Baseerat-e-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پھر میں ستاروں کے چھپنے کی قسم کھاتا ہوں۔
لغات القرآن آیت نمبر 75 تا 96 لا اقسم نہیں، میں قسم کھاتا ہوں۔ مکنون محفوظ المطھرون پاک و صاف رہنے والے۔ مدھنون سستی کرنے والے غیر مدینین حساب ہونے والا نہیں۔ روح راحت و آرام ریحان عیش و آرام کا سامان۔ تصلیہ ڈال دینا۔ حق الیقین سچائی کا پورا یقین۔ تشریح :- آیت نمبر 75 تا 96 کفار قریش اس بات کو خوب اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی مقناطیسی اور مقبول و محبوب شخصیت اور قرآن کریم کے ابدی اصولوں کی سچئای اور کلام کی عظمت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے لیکن کفار مکہ رسول دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ آپ کو اور آپ کی سیرت کو زندگی بھر بہت قریب سے دیکھنے اور اس کا اعتراف کرنے کے باوجود کبھی آپ کو شاعر، کاہن اور مجنون کہتے اور کبھی یہ الزام لگاتے کہ آپ جس کلام کو اللہ کا کلام کہہ کر اس کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ (نعوذ باللہ) اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ کوئی جن یا کوئی شیطان آ کر آپ کو سکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کی ان بےہودہ، بےبنیاد، جھوٹی، اور من گھڑت باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نظام کائنات میں ستاروں اور سیاروں کے چھپنے اور ظاہر ہونے کی قسم کہ یہ قرآن حکیم وہ باعظمت کلام ہے جس کو جن یا شیطان تو ایک طرف لوح محفوظ سے نبی کریم ﷺ کے قلب مبارک پر جو فرشتے لے کر نازل ہوتے ہیں وہ اللہ کے پاک فرشتے ہیں۔ ان پاک فرشتوں کے سوا کوئی اس کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتا اور اسی لئے قرآن کریم کا یہ ادب ہے کہ جو بھی اسکو ہاتھ لگائے اس کو ہر طرح کی ظاہری نجاست اور گندگی سے پاک ہونا چاہئے۔ ستاروں اور سیاروں کے چھپنے، ڈوبنے اور روشن ہونے کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کا ایک نظام ہے جس کو ہر انسان ہر رات میں کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ ستارے کبھی سامنے ہوتے ہیں اور کبھی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ اسی طر اللہ کا کلام بھی ہے کہ اللہ نے اس کو اپنے نبی ﷺ کے دل پر آہستہ آہستہ نازل کیا ہے۔ کبھی وحی آتی ہے اور کبھی رک جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح آسمان پر چمکنے والے ستارے بکھرے ہئے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ایک نظام میں بندے ہوئے مرتب اور منظم ہیں اسی طرح قرآن کریم کی آیات ظاہری طور پر بکھری ہوئی نظر اتٓی ہیں لیکن وہ ایسی مرتب اور منظم ہیں کہ ایک آیت کا دوسری آیت سے انتہائی ربط اور تعلق واضح ہے۔ اسی لئے قرآن کریم پر بہت سے اعتراضات کئے گئے مگر کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ تو ایک بےترتیب آیات اور بےربط مضامین ہیں بلکہ عرب جو اہل زبان تھے وہ جانتے تھے کہ ایک آیت کا دوسری آیت سے اور ایک مضمون کا دوسرے مضمون سے کیا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس ذات کے ہاتھ میں پورا نظام کائنات ہے اسی نے اس قرآن کریم کو نازل کیا ہے تاکہ راستہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ ہدایت دکھائی جاسکے۔ لیکن دنیا پرستوں اور ہر چیز کو مال و دولت اور پیٹ کے دھندوں کی ترازو پر تولنے والوں نے اس قرآن کریم کو جھٹلانے اور تردید کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ایسے لوگوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم کی سچائیوں سے بےتوجہی اور انکار ایک بری عادت ہے۔ شاید ان کو اس دنیا میں اس کے نقصان کا اندازہ نہ ہو لیکن موت کے بعد جب وہ قیامت میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان کو پچھتانے اور شرمندگی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئیگا۔ فرمایا کہ تم دن رات دیکھیت ہو کہ تمہارے وہ رشتہ دار جن پر موت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے ان کی جان گلے میں اٹک جاتی ہے تم ان کی محبت میں ہر طرح ان کو مرنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہو دواؤں اور علاج میں کمی نہیں کرتے ہو لیکن جب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرح کی کوششوں کے باوجود تمہارا کوئی عزیز اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہے اور اس کو ساری دنیا مل کر بھی موت کے منہ سے واپس نہیں لاسکتی تو تمہارے اوپر کیسی نا امیدی اور بےبسی چھا جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ دیکھ کر بھی تمہیں ہوش نہیں آتا اور تمہیں اپنی موت یاد نہیں آتی۔ اللہ نے فرمایا کہ اس مایوسی اور بےبسی کے وقت ہم اور ہمارے فرشتے اس شخص سے اتنے فریب ہوتے ہیں کہ تم بھی نہیں ہوتے۔ تم مرنے والے کو دیکھتے ہو لیکن ہمیں اور ہمارے فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ تم زندگی بھر اپنے آپ کو مضبوط اور بہادر سمجھتے رہے ہو، جس نے تمہیں غرور وتکبر کا پیکر بنا دیا ہے آج تم موت کے سامنے اتنے بےبس کو یں ہو ؟ کوشش کر کے دیکھ لو کہ دنیا سے جانے والا شخص بچ جائے۔ فرمایا کہ جب تم دوسروں کو موت کے پنجے سے نہیں بچا سکتے تو پھر تم اپنے آپ کو اللہ کی گرفت سے باہر کیوں سمجھتے ہو۔ اگر ان حقائق کی موجودگی میں تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا یقین نہیں کھتے تو یہ صرف تمہاری نادانی، جہالت اور بےعقلی کے سوا اور کیا ہے ؟ فرمایا کہ اصل بات جس پر انسان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ ہونا ہے وہ بہتر یا بدترین انجام پر ہے۔ (1) اگر ایک شخص تقویٰ ، پرہیز گاری اور نیکیوں میں سب سے آگے ہونے کی وجہ سے ان لوگوں میں شامل تھا جو اللہ کے مقربین میں تھا تو اس کو آخرت میں ہر طرح کا سکون و اطمینان اور راحت و آرام نصیب ہوگا اور جنت کی وہ راحتیں نصیب ہوں گی جن کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا اللہ کے ہاں بہترین اور اعلیٰ ترین مقام ہوگا۔ (2) اور اگر وہ اپنی نیکیوں اور زندگی بھر بھلائیوں اور اللہ و رسول کی اطاعت میں رہنے کی وجہ سے اصحاب الیمین (جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے) تھے تو وہ بھی جنت کی تمام راحتیں اور نعمتیں حاصل کریں گے اور ان پر سلامتی ہی سلامتی ہوگی۔ (3) لیکن اگر وہ ان لوگوں میں سے تھے جو زنگدی بھر اللہ کے دین اور رسول کی رسالت کو جھٹلاتے جھٹلاتے خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا ہوگا تو ان کی آئو بھگت جہنم کی آگ اور کھولتے پانی سے کی جائیگی جو ان کی انتہائی بد نصیبی ہوگی۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے وہ سراسر حق اور سچ ہے آپ اس سچائی کو پھیلاتے رہیے کسی کی پرواہ نہ کیجیے اور اپنے عظیم رب کی حمد و ثنا کیجیے۔ ہر کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ زیر مطالعہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” لایمسہ الا المطھرون “ یعنی اس کو صرف وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ اگرچہ یہاں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ کلام جنتا یا شیاطین کے ناپاک ہاتھوں سے نہیں بلکہ اللہ کے پاک فرشتوں کے ہاتھوں سے آپ تک پہنچا ہے لیکن مفسرین نے اس آیت کے ضمن میں چند احادیث کو نقل فرمایا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پاکیزہ فرشتوں کے ذریعہ اس قرآن کریم کو نازل کیا ہے لیکن اب وہ لوگ جو حامل قرآن ہیں ان کو بھی اس قرآن کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہر طرح کی ظاہری نجاستوں سے پاک ہونا چاہئے۔ اس سلسلہ میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کر کے ان سے مسائل پیش فرمائے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن حزام کو ایک خط لکھوایا جس میں یہ حکم بھی دیا تھا کہ ” لایمس القرآن الا طاھر “ (ابن کثیر روح المعانی) یعنی قرآن کو وہ شخص ہاتھ نہ لگائے جو پاک نہ ہو۔ پاکی کیا ہے اس کی وضاحت بھی مفسرین نے ہی فرمائی ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کی شرط یہ ہے کہ وہ جنابت ، حیض اور نفاس سے پاک ہو اور با وضو ہو۔ قرآن کریم کو ہاتھ لگایا جائے تو یہ ایک ناجائز حرکت ہوگی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر چاروں اماموں کا مکمل اتفاق ہے۔ اگر ایک شخص پر غسل واجب ہے یا کوئی خاتون اپنے ایام میں ہے تو وہ پہلے غسل کرے اور پھر قرآن شریف کو ہاتھ لگائے۔ اگر وہ شرعی طور پر پاک ہے اور اس کا وضو نہیں ہے تو اس کو زبانی قرآن کریم پڑھنے کی اجازت ہے۔ ہاتھ لگانے کے لئے وضو ہونا شرط ہے۔ وہ بچے جو قرآن کریم حفظ کرتے ہیں یا قرآن کریم پڑھتے ہیں اسی طرح سے وہ لوگ جو کسی ایسے چھاپے خانے میں کام کرتے ہیں جہاں قرآن کریم چھپتا ہے ان کو چاہئے کہ جب وہ قرآن کریم پڑھنے آئیں یا کوئی اپنے پریس یا دوکان میں جہاں قرآن کریم ہی ہوتے ہیں آئیں تو وہ وضو کرلیں ہر وقت وضو کرنا ایسے لوگوں کے لئے شرط نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ وضو کا اہتمام کریں تو ان کو بہت زیادہ اجر وثواب ملے گا۔ واخر دعوانا الحمد للہ رب العالمین
Top