Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
(پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کے ٹھکانوں کی !
4۔ آگے آیات 75، 96 کا مضمون آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ قریش کے لیڈروں کو خطاب کر کے متنبہ فرمایا ہے کہ قرآن جس شدنی کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حقیقت ہے۔ اس سے فرار اختیار کرنے اور اس کی تکذیب کرنے کی کوشش نہ کرو۔ یہ کاہنوں کی خرافات کی قسم کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے محفوظ خزانہ علم سے اترا ہوا باعزت کلام ہے جو نہایت پاکیزہ ذرائع سے اس کے پاکیزہ رسول پر نازل ہوا ہے۔ یہ شاطین کی چھوت اور مداخلت سے بالکل محفوظ و مامون ہے، یہ تمہارے لیے ابدی ہدایت اور دائمی رزق ہے، اس کی ناقدری اور تکذیب کر کے اپنی شامت کو دعوت نہ دو۔ یادرکھو کہ کوئی خدا کے قابو سے باہر نہیں نکل سکتا اور تمہیں جس حفض و رفع آگاہ کیا جا رہا ہے وہ اپنے تمام لوازم و نتائج کے ساتھ سامنے آنے والا ہے۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 5۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (فلا اقسم بموقع النجوم) (75)۔ (لا فعل سے الگ ہے)۔ یہاں لا فعل اقسم سے متصل نہیں ہے بلکہ اس سے بالکل الگ ہے۔ اثبات سے پہلے یہ نفی مخاطب کے زعم باطل کی تردید کے لیے آئی ہے۔ اس طرح نفی کا لانا عربی زبان اور قرآن میں معروف ہے۔ سورة نساء میں فرمایا ہے (فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فما شجر بینھم) (النساء : 4، 65) (پس نہیں، تیرے رب کی قسم، وہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات میں تمہی کو حکم نہ بتائیں) یعنی اگر ان منافقین کا گمان ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینے سے یہ مسلمان بن گئے ہیں تو یہ گمان بالکل غلط ہے۔ اس کے بعد قسم کھا کر فرمایا کہ یہ اس وقت تک سچے مومن نہیں بن سکتے جب تک اپنی تمام نزاعات میں تمہی کو (رسول اللہ ﷺ کو) حکم نہ بنائیں۔ اسی طرح یہاں قسم سے پہلے لا کے ذریعہ محاطبوں کے اس زعم کی تردید فرما دی کہ قرآن العیاذ باللہ کاہنوں کی مزخوفات کی قسم کا کوئی شیطانی القاء ہے۔ اس کے بعد قسم کھا کر قرآن کی عظمت و تقدیس اور اس کے وحی الٰہی ہونے کا ذکر فرمایا۔ یہ اسلوب کلام ایک فطری اسلوب کلام ہے اس وجہ سے ہر زبان میں موجود ہے۔ ہماری زبان میں بھی یہ اسلوب معروف ہے۔ جب آپ کہتے ہیں نہیں خدا کی قسم، اصل حقیقت یوں ہے، تو یہی اسلوب استعمال کرتے ہیں اور مقصود یہ ہوتا ہے کہ اصل حقیقت کے اثبات سے پہلے مخاطب یا معترض کے خیال یا اعتراض کی تردید کردیں۔ اس اسلوب کلام میں بلاغت یہ ہے کہ گویا معترض کا اعتراض اتنا لغو ہے کہ متکلم ایک لمحہ کے لیے بھی اس کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کو اتنا توقف بھی گوارا نہیں ہے کہ صحیح پہلو کی وضاحت کرنیکے بعد اس کی تردید کرے۔ (وحی الٰہی کی حفاظت کے لیے ایک خاص انتظام) مواقع جمع ہے موقع کی جس کے معنی چیز کے واقع ہونے یا گرنے کی جگہ کے ہیں۔ یہاں یہ ان ٹھکانوں یا کمین گاہوں کے لیے آیا ہے جن پر ان شیاطین کے تعاقب کے لیے شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں کو ملالہ علی کے بھید معلوم کرنے کے لیے ان میں چھپ کر کان لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین جن نے کچھ خاص کمین گاہیں ایسی منتخب کر رکھی تھیں جن میں وہ ملا اعلیٰ کی باتوں کی سن گن لینے کے لیے بیٹھا کرتے تھے۔ نزول قرآن کے زمانے میں وحی الٰہی کو شیاطین کی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر یہ اہتمام فرمایا کہ جو شیاطین ان کمین گاہوں میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ان پر شہاب ثاقت کے راکٹ پھینکے جاتے اس حقیقت کا اعتراف سورة جن میں خود جنوں کی زبان سے یوں نقل ہوا ہے۔ (الجن۔۔ 72، 908)۔۔۔ (اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو یہ پایا کہ وہ سخت پہرہ داروں اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے اور یہ کہ ہم اس کے کچھ ٹھکانوں میں غیب کی باتیں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن اب جو کان لگانے کی کوشش کرے گا تو وہ ایک شہاب ثاقت کو اپنی گھات میں پائے گا۔) میرے نزدیک سورة جن کی اس آیت میں جن کمین گاہوں کو مقاعد کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ انہی کو آیت زیر بحث میں مواقع کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ البتہ مقاعد میں انکے کمین گاہ ہونے کا مفہوم پیش نظر ہے اور مواقع میں شہابوں کے ہدف ہونے کا لفظ نجوم یہاں شہابوں کے مفہوم میں ہے۔ سورة الملک میں فرمایا ہے (ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح وجعلنھا رجوما للشیطین) (الملک : 67، 5) (اور ہم نے آسمان زیریں کو چراغوں سے سجایا اور ان کو شیطانوں کے سنگسار کرنے کے لیے بھی بنایا) ان شہابوں پر سورة نجم کی آیات 1، 5 اور سورة رحمن کی آیت 35 کے تحت بھی بحث گزر چکی ہے۔ ان دونوں مقامات پر بھی ایک نظرڈال لیجئے۔
Top