Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 281
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَاتَّقُوْا : اور تم ڈرو يَوْمًا : وہ دن تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے فِيْهِ : اس میں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف ثُمَّ : پھر تُوَفّٰى : پورا دیا جائیگا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور ڈرتے رہے اس دن سے جس دن لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جس کچھ اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہوگا
اس کے بعد آخری آیت میں پھر روز قیامت کا خوف اور محشر کے حساب کتاب اور ثواب و عذاب کے ذکر پر احکام سود کی آیات کو ختم کیا ارشاد فرمایا
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ یعنی ڈرو اس روز سے جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی میں لائے جاؤ گے پھر ہر شخص کو اپنے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت نزول کے اعتبار سے سب سے آخری آیت ہے اس کے بعد کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اس کے اکتیس روز بعد آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی اور بعض روایات میں صرف نو دن بعد وفات ہونا مذکور ہے۔
یہاں تک ربا کے احکام سے متعلقہ سورة بقرہ کی آیات کی تفسیر آئی ہے ربا کی حرمت و ممانعت پر قرآن کریم میں سورة بقرہ میں مذکورہ سات آیتیں اور سورة آل عمران میں ایک آیت سورة نسآء میں دو آیتیں آئی ہیں اور ایک آیت سورة روم میں بھی ہے جس کی تفسیر میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے اس کو بھی سود بیاج کے مفہوم پر محمول کیا ہے، بعض نے دوسری تفسیر بیان کی ہے اس طرح قرآن حکیم کی دس آیتیں ہیں جن میں سود وربا کے احکام مذکور ہیں۔
سود کی پوری حقیقت بتلانے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان باقی آیات کا ترجمہ اور تفسیر بھی اسی جگہ لکھ دی جائے جو سورة آل عمران اور سورة نسآء اور سورة روم میں آئی ہیں تاکہ آیات یک جا ہو کر رباء کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (130: 3) یعنی اے ایمان والو سود مت کھاؤ حصے سے زائد اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے کہ جاہلیت عرب میں سود خوری کا عام طور پر یہ طریق تھا کہ ایک خاص میعاد معین کے لئے اُدھار سود پر دیا جاتا تھا اور جب وہ میعاد آگئی اور قرضدار اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہوا تو اس کو مزید مہلت اس شرط پر دی جاتی تھی کہ سود کی مقدار بڑھا دی جائے اسی طرح دوسری میعاد پر بھی ادائیگی نہ ہوئی تو سود کی مقدار اور بڑھا دی۔ یہ واقعہ عام کتب تفسیر میں بالخصوص لباب النقول میں بروایت مجاہد مذکور ہے۔
جاہلیت عرب کی اس ملت کش رسم کو مٹانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی اسی لئے اس آیت میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً (یعنی کئی حصے زائد) فرما کر ان کے مروجہ طریقہ کی مذمت اور ملت کشی وخود غرضی پر تنبیہ فرما کر اس کو حرام قرار دیا اس کے معنی یہ نہیں کہ اضعاف ومضاعف نہ ہو تو حرام نہیں کیونکہ سورة بقرہ اور نسآء میں مطلقا ربا کی حرمت صاف صاف مذکور ہے اضعاف مضاعف ہو یا نہ ہو اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن کریم میں جابجا فرمایا گیا ہے لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا یعنی میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی سی قیمت مت لو، اس میں تھوڑی سی قیمت اس لئے فرمایا کہ آیات الہیہ کے بدلے میں اگر ہفت اقلیم کی سلطنت بھی لے لے تو وہ تھوڑی ہی قیمت ہوگی اس کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کی آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت لینا تو حرام ہے اور زیادہ لینا جائز، اسی طرح اس آیت میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کا لفظ ان کے شرمناک طریقہ پر فکر کرنے کے لئے لایا گیا حرمت کی شرط نہیں۔
اور اگر سود کے مروجہ طریقوں پر غور کیا جائے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب سود خوری کی عادت پڑجائے تو پھر وہ سود تنہا سود ہی نہیں رہتا بلکہ لازماً اضعاف مضاعف ہوجاتا ہے کیونکہ جو رقم سود سے حاصل ہو کر سود خور کے مال میں شامل ہوئی تو اب اس سود کی زائد رقم کو بھی سود پر چلائے گا اور یہی سلسلہ آگے چلا تو اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ہوجائے گا، اس طرح ہر سود اضعاف مضاعفہ بن کر رہے گا۔
اور سورة نسآء میں دو آیتیں سود کے متعلق یہ ہیں فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا (161، 162: 4) یعنی یہود کے انہی بڑے بڑے جرائم کے سبب ہم نے بہت سی پاکیزہ چیزیں جو ان کے لئے حلال تھیں ان پر حرام کردیں اور بسبب اس کے کہ وہ بہت آدمیوں کو رشد کی راہ سے مانع بن جاتے تھے اور بسبب اس کے کہ وہ سود لیا کرتے تھے حالانکہ ان کو ان سے ممانعت کی گئی تھی اور بسبب اس کے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھا جاتے تھے اور ہم نے ان لوگوں کیلئے جو ان میں کافر ہیں درد ناک سزا کا سامان مقرر کر رکھا ہے۔
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ شریعت موسویہ میں بھی سود حرام تھا اور یہود نے جب اس کی مخالفت کی تو دنیا میں بھی ان کو یہ مناسب سزا دی گئی کہ انہوں نے حرص دنیا کی خاطر کھانا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بعض حلال چیزیں بھی حرام فرمادیں۔
اور سورة روم کے چوتھے رکوع کی انتالیسویں آیت میں ہے
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (39: 30) یعنی جو چیز تم اس لئے دوگے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہوجائے تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑہتا اور جو زکوٰۃ ٰدوگے جس سے اللہ کی رضا مطلوب ہو تو ایسے لوگ خدا کے پاس بڑھاتے رہیں گے۔
بعض حضرات مفسرین نے لفظ ربا اور زیادتی پر نظر کرکے اس آیت کو بھی سود بیاج پر محمول فرمایا ہے اور یہ تفسیر فرمائی ہے کہ سود بیاج کے لینے میں اگرچہ بظاہر مال کی زیادتی نظر آتی ہے مگر درحقیقت وہ زیادتی نہیں جیسے کسی شخص کے بدن پر ورم ہوجائے تو بظاہر وہ اس کے جسم میں زیادتی ہے لیکن کوئی عقل مند اس کو زیادتی سمجھ کر خوش نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہلاکت کا مقدمہ سمجھتا ہے اس کے بالمقابل زکوٰۃ و صدقات دینے میں اگرچہ بظاہر مال میں کمی آتی ہے مگر درحقیقت وہ کمی نہیں بلکہ ہزاروں زیادتیوں کا موجب ہے جیسے کوئی مادہ فاسدہ کے اخراج کے لئے مسہل لیتا ہے یا فصد کھلوا کر خون نکلواتا ہے تو بظاہر وہ کمزور نظر آتا ہے اور اس کے بدن میں کمی محسوس ہوتی ہے مگر جاننے والوں کی نظر میں یہ کمی اس کی زیادتی اور قوت کا پیش خیمہ ہے۔
اور بعض علماء تفسیر نے اس آیت کو سود بیاج کی ممانعت پر محمول ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ جو شخص کسی کو اپنا مال اخلاص ونیک نیتی سے نہیں بلکہ اس نیت سے دے کر میں اس کو یہ چیز دوں گا تو وہ مجھے اس کے بدلہ میں اس سے زیادہ دے گا، جیسے بہت سی برادریوں میں نوتا کی رسم ہے وہ ہدیہ کے طور پر نہیں بلکہ بدلہ لینے کی غرض سے دی جاتی ہے، یہ دینا چونکہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی غرض کے لئے ہے اس لئے آیت میں فرمایا کہ اس طرح اگرچہ ظاہر میں مال بڑھ جائے مگر وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑہتا ہے ہاں جو زکوٰۃ صدقات اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیئے جائیں ان میں اگرچہ بظاہر مال گھٹتا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ دوگنا اور چوگنا ہوتا جاتا ہے۔
اس تفسیر پر آیت مذکورہ کا وہ مضمون ہوجائے گا جو دوسری ایک آیت میں رسول کریم ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6: 74) یعنی آپ کسی پر احسان اس نیت سے نہ کریں کہ اس کے بدلہ میں کچھ مال کی زیادتی آپ کو حاصل ہوجائے گی۔
اور سورة روم کی اس آیت میں بظاہر یہ دوسری تفسیر ہی راجح معلوم ہوتی ہے، اول تو اس لئے کہ سورة روم مکی ہے جس کے لئے اگرچہ ضروری نہیں کہ اس کی ہر آیت مکی ہو مگر غالب گمان مکی ہونے کا ضرور ہے جب تک اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ملے اور آیت کے مکی ہونے کی صورت میں اس کو حرمت سود کے مفہوم پر اس لئے محمول نہیں کیا جاسکتا کہ حرمت سود مدینہ میں نازل ہوئی ہے اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے جو مضمون آیا ہے اس سے بھی دوسری تفسیر ہی کا رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس سے پہلے ارشاد ہے
فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّــلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ ۡ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (37: 30) قرابت دار کو اس کا حق دیا کرو اور مسکین اور مسافر کو بھی یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا کے طالب ہیں۔
اس آیت میں رشتہ داروں اور مساکین اور مسافروں پر خرچ کرنے کے ثواب ہونے کے لئے شرط لگائی گئی ہے کہ اس میں نیت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی گئی ہو تو اس کے بعد والی آیت مذکورہ میں اس کی توضیح اس طرح کی گئی کہ اگر مال کسی کو اس غرض سے دیا جائے کہ اس کا بدلہ اس کی طرف سے زیادہ ملے گا تو یہ رضاجوئی حق تعالیٰ کے لئے خرچ نہ ہوا اس لئے اس کا ثواب نہ ملے گا۔
بہرحال ممانعت سود کے مسئلہ میں اس آیت کو چھوڑ کر بھی مذکورۃ الصدر بہت سی آیتیں آئی ہیں جن میں سے سورة آل عمران کی ایک آیت نمبر 13 میں اضعاف مضاعف سود کی حرمت بیان کی گئی ہے اور باقی سب آیتوں میں مطلق سود کی حرمت کا بیان ہے اس تفصیل سے یہ تو واضح ہوگیا کہ سود خواہ اضعاف مضاعف اور سود درسود ہو یا اکہر اسود بہرحال حرام ہے اور حرام بھی ایسا شدید کہ اس کی مخالفت کرنے پر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سنایا گیا ہے۔
Top