اور (اس دستاویز و وثیقہ کا) املاء وہ شخص کرائے جس کے ذمے حق ہے، اور اس کو چاہیے کہ وہ ڈرتا رہے اللہ سے، جو کہ اس کا رب ہے، اور اس میں وہ کوئی کمی (بیشی) نہ کرے۔ پھر اگر وہ شخص کہ جس کے ذمے حق ہے، بےسمجھ، یا کمزور ہو، یا وہ (کسی عذر کی بناء پر) املاء نہ کرا سکتا ہو، تو اس کا مختار (وکار گزار) املاء کرائے، عدل (و انصاف) کے ساتھ5، اور (اس پر) تم دو گواہ رکھ لیا کرو اپنے مردوں میں سے،6  پھر اگر دو مرد نہ مل سکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہی کافی ہیں، ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرو گواہی کے لئے، (اور ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو اس لئے تجویز کیا گیا کہ) تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسکو یاد دلا دے، اور گواہ انکار کریں، (نہ گواہ بننے سے، اور نہ گواہی کی ادائیگی سے) جب کہ ان کو بلایا جائے (اس غرض کے لئے)1 اور تم لوگ اکتایا نہ کرو لکھنے سے، خواہ وہ معاملہ چھوٹا یا بڑا، اس کی میعاد تک، یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ قائم رکھنے والا ہے انصاف کو، اور زیادہ سیدھا (اور درست) رکھنے والا ہے گواہی کو2، اور زیادہ نزدیک ہے اس بات کے کہ تم لوگ (باہمی معاملات میں) شک میں نہ پڑو3، مگر یہ کہ نقدا نقدی کا کوئی ایسا سودا ہو، جو تم (دست بدست) آپس میں کرتے ہو، تو نہ اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں4، اور تم گواہ مقرر کرلیا کرو جب تم باہم خریدو فروخت کا کوئی معاملہ کرو5، اور کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور تم گواہ مقرر کرلیا کرو جب تم باہم خریدو فروخت کا کوئی معاملہ کرو، اور کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ لکھنے والے کو اور نہ گواہی دینے والے کو، اور اگر تم لوگ ایسا کرو گے تو یقینا (تم گناہ کا ارتکاب کرو گے، کہ) یہ تمہارے لئے اللہ کی اطاعت سے نکلنا ہوگا، اور (ہمیشہ اور ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے، اور اللہ تم کو سکھاتا ہے (وہ کچھ جس میں تمہاری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے) اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے
803 آیت مداینہ اور اس کی عظمت شان : سو یہ آیت کریمہ یعنی آیت مداینہ قرآن حکیم کی سب سے بڑی اور ایک عظیم الشان آیت کریمہ ہے اور اس میں لین دین سے متعلق بڑی اہم اور بنیادی ہدایات دی گئی ہیں۔ سو ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ جب تم لوگ آپس میں کوئی لین دین کرو کسی خاص مدت تک تو اس لکھ لیا کرو۔ سو ایسے ہر معاملہ کو لکھ لیا کرو تاکہ بعد میں جھگڑے اور اختلاف کی صورت پیدا نہ ہو۔ اور ادھار خواہ قیمت ہو، خواہ مبیع، دونوں صورتوں میں اس کو تحریر کردیا کرو۔ فقہائے کرام میں سے بعض کے نزدیک یہ حکم استحباب کیلئے ہے، اور بعض کے نزدیک وجوب کیلئے (معارف للکاندھلوی (رح) ) ۔ یہ آیت کریمہ " آیت مداینہ " کہلاتی ہے۔ کیونکہ اس میں لین دین سے متعلق یہ عظیم الشان ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں، اور یہ قرآن حکیم کی سب سے طویل آیت کریمہ ہے۔ اور یہ قرآن حکیم کے اعجاز اور اس کے کمال کا ایک اور ثبوت ہے کہ اس میں لین دین سے متعلق چودہ سو برس قبل جو ہدایات ارشاد فرمائی گئی تھیں، دنیا اپنی ترقی کے ہزار دعو وں کے باوجود اس سے بہتر تو درکنار اس کے برابر بھی آج تک کچھ نہیں کہہ سکی، اور نہ قیامت تک کہہ سکے گی کہ یہ سب کچھ وحی خداوندی سے ہے جس کے نور سے دنیا محروم ہے۔ بہرکیف اس آیت کریمہ میں باہمی لین دین سے متعلق بڑی اہم اور پاکیزہ ہدایات وتعلیمات ارشاد فرمائی گئی ہیں، جس میں معاشرے کے ہر طبقے کی بہتری اور بھلائی ہے۔ جن کو اپنانے سے بہت سے جھگڑوں اور اختلافات کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور ہر کسی کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں اور امن وامان کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔ والحمد للہ جل وعلا - 804 تحریر میں عدل و انصاف سے کام لینے کی تعلیم و تلقین : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تمہارے درمیان لکھنے والا شخص عدل وانصاف کے ساتہ لکھے۔ نہ اصل حقیقت سے کوئی کمی کرے نہ زیادتی، اور نہ کسی کی طرف داری کرے، نہ کوئی رو رعایت، بلکہ صرف عدل و انصاف کو اپنا مطمح نظر بنائے رکھے۔ اور حقیقت امر کو جوں کی توں ضبط تحریر میں لائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو، کیونکہ اس کا تعلق دوسروں کے حقوق سے ہے۔ اس لئے لکھنے والا ٹھیک ٹھیک حق اور حقیقت کے مطابق لکھے تاکہ نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ کسی پر کوئی زیادتی ہو، کیونکہ بعد میں حقوق کی تشخیص اور ادائیگی اسی تحریر کے مطابق ہوگی۔ اور اس طرح کسی کا حق نہیں مارا جائے گا اور سب کی حقوق محفوظ ہوں گے۔ سو ہر موقع پر اور ہر حال میں عدل وانصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کا ایک عظیم الشان امتیازی پہلو ہے۔ 805 کاتب لکھنے سے انکار نہ کرے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے پس وہ لکھے تاکہ اس طرح وہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرسکے جس سے اس نے اس کو نوازا ہے، اور اس کو اس بات کا احساس و ادراک رہے، کہ لکھنے کی یہ نعمت جس سے کتنے ہی دوسرے محروم ہیں اس سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے اپنے کرم سے مجھے سرفراز فرمایا ہے ۔ فلَہُ الْحَمْدُ وَلَہُ الشُّکْرُ قَبْلَ کُل شَیٍٔ وَبَعْدَ کُل شیٔ ۔ اور ولایات کی اس نہی سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ جو کوئی عوام کے فائدے سے متعلق علم رکھتا ہو، اس کو چاہیئے کہ جب اس کو ایسے کام کی انجام دہی کیلئے بلایا جائے تو وہ اس سے انکار نہ کرے، اور لاباب کی نہی کے بعد ملکیت سے امر و حکم فرمانے سے اس بارے مزید تاکید کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ اس موضوع کا تعلق انسانی حقوق کی حفاظت سے ہے جو کہ خصوصی اہمیت کا معاملہ ہے۔ (تفسیر المراغی) ۔ بہرکیف جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے علم اور کتابت کی دولت سے نوازا ہو اس کو چاہیئے کہ وہ اس سے حسب ضرورت دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔ کیونکہ دین حنیف یہ سکھاتا ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان فرمایا ہے تم بھی آگے دوسروں پر احسان کرو، ارشاد ہوتا ہے { وَاحْسِنْ کَمَا اَحَْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ } الایۃ (القصص۔ 77) اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس کسی نے جان بوجھ کر کسی علم کو چھپایا اس کو قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔ (محاسن التاویل للقاسمی (رح) ) سو علم نور ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کو اس طرح عام کیا جائے کہ دنیا اس کی روشنی سے فیضیاب و مستفید ہو۔ اس روشنی کو چھپانا جرم ہوگا کیونکہ اس کی نتیجے میں دنیا ہلاکت کے گڑھوں میں جا گرے گی اور اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی ۔ والعیاذ باللہ - 806 اِملاء کرانے والا کوئی کمی بیشی نہ کرے : ۔ بلکہ امر واقع کے مطابق صحیح صحیح لکھوائے تاکہ نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ کسی پر زیادتی ہونے پائے، اور یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ کسی کمی بیشی سے باز رہے اور اللہ سے ڈرتا رہے جو کہ اس کا رب ہے۔ یہاں پر اسم جلیل اور نعت جلیل یعنی اسم ذات " اللہ " اور صفت یعنی " رب " دونوں کو جمع فرمایا گیا، جس سے معنی میں مزید تاکید پیدا ہوجاتی ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سو اللہ جو کہ رب ہے سب کا اس سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ املاء کے دوران کسی طرح کی کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ املاء اور املال کے دونوں لفظوں کا معنی ایک ہی ہے یعنی لکھوانا اور قرآن حکیم میں یہ دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ بہرکیف املاء کرانے والے کو ہدایت کی ـگئی ہے کہ وہ اس ضمن میں کسی کمی بیشی سے کام نہ لے بلکہ ٹھیک ٹھیک لکھے۔ تاکہ کسی کی کسی طرح کی حق تلفی نہ ہو۔ 807 صاحب عذر کی طرف سے اس کا مختار املاء کرائے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر وہ شخص جس کے ذمے حق ہے بےسمجھ یا کمزور ہو یا وہ کسی اور عذر کی بنا پر املا نہ کرا سکتا ہو تو اس کا مختار اور کارگزار املا کرائے عدل و انصاف کے ساتھ۔ جیسے وہ گونگا ہو، یا زبان نہ جانتا ہو، یا کہیں قید میں ہو، یا کوئی پردہ نشین خاتون ہو، جو کاتب کے سامنے نہ آسکتی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ سو ایسی صورت میں اس کا مختار اور کارگزار املاء کرائے اور وہ بھی عدل و انصاف کے تقاضوں کا پاس ولحاظ رکھے، اور معاملہ کو صحیح صحیح اور بلا کسی کمی بیشی کے املاء اور تحریر کرائے۔ وہ بھی نہ کسی طرح کی طرف داری سے کام لے اور نہ بلا ضرورت کسی حذف و اضافہ سے۔ تاکہ حقوق کے سلسلہ میں کسی سے کوئی زیادتی نہونے پائے۔ پس نہ کسی پر زیادتی ہو اور کسی کا حق مارا جائے بلکہ ہر صاحب حق کو اس کا حق پورا ملے۔ اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور امن وامان کا دور دورہ ہو۔ 808 ہر معاملے پر گواہ رکھنے کا ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم گواہ رکھ لیا کرو تاکہ معاملہ مزید یقینی اور پختہ ہوجائے، اور نزاع و مخاصمت کا کوئی خطرہ و اندیشہ باقی نہ رہے۔ اور کسی اختلاف اور نزاع کے پیش آجانے کی صورت میں وہ اصل معاملہ کی گواہی دے سکیں۔ مگر وہ گواہ دو آزاد اور بالغ مسلمان مرد ہوں۔ پس محض دو عورتوں کی یا ایک گواہ یا غلام یا بچے کی گواہی اس بارے معتبر نہیں ہوگی، کیونکہ یہاں پر { شَہِیْدَیْن مِنْ رِّجَالِکُمْ } فرمایا گیا ہے جس سے یہ سب قیود و شروط معلوم و مستفاد ہوتی ہیں۔ سو حقوق کی پاسداری، اور نزاع کی صورت میں معاملہ کو نمٹانے کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ سو گواہ کم از کم دو شخص ہونے چاہئیں جو مسلمانوں میں سے یعنی مسلمان ہوں غیر مسلم نہ ہوں۔ 809 گواہ ثقہ اور معتبر ہونے چاہئیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ دو گواہ ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تم لوگ گواہی کے لیے پسند کرو۔ یعنی وہ ایسے ثقہ، معتبر، اور امین شخص ہوں جن پر فسق و فجور، اور بےمروتی و دھوکہ دہی وغیرہ کی کوئی تہمت نہ ہو۔ اور نہ ہی ان سے کوئی ایسی قرابت و رشتہ داری ہو، جو کہ تہمت و شبہ کا باعث بن سکتی ہو۔ غرضیکہ گواہی کے معیار پر ٹھیک طرح سے پورے اترتے ہوں۔ اس قید کا یہاں پر اضافہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ عام طور پر اس طرح کے باہمی معاملات میں عورت کی گواہی پر اعتبار نہیں کیا جاتا۔ اسی لیے یہاں پر معاملہ گواہ بنانے والوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ یعنی گواہ وہ ہوں جنہیں تم پسند کرو۔ 810 ایک مرد کی بجائے دو عورتوں کی گواہی کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر دو مرد گواہ میسر نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں ہی کافی ہیں۔ کیونکہ ایسے اجتماعی اور عوامی امور میں اشتغال رکھنا اصل میں اور بنیادی طور پر ذمہ داری ہوتی ہے مرد کی، نہ کہ عورت کی۔ عورت کی اصل اور بنیادی ذمہ داری اس گرانقدر اور بےمثال متاع عزیز کی حفاظت و نگہداشت ہے۔ جو انسان کیلئے سب سے اہم اور سب سے زیادہ قیمتی متاع ہے، یعنی متاع اولاد جس کی اصلاح و نگہداشت میں اس کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے، اور اس سے غفلت و اعراض برتنا دنیا و آخرت کے خسران و نقصان کا ذریعہ و سبب ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس دنیاوی عیش و عشرت کیلئے چند ٹکوں کی خاطر اس عظیم الشان ذمہ داری سے غفلت برتنا اور اتنے بڑے نقصان کیلئے آمادہ ہوجانا کسی عقلمند اور ہوش مند انسان کا کام نہیں ہوسکتا۔ اور جب عورت کے کام کا میدان یہ ہے ہی نہیں، تو اس کو ان امور سے متعلق وہ تجربہ کیسے ہوسکتا ہے جو مرد کو ہوتا ہے ؟ اس لئے ان کی گواہی کے سلسلہ میں دو عورتوں کو ایک مرد کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) فرماتے ہیں کہ عجب نہیں کہ قدرت نے بنی آدم میں شروع سے لیکر آخر تک مجموعی طور پر یہی تناسب رکھا ہو کہ عورتیں دو تہائی ہوں، اور اس کے مقابلے میں مرد ایک تہائی، اور اسی تقابل کی بنا پر { لِلذَّکَر مِثْلُ حَظّ الاُنْثَیَیْن } کے ارشاد سے ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابل رکھا گیا ہو۔ (معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی میں عورت کی تنقیص نہیں، بلکہ اس کی تعظیم و تکریم اور اس کو اس کے اس اصل مقام پر رکھنا ہے جو اس کی فطرت کے لائق ہے، اور جس سے اس کے لئے دارین کا بھلا ہے۔ اور آج جو عورت کو اپنے اصل اور حقیقی دائرہ کار سے نکال دیا گیا، تو وہ دراصل فطرت سے تصادم، اور اس کے خلاف جنگ ہے، جسکے ہولناک آثار و نتائج آج دنیا میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے ظاہر ہورہے ہیں، اور طرح طرح کے گل کھلا رہے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہ الْعَزِیْزِ ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اگر دو مرد میسر نہ آسکیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ 811 گواہ بننے سے انکار نہ کیا جائے : کیونکہ ان کے گواہ بننے میں سب کا بھلا ہے۔ اور اس سے انصاف و حق رسی میں مدد ملے گی، اور ان کے اپنے بھائی کے حق کی حفاظت اور اس کی معاونت ہوگی جبکہ گواہ بننے کے بعد ان کے گواہی نہ دینے سے ان کے بھائی کی حق تلفی ہوگی۔ لہذا ان گواہوں کو گواہی سے انکار نہیں کرنا چاہیئے، نہ گواہ بننے سے انکار کرنا چاہیئے اور نہ گواہی کی ادائیگی سے۔ ربیع کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس وقت اور اس پس منظر میں نازل ہوئی جبکہ آدمی گواہی کیلئے جگہ جگہ پھرتا تھا مگر کوئی اس کے معاملے میں گواہ بننے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ سو گواہ بننے سے ہچکچانا اور گواہی کی ادائیگی سے کنی کترانا دونوں امرحرام اور ممنوع ہیں۔ (المراغی وغیرہ) ۔ اور یہ فرض کفایہ ہے کسی خاص شخص پر اس کا اطلاق و الزام نہیں ہوتا مگر جبکہ دوسرا کوئی شخص اس کے لیے میسر نہ ہو۔ (نفس المرجع) ۔ بہرکیف جو لوگ کسی دستاویز کے گواہوں میں شامل ہوچکے ہوں، ان کو عندالطلب گواہی سے گریز و فرار کی اجازت نہیں اس لئے کہ حق کی گواہی ایک عظیم الشان معاشرتی خدمت بھی ہے کہ اس سے سب کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے اور " شہداء اللہ " ہونے کے اعتبار سے یہ اس امت کے فریضہ منصبی کا ایک جزو بھی ہے۔ اس لئے عند الضرورت اور عندالطلب گواہی کے تحمل اور اس کی ادائیگی سے انکار کسی کے لئے جائز نہیں۔ بلکہ حسب ضرورت و موقع امر واقع کی گواہی دے اور پوری دیانت و امانت کے ساتھ۔ نہ کسی کی سائیڈ لے اور جانبداری برتے اور نہ کسی کا حق مارے۔ اور ہر صاحب حق کو اس کا پورا حق ملے۔ اور اس طرح عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ 812 ہر معاملہ کو لکھنے کی ہدایت خواہ وہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا : " تَکْتُبُوْہٗ " کی ضمیر منصوب کا مرجع حق یا دین ہے، اور " الی " کا کلمہ " مع " کے معنی میں ہے۔ یعنی معاملہ کو اس کی مدت مقرر کے ساتھ لکھ دیا کرو۔ (الجواہر، المحاسن وغیرہ) ۔ یعنی جتنا قرض یا ادھار کا لین دین ہو، اس کو بھی لکھ لیا جائے، اور جتنی مدت اس ضمن میں مقرر کی گئی ہو، اس کو بھی لکھ لیا جائے۔ واضح رہے کہ باہمی لین دین سے متعلق یہی وہ اصول و ضوابط ہیں جن کے مطابق آج تمام محکموں، کمپنیوں، اور اداروں وغیرہ میں سب کچھ لکھا اور جمع کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اب اس بارے میں کمپیوٹرز وغیرہ جدید آلات سے بھی کام لیا جانے لگا ہے، تاکہ سب کے حقوق و واجبات محفوظ ہوں، اور ہر متعلقہ فریق ان سے واقف و آگاہ ہو۔ سو دنیا والوں نے تو اب کہیں جاکر ان چیزوں کو اپنایا اور اختیار کیا ہے، اور اس طرح مربوط اور (Systemise) کیا ہے، مگر دین حنیف نے ان تعلیمات مقدسہ سے دنیا کو چودہ سو برس قبل اس وقت نوازا تھا جبکہ دنیا ہر اعتبار سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، اور اس طرح کی تعلیم کا کہیں کوئی نام و نشان تک موجود نہیں تھا۔ ضبط و تحریر اور ریکارڈنگ وغیرہ کے آلات و ذرائع نے اگرچہ اب بہت کچھ ترقی کرلی، مگر اس بارے میں بنیادی اصول و ضوابط اور قواعد و قوانین بہرحال وہی ہیں جن کی تعلیم دین حنیف نے دی ہے۔ ان پر کوئی اضافہ نہ آج تک ہوسکا ہے، اور نہ انشاء اللہ العزیز قیامت تک کبھی ہو سکے گا ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ - 813 نقدا نقدی کے باہمی معاملہ کو لکھنا بہتر ہے ضروری نہیں : " تم پر کوئی حرج نہیں " کے اس ارشاد سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے میں لکھنا اگرچہ ضروری نہیں، مگر بہتر اس صورت میں بھی بہرحال یہی ہے کہ اسے لکھا اور ضبط تحریر میں لایا جائے، جیسا کہ آج کل " کیش میمو " وغیرہ لکھے جاتے ہیں، مگر اس کو لازم اور ضروری نہیں قرار دیا گیا، تاکہ لوگوں کو دقت و دشواری پیش نہ آجائے۔ سبحان اللہ !۔ کیسی عظیم الشان اور حکمت بھری تعلیمات ہیں جن سے قرآن حکیم نے دنیا کو نوازا اور اس وقت نوازا جبکہ دنیا گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی، اور ایسے نوازا کہ پندرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود دنیا ایسی عمدہ اور مقدس تعلیمات کا کوئی نمونہ آج تک نہیں پیش کرسکی، اور انشاء اللہ قیامت تک کبھی نہیں پیش کرسکے گی۔ بہرکیف دست بدست لین دین میں تحریر ضروری نہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کو بھی ضبط تحریر میں لایا جائے۔
Top