Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ
: پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں
بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ
: تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پس میں قسم اٹھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کی
ربط آیات : پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت والے دن لوگوں کے تین گروہوں میں تقسیم ہونے کا ذکر کیا۔ ان میں دو گروہ یعنی سابقین اور اصحاب یمین کامیاب ہو کر خدا کی رحمت کے مقام میں پہنچیں گے ، اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات حاصل کریں گے اور البتہ اصحاب شمال ناکام ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام جہنم میں پہنچیں گے۔ اللہ نے پہلی دو اقسام کے لوگوں کو ملنے والے انعامات کا تذکرہ کیا ، اور تیسرے گروہ کی سزا کا بیان ہوا۔ اس کے بعد اللہ نے توحید اور قیامت کے منکرین کا رد کیا ، اور اس ضمن میں بعض دلائل کا ذکر بھی کیا۔ اب آخر میں رسالت کا ذکر ہے اور ساتھ ساتھ منکرین قیامت کا رد بھی۔ اس کے علاوہ قرآن کی صداقت و عظمت کا بیان بھی ہے اور پھر جزائے عمل کی بات بھی کی گئی ہے غرضیکہ اس درس میں قدرت الٰہی کے نمونے اور نشانیاں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھ میں آتی ہے اور ایمان درست ہوتا ہے اور ساتھ ہی وقوع قیامت پر بھی نشانی بنتی ہے۔ اس کے علاوہ پیغمبر (علیہ السلام) کی صداقت اور قرآن کی عظمت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی عظمت : ارشاد ہوتا ہے فلا اقسم بمواقع النجوم پس میں قسم اٹھاتا ہوں ستاروں کے غروب ہونے کی۔ لا اقسم کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مقام پر لا زائد بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم عربی محاورے میں لا تاکید کے لئے بھی آتا ہے اس لحاظ سے یہ لاتاکیدی ہے جس سے قسم کو موکد بنا گیا گیا ہے۔ اور معنی یہ ہے کہ میں ستاروں کے غروب کی تاکیداً قسم اٹھاتا ہوں۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہ لا زائد نہیں بلکہ سابق کلام کی نفی ہے اور اس کے بعد اگلی بات کی گئی ہے۔ گزشتہ آیات میں مشرکین اور منکرین قیامت کا ذکر تھا۔ اب اللہ نے لا کے ذریعے ایسے لوگوں کے نظریات کی تردید کرکے ستاروں کے ڈوب جانے کی قسم اٹھائی ہے اور پھر قرآن پاک کی حقانیت اور صداقت کو بیان کیا ہے۔ فرمایا میں ستاروں کے غروب ہوجانے کی قسم اٹھاتا ہوں وانہ لقسم لو تعلمون عظیم ، اور یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانتے ہو۔ پھر فرمایا انہ لقرآن کریم ، بیشک یہ البتہ عزت والا قرآن ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جسے اس نے بنی نوع انسان کو ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے۔ یہی قرآن بتلاتا ہے کہ اللہ کی توحید پر ایمان لانا ضروری ہے ، اور کفر وشرک سے بیزاری اور نفرت کا اظہار لازمی ہے۔ نیز وقوع قیامت اور جزائے عمل برحق ہے۔ یہ ساری باتیں اللہ نے عظیم قسم اٹھا کر بیان کی ہیں۔ مفسرین کے مختلف اقوال : مفسرین کرام نے مواقع النجوم کے مختلف معانی بیان کیے ہیں۔ یہ لفظ زمانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور جگہ کے معنی میں بھی۔ اس جملے سے ستاروں کے غروب کا وقت مراد ہو یا جگہ ، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ ستاروں ، چاند اور سورج کا طلوع و غروب قدرت الٰہی کی علامات میں سے ہے۔ ہر چیز پر وہی قادر اور متصرف ہے کائنات کے پورے نظام کو چلانے میں وہ حدہ لاشریک ہے۔ غرضیکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمونے ہیں۔ جنہیں گزشتہ سورتوں میں مختلف عنوانات کے تحت بیان کیا جاچکا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ستاروں کا غروب ، ان کا زمانہ یا جگہ تو ظاہر بات ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو عظیم قسم سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت سمجھ میں آتی ہے بشرطیکہ لو تعلمون یعنی تمہیں سمجھ ہو کیونکہ سمجھ کے بغیر ہر چیز بےسود ہے۔ گویا ستاروں کا غروب اہل عقل وفہم کے لئے اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ بعض مفسرین نے یہ سوال پیدا کیا ہے کہ کیا یہاں پر ستاروں سے یہی فلکیاتی ستارے مراد ہیں جن کا ہم ہر رات مشاہدہ کرتے ہیں یا کوئی اور چیز مراد ہے ؟ فرماتے ہیں کہ ستاروں کا غروب سورج کے طلوع کی علامت ہوتی ہے۔ چناچہ ان ستاروں سے یہ ظاہری ستارے مراد نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے انبیاء علیہم لاسلام دنیا میں بنی نوح انسان کے نجوم ہدایت ہوتے ہیں۔ سابقہ انبیاء کا دور ختم ہوچکا ہے گویا وہ تمام ستارے غروب ہوچکے ہیں ، اور اب آخری دور کے شمس ہدایت حضور ﷺ کا دور ہے۔ اسی لئے اللہ نے سورة الاحزاب میں آ پکو سراجا منیر (آیت 46) کا لقب عطا فرمایا ہے۔ یعنی حضور ﷺ ہدیات کے روشن چراغ ہیں۔ سورج کو بھی اللہ نے سراج منیر کہا ہے۔ جو ظاہری روشنی دیتا ہے مگر پیغمبر (علیہ السلام) ہدایت کا نور پھیلاتے ہیں قرآن کی حفاظت کا انتظام : بعض فرماتے ہیں کہ شمس سے قرآن کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ سابقہ کتب اور صحائف سماویہ میں لوگوں نے تغیروتبدل پیدا کردیا ، اور اب وہ انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے اب اللہ نے آخر شمس ہدایت قرآن کے طلوع کا ذکر فرمایا۔ جو ہر طرح سے محفوظ ہے گزشتہ چودہ صدیوں کی تاریخ شاہد ہے کہ دشمنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود قرآن پاک کی سالمیت پر کوئی حرف نہیں آیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی حفاظت کیا ذمہ خود لے رکھا ہے جیسے اس کا ارشاد ہے انا نحن……………لحفظون (الحجر 9) بیشک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ آج اس گئے گزرے زمانے میں بھی دنیا بھر میں کم و بیش ایک کروڑ حفاظ موجود ہیں جس کی وجہ سے قرآن کے ظاہری الفاظ میں تو تغیر وتبدل ممکن نہیں۔ جہاں تک قرآن کی معنوی تحریف کا تعلق ہے تو اللہ نے اس کا بھی معقول انتظام کر کھا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے گا۔ جو قرآن ، دین اور شریعت میں تحریف کا نوٹس لیتے رہیں گے۔ یعنی غلط باتوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے اور اس طرح قرآن کا معنوی تحریک بھی ناممکن ہوجائے گی۔ موجودہ دور میں سر سید نے معجزات کا انکار کیا اور قرآنی آیات کی بہت سی غلط تاویلات کیں جس کا تمام علماء نے متفقہ طور پر رد کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اللہ نے اہل حق کو کھڑا کردیا جنہوں نے اس کے تمام باطل نظریات کی تردید کی۔ اسی طرح غلام احمد پرویز نے بہت سی تحریفات کی ہیں جن کا علمائے حق نے تعاقب کیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی ظاہری اور باطنی حفاظت کا خود ذمہ لے رکھا ہے اور اس کے لئے مناسب سامان بھی پیدا کردیا ہے۔ بہرحال اب بنی نوع انسان کی ہدایت اور نجات کا ذریعہ قرآن پاک ہی ہے ، اس لئے اللہ نے ستاروں کے غروب ہونے کا ذکر کرکے قرآن حکیم کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا یہ عزت والا قرآن ہے۔ فی کتب مکنون جو کہ ایک پوشیدہ کتاب میں رکھا ہوا ہے ، پوشیدہ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز درج ہے۔ سورة البروج میں بھی اللہ نے فرمایا ہے۔ بل ھو…………………محفوظ (البروج 22 , 21) بلکہ یہ قرآن پاک ہے جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ اس کے علاوہ یہ حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے اور کتاب کی صورت میں تو بہرحال ہمارے سامنے موجود ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ لوح محفوظ کو دنیا کی کسی تختی پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات بےمثال ہیں اسی طرح لوح محفوظ بھی بےمثال ہے جو کہ اللہ کے علم تفصیلی کا ایک نمونہ ہے۔ قرآن پاک کو چھونے کا مسئلہ : آگے اللہ تعالیٰ نے آداب قرآن کے سلسلے میں اس کو چھونے کا مسئلہ بیان فرمای ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لایمسہ الا المطھرون قرآن پاک کو نہیں چھوتے مگر پاک بنائے ہوئے لوگ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کو پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک خبر ہے کہ قرآن کریم کو صرف پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں مگر دراصل یہ حکم ہے کہ اس کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگائیں اور ناپاک لوگ اس کو نہ چھوئیں۔ اگر یمسہ کی ضمیر لوح محفوظ کی طرف ہو جس کو یہاں کتاب مکنون کا نام دیا گیا ہے تو پھر پاک لوگوں سے مراد اللہ کے وہ مقرب فرشتے ہیں جن کو لوح محفوظ تک رسائی حاصل ہے کہ وہی اس کو چھو سکتے ہیں۔ اور اگر یمسہ کی ضمیر قرآن کی طرف ہو تو پھر مطلب یہ ہوگا کہ قرآن پاک کو صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں یعنی اس قرآن کو صرف طہارت کی حالت میں ہی ہاتھ لگایا جائے اور ناپاک آدمی اس کو نہ چھوئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ طہارت سے مراد کفر وشرک سے پاکیزگی ہے اور چھونے کا مطلب اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اسی طرح معنی یہ بنتا ہے کہ قرآن پاک کی تعلیمات سے وہی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جو کفر ، شرک ، نفاق ، الحاد اور شک سے پاک ہوں ۔ پاکیزگی کا عام فہم معنی نجاست سے پاکیزگی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن پاک کو بےوضو یا ناپاکی یعنی جنابت ، حیض یا نفاس کی حالت میں ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ اس معاملہ میں قرآن کے ساتھ وہ دینی کتابیں بھی شامل ہیں جن میں آیات یا احادیث نقل کی گئی ہوں یا انکی تشریح کی گئی ہو۔ ایسی کتابوں کو بےوضو ہاتھ لگانا بھی مکروہ ہے تاہم قرآن پاک کو چھونا تو سخت کراہیت کا باعث ہے۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا طرز عمل بھی موجود ہے۔ آپ نے یمن میں عمرو ابن حزم ؓ کو خط لکھوایا تھا جس میں دیگر احکام ومسائل کے علاوہ یہ بھی حکم دیا۔ کہ لا تمسس القرآن الا وانت طاھر یعنی طہارت کے بغیر قرآن پاک کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور ہے کہ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی بہن اور بہنوئی ایمان لاچکے ہیں ، تو آپ ان کے ہاں پہنچے۔ آپ کی بہن قرآن پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے بھی قرآن پاک دیکھنا چاہا تو آپ کی بہن نے کا کہ تم ناپاک ہو ، پہلے غسل کرکے پاک ہوجائو ، اس کے بعد تم قرآن کو ہاتھ لگاسکتے ہو ، چناچہ آ پنے غسل کیا اور پھر قرآن ہاتھ میں لے کر پڑھا۔ اسی لئے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر مسلمانوں کا کوئی قافلہ کسی کافر ملک میں جائے تو قرآن پاک کو ساتھ نہ لے جائے کہیں ایسا نہ ہو کافر لوگ قرآن کو ہاتھ لگا کر اس کی توہین کا بعث بنیں ، اگر قافلہ مضبوط ہو اور قرآن کی حفاظت کرسکتا ہو ، تو پھر ہمراہ لے جاسکتا ہے اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ ناپاک آدمی قرآن پاک کی جلد پر چڑھی ہوئی چولی کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ یہ قرآن کے ساتھ چمٹی ہوئی ہوتی ہے۔ البتہ قرآن پاک کے اوپر غلاف چڑھا ہوا ہو تو پھر ایسی حالت میں قرآن کہ ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ فقہ کی مشہور کتاب ” مینۃ المصلی “ میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ ناپاک آدمی تورات اور انجیل کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ حالانکہ ان کتابوں میں ہزاروں تحریفات ہوچکی ہیں اس کے باوجود اللہ کا نام اور بعض صحیح باتیں بھی چونکہ سابقہ کتب سماویہ میں موجود ہیں لہٰذا ان کو بھی بغیر طہارت کے ہاتھ نہیں لگانا چاہیے۔ قرآن کی تلاوت کا مسئلہ : حضرت علی ؓ کے قول سے حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی اخذ ہوتا ہے ، کہ ناپاکی کی حالت میں کسی مرد یا عورت کو قرآن پاک کی زبانی تلاوت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ چناچہ جنبی آدمی یا حیض ونفاس والی عورت زبان سے بھی قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے بےوضو ہونے کی حالت میں بھی مناسب تو یہی ہے کہ آدمی قرآن کی تلاوت نہ کرے مگر حضور ﷺ کے عمل نے یہ آسانی پیدا کردی ہے کہ بےوضو آدمی زبانی تلاوت کرسکتا ہے مگر ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ البتہ اللہ کا ذکر ہر حالت میں روا ہے کوئی شخص بےوضو بھی ہو تو وہ سبحان اللہ ، الحمدللہ ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، لا الہ الا اللہ درود استغفار وغیرہ کا ذکر کرسکتا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اگر عورت بچوں کو قرآن پڑھاتی ہو اور وہ ناپاکی کی حالت میں ہو تو وہ زبان سے مکمل آیت نہ پڑھے البتہ اگر ایک ایک لفظ کے ذریعے طالب علم کو سبق دے دے تو کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء کا خیال ہے کہ ایسی حالت میں جس طرح قرآن کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ اسی طرح اس کی زبانی تلاوت بھی منع ہے۔ نزول قرآن : آگے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت وصداقت اور اس کے وحی الٰہی ہونے کا ذکر کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے تنزیل من رب العالمین یہ اللہ عتالٰ کی طرف سے اتارا ہوا ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ یہ کوئی جادو ، کہانت اور شاعری نہیں ہے بلکہ نہایت ہی مقدس کتاب ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے وحی کی صورت میں نازل ہوئی اور جس میں ہدایت اور تربیت کا بہترین اور بےمثال پروگرام موجود ہے اس کی آیات نہایت ہی محکم ہیں۔ جس طرح اللہ نے کائنات کی بقا کے لئے نظام شمسی قام کررکھا ہے ، اسی طرح اس نے انسانوں کی روحانی تربیت اور ہدایت کے لئے انبیاء اور کتب سماویہ کا نظام قائم کر رکھا ہے۔ پہلے انبیاء کی کتابوں اور صحیفوں میں تحریفات کرکے گڑ بڑ کی گئی ، لہٰذا اللہ نے آخری دور کی رشدوہدایت کے لئے اپنی کامل اور مقدس ترین کتاب نازل فرما کر بنی نوع انسان کی ضروریات کی تکمیل کا سامان مہیا کردیا ہے۔ یہ عزت والا قرآن ہے جو وحی کے ذریعے نازل کیا گیا اور جو شکوک و شبہات سے پاک ہے۔ قرآن کے بارے میں مداہنت : فرمایا افبھذا الحدیث انتم مدھنون کیا تم اس بات میں سستی کرتے ہو ؟ جو کتاب اللہ نے وحی کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اس کے بارے میں مداہنت یا سستی کا اظہار بہت بری بات ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے جو فوزو فلاح کا ضامن ہے۔ جو قوم اس پروگرام کو اپنانے کی کوشش نہیں کرتی وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ مواقع النجوم سے قرآن کی آیات مراد ہیں۔ جس وقت اللہ کے نبی کا عالم قدس سے اتصال ہوتا ہے تو اس وقت آیات قرآنی اللہ کے نبی کے قلب مبارک پر نازل ہوتی ہیں ، اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے فانہ ……… ……اللہ (البقرہ 97) بیشک اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے اس قرآن کو آپ کے قلب مبارک پر نازل کیا۔ جب حضور ﷺ کی بشریت کے تقاضے کمزور ہوجاتے ہیں اور ملکیت کی صفت غالب آجاتی ہے یعنی جس وقت آپ کی بشریت سے ملکیت کی طرف انسلاخ ہوتا ہے تو اس وقت قرآنی آیات ستاروں کی طرح آپ کے قلب پر نازل ہوتی ہیں۔ اس کتاب سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ہے ، لہٰذا اس سے مداہنت اختیار کرنا افسوسناک ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس شکوے کا سب سے بڑا مورد خود مسلمان ہے۔ دنیا کے کسی مذہب والوں کے پاس آج کوئی صحیح کتاب موجود نہیں۔ مگر جن مسلمانوں کے پاس یہ صحیح کتاب موجود ہے وہ انتہائی سست ہیں کیونکہ وہ اس پر عمل کرتے ہوئے اس کے نظام کو جاری کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان طرح طرح کے مسائل اور مصائب کا شکار ہیں۔ دیگر اقوام کا بھٹک جانا تو قابل فہم ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی صحیح اور مکمل پروگرام ہی نہیں ہے مگر مسلمان قرآن کے حامل ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے محروم ہیں۔ تاریخی لحاظ سے خلفائے راشدین ؓ نے اس پروگرام پر عمل کرکے اس کی صداقت کو ثابت کردیا۔ مگر آج مسلمانوں کی نحوست کی یہی وجہ ہے کہ یہ مداہنت میں آچکے ہیں ، قرآن پاک کی تعلیمات سے اغماض برت رہے ہیں اور اس کی بجائے کفر کے نظریات سے راہنمائی حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے نظریات کے اتباع کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ فکر ، عمل اور اخلاق سب باطل ہی ہوجاتے ہیں۔ دوسری جگہ موجود ہے فبای……… …یومنون (المرسلت 50) اگر تم قرآن پاک جیسی عظیم الشان اور آخری کتاب پر ایمان نہیں لائو گے ، تو پھر اس کے بعد کون سی کتاب اور کون سا پروگرام آنے والا ہے ، جس پر ایمان لائو گے ؟۔ اللہ تعالیٰ کا شکر : فرمایا کیا تم قرآن کے بارے میں مداہنت اختیار کرتے ہو وتجعلون رزقکم انکم تکذبون ، اور اس میں تم اپنا حصہ اس طرح ٹھہراتے ہو کہ اس کی تکذیب کرتے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی اس عظیم نعمت قرآن کے حصول پر شکر ادا کرنے کی جائے اس کو جھٹلاتے ہو گویا ناشکری کرتے ہو۔ مقام حدیبیہ پر قیام کے دوران بارش ہوگئی تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ صبح کے وقت میرے بندوں میں سے دو قسم کے بندے ہوں گے ایک وہ گروہ ہے جو مجھ پر ایمان رکھتے ہیں اور ستاروں کا انکار کرتے ہیں اور اس بارش کو صرف میری طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ مومن لوگ ہیں اور میرے شکرگزار ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرکے کہتے ہیں کہ یہ بارش فلاں نچھتر کے طلوع یاغروف کی وجہ سے ہوئی ہے یہ میرے ناشکرگزار بندے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ مطرنا بفضل اللہ ورحمتہ کہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔ وہ ایماندار ہیں۔ تکذیب عمل کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور اعتقاد کے ذریعے بھی۔ شرک کی بیشمار قسمیں مسلمانوں میں بھی رائج ہیں ، بیشمار بدعات بھی ایجاد ہوچکی ہیں۔ زندگی اور موت کے کتنے ہی مواقع پر اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور رسم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے ۔ یہی مدہنت فیالدین ہے جس کا اللہ نے شکوہ بیان کیا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کی ناشکر گزاری ہے۔ جس کے متعلق اللہ نے کا ہے کہ تم قرآن کے بارے میں سستی کرتے ہو۔ اس کے بعد متصلا جزائے عمل کی بات آرہی ہے۔
Top