Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
(56:75) فلا اقسم :تعقیب کا ہے۔ سو، پس، لا اقسم اس میں متعدد اقوال ہیں :۔ (1) لا مزیدہ تاکید کے لئے ہے۔ کلام کو پرزور بنانے کے لئے اس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی میں پختہ قسم کھاتا ہوں۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ لئلا یعلم اہل الکتاب الا یقدرون علی شئی من فضل اللہ (57:29) تاکہ اچھی جان لیں اہل کتاب کہ وہ خدا کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے۔ (2) بعض عالموں کا کہنا ہے کہ : لا اقسم سے علیحدہ ہے۔ اس سے کافروں کی نفی مراد ہے۔ کافر قرآن کو جادو۔ شعر، کہانت کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں ۔۔ (3) بعض کے نزدیک لا نفی کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت الامر واضح ہے قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں فلا اقسم پس میں قسم نہیں کھاتا۔ مجھے قسم کھانے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ بمواقع النجوم : ب حرف جر۔ مواقع النجوم مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور۔ مواقع اترنے کی جگہیں، ڈوبنے کی جگہیں اسم ظرف جمع (موقع واحد) وقوع (باب فتح) مصدر سے۔ قسم ہمیشہ کسی اہم چیز کی کھایء جاتی ہے۔ اہمیت و عظمت جلال کی ہو یا قدر و قیمت کی ہو یہاں آیت ہذا میں یا تو ان اوقات کی قسم کھائی گئی ہے جب پچھلی رات ستارے گوشہ مغرب میں اترتے ہیں۔ کہ یہ وقت عبادت گزاروں کے لئے ایک خاص لذت و کیفیت کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت و برکت کا خصوصی نزول ہوتا ہے۔ یا ستاروں کی منزلوں کی قسم کھائی ہے (یہاں مصطلحہ منزلیں مراد یعنی ضروری ہیں کہ ان سے بھی اللہ تعالیٰ کی تدبیر کامل اور قدرت عظیمہ کا اظہار ہوتا ہے۔ اور اگر نجوم سے مراد آیات اللہ لی جائیں تو بمواقع النجوم سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کے قلوب صافیہ ہوں گے۔ یا ان کے قلوب پر آیات کلام الٰہی کا اترنا مراد ہوگا۔ (قاموس القرآن)
Top