Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Waaqia : 75
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
فَلَآ اُقْسِمُ : پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ : تاروں کے مواقع کی۔ غروب ہونے کی جگہوں کی
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
75۔ 82۔ صحیح 2 ؎ بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عباس کی روایت سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ مینہ برسا اس مینہ کے برسنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی قدرت سے مینہ کا برسنا اپنے دل میں سمجھتے ہیں وہ اللہ کی نعمت کے شکر گزار ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تاروں کی گردش کے اثر سے یہ مینہ برسا ہے انہوں نے اللہ کی نعمت کی کچھ قدر نہ جانی اس پر اللہ تعالیٰ نے فلا اقسم سے ولا تجعلون رزقکم انکم تکذبون تک یک یہ آیتیں نازل فرمائیں بغیر ذکر شان نزول کے یہ حدیث ابو سعید خدری وغیرہ کی روایت سے صحیحین میں بھی ہے۔ عربی زبان کا محاورہ ہے کہ قسم کے پہلے ایک لا آیا کرتا ہے جس طرح لا واللہ میں ہے معنی اس لا کے یہ ہوتے ہیں کہ جس بات پر قسم کھائی گئی ہے وہی بات صحیح ہے اس قسم کی بات کے مقابیل میں جو کوئی اور بات کہتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ دہریہ لوگوں کے اعتقاد کی طرح جن تاروں کے اثر سے یہ اللہ کی قدرت کے منکر لوگ مینہ کے برسنے کے قابل تھے انہیں تاروں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے اور جس طرح جگہ جگہ اس کلام الٰہی میں ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی قدرت اور اللہ کے حکم سے ہوتا ہے بے اس کی قدرت اور حکم کے نہ تاروں کے اثر سے کچھ ہوتا ہے نہ چاند کے اثر سے اس کے سوا جن لوگوں کا جو کچھ اعتقاد ہے اس سے کلام الٰہی کا جھٹلانا اس کی قسمت میں ہے ورنہ ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ جس کی قدرت میں تاروں کا طلوع و غروب ہے اس کے حکم سے مینہ برستا ہے تاروں میں کوئی مستقل تاثیرہوتی تو وہ خود ایسی متغیر حالت پر کیوں ہوتے غرض جو خود اپنی ذات سے متغیر ہو اس میں ہمیشہ کے لئے کوئی مستقل تاثیر کہاں سے آسکتی ہے۔ کتب مکنون سے مقصود لوح محفوظ ہے۔ قرآن کو عزت والا اس لئے فرمایا کہ اس کی عزت اور آسمانی کتابوں سے بلند ہے جس کے سبب سے اس سے اور پچھلی سب آسمانی کتابیں منسوخ ہیں۔ تاروں کے طلوع غروب کی قسم کو بڑی قسم اس لئے فرمایا کہ تاروں کے روز کے طلوع غروب سے اللہ کی بڑی قدرت ظاہر ہوتی ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس قدرت نے توحید کا راستہ بتا دیا جس کا ذکر سورة انعام میں گزر چکا ہے۔ اس قصہ سے جو لوگ اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر کہتے ہیں اگر وہ سمجھیں تو ان کے لئے یہ بڑی قسم ہے ان آیتوں میں یہ جو فرمایا کہ قرآن شریف کو وہی چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔ امام شافعی علیہ الرحمۃ اور علماء نے اس سے یہ بات نکالی ہے کہ بےوضو آدمی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے ‘ اور اس مذہب کی تائید میں چند روایتیں بھی ان علماء نے ذکر کی ہیں لیکن کوئی روایت ضعف سے خالی نہیں ہے اسی واسطے امام المفسرین 1 ؎ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور بعض تابعیوں کا مذہب یہ ہے کہ بلا وضو قرآن شریف کو ہاتھ لگانا جائز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جن علماء نے لایمسہ کی ضمیر کو قرآن کی طرف پھیرا ہے اور مطھرون کے معنی قرآن کے چھونے والے آدمیوں کے کئے ہیں انہوں نے بےوضو آدمی کے قرآن کو ہاتھ نہ لگانے کا مسئلہ اس آیت سے نکالا ہے اور جن علماء نے اس ضمیر کو لوح محفوظ کی طرف پھیرا ہے اور مطھرون کے معنی فرشتوں کے کئے ہیں ان کے نزدیک آیت کو اس مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔ اب آگے فرمایا جب بڑی قسم کے بعد تم لوگوں کو یہ جتلا دیا گیا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور تم کو یوں بھی اس کے کلام الٰہی ہونے کی تصدیق ہوگئی کہ تم ایسا کچھ کلام بنا کر پیش نہیں کرسکتے تو پھر تم کو اس کلام کے جھٹلانے پر کمر باندھ کر اس کے جھٹلانے کو اپنے نصیبوں کا نوشتہ ٹھہرانا ‘ اس کے مان لینے میں سستی کرنا ہرگز جائز نہیں۔
Top