Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
(فلا اقسم۔۔۔۔۔۔۔۔ ) اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ فلا اقسم اکثر مفسرین کے نزدیک لا زائدہ ہے (2) معنی میں قسم اٹھاتا ہوں اس کی دلل وانہ لقسم ہے فراء نے کہا : یہ نفی ہے۔ معنی ہے معاملہ اس طرح نہیں جس طرح تم کہتے ہو پھر نئے سرے سے کلام کو شروع کیا۔ اقسم میں قسم اٹھاتا ہوں۔ بعض اوقات ایک آدمی کہتا ہے : لا واللہ، کان کذا اس سے وہ قسم کا نفی کا ارادہ نہیں کرتا بلکہ پہلی کلام کی نفی کا ارادہ کرتا ہے یعنی معاملہ اس طرح نہیں جس طرح تو نے ذکر کیا بلکہ معاملہ اس طرح ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لاء الا کے معنی میں ہے جو تنبیہ کے لیے ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 461 2 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 462 اس کے ساتھ قرآن کی فضلیت پر متنبہ کیا تاکہ وہ اس میں غور و فکر کریں یہ شعر نہیں، جادو نہیں اور کہانت بھی نہیں جس طرح انہوں نے گمان کیا ہے۔ حضرت حسن بصری، بصری، حمیدی اور عیسیٰ بن عمر نے فلا قسم لام کے بعد الف کے بغیر پڑھا یہ تحقیق کے معنی پر دال ہے۔ یہ فعل حال ہے اس کا مبتداء محذوف ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی فلانا اقسم بذلک اگر اس سے مستقبل کا زمانہ مراد لیا جاتا تو نون لازم ہوتی ہے۔ جب فعل سے استقبال مراد لیا جائے تو بعض اوقات نون کو حذف کردیا جاتا ہے۔ یہ شاذ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ بموقع النجوم۔ قتادہ اور دوسرے علماء کے نزدیک مواقع النجوم سے مراد ان کے گرنے اور غروب ہونے کی جگہیں ہیں۔ عطاء بن ابی رباح نے کہا : مرادان کی منازل ہیں۔ حضرت حسن بصری نے کہا : قیامت کے روز ان کا بےنور ہونا اور بکھر کر گر جانا ہے (1) ضحاک نے کہا : مراد وہ ستارے ہیں جن کے بارے میں دور جاہلیت میں لوگ کہا کرتے تھے جب ان پر بارش ہوتی (2) ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی۔ ماوردی نے کہا : فلا اقسم یہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوتا ہے نفی کا معنی دیتا ہے (3) قشیری نے کہا : یہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اس کی قسم اٹھا دے جب کہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات قدیمہ کے سوا کسی چیز کی قسم اٹھا دیں۔ میں کہتا ہوں : اس امر پر حضرت حسن بصری کی قرأت فلا قسم دلالت کرتی ہے (4) اور اسی طرح وہ قسمیں بھی دلالت کرتی ہیں کہ مخلوقات میں سے جن چیزوں کی قرآن حکیم میں مختلف مواقع پر قسم اٹھائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : مواقع النجوم سے مراد قرآن حکیم کا آیت در آیت نازل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بالا آسمان سے لوح محفوظ سے سفرہ کا تبین پر نازل کیا سفرہ نے جبریل امین پر بیس راتوں میں نازل کیا اور جبریل امین بیس (5) سالوں تک تھوڑا تھوڑا کر کے نبی کریم ﷺ پر نازل کرتے رہے۔ حضرت جبریل امین نبی کریم ﷺ کی امت میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی مناسبت سے اسے نازل کرتے تھے : اسے ماوردی نے حضرت ابن عباس اور سدی سے روایت کیا ہے (6) ابو بکر انباری نے کہا : اسماعیل بن ابی اسحاق، قاضی حجاج بن منہال سے وہ ہمام سے وہ کلبی سے وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ قرآن حکیم آسمان دنیا پر ایک ہی دفعہ نازل ہوا۔ پھر زمین کی طرف تھوڑا تھوڑا نازل ہوا اس کے بعد اسے پانچ پانچ اور کم و بیش کی صورت میں الگ الگ نازل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان فلا اقسم بموقع النجوم۔ وانہٗ لقسم لو تعلمون عظیم۔ انہٗ لقراٰن کریم۔ کا یہی مفہوم ہے۔ فراء نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ مواقع النجوم سے مراد محکم القرآن ہے (7) حمزہ اور کسائی نے بموقع کا لفظ پڑھا ہے : یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، نخعی، اعمش، ابن محیصن اور رویس نے یعقوب سے یہ روایت نقل کی ہے۔ باقی قراء نے جمع کا صیغہ پڑھا ہے۔ جس نے اسے مفرد پڑھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے جس میں واحد کو جمع کے قائم مقام رکھا جاتا ہے جس نے اسے جمع کا صیغہ پڑھا ہے تو اس کی انواع کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 463 2 ؎۔ ایضاً 3 ؎۔ ایضاً 4 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 463 5 ؎۔ وحی کا عرصہ بائیس سال سے کچھ اوپر ہے۔ 6 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 463 7 ؎۔ ایضاً مسئلہ نمبر 3 :۔ انہ لقراٰن کریم۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ھاء ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے کہ قرآن عظیم قسم ہے : یہ حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کا قول ہے (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے جس کی قسم اٹھائی ہے وہ عظیم ہے (2) وہ قرآن کریم ہے۔ مقسم علیہ کا ذکر کرلیا یعنی نجوم کے مواقع کی قسم اٹھائی کہ بیشک یہ قرآن، قرآن کریم ہے (3) یہ سحر اور کہانت نہیں، اس میں کوئی افتراء نہیں بلکہ یہ قرآن کریم اور محمود ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نبی کے لیے معجزہ بنایا ہے۔ یہ مومنوں کے لیے بڑا معزز ہے کیونکہ یہ ان کے رب کا کلام ہے، ان کے سینوں کے لیے شفاء ہے۔ آسمان والوں کے لیے بڑا معزز ہے کیونکہ یہ ان کے رب کا کلام ہے، ان کے سینوں کے لیے شفاء ہے آسمان والوں کے لیے بڑا معزز ہے کیونکہ یہ ان کے رب کا نازل کردہ اور وحی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کریم سے مراد ہے وہ غیر مخلوق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کریم اس لیے ہے کیونکہ اس میں اخلاق اور امور کے عظیم کے معانی کا ذکر ہے (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کے حافظ کی عزت کی جاتی ہے اور اس کے قاری کی تعظیم بجا لائی جاتی ہے۔ (5) مسئلہ نمبر 4 :۔ یہ فی کتب مکنون۔ مکنون کا معنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے (6) ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ باطل سے محفوظ ہے (7) یہاں کتاب سے مراد آسمان میں کتاب ہے (8) یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ جابر بن زید اور حضرت ابن عباس سے کہا : مراد لوح محفوظ ہے (9) ۔ عکرمہ نے کہا : مراد تورات و انجیل ہے (10) ان دونوں میں قرآن کا ذکر ہے اور اس کا بھی ذکر ہے جس پر قرآن نازل ہوگا۔ سدی نے کہا : مراد زبور ہے۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا : مراد وہ صحف ہیں جو ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ مسئلہ نمبر 5 :۔ لا یمسہٗ الا المطھرون۔ لا یمسہٗ کے معنی میں اختلاف ہے کیا یہ اعضاء سے مس کرنے کے معنی ہے (11) یا اس کے معنی کو چھونا نامراد ہے ؟ اس طرح المطھرون میں اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت انس اور حضرت سعید بن جبیر نے کہا کہ اس کتاب کو مس نہیں کرتے مگر وہ جو گناہوں سے پاک ہوتے ہیں وہ فرشتے ہیں۔ ابو العالیہ اور ابن زید نے بھی یہی کہا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو گناہوں سے پاک ہیں جس طرح ملائکہ میں سے رسل اور انسانوں میں سے رسل۔ جبریل امین جو اس کو لاتے رہے وہ مطہر ہیں اور وہ رسول جن کے پاس وہ لاتے رہے وہ بھی مطہر ہیں۔ کلبی نے کہا : 1۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 463 2۔ ایضاً 3۔ ایضاً 4۔ ایضاً 5۔ ایضاً 6۔ ایضاً ، جلد 5، صفحہ 464 7۔ ایضاً 8۔ ایضاً 9۔ ایضاً 10۔ ایضاً 11۔ احکام القرآن لا بن العربی، جلد، صفحہ 1737 مراد سفرہ، کرام براہ ہیں۔ یہ سب ایک ہی قول ہے۔ یہ اس کی مثل ہے جو امام مالک نے اختیار کیا ہے آپ نے فرمایا : میں نے لا یمسۃ الا المطھرون کی تفسیر میں جو سب سے زیادہ قول سنا وہ یہ ہے کہ یہ اس آیت کے قائم مقام ہے جو سورة عبس میں ہے ” فسم شاء ذکرہٗ ۔ فی صحف مکرمہ۔ مرفوعۃ مطھرۃ۔ بایدی سفرۃ۔ کرام بررۃ۔ اس سے یہ ارادہ کیا ہے کہ مطہرین سے مراد وہ فرشتے ہیں جن کی صفت سورة عبس میں طہارت سے ذکر کی گئی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لا یمسۃٗ کا معنی ہے اسے لے کر نازل نہیں ہوتے مگر فرشتوں میں سے رسول جو انبیاء میں سے رسولوں پر نازل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ لوح محفوظ جو کتاب مکنون ہے اسے نہیں چھوتے مگر پاکیزہ فرشتے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ حضرت اسرافیل کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، قشیری نے اس کی حکایت بیان کی۔ ابن عربی نے کہا : یہ باطل ہے کیونکہ فرشتے اسے کسی وقت بھی نہیں پکڑتے اور اس تک کسی وقت بھی رسائی حاصل نہیں کرتے اگر یہ مراد تو اس میں استثناء کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ جس نے یہ کہا کتاب سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے یہ زیادہ مناسب ہے۔ امام مالک اور دوسرے علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ عمرو بن حزم کا مکتوب جو رسول اللہ ﷺ نے اسے لکھا تھا اس میں یہ خط حضرت محمد ﷺ کی جانب سے شرجیل بن عبد کلال، حرث بن عبد کلال اور نعیم بن عبد کلال کی طرف ہے جو ذی رعین معاصر اور ہمدان کے بادشاہ ہیں (1) اما بعد، آپ کے مکتوب میں تھا خبردار ! قرآن کریم نہ چھوئے مگر پاک آدمی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : تو قرآن کو نہ چھوئے مگر اس وقت جب تو پاک ہو۔ حضرت عمر ؓ کی بہن سے حضرت عمر کے اسلام لانے کے موقع پر کہا تھا : جب کہ وہ ان کے پاس گئے اور صحیفہ منگوایا تو حضرت عمر کی بہن نے کہا : لا یمسہٗ الا المطھرون۔ اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں، حضرت عمر اٹھے، غسل کیا اور سلام لائے۔ یہ واقعہ سورة طہٰ کے شروع میں گزر چکا ہے۔ اس تعبیر کی بناء پر قتادہ اور دوسرے علماء نے کہا : یہاں مطہرون سے مراد احداث اور انجاس سے پاک لوگ ہیں (2) ۔ کلبی نے کہا : وہ شرک سے پاک ہوں (3) ربیع بن انس نے کہا : وہ گناہوں اور خطائوں سے پاک ہوں (4) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اسے موحد ہی پڑھیں : یہ محمد بن فضل اور عبدہ کا قول ہے۔ عکرمہ نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ اس چیز سے منع کیا کرتے تھے کہ یہود و نصاریٰ میں سے کسی کو قرآن پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ فراء نے کہا : اس کا ذائقہ اس کا نفع اور اس کی برکت قرآن پر ایمان رکھنے والا ہی ہو سکتا ہے (5) ابن عربی نے کہا : یہ امام بخاری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ذوق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالا سلام دینا و بمحمد ﷺ نبینا (6) جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔ حسین بن فضل نے کہا : اس کی تفسیر اور تاویل کو کوئی نہیں پہچانتا مگر جسے اللہ تعالیٰ نے شرک اور نفاق سے پاک کرلیا ہو۔ 1۔ مؤطا امام مالک کتاب القرآن الامریا لوضو عن مس القرآن، صفحہ 185 2۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 464 3۔ ایضاً 4۔ ایضاً 5۔ ایضاً 6۔ جامع ترمذی، ما جاء فی ترک الصلوٰۃ، جلد 2، صفحہ 86 7۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 464 ابو بکر وراق نے کہا : اس پر عمل کرنے کی توفیق نہیں دی جاتی مگر سعادت مندوں کو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کے ثواب کو مس نہیں کرے گا مگر مومن (7) اسے حضرت معاذ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت کا ظاہر شروع کی خبر ہے یعنی شرعی طور پر پاکیزہ لوگوں ہی اسے چھوتے ہیں اگر ان کے برعکس پایا گیا تو یہ شرع کے خلاف ہوگا : یہ قاضی ابوبکر بن عربی کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ اور اس امر کو باطل قرار دیا گیا ہے کہ اس کا لفظ تو خبر کا لفظ ہو اور اس کا معنی امر کا ہو۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ مہدوی نے کہا : یہ جائز ہے کہ یہ امر ہوا اور سین کا ضمہ اعراب کا ضمہ ہو۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ نہ ہو اور سین کا ضمہ مبنی ہونے کا ضمہ ہو اور فعل مجزوم ہو۔ مسئلہ نمبر 6 :۔ علماء نے وضو کے بغیر مصحف کے چھونے میں اختلاف کیا ہے جمہور نے اس سے منع کیا ہے کیونکہ حضرت عمرو بن حزم کی حدیث اس بارے میں مروی ہے : یہ حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید ؓ عطاء، زہری، نخعی، حکم، حماد اور فقہاء کی ایک جماعت کا مذہب ہے ان میں امام مالک اور امام شافعی بھی ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ سے مختلف روایات مروی ہیں ان سے ایک روایت یہ مروی ہے کہ محدث اسے چھو سکتا ہے۔ سلف صالحین کی ایک جماعت سے بھی مروی ہے ان میں حضرت ابن عباس، امام شافعی وغیرہ ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے : اس کے ظاہر، حواشی اور جس میں مکتوب نہ ہو اس کو چھوا جاسکتا ہے جہاں تک مکتوب کا تعلق ہے اسے پاکیزہ آدمی ہی چھو سکتا ہے۔ ابن عربی نے کہا : اگر اسے کوئی تسلیم بھی کرے تب بھی یہ ان چیزوں میں سے ہے جس پر حجت غالب ہے کیونکہ ممنوع کا حریم بھی ممنوع ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تسلیم بھی کرے تب بھی یہ ان چیزوں میں سے ہے جس پر حجت غالب ہے کیونکہ ممنوع کا حریم بھی ممنوع ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمرو بن حزم کو جو خط لکھا اس کے خلاف قوی ترین دلیل ہے۔ امام مالک نے کہا : جو آدمی حالت طہارت میں نہ ہو نہ اسے کسی واسطہ سے اٹھائے اور نہ ہی تکیہ پر رکھ کر اٹھائے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں اور جو آدمی کسی واسطہ سے اسے اٹھاتا ہے یا کسی واسطہ سے چھوتا ہے اسے منع نہیں کیا۔ حکم، حماد اور دائود بن علی سے مروی ہے کہ مصحف اٹھانے اور اس کے چھونے میں کوئی حرج نہیں، وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، حالت طہارت میں ہو یا حالت حدث میں ہو مگر دئود ظاہری نے اس سے اختلاف کیا ہے کہا مشرک کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ اس کی اباحت کا استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے قیصر کو خط لکھا جب کہ یہ تو مجبوری کا موقع تھا اس میں کوئی دلیل نہیں۔ بچوں کے اسے چھونے میں دو صورتیں ہیں (1) بالغ پر قیاس کرتے ہوئے اسے منع کیا جائے گا (2 یہ جائز ہے کیونکہ اگر بچے کو اس سے روک دیا جائے گا تو قرآن کی حفاظت نہ کی جاسکے گی کیونکہ بچے کا سیکھنا صغرسنی کی عمر میں ہی ہوا کرتا ہے بچے کو اگرچہ طہارت حاصل ہوتی ہے مگر وہ کامل نہیں ہوتی، کیونکہ بچے کی جانب سے نیت درست نہیں ہوتی۔ جب اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کامل طہارت کے بغیر اسے اٹھا لے تو اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ حالت حدث میں اسے اٹھا لے۔ مسئلہ نمبر 7 :۔ تنزیل من رب العلمین۔ یعنی رب العالمین کی جانب سے نازل کی گئی ہے جس طرح ضرب الامیر اور نسبح الیمن میں مصدر اسم مفعول کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تنزیل اللہ تعالیٰ کے فرمان انہ لقرآن کریم۔ کی صفت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تنزیل یہ ھو مبتداء کی خبر ہے۔ (افبھدا الحدیث انتم۔۔۔۔ ) افبھذا الحدیث ھذا لحدیث سے مراد قرآن ہے انتم مدھنون۔ مذھنون کا معنی ہے جھٹلاتے ہو، یہ حضرت ابن عباس، عطا اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے (1) مدھن اسے کہتے ہیں جس کا ظاہر اس کے باطن کے خلاف ہو۔ گویا اسے دہن ( تیل) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ اس کے ظاہر میں نرمی اور ملاعمت ہوتی ہے۔ مقاتل بن سلیمان اور قتادہ نے کہا : مذھنون کا معنی ہے کافرون : اس کی مثل ودوا الوتد ھن فیدھنون۔ ( القلم) مورج نے کہا : مدھن سے مراد منافق یا کافر ہے جو خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتا ہے تاکہ اپنے کفر کو چھپائے۔ ادھان اور مداھنہ کا معنی جھٹلانا۔ کفر کرنا اور نفاق کرنا ہے۔ اس کا اصل معنی نرمی کرنا ہے اور جو ظاہر کرے اس کے برعکس کو اپنے اندر چھپانا ہے۔ ابو قیس بن سلت نے کہا : الحزم والقوۃ خیر من الادھان والقھۃ ولھاع احتیاط اور قوت نفاق، عاجزی اور حرص سے بہتر ہے۔ ادھن اور داھن دونوں کا معنی ایک ہی ہے، کچھ لوگوں کا نقطہ نظر ہے داھنت کا معنی ہے تو نے چھپایا اور ادھنت کا معنی ہے تو نے دھوکہ کیا۔ ضحاک نے کہا : مدھنون کا معنی ہے تم عرض کرنے والے ہو (2) مجاہد نے کہا : کفر کے باوجود کفار سے دوستی کرنے ہیں (3) ابن کیسان نے کہا : مدھن اسے کہتے ہیں جو یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کا اس پر کیا حق ہے اور حیلے بہانوں سے اسے ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک لغوی نے کہا : مدھنون کا معنی ہے قرآن کو قبول کرنے میں وہ یقین کو ترک کرنے والے ہیں۔
Top