Mazhar-ul-Quran - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
پس1 میں قسم کھاتا ہوں ان جگہوں کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔
توحید کابیان۔ (ف 1) حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ دہریہ لوگوں کے اعتقاد کی طرح جن ستاروں کے اثر سے یہ اللہ کی قدرت کے منکر لوگ مینہ کے برسنے کے قائل تھے انہیں ستاروں کی قسم کھاکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے اور جس طرح جگہ جگہ اس کلام الٰہی میں ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی قدرت اور حکم کے نہ ستاروں کے اثر سے کچھ ہوتا ہے نہ چاند کے اثر سے۔ اس کے سوا جن لوگوں کا جو کچھ اعتقاد ہے اس سے کلام الٰہی کا جھٹلانا ان کی قسمت میں ہے ورنہ ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جس کی قدرت میں ستاروں کا طلوع و غروب ہے اس کے حکم سے مینہ برستا ہے ستاروں میں کوئی مستقل تاثیر ہوتی تو وہ خود ایسی متغیر حالت پر کیوں ہوتے، غرض جو خود اپنی ذات سے متغیر ہوں اس میں ہمیشہ کے لیے کوئی مستقل تاثیر کہاں سے آسکتی ہے قرآن کو عزت والا اس لیے فرمایا کہ اس کی عزت اور آسمانی کتابوں سے بلند ہے جس کے سبب سے اس سے پچھلی سب آسمانی کتابیں منسوخ ہیں ستاروں کے طلوع و غروب کی قسم کو بڑی قسم اسی لیے فرمایا کہ تاروں کے روز کے طلوع و غروب سے اللہ کی بڑی قدرت ظاہر ہوتی ہے چناچہ حضرت ابراہیم کو اس قدرت نے توحید کا راستہ بتلادیا جس کا ذکر سورة انعام میں گذرچکا ہے ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ قرآن شریف کو وہی چھوتے ہیں جو پاک ہیں ۔ مسئلہ : جس کو غسل کی حاجت ہو یا جس کا وضو نہ ہو یا حائضہ عورت، یا نفاس والی، ان میں سے کسی کو قرآن مجید کا بغیر غلاف وغیرہ کسی کپڑے کو چھونا جائز نہیں ہے ، بےوضو کو یاد پر قرآن شریف پڑھنا جائز ہے لیکن بےغسل اور حیض والی کو یہ بھی جائز نہیں اب آگے فرمایا جب بڑی قسم کے بعد تم لوگوں کو یہ جتلادیا گیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور تم کو یوں بھی اس کے کلام الٰہی ہونے کی تصدیق ہوگئی کہ تم ایسا کچھ کلام بنا کر پیش نہیں کرسکتے تو پھر تم کو اس کلام کے جھٹلانے اور کمر باندھ کر اس کے جھٹلانے کو اپنے نصیبوں کا توشتہ ٹھہرانا اس کے مان لینے میں سستی کرنا ہرگز جائز نہیں۔
Top