Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پس میں قسم اٹھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کی
ربط آیات : پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت والے دن لوگوں کے تین گروہوں میں تقسیم ہونے کا ذکر کیا۔ ان میں دو گروہ یعنی سابقین اور اصحاب یمین کامیاب ہو کر خدا کی رحمت کے مقام میں پہنچیں گے ، اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات حاصل کریں گے اور البتہ اصحاب شمال ناکام ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام جہنم میں پہنچیں گے۔ اللہ نے پہلی دو اقسام کے لوگوں کو ملنے والے انعامات کا تذکرہ کیا ، اور تیسرے گروہ کی سزا کا بیان ہوا۔ اس کے بعد اللہ نے توحید اور قیامت کے منکرین کا رد کیا ، اور اس ضمن میں بعض دلائل کا ذکر بھی کیا۔ اب آخر میں رسالت کا ذکر ہے اور ساتھ ساتھ منکرین قیامت کا رد بھی۔ اس کے علاوہ قرآن کی صداقت و عظمت کا بیان بھی ہے اور پھر جزائے عمل کی بات بھی کی گئی ہے غرضیکہ اس درس میں قدرت الٰہی کے نمونے اور نشانیاں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھ میں آتی ہے اور ایمان درست ہوتا ہے اور ساتھ ہی وقوع قیامت پر بھی نشانی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر (علیہ السلام) کی صداقت اور قرآن کی عظمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی عظمت : ارشاد ہوتا ہے فلا اقسم بمواقع النجوم پس میں قسم اٹھاتا ہوں ستاروں کے غروب ہونے کی۔ لا اقسم کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مقام پر لا زائد بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم عربی محاورے میں لا تاکید کے لئے بھی آتا ہے اس لحاظ سے یہ لاتاکیدی ہے جس سے قسم کو موکد بنا گیا گیا ہے۔ اور معنی یہ ہے کہ میں ستاروں کے غروب کی تاکیداً قسم اٹھاتا ہوں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ لا زائد نہیں بلکہ سابق کلام کی نفی ہے اور اس کے بعد اگلی بات کی گئی ہے۔ گزشتہ آیات میں مشرکین اور منکرین قیامت کا ذکر تھا۔ اب اللہ نے لا کے ذریعے ایسے لوگوں کے نظریات کی تردید کرکے ستاروں کے ڈوب جانے کی قسم اٹھائی ہے اور پھر قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو بیان کیا ہے۔ فرمایا میں ستاروں کے غروب ہوجانے کی قسم اٹھاتا ہوں وانہ لقسم لو تعلمون عظیم ، اور یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانتے ہو۔ پھر فرمایا انہ لقرآن کریم ، بیشک یہ البتہ عزت والا قرآن ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جسے اس نے بنی نوع انسان کو ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔ یہی قرآن بتلاتا ہے کہ اللہ کی توحید پر ایمان لانا ضروری ہے ، اور کفر وشرک سے بیزاری اور نفرت کا اظہار لازمی ہے۔ نیز وقوع قیامت اور جزائے عمل برحق ہے۔ یہ ساری باتیں اللہ نے عظیم قسم اٹھا کر بیان کی ہیں۔ مفسرین کے مختلف اقوال : مفسرین کرام نے مواقع النجوم کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔ یہ لفظ زمانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور جگہ کے معنی میں بھی۔ اس جملے سے ستاروں کے غروب کا وقت مراد ہو یا جگہ ، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ ستاروں ، چاند اور سورج کا طلوع و غروب قدرت الٰہی کی علامات میں سے ہے۔ ہر چیز پر وہی قادر اور متصرف ہے کائنات کے پورے نظام کو چلانے میں وہ حدہ لاشریک ہے۔ غرضیکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمونے ہیں۔ جنہیں گزشتہ سورتوں میں مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا جاچکا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ستاروں کا غروب ، ان کا زمانہ یا جگہ تو ظاہر بات ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو عظیم قسم سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت سمجھ میں آتی ہے بشرطیکہ لو تعلمون یعنی تمہیں سمجھ ہو کیونکہ سمجھ کے بغیر ہر چیز بےسود ہے۔ گویا ستاروں کا غروب اہل عقل وفہم کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ بعض مفسرین نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ کیا یہاں پر ستاروں سے یہی فلکیاتی ستارے مراد ہیں جن کا ہم ہر رات مشاہدہ کرتے ہیں یا کوئی اور چیز مراد ہے ؟ فرماتے ہیں کہ ستاروں کا غروب سورج کے طلوع کی علامت ہوتی ہے۔ چناچہ ان ستاروں سے یہ ظاہری ستارے مراد نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے انبیاء علیہم لاسلام دنیا میں بنی نوح انسان کے نجوم ہدایت ہوتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کا دور ختم ہوچکا ہے گویا وہ تمام ستارے غروب ہوچکے ہیں ، اور اب آخری دور کے شمس ہدایت حضور ﷺ کا دور ہے۔ اسی لئے اللہ نے سورة الاحزاب میں آ پکو سراجا منیر (آیت 46) کا لقب عطا فرمایا ہے۔ یعنی حضور ﷺ ہدیات کے روشن چراغ ہیں۔ سورج کو بھی اللہ نے سراج منیر کہا ہے۔ جو ظاہری روشنی دیتا ہے مگر پیغمبر (علیہ السلام) ہدایت کا نور پھیلاتے ہیں قرآن کی حفاظت کا انتظام : بعض فرماتے ہیں کہ شمس سے قرآن کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ سابقہ کتب اور صحائف سماویہ میں لوگوں نے تغیروتبدل پیدا کردیا ، اور اب وہ انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے اب اللہ نے آخر شمس ہدایت قرآن کے طلوع کا ذکر فرمایا۔ جو ہر طرح سے محفوظ ہے گزشتہ چودہ صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود قرآن پاک کی سالمیت پر کوئی حرف نہیں آیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کیا ذمہ خود لے رکھا ہے جیسے اس کا ارشاد ہے انا نحن……………لحفظون (الحجر 9) بیشک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ آج اس گئے گزرے زمانے میں بھی دنیا بھر میں کم و بیش ایک کروڑ حفاظ موجود ہیں جس کی وجہ سے قرآن کے ظاہری الفاظ میں تو تغیر وتبدل ممکن نہیں۔ جہاں تک قرآن کی معنوی تحریف کا تعلق ہے تو اللہ نے اس کا بھی معقول انتظام کر کھا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے گا۔ جو قرآن ، دین اور شریعت میں تحریف کا نوٹس لیتے رہیں گے۔ یعنی غلط باتوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے اور اس طرح قرآن کا معنوی تحریک بھی ناممکن ہوجائے گی۔ موجودہ دور میں سر سید نے معجزات کا انکار کیا اور قرآنی آیات کی بہت سی غلط تاویلات کیں جس کا تمام علماء نے متفقہ طور پر رد کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اللہ نے اہل حق کو کھڑا کردیا جنہوں نے اس کے تمام باطل نظریات کی تردید کی۔ اسی طرح غلام احمد پرویز نے بہت سی تحریفات کی ہیں جن کا علمائے حق نے تعاقب کیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی ظاہری اور باطنی حفاظت کا خود ذمہ لے رکھا ہے اور اس کے لئے مناسب سامان بھی پیدا کردیا ہے۔ بہرحال اب بنی نوع انسان کی ہدایت اور نجات کا ذریعہ قرآن پاک ہی ہے ، اس لئے اللہ نے ستاروں کے غروب ہونے کا ذکر کرکے قرآن حکیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا یہ عزت والا قرآن ہے۔ فی کتب مکنون جو کہ ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا ہوا ہے ، پوشیدہ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز درج ہے۔ سورة البروج میں بھی اللہ نے فرمایا ہے۔ بل ھو…………………محفوظ (البروج 22 , 21) بلکہ یہ قرآن پاک ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ اس کے علاوہ یہ حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے اور کتاب کی صورت میں تو بہرحال ہمارے سامنے موجود ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ لوح محفوظ کو دنیا کی کسی تختی پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات بےمثال ہیں اسی طرح لوح محفوظ بھی بےمثال ہے جو کہ اللہ کے علم تفصیلی کا ایک نمونہ ہے۔ قرآن پاک کو چھونے کا مسئلہ : آگے اللہ تعالیٰ نے آداب قرآن کے سلسلے میں اس کو چھونے کا مسئلہ بیان فرمای ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لایمسہ الا المطھرون قرآن پاک کو نہیں چھوتے مگر پاک بنائے ہوئے لوگ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک خبر ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں مگر دراصل یہ حکم ہے کہ اس کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں اور ناپاک لوگ اس کو نہ چھوئیں۔ اگر یمسہ کی ضمیر لوح محفوظ کی طرف ہو جس کو یہاں کتاب مکنون کا نام دیا گیا ہے تو پھر پاک لوگوں سے مراد اللہ کے وہ مقرب فرشتے ہیں جن کو لوح محفوظ تک رسائی حاصل ہے کہ وہی اس کو چھو سکتے ہیں۔ اور اگر یمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف ہو تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ قرآن پاک کو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں یعنی اس قرآن کو صرف طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگایا جائے اور ناپاک آدمی اس کو نہ چھوئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ طہارت سے مراد کفر وشرک سے پاکیزگی ہے اور چھونے کا مطلب اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اسی طرح معنی یہ بنتا ہے کہ قرآن پاک کی تعلیمات سے وہی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جو کفر ، شرک ، نفاق ، الحاد اور شک سے پاک ہوں ۔ پاکیزگی کا عام فہم معنی نجاست سے پاکیزگی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن پاک کو بےوضو یا ناپاکی یعنی جنابت ، حیض یا نفاس کی حالت میں ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اس معاملہ میں قرآن کے ساتھ وہ دینی کتابیں بھی شامل ہیں جن میں آیات یا احادیث نقل کی گئی ہوں یا انکی تشریح کی گئی ہو۔ ایسی کتابوں کو بےوضو ہاتھ لگانا بھی مکروہ ہے تاہم قرآن پاک کو چھونا تو سخت کراہیت کا باعث ہے۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل بھی موجود ہے۔ آپ نے یمن میں عمرو ابن حزم ؓ کو خط لکھوایا تھا جس میں دیگر احکام ومسائل کے علاوہ یہ بھی حکم دیا۔ کہ لا تمسس القرآن الا وانت طاھر یعنی طہارت کے بغیر قرآن پاک کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور ہے کہ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی ایمان لاچکے ہیں ، تو آپ ان کے ہاں پہنچے۔ آپ کی بہن قرآن پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے بھی قرآن پاک دیکھنا چاہا تو آپ کی بہن نے کا کہ تم ناپاک ہو ، پہلے غسل کرکے پاک ہوجائو ، اس کے بعد تم قرآن کو ہاتھ لگاسکتے ہو ، چناچہ آ پنے غسل کیا اور پھر قرآن ہاتھ میں لے کر پڑھا۔ اسی لئے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی قافلہ کسی کافر ملک میں جائے تو قرآن پاک کو ساتھ نہ لے جائے کہیں ایسا نہ ہو کافر لوگ قرآن کو ہاتھ لگا کر اس کی توہین کا بعث بنیں ، اگر قافلہ مضبوط ہو اور قرآن کی حفاظت کرسکتا ہو ، تو پھر ہمراہ لے جاسکتا ہے اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ ناپاک آدمی قرآن پاک کی جلد پر چڑھی ہوئی چولی کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ یہ قرآن کے ساتھ چمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ البتہ قرآن پاک کے اوپر غلاف چڑھا ہوا ہو تو پھر ایسی حالت میں قرآن کہ ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ فقہ کی مشہور کتاب ” مینۃ المصلی “ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ناپاک آدمی تورات اور انجیل کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ حالانکہ ان کتابوں میں ہزاروں تحریفات ہوچکی ہیں اس کے باوجود اللہ کا نام اور بعض صحیح باتیں بھی چونکہ سابقہ کتب سماویہ میں موجود ہیں لہٰذا ان کو بھی بغیر طہارت کے ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ قرآن کی تلاوت کا مسئلہ : حضرت علی ؓ کے قول سے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی اخذ ہوتا ہے ، کہ ناپاکی کی حالت میں کسی مرد یا عورت کو قرآن پاک کی زبانی تلاوت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ چناچہ جنبی آدمی یا حیض ونفاس والی عورت زبان سے بھی قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے بےوضو ہونے کی حالت میں بھی مناسب تو یہی ہے کہ آدمی قرآن کی تلاوت نہ کرے مگر حضور ﷺ کے عمل نے یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ بےوضو آدمی زبانی تلاوت کرسکتا ہے مگر ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ البتہ اللہ کا ذکر ہر حالت میں روا ہے کوئی شخص بےوضو بھی ہو تو وہ سبحان اللہ ، الحمدللہ ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، لا الہ الا اللہ درود استغفار وغیرہ کا ذکر کرسکتا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اگر عورت بچوں کو قرآن پڑھاتی ہو اور وہ ناپاکی کی حالت میں ہو تو وہ زبان سے مکمل آیت نہ پڑھے البتہ اگر ایک ایک لفظ کے ذریعے طالب علم کو سبق دے دے تو کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء کا خیال ہے کہ ایسی حالت میں جس طرح قرآن کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ اسی طرح اس کی زبانی تلاوت بھی منع ہے۔ نزول قرآن : آگے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت وصداقت اور اس کے وحی الٰہی ہونے کا ذکر کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے تنزیل من رب العالمین یہ اللہ عتالٰ کی طرف سے اتارا ہوا ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ کوئی جادو ، کہانت اور شاعری نہیں ہے بلکہ نہایت ہی مقدس کتاب ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے وحی کی صورت میں نازل ہوئی اور جس میں ہدایت اور تربیت کا بہترین اور بےمثال پروگرام موجود ہے اس کی آیات نہایت ہی محکم ہیں۔ جس طرح اللہ نے کائنات کی بقا کے لئے نظام شمسی قام کررکھا ہے ، اسی طرح اس نے انسانوں کی روحانی تربیت اور ہدایت کے لئے انبیاء اور کتب سماویہ کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ پہلے انبیاء کی کتابوں اور صحیفوں میں تحریفات کرکے گڑ بڑ کی گئی ، لہٰذا اللہ نے آخری دور کی رشدوہدایت کے لئے اپنی کامل اور مقدس ترین کتاب نازل فرما کر بنی نوع انسان کی ضروریات کی تکمیل کا سامان مہیا کردیا ہے۔ یہ عزت والا قرآن ہے جو وحی کے ذریعے نازل کیا گیا اور جو شکوک و شبہات سے پاک ہے۔ قرآن کے بارے میں مداہنت : فرمایا افبھذا الحدیث انتم مدھنون کیا تم اس بات میں سستی کرتے ہو ؟ جو کتاب اللہ نے وحی کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اس کے بارے میں مداہنت یا سستی کا اظہار بہت بری بات ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے جو فوزو فلاح کا ضامن ہے۔ جو قوم اس پروگرام کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتی وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مواقع النجوم سے قرآن کی آیات مراد ہیں۔ جس وقت اللہ کے نبی کا عالم قدس سے اتصال ہوتا ہے تو اس وقت آیات قرآنی اللہ کے نبی کے قلب مبارک پر نازل ہوتی ہیں ، اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے فانہ ……… ……اللہ (البقرہ 97) بیشک اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اس قرآن کو آپ کے قلب مبارک پر نازل کیا۔ جب حضور ﷺ کی بشریت کے تقاضے کمزور ہوجاتے ہیں اور ملکیت کی صفت غالب آجاتی ہے یعنی جس وقت آپ کی بشریت سے ملکیت کی طرف انسلاخ ہوتا ہے تو اس وقت قرآنی آیات ستاروں کی طرح آپ کے قلب پر نازل ہوتی ہیں۔ اس کتاب سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ہے ، لہٰذا اس سے مداہنت اختیار کرنا افسوسناک ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس شکوے کا سب سے بڑا مورد خود مسلمان ہے۔ دنیا کے کسی مذہب والوں کے پاس آج کوئی صحیح کتاب موجود نہیں۔ مگر جن مسلمانوں کے پاس یہ صحیح کتاب موجود ہے وہ انتہائی سست ہیں کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے ہوئے اس کے نظام کو جاری کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان طرح طرح کے مسائل اور مصائب کا شکار ہیں۔ دیگر اقوام کا بھٹک جانا تو قابل فہم ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی صحیح اور مکمل پروگرام ہی نہیں ہے مگر مسلمان قرآن کے حامل ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے محروم ہیں۔ تاریخی لحاظ سے خلفائے راشدین ؓ نے اس پروگرام پر عمل کرکے اس کی صداقت کو ثابت کردیا۔ مگر آج مسلمانوں کی نحوست کی یہی وجہ ہے کہ یہ مداہنت میں آچکے ہیں ، قرآن پاک کی تعلیمات سے اغماض برت رہے ہیں اور اس کی بجائے کفر کے نظریات سے راہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے نظریات کے اتباع کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ فکر ، عمل اور اخلاق سب باطل ہی ہوجاتے ہیں۔ دوسری جگہ موجود ہے فبای……… …یومنون (المرسلت 50) اگر تم قرآن پاک جیسی عظیم الشان اور آخری کتاب پر ایمان نہیں لائو گے ، تو پھر اس کے بعد کون سی کتاب اور کون سا پروگرام آنے والا ہے ، جس پر ایمان لائو گے ؟۔ اللہ تعالیٰ کا شکر : فرمایا کیا تم قرآن کے بارے میں مداہنت اختیار کرتے ہو وتجعلون رزقکم انکم تکذبون ، اور اس میں تم اپنا حصہ اس طرح ٹھہراتے ہو کہ اس کی تکذیب کرتے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی اس عظیم نعمت قرآن کے حصول پر شکر ادا کرنے کی جائے اس کو جھٹلاتے ہو گویا ناشکری کرتے ہو۔ مقام حدیبیہ پر قیام کے دوران بارش ہوگئی تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ صبح کے وقت میرے بندوں میں سے دو قسم کے بندے ہوں گے ایک وہ گروہ ہے جو مجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور ستاروں کا انکار کرتے ہیں اور اس بارش کو صرف میری طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ مومن لوگ ہیں اور میرے شکرگزار ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کہ یہ بارش فلاں نچھتر کے طلوع یاغروف کی وجہ سے ہوئی ہے یہ میرے ناشکرگزار بندے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ کہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔ وہ ایماندار ہیں۔ تکذیب عمل کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور اعتقاد کے ذریعے بھی۔ شرک کی بیشمار قسمیں مسلمانوں میں بھی رائج ہیں ، بیشمار بدعات بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ زندگی اور موت کے کتنے ہی مواقع پر اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور رسم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے ۔ یہی مدہنت فیالدین ہے جس کا اللہ نے شکوہ بیان کیا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی ناشکر گزاری ہے۔ جس کے متعلق اللہ نے کا ہے کہ تم قرآن کے بارے میں سستی کرتے ہو۔ اس کے بعد متصلا جزائے عمل کی بات آرہی ہے۔
Top