Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور ڈرو تم اس عظیم الشان (اور ہولناک) دن سے جس میں تم سب کو بہرحال لوٹ کر جانا ہے اللہ کے پاس،1 پھر وہاں پورا بدلہ ملے گا ہر شخص کو اس کی زندگی بھر کی کمائی کا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا،2
802 یوم قیامت کی تذکیر و یاددہانی : سو اس ارشاد سے قیامت کے ہولناک دن، اور وہاں کی پرسش کی تذکیر و یاد دہانی فرمائی گئی ہے۔ـ سود سے متعلق احکام و ارشادات کا خاتمہ اس آیت کریمہ سے فرمایا گیا ہے جس میں دلوں کو لرزا دینے والی یہ تنبیہ ہے کہ تمہیں بہرحال اس عظیم الشان اور ہولناک دن میں اس وحدہ لاشریک کے حضور پیش ہو کر اپنے کئے کرائے کا حساب دینا ہے، اور اپنے اعمال کا اور زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ پانا ہے۔ اب ہر شخص خود دیکھ لے کہ اس کا نامہء اعمال کیسا ہے، اور اس کو کس طرح کے صلے اور بدلے کی توقع ہوسکتی ہے۔ انسان کا ضمیر خود اس کا منصف اور محاسب ہے۔ حضرت ابن عباس ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ یہ قرآن پاک کی سب سے آخری آیت کریمہ ہے جو نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ صرف اکیس یا اکیاسی دن اس دنیا میں بقید حیات رہے ۔ صَلَوات اللّٰہ وَ سَلَامُہٗ عْلیہ ۔ اور جبریل امین کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کو سورة بقرہ کی آیت نمبر 280 کے متصل بعد رکھا جائے (المراغی وغیرہ ) ۔ بہر کیف اس یوم عظیم کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انسان اس کے لیے تیاری کرسکے ۔ وباللہ التوفیق -
Top