Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 282
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ١٘ یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ١ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠   ۧ
لِلْفُقَرَآءِ : تنگدستوں کے لیے الَّذِيْنَ : جو اُحْصِرُوْا : رکے ہوئے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ نہیں طاقت رکھتے ضَرْبًا : چلنا پھرنا فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں يَحْسَبُھُمُ : انہیں سمجھے الْجَاهِلُ : ناواقف اَغْنِيَآءَ : مال دار مِنَ التَّعَفُّفِ : سوال سے بچنے سے تَعْرِفُھُمْ : تو پہچانتا ہے انہیں بِسِيْمٰھُمْ : ان کے چہرے سے لَا يَسْئَلُوْنَ : وہ سوال نہیں کرتے النَّاسَ : لوگ اِلْحَافًا : لپٹ کر وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو گے مِنْ خَيْرٍ : مال سے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
صدقات کے اصل حق دار وہ فقراء ہیں جو جہاد کی غرض سے پابند کردیئے گئے ہیں یہ لوگ کہیں ملک میں جا آ نہیں سکتے ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان لوگوں کو مال دار سمجھنا ہے اے مخاطب تو ان کے فقر کو ان کے چہرے کی علامت سے پہچان سکتا ہے وہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر سوال نہیں کرتے پھرتے اور مال میں سے جو کچھ بھی تم خیرات کرتے ہو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے1
1 تم لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہو اس کے اصل حقدار وہ فقیر اور حاجت مند لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ اور خدمت دین کی غرض سے پابند کردیئے گئے ہیں اور مقید ہوگئے ہیں اور اسی پابندی اور خدمات دینیہ کی وجہ سے وہ ملک میں کہیں آ جا نہیں سکتے اور کمانے کے لئے کہیں آتے جاتے نہیں ان کے سوال نہ کرنے اور سوال سے پرہیز کرنے کی وجہ سے ناواقف آدمی ان کو تو انگر اور مال دار سمجھتا ہے۔ اے مخاطب البتہ تو ان کی احتیاج اور ان کے فقر کو ان کی حالت ان کی ہئیت اور ان کے چہرے مہرے سے پہچان سکتا ہے وہ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر مانگتے نہیں پھرتے اور تم جو کچھ مال میں سے خیرات کرتے ہو اور کام کی جو چیز بھی خرچ کرتے ہو یقین جانو اللہ تعالیٰ کو وہ خوب معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس کی پوری اطلاع ہے۔ (تیسیر) احصار روک دینا جیسا کہ دوسرے پارے میں عرض کیا جا چکا ہے یہاں مطلب یہ ہے کہ دینی مشاغل کی وجہ سے انہوں نے اپنے کو روک رکھا ہے وہ دینی مشاغل خواہ جہاد ہو خواہ علم دین کا حاصل کرنا ہو بہرحال ایک خاص خدمت کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ لایستطیعون ضربا فی الارض کا یہ مطلب ہے کہ دینی مشاغل کے باعث کمانے کے لئے کہیں آ جا نہیں سکتے یہ مطلب نہیں کہ اپاہج ہیں بلکہ عادۃ جب آدمی ایک کام میں منہمک ہوتا ہے اور چوبیس گھنٹے اس میں لگا رہتا ہے تو اور کوئی کام نہیں کرسکتا اسی طرح یہ لوگ بھی ہر وقت طلب علم اور جہاد کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اس لئے کوئی دوسرا کام نہیں کرسکتے۔ تعفف مقصود اور مراد سے نفس کو تب کلف بچانا اور مقصد کو ترک کردینا یہاں یہ مطلب ہے کہ سوال سے بچتے ہیں اور اپنی حاجت کسی کے روبرو بیان نہیں کرتے سوال سے بالکل اجتناب کرتے ہیں۔ سیما اس علامت کو کہتے ہیں جس سے خبر پہونچائی جائے یہاں ان کی شکستہ حالی اور فقر و فاقہ کا اصمحلال مراد ہے یعنی چہرے پر جو فقر و فاقہ کی وجہ سے زردی نمایاں ہو رہی ہے اس سے ان کے فقر کا پتہ چل سکتا ہے اور بظاہر چونکہ وہ خود دار واقع ہوئے ہیں کسی سے سوال کرتے نہیں تو بیخبر لوگ ان کو دولت مند سمجھتے ہیں حالانکہ ہیں وہ محتاج۔ الحاف لپٹنا سر ہوجانا جیسا کہ عام طور سے ہمارے زمانے کے سائل کرتے ہیں کہ دینے والے کو پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بالکل سوال نہیں کرتے چہ جائیکہ کسی کو لپٹیں یا تنگ کریں یا کسی کو برا بھلا کہیں اس آیت میں جن لوگوں کو دینے کی ترغیب ہے وہ مہاجرین ہیں جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گیء تھے اور مسجد نبوی کے ایک چوبرتے پر قیام پذیر تھے یہ لوگ قرآن شریف سیکھتے تھے اور دینی تعلیم حاصل کرتے تھے اور حسب ضرورت نبی کریم ﷺ کے حکم سے جہاد کے لئے جاتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ تقریباً چار سو آدمی تھے مدینہ میں ان کا کوئی مکان نہ تھا مسجد کے چبوترے پر پڑے رہتے تھے رات کو قرآن سیکھتے تھے اور جہاد کے لئے یہ لوگ مخصوص تھے۔ مجاہد کا قول ہے یہ لوگ قریش کے مہاجر تھے سعید بن جبیر کا قول ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں زخمی ہوجانے کی وجہ سے بےکار ہوگئے تھے بعض لوگوں نے کہا آیت عام ہے ہر ایسے محتاج کو دینے کا حکم ہے جو سوال سے بچتا ہو اور اس کی خود داری کے باعث لوگ اس کو غنی سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ بعض خوش پوشاک شریف کہ عام لوگ ان کی حالت سے بیخبر ی کے باعث ان کو دولت مند سمجھتے ہیں مگر وہ محتاج ہوتے ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ مطلقاً سوال کی نفی نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دینے والوں کو تنگ نہیں کرتے سوال کرتے ہیں تو نرمی سے سوال کرتے ہیں مگر یہ مطلب تعفف کے منافی ہے۔ ایک ضروری بات اور بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حقدار کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو نہ دو ، بلکہ صدقات کا ایک خاص ضابطہ ہے کہ ضرورت اور احتیاج کا اندازہ لگا لیا جائے کبھی ایک خاص سبب کی وجہ سے فقراء کا ایک گروہ زیادہ مستحق ہوتا ہے اور کسی دوسرے مخصوص سبب کی وجہ سے دوسرے گروہ کو ترجیح ہوتی ہے یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ اصل میں تو یہی لوگ مستحق ہیں لیکن کسی اور عارض کی وجہ سے یا کسی اور ضرورت کے پیش نظر ان کے علاوہ دوسروں کو دینے میں ثواب کا زیادہ ہونا ممکن ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی بڑا ثواب ہے ان کا دینا جو اللہ کی راہ میں اٹک گئے ہیں کما نہیں سکتے اور اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے جیسے حضرت کے اصحاب تھے اہل صفہ نے گھر بار چھوڑ کے حضرت کی صحبت پکڑی تھی علم سیکھنے کو اور جہاد کرنے کو اسی طرح اب بھی جو کوئی حفظ کرے قرآن کو یا علم دین میں مشغول ہو لوگوں کو لازم ہے کہ ان کی مدد کریں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ دینی خدمت میں مشغول ہوں اور جہاد میں یا علم کی طلب میں لگے رہتے ہوں ان کی خدمت کرنی چاہئے نیز آیت میں سوال کی مذمت بالخصوص الحاف کے ساتھ سوال کرنے برائی ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک شخص لکڑیوں کا گٹھا اپنی کمر پر لاد کر لائے اور اس کو فروخت کر کے اپنی گذر کرے یہ بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے پھر کوئی دے اور کوئی نہ دے۔ اور فرمایا نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ اس شرم والے بردبار کو جو لوگوں کے سوال کرنے میں پرہیز کرتا ہے، پسند کرتا ہے اور اس بد زبان سائل پر غضب ناک ہوتا ہے جو لوگوں سے لپٹ کر مانگتا ہے اور دینے والوں کو تنگ کرتا ہے ایک اور روایت اوپر گذر چکی ہے کہ فقیر وہ نہیں ہے جو مانگتا پھر تا ہے اور اس کو ایک نوالہ یا دو نوالے لوٹا دیتے ہیں بلکہ فقیر وہ متعفف ہے جو لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتا یعنی ایک نوالہ مل گیا تو دوسرے مکان پر جا آواز لگائی۔ مزنی فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ اپنے ایک خطبے میں فرما رہے تھے جو سوال سے بچا اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے سے محفوظ کر دے گا جس نے بےنیازی سے کام لیا اللہ تعالیٰ اس کو بےنیاز کر دے گا جس شخص نے پانچ او قیے ہوتے سا تھے سوال کیا تو یہ الحاف کا مرتکب ہوا مزنی کو ان کی والدہ نے بھیجا تھا کہ جائو بیٹا کہ تم بھی کچھ حضور سے مانگ کر لائو سب لوگ حضور سے سوال کر کے لا رہے ہیں یہ جب پہنچے تو حضور تقریر فرما رہے تھے تقریر کے الفاظ سن کر انہوں نے سوچا کہ ایک اونٹنی میرے پاس ہے ایک میرے ملازم کے پاس ہے پانچ اوقیہ سے تو یہ دو اونٹنیاں ہی زائد ہیں۔ یہ لوٹ کر چلے آئے اور اپنی والدہ کو واقعہ سنایا۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ سوال کی حرمت کے نصاب میں علماء کے مختلف اقوال ہیں مشہر یہ ہے کہ صدقہ الفطر اور قربانی کے وجوب کا جو نصاب ہے وہی سوال کی حرمت کا نصاب ہے یعنی حاجت اصلیہ ہے زائد جس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ سونے اور چون تولے چاندی کی قیمت کا سامان ہو اس پر سوال حرام ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے انفاق فی سبیل اللہ کی تعمیم مذکور ہے یعنی خیرات کا کوئی وقت اور کوئی زمانہ خاص نہیں جب موقعہ ہو اور جس وقت ضرورت ہو خیرات کرو ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top