Urwatul-Wusqaa - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پس میں قسم کھاتا ہوں ڈوبنے والے ستاروں (کے رب ) کی
نہیں ! پس میں قسم کھاتا ہوں ڈوبنے والے ستاروں کے رب کی 57۔ { فلا اقسم } میں لا کیسا ہے ؟ اس کے متعلق بہت تفصیل سے کلام کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ” لا “ نفی کے لیے نہیں ہے بلکہ اثبات کے لیے ہے یا اس ” لا “ کے متعلق اہل لغت نے اور نحوپوں نے جس طرح کلام کیا ہے اس کا ماحصل یہ کہ ” لا “ جس کو لاء نفی جنس لا تبریہ اور لا مشابہبِاَن کہا جاتا ہے اس کا اسم فتح پر یا علامت نصب پر مبنی ہوتا ہے بشرطیکہ اسم فعال نہ ہو جیسے لاتثریب علیکم۔ قالو الاضیر۔ یا اہل یثرب لا مقام لکم۔ لا مسلمات۔ لا رجلی۔ لا مسلمی۔ میرا نی اور زجاج کے قول پر ” لا “ تبریہ کا اسم کیسا ہی ہو معرب ہوتا ہے اگرچہ تنوین نہیں پڑھی جاتی۔ لا تبریہ کی خبر خواہ ظرف اور جار مجرو ہی ہو اسم پر مقدم نہیں ہوتی۔ لا تبریہ کے اسم کی اگر کوئی صفت مذکور ہو یا کسی دوسرے اسم کا لا کے اسم پر عطف کیا گیا ہو بشرطیکہ صفت اور معطوف خبر کے ذکر سے پہلے ہو تو محل کی رعایت کر کے معطوف اور صفت کو مرفوع پڑھنا بھی جائز ہے جیسے لا رجل و امراۃ فیھا اور لا رجل ظریف فیھا اگر لا تبریہ مکرر ہو تو دونوں کو یا ایک کو بےعمل قرار دینا بھی جائز ہے جیسے لا حول لاقوۃ اگر ” لا “ تبریہ کی خبر معلوم ہو تو اکثر مخدوف ہوتی ہے جیسے لا ضیرَ ۔ فلاقوت۔ لاشی بنو تمیم تو ” لا “ تربیہ کی خبر کبھی ذکر ہی نہیں کرتے ” لا “ ناقص یعنی وہ ” لا “ جو لپس کے مشابہ ہوتا ہے۔ ” لا “ ناقصہ صرف نکرہ میں عمل کرتا ہے۔ ” لا “ عاطفہ اس کی تین شرطیں ہیں۔ (1) اس سے پہلے اثبات ہوں۔ (2) لا کے ساتھ دوسرا حرف عطف نہ ہو۔ (3) لا معلوف اور معطوف علیہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکتے ہوں۔ ” لا “ جوابیہ جو ” نعم “ کے مقابل آتا ہے ” لا “ نفی محض اس کو مقرر ذکر کرنا مندرجہ ذیل مقامات پر لازم ہے۔ (1) اس کے بعدجملہ اسمیہ ہو جس کا پہلا جز معرفہ ہو اور ” لا “ اس کا عامل نہ ہو یا پہلا جز نکرہ ہو اور ” لا “ اس میں عامل نہ ہو۔ (2) ” لا “ کے بعد فعل ماضی ہو۔ ’ 3 ‘ خبر مفرد یا صفت یا حال پر ” لا “ داخل ہو تو ساقط کردیتا ہے اگر نہ ہو تو مجزوم کردیتا ہے ۔ کبھی ترک کی وجوبی طلب یعنی تحریم کے لیے آتا ہے۔ کبھی ترک کی تنزیہی طلب کے لیے۔ کبھی دعا کے لیے ۔ کبھی محض زائد ہوتا ہے (اگرچہ یہ بات صحیح نہیں ہے) اور کبھی صرف دھمکی دینے کے لیے ۔ ان کی مثالیں پیش کرنے سے کلام بہت لمبا ہوتا تھا اس لیے امثال پیش نہیں کی گئیں اور ویسے بھی قواعد کی باتیں قواعید ہی کی کتابوں میں مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ یہ کلام محض اشارات کے لیے پیش کیا گیا ہے اور بتانا مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ جہاں پہلے بہت کلام کیا جا چکا ہے۔ وہاں مزید کلام کرنے کی گنجائش بھی ہوتی ہے اور اس کو حرام نہیں سمجھنا چاہئے۔ گزشتہ لوگوں نے جو کچھ کہا وہ بھی وحی الٰہی نہیں تھی بلکہ انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اہل زبان اپنی زبان کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں لاریب دوسرے اس قدر نہیں جانتے لیکن یہ کلام محج کسی ایک علاقہ کے لیے نہیں اترا بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو اس پر بات کرنے کا برابر حق ہے اور خصوصاً جہاں کلام کی گنجائش پہلے ہی بہت پیدا کردی گئی ہو وہاں مزید کلام بھی کیا جاسکتا ہے مختصر یہ کہ ہماری تفہیم کے مطابق ہر زبان میں قاعدہ موجود ہے کہ مخاطبین کی کہی ہوئی باتوں کی نفی یا ثبات شروع کلام میں کردی جائے اگرچہ ان باتوں کا وہاں ذکر موجود نہ ہو مثلاً آپ کلام شروع کرتے وقت جب یہ کہیں گے کہ ” نہیں ‘ نہیں خدا کی قسم اصل بات تو اس طرح ہے “ تو یہ نہیں ‘ دو بار جو آپ نے کہا ہے محض تاکید کے لیے کہا ہے اور نفی آپ نے ان باتوں کی کی ہے جو اس جگہ مذکور نہیں تاہم سامعین اور آپ کے ذہن میں وہ باتیں یقینا موجود ہیں اور جس بات کی آپ نے نفی کی ہے اس سے خوب واقف ہیں اور کسی کو آپ کے نہیں نہیں کہنے سے کوئی تعجب نہیں ہوا ‘ کیوں ؟ اس لیے کہ مخاطب کو خوب معلوم ہے کہ آپ نے کس بات پر نہیں نہیں کہا ہے۔ اب غور کرو کہ قرآن کریم کے متعلق کفار مّکَہ کیا کچھ کہتے تھے اور آپ ﷺ کے متعلق کیا کچھ۔ قرآن کریم کے متعلق ان کا عام تبصرہ یہ تھا کہ یہ خود محمد رسول ﷺ کا گھڑا ہوا ہے۔ یہ کہ کوئی شخص آپ ﷺ کو یہ باتیں آکر سنادیتا ہے یہ کہ اس میں کچھ بھی نہیں بس گزشتہ لوگوں کی کہانیاں ہی تو ہیں اور اس طرح کی اور باتیں وہ بناتے تھے اور یہ ان کا کہنا سب کو معلوم تھا لہٰذا ان کو جواب دیا گیا ہے کہ نہیں ایسی بات نہیں ہے جیسا کہ تم کہہ رہے ہو گویا نفی مخاطب کے زعم باطل کے کی تردید ہے اس لیے نفی کا لانا عربی زبان اور قرآن کریم میں بالکل واضح اور معروف ہے اس طرح گویا ان کے زعم باطل کی تردید کرنے کے بعد قسم سے مؤکد کر کے کہا جا رہا ہے کہ مجھے قسم ہے اس رب کی جو ستاروں کو غروب کرتا ہے بات اس طرح نہیں جس طرح تم کہہ رہے ہو ” مواقع “ جمع مضاف ‘ منزلیں ‘ فرودوگاہیں ‘ ستاروں کے غروب ہونے کی منازل۔ مفسرین نے عام طور پر اس ” لا “ کو زائد کہا ہے لیکن یہ بات ہم پیچھے بیان کرتے چلے آرہے ہیں کہ قرآن کریم میں بےمقصد کچھ نہیں کہا گیا اگر کسی بات کی تاکید کے لیے ایک بات کہی جائے تو بھی اس کو زائد نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کلمہ تاکید کے لیے کہا گیا ہے اور تاکید وہیں کی جاتی ہے جہاں تاکید کرنے کی ضرورت ہو۔ اس طرح کلام کرنے میں ان لوگوں کی تردید بھی ہوگئی جو ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اور ان کو انسانوں کی زندگی اور ان کے سعد ونحس ہونے پر ایمان رکھتے ہیں کہ ستاروں کو طلوع اور غروب کرنا اللہ تعالیٰ کے نظام میں داخل ہے ، ستاروں کی اختیاری بات نہیں بلکہ اللہ ربِّ ذوالجلال والاکرام نے جس بندھن میں ان کو باندھ دیا ہے وہ اس میں بندھے ہوئے ہیں اور ان کا طلوع و غروب بھی ان کے اختیار میں نہیں ہے تو وہ انسانوں کی زندگی کے لیے سعد و نحس کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یہ سارے ڈھکو سلے ہیں جن کی کوئی اصلیت اور حقیقت نہیں ہے اور بعض مفسرین { النجوم } سے مراد قرآن کریم کے حصے بھی لیے ہیں کیونکہ قرآن کریم بھی نجماً نجماً نازل کیا گیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کر کے اس کو بطور قسم مؤکد کیا گیا ہے اور دونوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست ہیں اور کوئی اس مفہوم میں اس کو لیتا ہے تو بھی جائز اور صحیح ہے۔ یہ بات قبل ازیں کہی جاچکی ہے کہ جہاں وسعت موجود ہو وہاں وسعت سے کام لیا جاسکتا ہے اور علاوہ ازیں بھی اس کا مفہوم سمجھا اور بیان کیا گیا ہے۔
Top