Ruh-ul-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پس نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی
فَـلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰ قِعِ النُّجُوْمِ ۔ وَاِنَّـہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ۔ اِنَّـہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ (الواقعۃ : 75 تا 77) (پس نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی۔ بیشک یہ ایک بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو۔ بیشک یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے۔ ) لَآ کا محمل اور قسم کا مفہوم لَآ فعل اُقْسِمْ کا حصہ نہیں۔ اس کی حیثیت اس سے بالکل الگ ہے۔ مخاطب کے زعم باطل کی تردید کے لیے اس طرح نفی کا لانا عربی زبان اور قرآن میں معروف ہے۔ مثلاً سورة النساء میں ارشاد فرمایا گیا ہے فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُوْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَبَیْنَھُمْ ” پس نہیں ! تیرے رب کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات میں آپ کو حَکَم نہ بنائیں۔ “ منافقین یہ سمجھتے تھے کہ محض کلمہ پڑھ لینے سے آدمی مسلمان ہوجاتا ہے، آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کی ضرورت نہیں۔ لَآ کہہ کر ان کے ان خیالاتِ باطلہ کی تردید کی گئی ہے۔ اور اس کے بعد قسم کھا کر حقیقت کا اظہار فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی لَآ کہہ کر مخالفین کے ان خیالاتِ باطلہ کی تردید کی گئی ہے جن کا اظہار وہ قرآن کریم کے بارے میں کرتے رہتے تھے۔ کبھی اسے آنحضرت ﷺ کی تصنیف قرار دیتے، کبھی القائے شیطانی کا نتیجہ ٹھہراتے۔ غرضیکہ مختلف قسم کی لایعنی باتیں کہتے رہتے تھے۔ لَآ سے ان کے ان خیالاتِ باطلہ کی تردید کی گئی ہے۔ اس کے بعد قسم کھا کر اصل حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ ہم بارہا یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ قرآن کریم میں قسم بالعموم دلیل یا شہادت کے طور پر لائی جاتی ہے۔ اور اس کا مقسم علیہ دعویٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں قسم کھائی گئی ہے نجوم کے مواقع کی۔ سوال یہ ہے کہ نجوم کے مواقع سے مراد کیا ہے ؟ بعض اہل علم نے نجوم سے شہاب ثاقب مراد لیے ہیں اور مواقع ان کے نزدیک وہ ٹھکانے یا کمین گاہیں ہیں جن پر شیاطین کے تعاقب میں شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ اس مفہوم کو غلط تو نہیں کہا جاسکتا، البتہ اس میں تکلف کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ایک دوسرا مفہوم جو اکثر اہل علم مراد لیتے ہیں اور جو ہر طرح کے تکلف سے پاک ہے وہ یہ ہے کہ نجوم سے مراد عام تارے یا سیارے ہیں۔ اور مواقع سے مراد ان کے مقامات، ان کی منزلیں اور ان کے مدار ہیں۔ اس قسم سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ تم اگر عالم بالا میں اجرامِ فلکی کے نظام کا مشاہدہ کرو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ یہ نظام ایسا محکم اور مضبوط ہے جسے دیکھ کر آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کائنات کی بیشمار کہکشائیں ہیں اور ہر ایک کہکشاں کے اندر بےحد و حساب تارے اور سیارے ہیں۔ لیکن ان میں اس طرح کا ربط و نظم پایا جاتا ہے مجال نہیں کہ ایک دوسرے سے ان کا تصادم ہوجائے۔ بظاہر وہ بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ باہمی اس قدر مربوط اور منظم ہیں کہ ایک دوسرے سے انھیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ بالکل اسی طرح قرآن کریم بھی کمال درجہ کا مربوط اور منظم ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔ اس کے متعین عقائد ہیں۔ اور اس میں دیا ہوا پورا نظام زندگی جن میں اخلاق، عبادات، تہذیب، تمدن، معیشت، معاشرت، قانون، صلح و جنگ، غرضیکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں پر مفصل ہدایات دی گئی ہیں، ان میں سے کوئی چیز بھی عقائد کی حدود سے باہر نکلنے نہیں پاتی۔ ہر ہدایت کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی حاکمیت دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وضاحت و صراحت، اس کے نمونے اور نظائر کے لیے اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت دکھائی دیتی ہے۔ اور ہر ایک کی تہ میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ بظاہر یہ پورا نظام متفرق آیات اور مختلف مواقع پر دیئے ہوئے خطبوں میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن زندگی سے اس کا رشتہ کہیں بھی کمزور ہونے میں نہیں آتا۔ دوسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو۔ یعنی ایک بہت بڑی شہادت اور بہت بڑی دلیل ہے۔ لیکن کسی شہادت اور دلیل کی عظمت کا دارومدار مخاطب کے نزدیک بیان کردہ عظمت کے اعتراف پر ہوتا ہے۔ تو قرآن کریم کے مخالفین چونکہ قرآن کریم کو مناسب وزن دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تو ان سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ وہ اس قسم کی اہمیت کو محسوس نہیں کریں گے۔ اس لیے ان کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمانوں کا نظام اگرچہ بہت دور سے دکھائی دیتا ہے لیکن اُمِّی معاشروں میں بھی ستاروں اور کہکشائوں کے بارے میں ہمیشہ گراں قدر معلومات موجود رہی ہیں۔ اس لیے ان سے امید کی جاسکتی تھی کہ یہ عالم بالا کے نظام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوں گے تو اس کو بطور شہادت پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کی عظمت کو ان کے سامنے کھولا گیا اور ساتھ ہی تنبیہ بھی کی گئی کہ اس عظمت کے اعتراف کے لیے اس کے نظام کو جاننا پہچاننا اور غور کرنا ضروری ہے۔ البتہ اس کی عظمت کی ایسی باتیں جو عالم غیب سے تعلق رکھتی ہیں ان میں سے صرف دو کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
Top