Aasan Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
اب میں ان جگہوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں جہاں ستارے گرتے ہیں۔ (21)
21 یہاں قرآن کریم کی حقانیت اور اس کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کا بیان فرمانا مقصود ہے، مکہ مکرمہ کے کافر لوگ بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے کہ حضور نبی کریم ﷺ (معاذاللہ) دراصل کاہن ہیں، اور یہ قرآن کاہنوں کا کلام ہے، کاہنوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیشین گوئیوں میں جنات اور شیطانوں سے مدد لیتے تھے، اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ شیطانوں کو آسمان کے قریب جاکر وہاں کی باتیں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور اگر کوئی شیطان سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو شہاب ثاقب سے مار بھگایا جاتا ہے (دیکھئے سورة حجر 15: 18 اور سورة صافات 37: 10) شہاب ثاقب کو چونکہ عام بول چال میں تارے ٹوٹنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے ستاروں کا ذکر فرماتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو شیاطین سے حفاظت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے (دیکھئے سورة صافات 37: 7 اور سورة ملک 67: 5) لہذا جب جنات اور شیاطین کی آسمان تک رسائی نہیں ہے تو وہ کبھی ایسا مستحکم اور سچا کلام پیش نہیں کرسکتے جیسا قرآن کریم ہے، اس مناسبت سے یہاں ستاروں کے گرنے کے مقامات کی قسم کھائی گئی ہے کہ اگر ان کی حقیقت پر غور کرو تو صاف پتہ چل جائے گا کہ قرآن کریم ایسا باوقار کلام ہے جو کوئی کاہن بناکر نہیں لاسکتا ؛ کیونکہ یہ ستارے اسے عالم بالا تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔
Top