Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پھر میں تاروں کے ڈوبنے کی قسم کھاتا ہوں
ترکیب : فلا لامزیدۃ للتاکید کمافی قولہ۔ وقیل انھا للنفی لا اقسم اذلاحاجۃ الی القسم فان الامرواضح وقیل معناہ لیس الامرکمازعم الکفار ثم اکدہ بالقسم فقال اقسم بمواقع النجوم وانہ خبرہ عظیم لو تعلمون جملۃ معترضۃ بین القسم والمقسم علیہ انہ لقرآن کریم صفۃ فی کتاب صفۃ ثانیۃ لایمسہ ثالثہ تنزیل رابعۃ لقرآن مع صفا تھا خبران و الجملۃ جواب القسم وتجعلون معطوف علی مدھبون رزقکم مفعول اول لتجعلون انکم تکذبون الجملۃ مفعول ثان بمعنی ہلا اذا ظرفیۃ والعامل ترجعونہا انتم الخ الجملۃ حال ونحن الخ حال من فاعل تنظرون فلولا تکریر و تاکید للولا الاولی ترجعونھا المحضض علیہ لولا ان کنتم شرط جو ابہ محذوف یدل علیہ ترجعونہا والمعنیٰ ہلاترجعون الروح ان کنتم غیر مملوکین مجزمین۔ تفسیر : ان دلائل میں اعجاز قرآنی بھی اپنا جلوہ دکھا گیا تھا اور چوتھی دلیل میں ایک حرارت قدرتی کا ذکر تھا کہ وہ مسافروں کے لیے رہنما بھی ہوجاتی ہے اب ترقی کرتا ہے کہ ارضی چیزوں پر کیا موقوف ہے ستاروں میں بھی اس رہنمائی کا وصف رکھا گیا ہے اس لیے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اور یہ جتلا کر کہ یہ قسم بڑی قسم ہے قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا اور اس کے چند اوصاف حمیدہ بیان فرماتا ہے جو اس کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہیں اور وہ اوصاف بھی چار ہیں جن کو چار دلیل سمجھنا چاہئے۔ اس خوبی اور لطف کے ساتھ معاد کے مسئلہ کو تمام کر کے مسئلہ نبوت کو ذکر کرتا ہے اس لیے کہ دلائل کے بعد کامل تسلی اس مسئلہ میں نقلی دلائل سے ہوتی ہے اور نقلی دلائل مخبر صادق کی تصدیق اور اس پر ایمان لائے بغیر فائدہ بخش نہیں ہوسکتیں۔ تنزیل من رب العالمین تک مسئلہ نبوت کا ذکر ہے پھر افبہذالحدیث الخ سے مخالفین کے بےجا انکار و شبہات کا رد اور ان کا لچروپوچ ہونا بیان کرتا ہے اور پھر انسان کی انتہائی حالت بیان کر کے (جو دنیا سے کوچ کرنے کے وقت نہایت عجز و بےبسی کے پیرایہ میں ظاہر ہوتی ہے اور اس سفر سے اس کا عزیز و قریب اس کو نہیں روک سکتا اور سب پڑے دیکھا ہی کرتے ہیں اور اس کی جان ہے کہ گلے تک پہنچ گئی ہوتی ہے اور وہ ہچکیاں لے لے کر دم توڑتا ہے اوراقارب و احباب پاس بیٹھے ہوئے محض بےبسی کی حالت میں آنکھوں سے آنسو بہایا کرتے ہیں اور اپنے آہ و نالے کی صدائیں بلند کرتے ہیں) اپنی قدرت و جبروت کا اظہار کرتا ہے کہ انسان یوں ہمارے بس میں ہے اور یوں اس کو ہم کشاں کشاں دوسرے عالم میں لیے جاتے ہیں اور تم بیٹھے دیکھا کرتے ہو۔ یہاں سے پھر مسئلہ معاد کی طرف (دلائل و تصدیق نبوت سے مستحکم کر کے) کلام کو متوجہ کیا جاتا ہے اور الفاظ میں سینکڑوں رموز و حقائق کی طرف اشارہ کرتا جاتا ہے۔ فلا اقسم بمواقع النجوم موقع کی جمع جس کے معنی ہیں ستاروں کے واقع ہونے کے یعنی ٹوٹنے یا غروب ہونے کی جگہ مبرد کہتے ہیں مواقع اس جگہ مصدر ہے یعنی ستاروں کے غروب یا ٹوٹنے کی قسم کھانا ہے۔ ٹوٹنے سے کیا مراد ہے ؟ پچھلی رات جب جلوہ دکھا کر ستارے غروب ہونے کو ہوتے ہیں وہ بھی ایک عجیب وقت ہوتا ہے گویا عارف کی نظر میں (جو تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اور ان انوار و برکات سے حصہ پا کر بیٹھتا ہے جو اس وقت مناجات و عبادات کرنے والوں کے لیے مخصوص ہیں) ستاروں کا غروب ہونا یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ اس آفتاب بنانے والے پر نثار ہوتے جاتے ہیں اور اس کے جمال کا جو ایک ادنیٰ مظہر آفتاب برآمد ہونے والا ہے اس کے سامنے رونمائی کی ان کو تاب نہیں اور یہ کہ دنیا کی بےثباتی اور اسی طرح یکے بعد دیگرے انسانوں کا غروب یاد دلاتے ہیں (قتادہ وغیرہ) حسن (رح) کہتے ہیں مواقع النجوم سے مراد قیامت کے دن ان کا ٹوٹنا۔ (اور بےنور ہونا جو بڑا حیرت انگیز ‘ وقت ہوگا۔ بعض کہتے ہیں ستاروں سے مراد قرآن مجید کی آیات اور ان کا یکے بعد دیگرے نازل ہونا۔ مواقع یعنی ٹوٹنا) ۔ یہ استعارہ ہے۔ نزولِ آیات کی۔ اللہ تعالیٰ قسم کھا کر اگلے کلام کو موکد کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں انبیاء و اولیاء کرام کے دل مراد ہیں جہاں اس کے انوار و محبت کے ستارے ٹوٹ کر گرا کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ستاروں سے مراد نیک باخدا لوگ ہیں جو دنیا کی اندھیری رات میں ستارے ہیں اور ان کا ٹوٹ ٹوٹ کر گرنا یکے بعد دیگر دنیا سے گزر جانا اور اس کو خالی کرتے جانا ہے جو حسرت و افسوس و عبرت کا مقام ہے۔ اس بات کی خدا تعالیٰ قسم کھاتا ہے۔ کلام الٰہی میں ان سب احتمالات کی گنجائش ہے کیا بلیغ کلام ہے۔ یہ چیزیں کہ جن کی قسم کھانا مذکور ہوا بڑی چیزیں ہیں اس لیے فرماتا ہے کہ یہ بڑی قسم ہے مگر کب ؟ جب کہ تم جانو اور جب جہالت اور نادانی ہے جانتے ہی نہیں تو تمہارے نزدیک کچھ بات نہیں۔ قرآن کریم اول مدح ہے۔ فی کتاب مکنون یہ قرآن کی دوسری مدح ہے کہ وہ مخفی دفتر میں ثبت ہے کوئی اس میں تحریف و تبدیل نہیں کرسکتا۔ کتاب مکنون سے مراد لوح محفوظ جو لوگوں کی آنکھوں سے مخفی ہے اور ممکن ہے کہ حفاظ کے دل مراد ہوں کہ اس مخفی دفتر میں قرآن کو قضاء و قدر نے لکھ دیا ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ کتاب مکنون سے مراد توریت و انجیل ہو کیونکہ یہ کتابیں مکنون یعنی مخفی ہیں اصلی کتابیں تو چھپ گئیں ان کے نام کی دو کتاب موجود ہیں ان میں قرآن کا ذکر تھا۔ مجاہد و قتادہ کہتے ہیں کہ مصحف بھی مراد ہوسکتا ہے کہ جس میں قرآن مجید لکھا ہوا ہوتا ہے یعنی اوراق۔ لایمسہ المطھرون کہ اس کو پاک ہی ہاتھ لگاتے ہیں، یہ تیسری مدح ہے قرآن کے ہاتھ لگانے کا حکم اگر اس کو جملہ خبریہ مانا جائے جیسا کہ ظاہر ہے قرآن کے ہاتھ لگانے کا حکم۔ واحدی کہتے ہیں اس تقدیر پر اکثر مفسرین کے نزدیک ضمیر کتاب مکنون کی طرف پھرتی ہے جس کے یہ معنی ہوئے کہ کتاب مکنون یعنی لوح محفوظ کو بجز پاک لوگوں کے یعنی ملائکہ مقربین کے جو جمیع نجاستوں ظاہری و باطنی سے پاک ہیں اور کوئی نہیں چھوتا کیونکہ وہی اس کو وہاں سے یاد کر کے دنیا میں لاتے ہیں اور اس کو معناً نہی قرار دیا جائے جو تاکید 1 ؎ کے لیے بصورت نفی صادر ہوئی ہے تب اس کے یہ معنی ہوں گے کہ پاکوں کو ہی اسے چھونا چاہئے۔ اس تقدیر پر لایمسہہ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف پھرتی ہے۔ یہ جمہور فقہاً اور اکثر محدثین کا قول ہے یعنی بےوضو، بےغسل جنابت اور حیض و نفاس میں قرآن مجید کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔ حضرت علی و ابن مسعود و سعد بن ابی وقاص و سعید بن زید ؓ وعطاء و زہری و نخعی وحکم و حماد وغیرہ (رح) کا یہی قول ہے اس بارے میں احادیث بھی دارد ہیں چناچہ طبرانی نے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک۔ کتب حنفیہ میں ہے کہ محدث و حائض و نفاس والے کو قرآن کو ہاتھ نہ لگانا چاہیے مگر جداگانہ غلاف میں ہو تو مضائقہ نہیں کہ غلاف کو ہاتھ لگایا جائے۔ ہاں بےوضو کو پڑھنا درست ہے اگر حافظ ہو اور اگر دیکھ کر پڑھتا ہے تو قلم یا اور کسی چیز سے ورق الٹے۔ مدھنون۔ ادہان۔ مداہنت جھٹلانا اس کے اصلی معنی ہیں چکنا کرنا چونکہ جھٹلانے والا چپڑی چکنی باتیں بنایا کرتا ہے اس لیے اس کے اس فعل کو مداہنت و ادہان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غیرمدینین غیرمطیعین۔ اوغیر مجرمین اوغیرحاسبین۔ واللہ اعلم۔ 1 ؎ ہم تم سے بھی زیادہ مرنے والے کے قریب اور پاس ہوتے ہیں قرب علمی مراد ہے ہم سے مراد اس کے جان قبض کرنے والے ملائکہ مجاز ہیں ان کے کام اور ان کے حاضر و موجود ہونے کو اپنا کام اور اپنا موجود ہونا کہا جایا کرتا ہے۔ 12 منہ
Top